فاروق ارگلی
21ویں صدی میں دنیا کا سب سے بہترین جمہوریہ اگر کسی ملک کو قرار دیا
جاسکتا ہے تو وہ ہمارا وطن عزیز ہندوستان ہے۔ ہمارے سیکولرجمہوری آئین کی رو سے اس
سرزمین پر بسنے والے ہر فرد کو بلاتفریق مذہب، زبان، تہذیب وعلاقہ مساوی حقوق واختیارات
حاصل ہیں لیکن ہندوستان ہی کیا موجودہ دنیا کا کوئی بھی جمہوری نظام خواہ عدل و
انصاف او رمساوات کا کتنا ہی مدعی کیوں نہ ہو اکثریتی آمریت اور پارٹی ڈکٹیٹر شپ
سے مبرّا نہیں ہوسکتا،او راگر اس کااکثریتی آمریت میں مذہبی اور تہذیبی عصبیت بھی
شامل ہوجائے تو تمام تر آئینی و جمہوری حقوق و اختیارات کے باوجود اس ملک کی اقلیت
آزاد ہوکر بھی غلام تصور کی جاتی ہے۔ ہمارے جمہوری نظام کا یہی بے رحم سچ ہے جس کا
سامناہندوستانی مسلمان گزشتہ چھ دہائیوں سے کررہے ہیں۔ سماجی زندگی کا کون سا ایسا
شعبہ ہے جہاں اکثریتی آمریت او رتنگ نظری کی کارفرمائی نہ ہو۔لیکن ہندوستانی
مسلمانوں کے ساتھ بالادست سیاست نے جو سب سے خطرناک لیکن غیر محسوس حربہ استعمال کیا
وہ ہے مسلم سماج کے سب سے بڑے طبقے کو اس کی زبان، اس کی نئی نسلوں کو تہذیبی
شناخت اور وطن عزیز کی آزادی اور بہبودی کے لیے اس کی قربانیوں کی تاریخ سے دور
کرکے بتدریج احساس کمتری کاشکار بنانے کی کوشش۔ حکومتوں اور پارٹیوں کی یہ
بالواسطہ حکمت عملی اپنی جگہ ایک حقیقت،لیکن اس سے زیادہ تلخ اور سنگین سچائی یہ
ہے کہ اس ہمہ جہت تنزل کاباعث بڑی حد تک ہم خود بھی ہیں۔ ہم نے مادّہ پرستی کی
دوڑمیں اپنا اجتماعی ملّی شعور، اپنی زبان اور اپنی مذہبی و تمدنی شناخت کو فراموش
کردیا،اپنے اکابرین کی تعلیمات کو بھلا کر دوسروں کے راستے اختیار کرلیے۔ ان غلط
راستوں میں ایک سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسلوں کو وطن کی آزادی کے لیے اپنے
عظیم رہنماؤں کی قربانیوں سے واقف نہیں کرارہے جو ہمیں یہ احساس عطا کرتی ہیں کہ
وطن کی آزادی،تعمیر اور ترقی میں ہم کسی سے کم نہیں۔ اس چمنسانِ جمہوریت کو سیراب
کرنے میں ہم نے بھی خون پسینہ بہایا ہے۔
1857ء کے محاربہ عظیم میں لاکھوں ہندوستانیوں کا خون بہا جن میں
مسلمانان ہند اور ان کے بے شمار علماء و مشائخ کی قربانیاں سب سے نمایاں ہیں۔
ہندوستان پہلی جنگ آزادی میں بظاہر ہار گیا تھا لیکن ہمارے علماء کی ایک سرفروش
جماعت نے شکست تسلیم نہیں کی۔ وہ تصور جہاد جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حضرت
شاہ ولی اللہ محدث دہلوؒی کے افکار میں ظاہر ہوا تھا، وہ انقلابی منشور جو شاہ
عبدالعزیزؒ نے مرتب کیا، وہ مشعل آزادی جسے حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور حضرت سید
احمد شہیدؒ اور علمائے صادق پورے اپنے لہو سے روشن کی، وہی روشنی عظیم مرکز آزادی
دارالعلوم کے بانیان محترم کے ذریعہ چہار دانگ علم میں پھیلی۔ دارالعلوم دیوبند کی
اساس کس خلوص نیت کے ساتھ رکھی گئی ہوگئی کہ اس کاپہلا طالب علم ہی ہندوستان کی
جنگ آزادی کا عظیم مجاہد اور اسلامیان ہند کا دینی اور سیاسی قائدبن کر مطلع عالم
پر درخشاں ہوا اور جسے ساری دنیا شیخ الہند ؒ کے نام نامی کے ساتھ شیخ الہندؒ کا
لقب جو سیدّ الاحرار مولانامحمد علی جوہر نے دیاتھا ان کی نابغہ روزگار شخصیت او
ران کے کارناموں کے تناظر میں پوری طرح صادق آتاہے۔ آپ سچ مچ ہندوستان کی فیصلہ کن
جنگ آزادی کے شیخ یعنی سردار او رسالار تھے۔ شیخ الہندؒ کی عدیم النظیر دینی، سیاسی
او رملّی خدمات کا مختصر جائزہ بھی ضخیم کتاب کا متقاضی ہے۔ اس جگہ شیخ الہندؒ کا یہ
مختصر ترین تذکرہ اخبار کے لاکھوں قارئین کو سیرت شیخ الہندؒ کے مفصل مطالعے او
رنئی نسل تک پہنچانے کی جانب راغب کرنے کی محض ایک معمولی سی کوشش ہے۔
ہندوستان کی تاریخ آزادی
میں کانگریس کے بشمول تمام انقلابی تنظیموں کے نظریاتی سرپرست کی حیثیت سے حضرت
مولانامحمود حسنؒ کا نام جلی حروف میں نمایاں ہے۔ اسلامیان برّ صغیر کے عظیم رہنما
نے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ کے اس مقدس
نصب العین کو پورا کردکھایا جس کے لیے دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا تھا یعنی
ملک پر کفار فرنگ کا تسلط قائم ہوجانے کے بعد اسلام کی عظمت و تشخص کا تحفظ،قرآن و
حدیث کی الوہی تعلیمات کا فروغ او رمسلمانان ہند کو بیدار و متحد کرکے جہاد آزادی
وطن کو جاری رکھا۔شیخ الہندؒ حضرت مولانامحمود حسنؒ حجتہ الاسلام حضرت مولاناقاسم
نانوتویؒ کے محض شاگرد ہی نہیں رہے بلکہ استاذِ محترم کی قائدانہ ورثت کے سچے وارث
اور امین ثابت ہوئے۔ آپ نے امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے افکار کو
عملی صورت میں زندہ کردکھایا او راپنے والد حضرت مولانا ذوالفقار علیؒ کا نام روشن
کیا، جو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی طرح
دہلی کالج کے پرنسپل مولانامملوک علی صاحبؒ کے شاگرد تھے۔ مولاناذوالفقار علیؒ
برطانوی حکومت کے محکمہ تعلیم میں ملازم رہے۔ انسپکٹر مدارس کے عہدے سے سبکدوش
ہونے کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے گرانقدر
خدمات انجام دیں۔
حضرت شیخ الہند کی ولادت
1851میں بریلی میں ہوئی۔ آپ تین بھائیو ں او ردو بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ آپ سے
چھوٹے بھائی مولانا حکیم محمد حسن صاحب دارالعلوم کے مدرس اور طبیب ہوئے۔ شیخ
الہندؒ کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم،عربی اور فارسی کی ابتدائی کتابوں سے ہوا۔ 1863ء
میں جب دیوبند کی چھتہّ مسجد کے فرش اور انار کے درخت کے سائے میں اس دینی مدرسہ
کاقیام عمل میں آیا جو دارالعلوم کی صورت میں معروف ہوا، اس عظیم درسگاہ کے پہلے
مدرس جوبزرگ منتخب ہوئے ان کا نام نامی ملا محمود تھا اور جو پہلا طالب علم مدرسہ
میں داخل ہواوہ بھی محمود تھے۔ مولانامحمود حسنؒ اس وقت پندرہ سال کے تھے۔ آپ نے
حدیث شریف کی اعلیٰ تعلیم اور دستار فضیلت حضرت مولاناقاسم نانوتویؒ سے حاصل کی
اور ان کے دست حق پر ست پر بیعت کیے۔ حجتہ الاسلام کی درسی، علمی او رروحانی تربیت
نے سونے کو کندن بنادیا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی آپ دوسرے طلباء کو پڑھانے کی خدمت
انجام دینے لگے تھے،لیکن جب آپ 1857ء میں فارغ الدرس ہوئے تو آپ کی غیر معمولی لیاقت
کے پیش نظر آپ کو باقاعدہ مدرس بنادیا گیا۔ تیرہ برسوں تک و تدریس کی شاندار خدمات
انجام دینے کے بعد 1888ء میں صدرالمدرّسین دارالعلوم کے عظیم منصب جلیلہ پر فائز
ہوئے،لیکن اس کے بہت پہلے سے ہی انہوں نے اس ذمہ داری کی جانب پیش رفت شروع کردی
تھی جو ان کے استاذ اور مرشد کی ذہنی تربیت نے انہیں سونپی تھی۔ 1857 ء میں انہوں
نے دارالعلوم میں ’ثمرۃ الترتیب‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کا بظاہر مقصد یہ
تھا کہ دارالعلوم کے سابق فضلاء اور پر خلوص برداران ملت سے رابطے رکھے جائیں اور
دارالعلوم کے لیے مالی وسائل کی حصولیابی آسان بنائی جائے لیکن اس کا خاص مطمح نظر
ایک خفیہ مجلس مشاورت تھی جس میں ملک کی آزادی کی عملی جدوجہد کے لائحہ عمل پر ہم
خیال اصحاب غور و خوض کرتے تھے۔شیخ الہندؒ کی سیرت او رحالات کا غور سے مطالعہ
کرنے پر حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سالہا سال تک آپ نے صرف دارالعلوم کی توسیع و ترقی
اور دین متین کے فروغ و اشاعت کا کار عظیم خوش اسلوبی سے انجام دیا بلکہ آپ کے ذہن
میں آزادی وطن کی چنگاری بھی مسلسل سلگتی رہی۔ آپ ہندوستان کے تناظر میں پورے عالم
اسلام کا جائزہ لیتے تھے جس کا بڑا حصہ برطانوی سامراج کی سازشوں کاشکار ہوچکا
تھا۔ آپ کے رابطے انقلابی رہنماؤں سے قائم تھے۔ دور دور تک فارغ طلباء کی موجودگی
اور ان کے قائم کردہ مدارس ایک خاص مقصد کی تکمیل میں اہم کردار ادا کررہے تھے۔
بقول مولانامحمد میاں:”دارالعلوم دیوبند نے اس رابطہ کو استادی اور شاگردی کی صورت
میں تبدیل کردیا تھا جو انقلابی جدوجہد کے لیے پہلے سے بہت زیادہ مستحکم او رمفید
ہوسکتا تھا۔ خصوصاً جب کہ مولانا محمود حسن صاحبؒ جیسا سیاسی او رمذہبی مقتدانہ
صرف استاذ بلکہ پیر بھی ہو جس کے دست حق پرست پرسلوک و طریقت کے لیے بھی بیعت کی
جاتی ہو اور جہاد کے لیے بھی۔ دارالعلوم دیوبند میں درس تدریس او رمہتمم اعلیٰ کی
ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ رشد و ہدایت، اصلاحِ معاشرہ اور عبادت وریاضت او رآپ کی غیر
معمولی عصری بصیرت کے حوالے سے آپ کی ذاتِ بابرکات کس بلند مرتبے پر پہنچ چکی تھی
اس کا اندازہ اس سے بہ آسانی ہوسکتا ہے کہ کانگریس کی تحریک آزادی سے وابستہ امام
الہند مولانا ابوالکلام آزاد،مسیح الملک حکیم اجمل خان،ڈاکٹر مختار احمد انصاری او
رمولانا محمد علی جوہر جیسے دور ساز رہنما شیخ الہندؒ کے حلقہ بگوش اور عقیدت مند
بن چکے تھے۔عظیم مبلغ اسلام حضرت مولانا محمد الیاسؒ بانی تبلیغی جماعت نے بھی شیخ
الہند علیہ الرحمہ کے دست مبارک پر بیعت جہاد کی تھی۔ دارالعلوم میں اپنی تاریخی
ساز خدمات کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی میں حضرت شیخ الہندؒ کادائرہ جہد و عمل کہاں
تک پھیل چکا تھا، اس بارے میں تحریک آزادی کے نامور مورخ مسٹر تارا چند کا یہ بیان
بے حد اہمیت کا حامل ہے:”88۔1867 میں ان کو (شیخ الہندؒ کو) اور دارالعلوم کے
سربراہ ہونے کا ارفع درجہ حاصل ہوا۔ اپنی زندگی کی اوائل سے بھی انہوں نے اپنے مشن
(مقصد زندگی) کا فیصلہ کرلیا تھا جس کے لیے وہ اپنے پلان کو نشو ونما شروع کردی
اور دو محاذوں پر اپنا کام شروع کیا۔ ایک ملک کے اندر اور دوسرا ملک کے باہر،
دونوں کو ایک ساتھ اور ایک وقت میں مسلح بغاوت کے لیے کھڑا ہونا اور انگریزوں کو
ملک سے باہر کھدیڑ دینا تھا۔ ہندوستان میں اس مشن کا ہیڈ کواٹر دیوبند تھا، اس کی
شاخیں دلّی،دینا جپور، امروٹ، کراچی،کھیدا اور چکوال میں تھیں۔ بیرون ہند یا غستان
جو شمال مغربی سرحد پر واقع ایک چھوٹی سی ریاست تھی کارروائیوں کا مرکز قرار دی گئی،
یہاں سیدّ احمد شہیدؒ او رمولوی عنایت علیؒ و شرافت علیؒ کے پیرو اب تک انگریزوں
کے خلاف جہاد جاری رکھے ہوئے تھے۔انہوں نے فوجی انتظام مہیا کیا او رحاجی ترنگ زئی
ان کے لیڈر مقرر کیے گئے۔قریب رہنے والے قبیلوں او رہندوستان سے آدمیوں اور رضا
کاروں کی شرکت کی توقع تھی۔ یہ بھی امید تھی کہ افغانستانی حمایت کریں گے۔ اس مسلح
بغاوت کی تنظیم صرف مسلمانوں کا مسئلہ قرار دے کر نہیں کی گئی تھی۔ پنجاب سے سکھوں
او ربنگال سے انقلابی پارٹی کے ممبران کو تعاون کی دعوت دی گئی۔“(تحریک آزادی ہند،
جلد سوم)
ثمرۃ التربیت کے نام سے شیخ
الہندؒ نے جو تنظیم بنائی تھی اس کے داخلی مقاصد پر عمل جارہی رہا لیکن 1909 ء میں
آپ نیجمعیۃ الانصار کے نام سے عوامی سطح پر اپنی تنظیم کااعلان کردیا۔ یہ تنظیم گویا
ثمرۃ التربیت کی ہی نئی شکل تھی یعنی جوتربیت وقت کے ذریعہ ان کے نصب العین کو
حاصل ہوئی یہ اسی کا پھل تھا۔ صاحب ”علمائے حق“ اور ان کے مجاہد انہ کارنامے
مولانا سیدّ محمد میاں ؒ کے مطابق:
”جمعیۃ الانصار کے نام سے ایک ہمہ گیر نظام کاخاکہ مرتب کیا گیا جس
کی مقبولیت بھی اسی طرح ہمہ گیر ہوئی،اس نظام کو عام ذہنوں تک پہنچانے کے لیے
مناسب سمجھا گیا کہ سب سے پہلے مذہبی پیرایہ میں اس کا ظہور ہوا جس اس وقت کی سیاست
کے لحاظ سے نہایت ہی مبصرانہ اقدام تھا چنانچہ 1910 ء میں عظیم الشان جلسے کا
انعقاد کیا گیا جس میں ہندوستان اور اطراف و اکناف کے تقریباً تیس ہزار مسلمانوں
نے شرکت کی۔ یہ اجتماع اس زمانہ تک ہندوستان کی کسی جماعت کو نصیت نہیں ہوا تھا۔
اس لیے اس اجتماع کو اور پھر اس سے زیادہ اس کے حسن انتظام کوکرامت خیال کیا گیا۔
ہرطبقہ او رہر خیال کے علماء نے اس اجتماع میں شرکت فرمائی۔ اس موقع پر صاحبزادہ
آفتاب احمد خا ں نے تجویز پیش کی کہ دارلعلوم کے تعلیم یافتہ علی گڑھ کالج میں
انگریزی پڑھنے جایا کریں او رعلی گڑھ کے گریجویٹ عربی پڑھنے دیوبند آیا کریں۔یہ
تجویز نہایت مبارک خیال کی گئی لیکن اس کا ثمرہ بہت تلخ تھا یعنی پہلی مرتبہ جو علی
گڑھ سے دیوبند پڑھنے آئے وہ انگیز کے سی آئی ڈی تھے۔ انہوں نے شیخ الہندؒ کو
گرفتار کرانے میں وطن دوستی اور قوم پروری کا حق ادا کر کے انگریز بہادر سے
سپرنٹنڈنٹ سی آئی ڈی کا عہدہ حاصل کیا۔“
جمعیۃ الانصار کے ظاہری
مقاصد خالص اصلاحی،تعمیری اور سیاسی تھے لیکن شیخ الہندؒ کے ذہن میں اس کے دور رس
عوامل کار فرما تھے۔ آپ اس طرح آزادی وطن کے لیے ملت اسلامیہ کو بیدار و متحد کرنے
کا ارادہ رکھتے تھے او ربڑی حد تک آپ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ آپ نے دیوبند میں اپنے
مکان کے قریب ایک عمارت کرایہ پر حاصل کی جس میں جمعیۃ الانصار کے ارکان کے نام پر
باہر سے آنے والے انقلابیوں کے قیام کا اہتمام کیا۔ اس کام میں آپ کے دست راست عظیم
مجاہد آزادی حضرت عبیداللہ سندھیؒ تھے۔ یہ پنجاب کے ایک سکھ گھرانے کے چشم و چراغ
تھے۔ کم عمری میں ہی اسلام کے دامان رحمت کے سایہ میں آگئے تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ
کے شاگرد، جاں نثار، مرید او رمعنوی فرزند تھے۔ عالم شباب میں ہی علوم شریعت و طریقت
میں فضل و کمال حاصل کرچکے تھے۔ حضرت مولانا عبیداللہ ؒ دل و جان سے اپنے مرشد کی
انقلابی تحریک میں شامل تھے۔ انہیں یہ شرف حاصل تھا کہ انتہائی خاص مقاصد کے لیے پیغام
رسانی او ربیرونی مقامات کے اسفار کے لیے شیخ الہندؒ ان کا انتخاب فرماتے تھے۔ اسی
دوران آپ نے یہ ضرورت محسوس کی کہ دہلی میں بھی ایک اہم انقلابی مرکز قائم کیا
جائے۔ چنانچہ حکیم اجمل خاں اور نواب وقار الملک کی سرپرستی میں ”نظارۃ المعاف“ کے
نام سے ایک دینی مدرسہ قائم ہوا جس کے اہتمام کی ذمہ داری شیخ الہندؒ نے مولانا عبیداللہ
سندھیؒ کے سپرد کی۔1912ء میں انگریزوں نے ترکو ں کے خلاف بلقان کی ریاستوں کو صف
آرا کردیا، جس سے تمام بلادِ اسلامیہ میں بے چینی پھیل گئی۔ 1913 میں کانپور میں
مسجد مچھلی بازار کو سڑک سیدھی کرنے کے نام پر شہید کرنے کی کوشش کی گئی جسے بچانے
کے لئے آگے بڑھنے والے سینکڑوں مسلمانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ ان واقعات نے
عام مسلمانوں کو انگریز کے خلاف بیدار کردیا۔ دہلی میں مدرسہ نظارۃ المعارف میں
مسلم نوجوانوں کو سیاست او رانقلاب کی تعلیم دی جانے لگی۔حضرت شیخ الہندؒ کی
انقلابی مصروفیات میں تیزی آگئی تھی۔ آپ نے فتوے شائع کیے، مدرسہ بند کر کے طلبہ
کے وفود بھجوائے اور بلقان کی جنگ سے متاثرہ مسلمانوں کی مدد کے لیے چندے جمع کیے۔
اس کام کے لیے آپ خود بھی سفر پر نکلے۔ آپ جنگ بلقان کے نتائج سے بے حد بے چین
تھے۔ ترکی کی خلاف عثمانیہ کو ختم کرنے کی برطانوی کوشش نے بلاد اسلامیہ کے ساتھ
ہندوستان میں لرزہ پیدا کردیا تھا۔مولانا کی مجاہدانہ سرگرمیوں کے سیاسی نتائج بے
حد مثبت ثابت ہوئے۔ عوام کی اکثریت کے ساتھ ساتھ خواص کی بہت بڑی تعداد شیخ الہندؒ
کی موافقت میں سامنے آگئی تھی۔ آزادی کی جدوجہد کے لیے مؤثر لائحہ عمل مرتب ہوچکا
تھا۔ مسٹر تارا چند کے مطابق:
”مسلمانوں کی تاریخ میں یہ وقت بہت نازک تھا۔ تقسیم بنگال پر نظر
ثانی کردی گئی تھی۔ ہندوستان کا دارالسلطنت کلکتہ کے بجائے دہلی کردیا گیاتھا۔ عیسائی
صوبوں نے آل عثمان (خلافت اسلامیہ) کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی،اس کے بعد (1914میں)
پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا جس میں ترکی،جرمنی او راس کے حلیفوں کے ساتھ برطانیہ
او راس کے اتحادیوں کوسے برسر جنگ ہوا۔ سنکیانگ کے سرحدی صوبہ کے خلاف اعلان جنگ
کردیا۔ محمود الحسنؒ ان واقعات سے انتہائی مشتعل ہوئے اور انہوں نے سوچا کہ وقت آگیا
ہے کہ برطانیہ کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔“
شیخ الہندؒ اس کے لیے
عرصہ سے تیار تھے او رقوم کو بیدار کررہے تھے۔ آپ نے برسہابرس میں جو تلامذہ ملک
کے طول وعرض میں تیار کیے تھے وہ جذبہ جہاد سے سرشار تھے۔ آپ کے مرید ین جو آپ کے
انقلابی رنگ میں رنگے ہوئے تھے،انہوں نے دور دور تک مدارس قائم کیے تھے، خاص طور پر
سرحدی علاقوں (یاغستان) میں یہ سلسلہ تحریک مضبوطی سے پھیلا تھا کیونکہ وہاں کے
قبائل میں سیدّ احمد شہیدؒ کی تحریک جہاد زندہ تھی چنانچہ انقلاب کے لیے پہلے اسی
علاقے کو متحرک کیا گیا۔ وہاں کے نوجوان وہ تھے جنہوں نے اب تک انگریزوں کے سامنے
سر نہیں جھکایا تھا۔ یہ جنگجو بھی تھے اور جانباز بھی۔ حضرت مولانا حسن احمد مدنیؒ
فرماتے ہیں:
”اس نازک وقت میں سب سے اہم اور ضروری کام یہ تھا کہ کم از کم
جہادِ حریت کے لیے ان سب کو متفق کیا جائے چنانچہ مولانا سیف الرحمٰن صاحب کو دہلی
سے،مولانا فضل ربی اور مولانا فضل محمود کو پشاور سے بھیجا او رمولانا محمداکبر
صاحب جو اس علاقہ کے رہنے والے اور وہیں مقیم تھے، ان کو آمادہ کیا گیا۔ ان حضرات
او ران کے علاوہ حضرت شیخ الہندؒ کے بہت سے شاگرد او رمخلص موجود تھے۔ انہوں نے
گاؤں گاؤں او رقبیلہ قبیلہ پھر کر زمین ہموار کی او ریہ کوششیں کامیاب رہیں۔ حضرت
شیخ الہندؒ نے اصرار کر کے حاجی ترنگ زئی کو بھی یاغستان بھیجا،جب وہ پہنچے
تومجاہدین کا جمگھٹا بے شمار جمع ہوگیا۔“(نقش حیات)
یہ حضرت شیخ الہندؒ کی
تربیت او رخلوص نیت کا اثر تھا کہ غستان میں انگریزوں کے خلاف زبردست مسلح جہاد کا
آغاز ہوگیا۔آزادی کے متوالوں نے انگریزوں کی خو ں آشام فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے بڑی
بڑی قربانیاں دیں لیکن انگریز جاسوس مجاہدین کے اندر شامل تھے جن کی وجہ سے مجاہدین
کو زبردست نقصانات ہوئے۔ یاغستان سے مسلسل تقاضہ ہورہا تھا کہ حضرت شیخ الہندؒ
وہاں تشریف لائیں لیکن یہاں کی صورتحال مختلف تھی۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری کو یہ
اطلاع مل چکی تھی کہ شیخ الہندؒ کو کسی وقت بھی گرفتار کیا جاسکتاہے۔ مولانا
ابوالکلام آزادؒ کی رائے تھی کہ شیخ الہندؒ ہندوستان میں ہی گرفتار ہوں لیکن انصاری
صاحب کا اصرار تھا کہ وہ جلد از جلد برطانوی حکومت کی حدود سے باہر تشریف لے جائیں۔
چنانچہ آپ نے مولاناعبیداللہ سندھیؒ کو افغانستان روانہ کیا تاکہ وہ افغانستان اور
سرحدی قبائل میں کام کرسکیں۔ کابل کا امیر حبیب اللہ خاں سے آپ کا رابطہ قائم تھا۔
وہ تحریک کا حامی تھا۔ مولانا سندھیؒ کو مولانا ابوالکلام آزاد کی ترغیب پرحاجی سیدّ
عبداللہ ہارون نے پانچ ہزار روپے زادِراہ کے لیے دیئے۔ مولانا سندھ او ربلوچستان
ہوتے ہوئے 15اگست1915 ء کو کابل پہنچے۔ وہاں انہوں نے سردار نصرا للہ خاں، امیر حبیب
اللہ خاں اور ان کے فرزند عنایت اللہ خاں سے ملاقاتیں کیں۔ یہ وہی وقت تھا جب کابل
میں راجہ مہندر پرتاپ اور مولانا برکت اللہ بھوپالی کی قیادت میں ہندوستان کی
جلاوطن آزاد حکومت قائم ہوئی۔مولانا عبیداللہ سندھی ؒ بھی جلاوطنی سرکار کے وزیر
بنے جس کی جانب سے روس، جاپان اور ترکی کے لیے وفود روانہ کیے گئے۔ مولانا سندھیؒ
ان تمام سرگرمیوں میں پوری طرح شامل رہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ
نے اس دوران نہایت اہم پیغام ایک ریشمی رومال پر تحریر کیا اور ایک معتقد عبدالرحیم
کے ہاتھ شیخ الہندؒ کی خدمت میں ارسال کیا جو حضرت تک پہنچنے سے قبل ہی انگریزوں
کے ہاتھ لگ گیا۔ اس ریشمی رومال میں مولانا سندھیؒ نے لکھا تھا کہ:
”جلا وطن حکومت ہند نے افغانستان سے معاہدہ کرلیا ہے، باقی حکومتوں
کے پاس سفارشیں روانہ کی جارہی ہیں، اس سلسلہ میں حکومت ترکیہ سے بھی روابط ور ضبط
پیدا کرنا مقصود ہے۔ آخر میں حضرت موصوف سے درخواست کی گئی تھی کہ ربط و ضبط پیدا
کرنے او رمعاہدہ کرنا مقصود ہے۔آخر میں حضرت موصوف سے درخواست کی گئی تھی کہ ربط و
ضبط پیدا کرنے او رمعاہدہ کرانے میں امداد دیں۔“
اس خط کے پکڑے جانے سے
مولانا سندھیؒ اور شیخ الہندؒ کے بارے میں انگریزوں کو سب کچھ معلوم ہوگیا تھا۔ ریشمی
رومال کے ذریعہ خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ حضرت شیخ الہندؒ کا ہی ایجاد کردہ تھا،
اس لیے آپ کی تحریک ریشمی رومال تحریک کے نام سے مشہور عام ہوئی۔حضرت شیخ الہندؒنامساعد
حالات میں حجاز کے لیے عازم سفر ہوئے۔ آپ جب وہاں پہنچے تو حج کا زمانہ تھا۔ حج کی
سعادت حاصل کی اور حجاز کے گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی۔ غالب پاشا نے آپ سے مکمل
اتفاق کرتے ہوئے ہندوستان کی مکمل آزادی کی حمایت کی۔ غالب پاشا نے مدینہ منورہ کے
گورنر کے نام خط بھی آپ کو دیا جس میں لکھا تھا کہ حضرت شیخ الہندؒ کااحترام کیا
جائے او رانہیں استنبول پہنچانے کا معقول انتظام کیا جائے۔ حضرت شیخ الہندؒ مدینہ
منورہ پہنچے۔آپ کے شاگرد عزیز، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ او رمولانا سیدّ مرتضیٰ
حسینؒ اور دیگر رفقا ء آپ کے ہمراہ تھے۔مدینہ منور ہ میں حضرت شیخ الہندؒ کی
ملاقات ترکی کے وزیر حرب انور پاشا سے ہوئی۔ انور پاشا کی رائے تھی کہ ان کاجہاد کی
خوصلہ افزائی سے متعلق پیغام پہلے آزاد قبائل تک بھیج دیا جائے اس کے بعد حضرت
بغداد کے بحری راستے سے مکران ہوتے ہوئے آزاد قبائل تک پہنچیں۔
انور پاشاکاپیغام ایک رفیق
او رمجاہد آزادی مولانا ہادی نے منزل مقصود تک پہنچا یا جس کا قبائل نے زبردست خبر
مقدم کیا۔ شیخ الہندؒ مدینہ منورہ سے رخصت ہوکر غالب پاشا سے ملاقات کے لیے طائف
تشریف لے گئے۔ وہاں سے آپ کاارادہ استنبول جانے کا تھا۔ اسی دوران کرنل لارنس عرب
قبائل کو ترکی حکومت کے خلاف بغاوت کرانے کی سازش میں کامیاب ہوگیا، پورے ملک میں
بدامنی پھیل گئی۔سفر ممکن نہیں رہا۔ اس کے علاوہ حکومت ہند کا ایک خفیہ افسر بہاء
الدین مسلسل آپ کی نگرانی کررہاتھ۔ علاوہ ازیں حکومت ہند نے یہ چال چلی کہ اپنے
وفادار شریف کے پاس خان بہادر مبارک علی کو مکہ معظمہ بھیجا تاکہ وہاں سے ایسا فتویٰ
جاری کردے جس میں خلافت عثمانیہ کو غیر اسلامی ثابت کردیا جائے۔ شریف نے اپنے دوست
علماء مکہ سے اس طرح کا فتویٰ لکھوادیا۔ حضرت شیخ الہندؒ نے اس باطل فتوے کی سختی
سے مخالفت کی۔ آپ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے تمام علمائے کرام نے فتوے پر دستخط
کرنے سے انکار کردیا۔ اس ناکامی پر شریف آپ سے سخت ناراض ہوگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ
سب سے پہلے مولانا حسین احمد مدنیؒ کو گرفتار کرلیا گیا، جب کہ حضرت شیخ الہندؒ کو
مکہ معظمہ میں مقیم ہندوستانی حکیم نصرت حسین او رمولانا عزیز گل نے چھپالیا۔ انہیں
شریف کی پولیس نے دھمکی دی کہ اگر مولانا کو پیش نہ کیا تو دونوں صاحبان کو گولی
مار دکی جائے گی۔ اس پر بھی مخلصین آپ کو گرفتار کرانے پر آمادہ نہیں تھے لیکن آپ
نے فرمایا کہ ان کی وجہ سے ان کے دوستوں کو نقصان پہنچے یہ انہیں ہرگز گوارہ نہیں
ہے۔چنانچہ آپ نے طواف حرم کی نیت کرکے احرام باندھا اور اورباہر نکل آئے۔ پولیس نے
اسی حالت میں آپ کو حراست میں لے لیا۔ بعد میں آپ کو مولانا حسین احمد مدنیؒ نیز
دوسرے رفقاء کے ساتھ پہلے جدہ پھر قاہرہ بھیج دیا گیا۔ مصر میں انگریز افسران کی
پوچھ تاچھ اور تفتیش کئی دن تک جاری رہی۔ ہر روز ان کے بیانات لینے کے بعدانہیں
کال کوٹھری میں بند کیا جاتا تھا۔ انگریز حکومت انہیں خطرناک باغیوں کا سربراہ مان
چکی تھی۔ آپ کا خیال تھا کہ انگریز انہیں پھانسی پر چڑھادیں گے لیکن آپ کی ہمت او
رجرأت مومنانہ میں کمی نہیں آئی۔ آپ بڑ ے اطمینان او رسکون کے ساتھ انگریزوں کے
سوالوں کے جواب دیتے۔ بالآخر 15فروری1917 ء کو آپ کو بمعہ رفقاء جزیرہ مالٹا روانہ
کردیاگیا۔ اس وقت مالٹا ہندوستان کے انڈمان نکوبار کی طرح سیاسی قیدخانہ تھا جہاں
انگریز حکومت کے سخت ترین باغیوں کو ہی سزا کے لیے بھیجا جاتاتھا۔
”سفر نامہ اسیر مالٹا“ میں شیخ الہندؒ کے قید فرنگ میں گزارے ہوئے
شب وروز کے حالات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ مالٹا میں ان دنوں تقریباً تین ہزار
سیاسی قید ی تھے جن میں تقریباً آدھے جرمن اور باقی آسٹریائی، بلغارین، ترکی اور
شامی وغیرہ تھے۔ چونکہ یہاں کوئی کام کسی کے ذمہ نہ تھا نیز ان لوگوں میں ہر قسم
اورہر لیاقت کے لوگ جمع تھے، روشن خیال اصحاب اپنے وقت کا بہترین استعمال کرتے
تھے۔ عموماً لوگو ں نے اپنا وقت علوم کی تحصیل اور دوسری زبان سیکھنے میں صرف کیا۔
ان میں کئی بڑے بڑے پروفیسر مختلف زبانوں اور فنون کے موجود تھے۔ کتابیں زیادہ تر
مل جاتی تھیں یا دوسرے ممالک سے منگالی جاتی تھیں اس لیے یہ کھلی جیل ایک طرح سے
دارالعلوم بن گیا۔ یہ سب لوگ چونکہ انگریز مخالف تھے اس لیے علی الاعلان انگریزوں
کو برا بھلا کہتے۔انگریزوں یا ان کے حلیفوں کی شکست کی خبر آتی تو خوشیاں منائی جاتیں،اگر
جرمنی یا ترکی کی شکست کی خبر آتی تو سب کے سب غمگین نظر آتے۔ ان میں یہودی، عیسائی
وغیرہ مختلف مذاہب کے لوگ تھے لیکن مصلحت اور رنج اسیری نے ایک رشتے میں منسلک کردیا
تھا۔سب ایک دوسرے کے ہمدرد تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ کو تمام اسیران مالٹا بے حد
احترام اور تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔حضرت شیخ الہندؒ کی صداقت،حقانیت،تقویٰ،
پاکیزگی اور ان کی نورانی شخصیت نے صرف قیدی ساتھیوں کوہی متاثر نہیں کیا بلکہ بڑے
بڑے انگریز فوجی افسر بھی آپ کو پسند کرتے تھے، باوجود اس کے کہ آپ ان کی حکومت کے
دشمن تھے۔ آپ کی زندگی میں اسیری کی یہ مدت بہترین فرصت کی طرح تھی جو ایک عاشق
خدا اور محب رسول کو میسر آئی۔ اس کا ایک ایک لمحہ غنیمت تھا۔مولانا ہر لمحہ یاد
خدا میں صرف کرتے۔ دن میں اوسطاً دس پارے تلاوت کرلیتے، تین چار ہزار بار اسم ذات
کا ورد فرماتے۔ دلائل لخیرات اور دیگر اذکار کا پابند سے معمول جاری رہتا۔ ترمذی
شریف، مشکوٰۃ شریف او رجلالین شریف ہمراہ تھی۔ ان کا مولوی وحید احمد مرحوم کو درس
دیتے رہتے تھے۔ سردیوں کے ایام میں آپ ہمیشہ دن میں سوتے تھے۔ گھٹنوں میں اکثر
دردرہا کرتا تھا۔ موسم سرما میں ہاتھوں پیروں میں ورم ہوجایا کرتاتھا لیکن مالٹا کی
شدید سردی میں شب بیداری کی عادت بدستور تھی۔ اس وقت جب جوان لوگوں کے لیے لحاف سے
منہ باہر نکالنا بھی دشوار ہوتا تھا یہ شیخ وقت اور قطب عالم رات ڈیڑھ بجے بیدار
ہوتا۔ استنجا کرتا، وضو کرتا، تہجد ادا کرتا، پیشاب کا عاضہ تھا، بار بار وضو کرنا
پڑتا تھا مگر کیامجال جو کبھی سستی آئے“۔
سنہ 1919میں پرامن جدوجہد
آزادی کا آغاز ہوا۔ آزادی،انقلاب اور حریت کے متعلق جو مشورے خفیہ ہوا کرتے تھے اب
اس کے لیے اجلاس منعقد کیے جانے لگے۔ خلافت اسلامیہ کی حمایت میں علی برادران کی قیادت
میں خلافت کمیٹی قائم ہوئی۔ علمائے کرام اب بھی اپنے نصب العین پر انتہا پسند رہے۔
انہوں نے مذہبی او رملّی حیثیت سے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی
تشکیل کی جس کا پہلا اجلاس حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒ کی قیادت میں امرتسر
میں منعقد ہوا۔
1920میں پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد آپ کا مالٹا سے رہائی مل گئی۔آپ
کو بمبئی لایا گیا، ابھی آپ جہاز پر ہی تھے کہ انہیں انگریزوں کے خیر خواہ مولوی
رحیم بخش نے مشورہ دیا کہ آپ جہاز سے اتر تے ہی دیوبند تشریف لے جائیں او ریہاں
خلافت والوں کے ہاتھوں میں نہ پڑیں۔ پیرانہ سالی کا آخری زمانہ تمام ملکی جھگڑوں
سے دور رہ کر یادِ خدا میں عافیت کے ساتھ گزاریں۔ آپ نے اس تجویز کو مسکرا کر ٹال
دیا۔ ہر چند کہ جسمانی طور پر آپ بہت کمزور ہوچکے تھے لیکن ان کا جذبہ آزادی جو ان
اورتوانا تھا۔ انہوں نے دوران سفر ہی یہ ارادہ ظاہر فرمادیا تھا کہ وہ وطن پہنچتے
ہی پورے ملک کے دورے کریں گے اور آخری سانس تک وطن کی آزادی کے لیے سرگرم رہیں
گے۔بمبئی میں خلافت کمیٹی نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔ حضرت مولانا محمد علی جوہر
نے خلافت کمیٹی کی جانب سے آپ کو شیخ الہندؒ کاخطاب دیا جو آپ کی شخصیت او رنام کا
حصہ بن گیا۔
مالٹا سے وطن واپسی کے
بعد اگرچہ کئی عارضے لاحق ہوگئے تھے،گٹھیا کی تکلیف،سلسل بول کاعارضہ،بڑھتی ہوئی
ضعیفی مستزاد، مشاورت،تقاریر اوربیانات،مسلسل سفر،نتیجہ یہ ہوا کہ صحت دن بدن گرتی
گئی او راپنے عزم کے مطابق زندگی کے آخری ایام تک ہمت واستقلال کے ساتھ اپنے مشن میں
مصروف رہے۔
اب زندگی کی شام ہونے کو
آئی تھی۔ آپ تقریباً صاحبِ فراش تھے۔انہی دنوں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء نے
یونیورسٹی کابائیکاٹ کیا اور دوسری آزاد یونیورسٹی بنانے کی تحریک شروع کی۔29
اکتوبر 1932ء کو علی گڑھ میں طلبہ کاجلسہ تھا جس کی صدارت کے لیے آپ کو دعوت دی گئی۔
رفقاء نے ایسی حالت میں دعوت نامنظور کرنے کی درخواست کی لیکن حضرت نے فرمایا: ”میری
صدارت سے انگریز کو تکلیف ہوگی تو میں ضرور اس جلسہ میں شرکت کروں گا۔“
آپ کو پالکی پر لٹا کراسٹیشن
لے جایا گیا۔آپ کمزور ی کے باعث تقریر کرنے سے معذور تھے،آپ کا تحریری خطبہ جلسے میں
پڑ ھا گیا جس میں آپ نے فرمایا تھا:
میں نے اس پیرانہ سالی،علالت
اور نقاہت کی حالت میں آپ کی دعوت پر اس لیے لبیک کہا کہ میں اپنی ایک گمشدہ متاع
کو یہاں پانے کا امیدار ہوں۔ بہت سے نیک بندے ہیں جن کے چہروں پر نماز کا نور اور
ذکر اللہ کی روشنی جھلک رہی ہے لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدارا جلد اٹھو اور
اس امت کو کفار کے نرغے سے بچاؤ تو ان کے دلوں پر خوف و ہراس طاری ہوجاتاہے۔ خدا
کا حق بلکہ چند ناپاک ہستیوں کا اور ان کے سامان حرب و ضرب کا۔“
انہو ں نے اس تاریخی خطبے
میں گورنمنٹ برطانیہ کے قبضہ و اثر ہے پاک ایک آزاد قومی یونیورسٹی کی حمایت کی تھی۔
آپ نے فرمایا:
”میری بزرگوں نے کبھی کسی اجنبی زبان کو سیکھنے یادوسری قوموں کے
علوم و فنون سیکھنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا، ہاں یہ بے شک کیا ہے کہ انگریزی تعلیم
کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگے جائیں یا
ملحد انہ گستاخیوں سے اپنے مذہب او راپنے مذہب والوں کا مذاق اُڑائیں یا حکومت وقت
کی پرستش کرنے لگیں تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کا جاہل رہنا اچھا ہے۔“
شدید بیماری او رنقاہت کے
عالم میں اکتوبر کے مہینے میں آپ نے جمعیۃ علماء ہند کے دوسرے سالانہ اجلاس کی
صدارت فرمائی۔ اپنے خطبہ صدارت میں آپ نے فرمایا تھا کہ اسلام او رمسلمانوں کی سب
سے بڑی دشمن انگریز قوم ہے۔ وطن کی آزادی کے لیے برادران وطن (ہند سکھ اور دیگر غیر
مسلم) سے اشتراک عمل جائز ہے مگر اس طرح کہ مذہبی حقوق میں رخنہ نہ پڑے۔ حضرت شیخ
الہندؒ نے اختتامی اجلاس میں فرمایا:
”کچھ شبہ نہیں کہ حق تعالیٰ شانہ نے آپ کے ہم وطن او رہندوستان کی
سب سے زیادہ کثیر التعداد قوم(ہنود) کو کسی نہ کسی طریق سے آپ کے ایسے پاک مقصد کے
حصول میں موئید بنا دیا ہے اور میں ان دونوں قوموں کے اتفاق و اتحاد کو بہت ہی مفید
او رمنتج سمجھتا ہوں اور حالات کی نزاکت کو محسوس کرکے جو کوشش اس کے لیے فریقین
کے عمائد نے کی ہے اور کررہے ہیں اس کے لیے میرے دل میں بہت قدر ہے۔ کیونکہ میں
جانتا ہوں کہ صورت حالات اگر اس کے مخالف ہوگی تو وہ ہندوستان کی آزادی کو ہمیشہ
کے لیے ناممکن بنادے گی۔ادھر دفتری حکومت کا آہنی پنجہ روز بروز اپنی گرفت کو سخت
کرتا جائے گا اور اسلامی اقتدار کا اگر کوئی دھندلا نقشہ باقی رہ گیا ہے تو وہ بھی
ہماری بداعمالیوں سے حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ کررہے گا۔ اس لیے ہندوستان کی
آبادی کے یہ دونوں بلکہ سکھوں کی جنگ آزما قوم کو ملا کر تینوں عنصر اگر صلح و آشتی
سے رہیں گے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی چوتھی قوم خواہ وہ کتنی ہی بڑی طاقتور ہو
ان اقوام کے اجتماعی نصب العین کو محض اپنے جبر و استبداد سے شکست کرسکے گی۔ ہاں یہ
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں اورآج پھر کہتاہوں کہ ان اقوام کی باہمی مصالحت اور آشتی
کو اگر آپ پائیدار او رخوشگوار دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی حدود کو خوب اچھی طرح دل
نشین کر لیجئے اور وہ حدود یہی ہیں کہ خدا کی باندھی ہوئی حدود میں ان سے کوئی
رخنہ نہ پڑے۔“(خطبہ صدارت مطبوعہ مظبع قاسمی دیوبند)
اسی دوران آپ نے جامعہ ملیہ
نئی دہلی کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا جو محبان وطن کے اس جذبے کے تحت
قائم کیا گیا تھا کہ عصری علوم کی تعلیم کے لیے ایسی آزاد درسگاہ ہوجو حکومت کی
اعانت اور اس کے اثرات سے پاک ہو اور جس کا تمام تر طرز عمل اسلامی اقتدار اور قومی
محسوسات پر مبنی ہو۔ دہلی کے اسی سفرمیں 30 نومبر 1920 ء کو امت مسلمہ کایہ بطل جلیل
سفر آخرت پر روانہ ہوگیا۔ دہلی میں ہزارہا لوگوں نے اپنے رہنما کو خراج عقیدت پیش
کیا، آپ دیوبند کی پاکیزگی سرزمین میں آرام فرما ہیں۔ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔