فاروق ارگلی
16اپریل،2017
بڑھتی عمر جسم کو نحیف بنا سکتی ہے لیکن وہ انسان کی ہمت ، جذبے ، حوصلے اور عزائم پر اثر انداز نہیں ہوسکتی ۔ اردو کے ممتاز افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار ، انشائیہ نگار ، شاعر ، حکومت بہار کے سبکدوش اعلیٰ ایڈمنسٹریٹو افسر اور اردو زبان ، اداب اور تہذیب کی بقا و فروغ کے لیے سرگرم عمل مجاہد ، 78سالہ نوجوان شفیع مشہدی کی ہمہ جہت شخصیت ایسے ہی لوگوں میں شمار کی جاسکتی ہے جن کا عمر کبھی کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔ وہ آج بھی بلند حوصلہ ، باہمت ، پر عزم اور تازہ دم نظر آتے ہیں جیسے شروع سے رہے ہیں ۔ اگر ہم اپنے عصری ادبی اور تہذبی و ثقافتی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو شفیع مشہدی جیسی مثالی صورتیں مشکل سے دکھائی دیں گی جن کی زندگی کا محور، مقصد اور نصب العین صرف اپنی زبان، ادب ، ثقافت اور اقدا و روایات کو زندہ توانا رکھنے کی سعی مسلسل کے ساتھ صحت مند شعر و ادب کی تخلیق و ترویج ہو۔
شفیع مشہدی محتاج تعارف نہیں ۔عہد حاضر کی ادبی تاریخ میں وہ نمایاں مقام حاصل کرچکے ہیں ۔ ان کی نثر ی اور شعری تخلیقات کو اردو دنیا میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ راقم کی یہ خامہ فرسائی تو محض تذکرہ نویسی ہے جس کا مقصد اس کے سوا او رنہیں کہ ارض بہار کے اس نامور فرزند اردو کی خدمات اور مساعی جمیلہ کو حسب حیثیت خراج تحسین پیش کر سکوں ۔ شفیع مشہدی کی تعلق ایک قدیم علمی، دینی اور روحانی خانوادے سے ہے۔ ان کے اسلاف اسلامی ہند کے دور میں ایران کے مقدس شہر مشہد سے ہندوستان آئے اور ضلع گیا کہ گوال بگہہ نامی گاؤں میں بود وباش اختیار کی ۔ عہد مغلیہ سے اب تک یہ محترم سادات گھرانہ اپنے علم و فضل اور دینی و روحانی خصوصیات کے سبب عوام و خواص میں باعث عزت وتکریم رہا ہے۔ اسی خاندان کے سید امیر الزماں ان کے والد ماجد تھے۔
خواجہ سید شفیع الزماں 7نومبر 1939ء کو گیا میں پیدا ہوئے ۔ ان سے بڑے بھائی خواجہ سید بدیع الزماں اردو اور ہندی زبان کے بڑے ادیبوں میں شمار ہوئے ۔ انہوں نے اسلاف کی وطنی نسبت سے اپنا قلمی نام بدیع مشہدی رکھا اور اسی نام سے مشہور ہوئے ۔ بدیع مشہدی نے شروع میں اردو میں افسانے لکھے لیکن پھر وہ ہندی کی طرف راغب ہوگئے ۔ بدیع مشہدی کے ناول ’ چھاکو کی واپسی‘ اور ’ چوہے کی واپسی‘ کے علاوہ ان کی کہانیوں کے مجموعے ’ اپروکش‘ اور ’ پل ٹوٹے ہوئے‘ ہندی کتھا ساہتیہ کی انمول دھروہر ہیں ۔ بدیع مشہدی نے اردو اور ہندی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھیں ۔ بدیع مشہدی شفیع مشہدی سے گیارہ سال بڑے تھے ۔ ان کا انتقال 1986ء میں ہوا تھا ۔ شفیع الزماں نے بھی بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادب کی شاہراہ پر شفیع مشہدی کے طور پر آگے بڑھے لیکن ان کا مزاج اور رجحان اردو کی طرف تھا۔
شفیع مشہدی نے ابتدائی تعلیم اور قرآن، عربی، فارسی اور اردومیں گھر پر ہی حاصل کی، اس کے بعد گیا ہائی اسکول میں داخل ہوئے جہاں چندبرسوں تک پڑھنے کے بعدہادی ہاشمی اسکول سے میٹرک پاس کیا اور گیا کالج سے انہوں نے بی اے کیا۔ اس کے بعد وہ دہلی آگئے جہاں انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے نفسیات میں ایم اے کی سندحاصل کی۔ انہوں نے 1971ء میں بہار ایڈمنسٹریٹو سروس کا امتحان پاس کیا اور سرکاری ملازمت میں آگئے ۔ شفیع صاحب نے بہار ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر کی حیثیت سے پٹنہ او ردہلی میں مختلف محکموں اور وزارتوں میں کام کیا۔ انہوں نے بہار کے مختلف اضلاع میں بھی انتظامی خدمات انجام دیں۔ ریٹائر منٹ سے پہلے 1992ء سے 1998ء تک بہار پبلک سروس کمیشن کے ممبر رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعدآپ بہار اردواکیڈمی کے وائس چیئر مین کے اہم منصب پرفائز ہوئے ۔ تین برسوں کی مدت کار کے دوران انہوں نے ارد واکیڈمی کے دائرہ کار کو وسیع کیا اور اردو زبان اور ادب کی ترویج وترقی کے لیے بہت سے اہم اقدامات کیے ۔ اگست 2015ء میں حکومت بہار کی اردو مشاورتی کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے ۔ فی الوقت وہ اس اہم ذمہ داری کو پوری قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ نبھا رہے ہیں ۔ اردو ایڈوائزری کمیٹی کے صدر نشین کی حیثیت سے یہ ان کی عملی زندگی کی بے حد اہم ذمہ داری ہے۔ انہیں شری نتیش کمار کی اردودوست حکومت نے ان کی لیاقت اورطویل بہترین خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس عہدے کے لیے منتخب کیا ہے۔ یہ شفیع مشہدی کی خوش قسمتی ہی ہے کہ کمیٹی کے ارکان میں پروفیسر ارتضٰی کریم، پروفیسر توقیر عالم، پروفیسر قمر جہاں، پروفیسر ایم جے وارثی، پروفیسر ایما ن غنی ، مشاق نوری، ڈاکٹر اعجاز علی ارشد،ڈاکٹر سید احمد قادری اور نائب صدر نشین ڈاکٹر مشاق احمد جیسی سربراہ آوردہ شخصیات کا پر خلوص تعاون انہیں حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فی زمانہ اردو زبان کے فروغ واحیاء کے لیے بہار سے زیادہ تعمیری کام ملک کی کوئی اورریاستی حکومت نہیں کررہی ۔ اس کا اندازہ قارئین مشاورتی کمیٹی کی رپورٹ برائے 2015-16کے اطلاعاتی مجلّے میں عرض حال کے طور پر شفیع مشہدی صاحب کی اس تحریر سے بہ آسانی لگا سکتے ہیں:۔
’’ جناب نتیش کمار معزز وزیر اعلیٰ ، بہار نے ریاست میں دوسری سرکاری زبان اردو کے ہمہ جہت فروغ اور ترویج کے لیے 10اگست 2015کو اردو مشاورتی کمیٹی بہار کی تشکیل نو کی اور مجھے صدر نشیں کی ذمہ داری سونپ کر مجھ پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ۔ میں اس کے لیے ان کا شکر گزار ہوں ۔ حکومت نے مجھ پر جس اعتماد کا اظہار کیا اور اردو آبادی نے مجھ سے جو توقعات وابستہ کیں ، ان پرکھرا اترنے او رانہیں پورا کرنے کے لیے صدر نشیں کا عہدہ سنبھالتے ہی میں نے اراکین کمیٹی کے تعاون سے پوری دیانت داری کے ساتھ کوششیں کیں۔ بحیثیت ثانوی سرکاری زبان اردو کے نفاذ کے علاوہ فروغ اردو کے لیے ہم نے ہمہ جہت اقدام کیے اوران کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے ۔ اگر خود ستائی کاالزام عا ئد نہ ہوتو عرض کروں کہ ثانوی سرکاری زبان اردو کے فروغ کے سلسلے میں کمیٹی کے ذریعہ کی گئی منصوبہ بند اور سلسلہ وار سفارشوں اور اردو ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ فوری کارروائی ، جیسے فروغ اردو سیمنار وں اور اردو عمل گاہوں وغیرہ کے انعقاد ، نیز کمیٹی کے ذریعہ مختلف محکموں اور اداروں کو اردو کے عملی نفاذ کے لیے مستعدی کے ساتھ مکتوبات کی مسلسل ترسیل نے ایک طویل جمود کا خاتمہ کر کے بہار میں اردو تحریک کو پھر سے زندہ کردیا ہے۔ ہم اسے ایک بڑی حصولیابی کہہ سکتے ہیں ۔ میں نے اردو کے صحافیوں ، قلمکاروں اور مشاورتی کمیٹی کے سابق صدر نشینوں واراکین کی الگ الگ خصوصی نشستیں منعقد کر کے ان کے مشوروں سے استفادہ کرتے ہوئے اقدامات کئے او رہمیں مسرت ہے کہ ہم کامیاب بھی ہوئے ۔ موجودہ اردو مشاورتی کمیٹی کی تشکیل کو ایک برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران معزز اراکین کمیٹی، رفقائے کار او رمحبان اردو کے تعاون سے کمیٹی نے جو اقدامات اور شفارشات کی ہیں، ان کی مختصر روداد اس سالانہ رپورٹ میں پیش کی گئی ہے ۔ نیز ایک سال کی مختصر سی مدت میں اپنی کار کردگی اور حصولیابیوں سے آپ حضرات کو واقف کراکے ہم آپ کی توجہ اور تعاون کے طالب بھی ہیں۔ اردو ہماری تہذیبی او رلسانی وراثت ہے۔ یہ وراثت اسلاف نے ہمیں امید کے ساتھ سونپی ہے کہ ہم اسے مزید سجا سنوار کربطور امانت نئی نسل تک پہنچائیں گے ۔ اگر ہم نے اس ذمہ داری سے پہلو تہی کی تو شاید ہم پر خیانت کاالزام آئے گا۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ زبانیں صرف حکومت کے سہارے فروغ پاسکتیں ، بلکہ اس کی ترقی اسی وقت ممکن ہے، جب اس زبان کے چاہنے والے اس کے فروغ کے لیے سامنے آئیں ۔میں تمام محبان اردو سے گزارش کروں گا کہ اگر اردو کو بچانا ہے تو ترجیحی طور پر ابتدائی اور ثانوی درجوں میں اردو کی تعلیم کا نظم کریں ۔ اردو سے اپنا عملی اور مضبوط رشتہ جوڑیں ۔ اپنے گھر وں میں اردو کو زندہ رکھیں ۔ اس کے بغیر اردو کا فروغ ممکن نہیں ہے۔‘‘
لیکن یہ شفیع مشہدی کی سر گرم عملی زندگی کے تیز رفتار سفر محض اجمالی تذکرہ ہے جب کہ افسانہ نگار ، ڈرامہ نویس ، شاعر اور قادر الکلام ادیب کی حیثیت سے انہوں نے جو کچھ کر دکھایا ہے اس کی قدر و قیمت ان کی شاندار حکومتی خدمات سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ انہوں نے یہ ناقابل فراموش تخلیقی کارنامے سرکاری عہدوں کی ذمہ داریوں اور زندگی کی تما م تر مصروفیات کے ساتھ ساتھ انجام دیئے کیونکہ اردو تہذیب و ثقافت اورتخلیق ادب کا جذبہ ان کے مزاج، روح اور وجدان میں فطری طور پر رچا بسا ہے۔ ادب اور شاعری ان کاپہلا عشق ہے، ویسے بھی کچی عمر کا عشق بڑا پائیدار ہوتا ہے۔ جب وہ سترہ سال کے تھے اور گیا کالج میں تعلیم حاصل کررہے تھے ، 1958ء میں پہلا افسانہ تخلیق کیا جو کالج میگزین میں چھپا ۔ افسانہ بہت پسند کیاگیا ۔ افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز 1961ء سے ہوا ۔ اپنی افسانہ نگاری کی شروعات کے دنوں کے بارے میں شفیع مشہدی کا بیان ہے:
’’ پہلے میں س شین مشہدی کے نام سے لکھتا تھا ۔ اس وقت کے مقبول ترین رسالہ ’ بیسویں صدی ‘ میں قرۃ العین حیدر، کرشن چندر ، خواجہ احمد عباس اور عصمت چغتائی جیسی تنطیم شخصیتوں کی تخلیقات کے ساتھ مجھ جیسے نو مشق کی کہانیاں تسلسل سے شائع ہوتی تھیں اور اگر کہانی بھیجنے میں تاخیر ہوتی تو خوشتر گرامی کا خط او رٹیلی گرام آتا تھا ۔ بلا مبالغہ ایک کہانی پر پچاس ساٹھ خط آتے تھے ۔ فنکار کی ایسی پذیرائی اب کہاں، سب قصۂ پارینہ ہے، اب تو اردو قاری کا مسئلہ سنگین ہوگیا ہے۔ لکھنے والے ہی اب قاری ہیں ‘‘۔( پیش لفظ ، سلسلۂ روز و شب)
یہ حقیقت ہے کہ شفیع مشہدی کے افسانے بیسویں صدی کے آخری تین عشروں کے دوران ہندو پاک کے مقبول ترین جرائد میں شائع ہوکر عام اور خاص ہر طبقہ کے قارئیان میں مقبول ہوئے ۔ انہوں نے اپنے دیکھے بھالے کرداروں کے سچے واقعات او رمحاکات کو اپنے افسانوں میں فنکارانہ مہارت اوردرد مندی کے ساتھ پیش کیا۔
بقول پروفیسر وہاب اشرفی:
’’ مشہدی کے افسانوں میں آج کی زندگی کا عکس صاف جھلکتا نظر آتا ہے ۔ جامعیت اور اختصار کے ساتھ موضوع نمایا ں ہوتا ہے۔ اس طرح کہ انسانوں کی کوئی چول ڈھیلی نظر نہیں آتی۔ زندگی کے نہاں خانے میں جھانکنے کاعمل بھی ملتا ہے لیکن ایسی دروں بینی انہیں پیچیدہ اور گنجلک نہیں بناتی ۔ جدیدیت کے دور سے گزرنے کے باوجوداہمال او رابہام سے ان کاکوئی تعلق نہیں رہا۔‘‘ ( تاریخ ادب اردو ، جلد سوم)
شفیع مشہدی نے بدلتے وقت کے ساتھ ایک مٹتی ہوئی تہذیب اور روایات سے بندھے ہوئے طبقے کی دلدوز کہانیاں اپنے افسانوں میں بیان کی ہیں جو قاری کے ذہن کودرد اور کسک سے گھیر لیتی ہیں ۔ وہ انسانی نفسیات کے ماہر ہیں، انہوں نے اس طبقے کے بالا دست اور متمول رہ چکے کرداروں کے ساتھ ساتھ اس عہد کے زیر دست، اور آقا پرست طبقے کی وفاداری ،ایمانداری اور خلوص کی ایسی تصویر یں پیش کی ہیں جن میں ایک گزرا ہوا زمانہ روشن ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ اس طرح کی کہانیوں میں تخلیق کار کی اپنے معاشرے کی عظمت رفتہ سے درد مندانہ وابستگی کا احساس ہوتا ہے ۔ سبکدوش، مجاور، سید کی حویلی، طوطے کا انتظار اور شام ڈھلے وغیرہ اس موضوع پر ان کی ناقابل فراموش کہانیاں ہیں ۔ لیکن یہ شفیع مشہدی کی افسانوی کائنات کا صرف ایک گوشہ ہے۔ انہوں نے بقول اعجاز علی ارشد، عہد حاضر کی سچائیوں کوبھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ طوطے کاانتظاراور شام ڈھلے جیسے چند افسانوں میں وہ خاصے ناسٹلجک بھی دکھائی دیتے ہیں، مگر ان کی افسانہ نگاری کے دو امتیازات میری نظر میں اہم رہے ہیں، ایک تو جدیدیت کے دورِ شباب میں افسانے لکھنے کے باوجود غیر ضروری ابہام اور استعمارہ سازی کے گریز اور جہاں بھی استعاروں کا استعمال ہوا بھی ہے وہاں معنی و مفہوم تک پیشکش کو ایک خاص وقار اور فکری شائستگی عطا کرتی ہے‘‘۔
شفیع مشہدی رواداری ، محبت ، وطن پرستی اور بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کی حسین و جمیل روایات اور اقدار میں ۔ انہوں نے معاشرے میں ایسے ہندو مسلم کرداروں کو روشن کیا ہے جن کی وجہ سے اس ملک میں تنگ نظر منفی ذہنیت اور زہر ناک خونیں سیاست انسانی خون کی ندیاں بہانے کے باوجود اتحاد و محبت کی ان جڑوں کو اکھاڑ نہیں سکی جو اس دیس کی دھرتی میں بہت گہرے تک پیوست ہیں ۔ ان کے اب تک تین افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں ’ شاخ لہو،‘ ’ سبز پرندوں کا سفر‘ اور تازہ ترین مجموعہ ’ سلسلہ روز و شب ‘ جو ان کے 27افسانوں کا انتخاب ہے۔ اگر اس دور کی تنقید کوحق و انصاف کی نظر سے دیکھے تو ’ سلسلۂ روز و شب‘ گزشتہ چوتھائی صدی میں اردو فکشن کو بہت بڑی دین ثابت ہوگی۔ ’ اعتدار‘ کے عنوان سے کتاب کے آغاز میں اس کے ’ تحریری بیان‘سے ان کی فکری اور فنی جہتوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے:
’’ سلسلۂ روز و شب کے حوالے سے زندگی کی حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ بھی فنا نہیں ہوتا بلکہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اگر ایک فرد کی زندگی کو اکائی مان لیا جائے تو اس کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ موت تو ایک وقفہ ہے ، پھر عالم برزخ کی زندگی، حشر، دوزخ ، جنت او رابدی زندگی، کہانی ختم ہوتی ہے، وہ تو چلتی ہی رہتی ہے ۔ ہم جتناجانتے ہیں اس کو اختتام کانام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں ۔۔ ایک عجیب سی تشنگی ہے جو بجھتی ہی نہیں ہے، جو لکھا اس سے مطمئن نہیں او رجو لکھنا چاہتا تھا وہ لکھ نہیں سکا۔۔ میں ناقدین و اکابرین ادب کی آرایا سفارشی انداز کے تبصروں کوشامل کر کے قاری کو متاثر نہیں کرناچاہتا ۔ قاری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خودپڑھ کر اپنی رائے قائم کرے ۔ میری رائے میں قاری بہترین ناقد ہوتا ہے ۔ کہانیوں کے متعلق میں صرف اتناکہناچاہتا ہو ں کہ میں نے وہی لکھا ہے جو دیکھا اور محسوس کیا، میں مانگے کا اجالا لینے کاقائل نہیں ، میری کہانیوں کے سارے کردار میرے جانے پہچانے ہیں، انہیں میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، اتنے قریب سے کہ آج بھی مجھے ان کی قربت محسوس ہوتی ہے۔‘‘
شفیع مشہدی کے افسانوں کی الگ الگ خصوصیات بیان کی جائیں توایک ضخیم کتاب بن جائے ۔ان کے افسانے خوب پڑھے جاچکے ہیں ، لیکن نئی نسل کے قارئین اور بالخصوص ادبیات کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ شفیع مشہدی کوغور سے پڑھیں ، یقیناًراقم السطور کے اس دعوے کی تصدیق کریں گے کہ مشہدی اپنی طرز کے منفرد افسانہ نگار ہیں ۔
شفیع مشہدی کی دوسری اہم ادبی شناخت ان کی ڈرامہ نگاری ہے۔ حیرت ناک امریہ ہے کہ شفیع ڈرامہ نویسی میں اپنی افسانہ نگاری کی طرح کامیاب وکامران ہیں، انہوں نے زیادہ تر ڈرامے ریڈیو کے لیے تخلیق کیے ہیں لیکن اسٹیج بھی ان کے ڈراموں کے دو مجموعے ’ دو پہر کے بعد‘ او ر’ مٹھی بھر خاک‘ شائع ہوچکے ہیں ۔ ’ دو پہرکے بعد‘ 1981-82ء میں اشاعت پذیر ہوا تھا ، اس میں چھ ڈرامے ہیں، جب کہ ’ مٹھی بھر خاک‘ (2016) میں نو ڈرامے ہیں ۔ ’ مٹھی بھر خاک‘، ’ ماڈرن انار کلی ‘، ’ مانگے کا اجالا‘،’ دو سرا کینسر ‘، ’ اجنبی دیواریں‘، ’ انگلیاں فگار اپنی ‘، ’ پتھروں کاشہر ‘، ’ دو پہر کے بعد ‘ اور ’ نیا قانون‘۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے دونوں مجموعوں میں شامل صرف یہی چند ڈرامے مجموعوں میں شامل نہیں کیے یا کہیں گم ہوگئے ۔ اس کی وجہ یہی رہی کہ وہ کتابی صورت میں چھپوانے کی طرف سے بہت لا پرواہ رہے ہیں ۔ افسانوں کے باب میں یہی ہوا، پہلا افسانوی مجموعہ ’ شاخ لہو ‘ 1986ء میں جب شائع ہوا تھا تب تک انہیں لکھتے ہوئے چوتھائی صدی گزر چکی تھی ۔ معروف ناقدو محقق ڈاکٹرقیام نیر ان کے ڈراموں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ ( ان کے پہلے مجموعے کا پہلا ) ڈرامہ ’ اجنبی دیواریں ‘ کافی اثرانگیز ہے۔ اس میں موجودہ دور کے سماج کے کھوکھلے پن کو واضح طور پر پیش کیا گیا ہے،اب لوگ ایک دوسرے کو نام سے نہیں مکان یا فلیٹ کے نمبرسے پہچان سکتے ہیں یا پھر ذات دھرم سے ۔ آج کے لوگ منہ پر تعریف کرتے ہیں اور پیچھے گالیاں دیتے ہیں ، ایسی ہی کئی باتوں کو دکھایا گیا ہے۔ دوسرا ڈرامہ ’ کینسر‘ ہے۔ اس میں معاشرے کی کڑوی سچائی کو پیش کیا گیا ہے۔ آج مذہبی اورتہذیبی روایتیں مذاق بن کر رہ گئی ہیں ۔
رشوت خور افسر چندے میں بڑی بڑی رقم دے کر نام و نمود کماتے ہیں اور ایک شریف ایماندار آدمی کے پاس بچے کے علاج کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ تیسرا ڈرامہ ’ مٹھی بھر خاک‘ بہت اچھا ڈرامہ ہے،اس میں ایک سرکاری افسر کے بارے میں سچائی بیان کی گئی ہے کہ کس طرح گھر سے باہر تک لوگ اس کی آؤ بھگت میں لگے رہتے ہیں لیکن جب وہ ریٹائر ہوجاتے ہیں تو ان کی قدر و قیمت گھٹ جاتی ہے۔ وہ گھر سے باہر تک لوگوں کے لیے فالتو کی چیز بن جاتے ہیں ۔ ’ انگلیاں فگار اپنی ‘ آج کے مفلوک الحال شاعر پر مبنی ڈرامہ ہے جو وضع دار ہوتا ہے ، مشاعروں میں داد و صول کرتا ہے لیکن مالی اعتبار سے بہت پریشان رہتا ہے۔ کسی کو اس کی ذاتی زندگی سے دلچسپی نہیں ہوتی ۔’ پتھروں کا شہر‘ میں مصنف نے دیہات اور قصبات سے شہر جاکر پچھتا نے والے ان مجبور،بے بس لوگوں کی ذہنی کیفیت کا اچھا نقشہ پیش کیا ہے جو نہ اپنے گاؤں میں خوش تھے نہ شہر جاکر خوش ہیں ۔ اس مجموعے کا آخری ڈرامہ ’ مٹھی بھر خاک‘ ملک کے بٹوارے کے اثرات پر مبنی ہے۔ یہ سبھی ڈرامے فنی اعتبار سے مکمل کہے جاسکتے ہیں۔‘‘
( بہار میں اردو نثر کا ارتقا آزادی کے بعد)
شفیع مشہدی کے ڈراموں کا دوسرا مجموعہ دراصل ان کے چند خاص ڈراموں کا انتخاب ہے، یہ سبھی ڈرامے ریڈیو سے نشر ہو چکے ہیں جب کہ مزاحیہ ڈرامہ ’ ماڈرن انار کلی‘ بھارتیہ نرتیہ کلا کیندرکی طرف سے اسٹیج پر بھی پیش کیا جاچکا ہے ۔ شفیع مشہدی نے اپنے سبھی ڈراموں میں اپنی کہانیوں کی طرح سماج کے سنجیدہ مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ ’ مٹھی بھر خاک‘ ملک کی تقسیم کے بعد مادرِ وطن کی آغوش سے محروم ہوجانے والے اپنی مٹی سے محبت اور عقیدت کی کہانی ہے۔ یہ اثرانگیز ڈرامہ نہ صرف ملک کے کئی ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہوا بلکہ اس پر سری نگر دور درشن نے ڈیڑھ گھنٹے کی ٹیلی فلم بھی بنائی جس کے شوٹنگ کشمیر میں کئی گئی ۔ ’ مٹھی بھر خاک‘ کے عنوان سے تازہ ترین انتخاب کے پیش لفظ نما مقالے میں شمس الرحمٰن فاروقی شفیع مشہدی کی ڈرامہ نگاری کا ناقدانہ تجزیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ مشہدی کے ڈراموں کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ یہ تو معمولی بات ہے کہ ان ڈراموں میں موجود زندگی کے مسائل کسی نہ کسی نہج سے بحث میں لائے گئے ہیں ۔ ( یہ بات تو کم وبیش کسی بھی ڈرامے کے بارے میں کہی جاسکتی ہے) ،مشہدی کی سبب سے بڑی خوبی ان کے مکالموں کی بر جستگی اور زبان کی شستگی ہے،کامیاب مکالمے کی دو شرطیں ہیں ۔ اوّل تو یہ کہ ان میں بول چال کے آہنگ کا پورا خیال کیا گیا ہو، اور دوم یہ کہ ان کے ذریعہ کردار کی تصویر کشی از خود ہوتی رہے ۔ یعنی کردار کے صفات یا جذبات ظاہر کرنے کے لیے ڈرامہ نگار کو اسٹیج ہدایات (Stage Direction) کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہیے کہ یہ کام ہدایت کار کا ہے کہ وہ جذبات کے اظہار کے لیے کردار سے کس طرح ناکام کرنے کو کہے ۔ کس طرح حرکات و سکنات کو ظاہر کرنے کی ہدایت کرے، آواز کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں بھی ہدایت کار کا ہی حق ہے کہ وہ ایکٹر کی رہنمائی کرے ۔ شفیع مشہدی کے ڈرامے ان دونوں شرائط کو بوجہ احسن پورا کرتے ہیں ‘‘۔ ( شفیع مشہدی کے ڈرامے)
شفیع مشہدی ایک صاحب طرز افسانہ نگار او رمسلم الثبوت ڈرامہ نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جواں فکر شاعر کی حیثیت سے بھی اردو دنیا میں ممتاز و مفتخر ہیں ۔ ابھی تک یہ فیصلہ کرنا ارباب دانش کے لیے مشکل ہے کہ وہ بڑے ادیب ہیں، یا بڑے شاعر۔ عام خیال یہ ہے کہ افسانہ کا میدان ان کے داخلی احساسات اور جذبات کے اظہار کے لئے تنگ محسوس ہو اس لیے شاعری کی طرف زیادہ توجہ دی۔ ان کی شاعری ہندو پاک کے موقر ادبی جرائد میں اور مشاعروں کے وسیلے سے کافی مقبول ہوچکی ہے ۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد کا یہ تجزیہ مشہدی صاحب کی شاعری کا مختصر مگر جامع تعارف ہے:
’’ گزشتہ چندبرسوں سے وہ افسانہ نگاری کے مقابلے میں شاعری کی طرف زیادہ مائل رہے ہیں ، خاص طور پر مذہبی اساطیر یا حوالوں کی روشنی میں انہوں نے خوبصورت نظمیں لکھی ہیں ۔ مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شفیع مشہدی جتنے اچھے افسانہ نگار ہیں اس سے کہیں اچھے شاعر ہیں ۔اگر چہ انہوں نے فکری پس منظر کے ساتھ غزلیں بھی کہی ہیں لیکن ان کی شخصیت کی ساری درد مند ی اور دلآویزی ان کی نظموں میں سمٹ آئی ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر وہاب اشرفی کی رائے بے حد متوازن ہے: ’’ وہ جدید تقاضوں کے ساتھ اقبال کی ڈگری پر چلنے والے ایک شاعر ہیں، جن کے یہاں اسلامی امتیازات بڑے شاعرانہ انداز میں شعر کا جامہ پہنتے ہیں ۔ انہیں عظمت رفتہ کا احساس ہے اور اس کا کرب بھی کہ اب ایسی عظمت نہ صرف گریز پا ہوگئی بلکہ نئی نسل اس کی تجدید کے لیے کسی سعی مستحسن کی طرف مائل نہیں ‘‘۔
مشہدی صاحب کے کلام میں سلاستِ زبان، شکوہ بیان اور علوئے فکر کے ساتھ فکری تلازمات کی پابندی پورے استادانہ جلال و جمال کے ساتھ نظر آتی ہے ۔ نمونے کے طور پر چند اشعار دیکھیں :
زمیں سفر میں ، فلک عالم حجاب میں ہے
یہ کائنات ابھی تک حصار خواب میں ہے
ہماری شاعری پیغمبری نہیں لیکن
ہمارا ذکر بھی اللہ کی کتاب میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھری ہے ریت نگاہوں میں دشت دل میں دھواں
عروسِ جاں تو مجھے لے کے آگئی ہے کہاں
نجات ملتی بھی کیسے کہ اس کے راستے میں
یقین کے درپہ بھی ہے حنجر سیاہ گماں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اس کا تھا وہ آسرا بھی نہیں
میرے شامل اب اس کی رضا بھی نہیں
میرے پیچھے ہے فرعون لشکر لیے
اور دریا میں اب راستہ بھی نہیں
ہاتھیوں کی ہے یلغار چاروں طرف
اور ابابیل کاکچھ پتہ بھی نہیں
مشہدی سر ہتھیلی پہ رکھے رہے
اس کی قسمت میں تو کربلا بھی نہیں
غزل کے ساتھ مشہدی کی نظمیہ شاعری کو عہد کی اعلیٰ وارفع شاعری میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ نظموں کے موضوعات اور اسلوب بیان اور لب و لہجے میں اثر آفرینی ، تازگی اور تنوع ہے،اس جگہ ان کی یہ مختصر نظم ’ سوال ‘ ملاحظہ کر لیں :
نمود صبح تری رنگ شام بھی تیری
نسیم تیری صبا کے خرام بھی تیرے
یہ خم بھی تیرا، صحراحی بھی جام بھی تیرے
سمندروں سے گھر سے تشنہ کام بھی تیرے
سبھی ہیں تیرے تو ہنگامۂ کو بہ کو کیوں ہے
ہر ایک سمت یہ منظر لہو لہو کیوں ہے
تو چاک دامن ادراک بھی رفو کردے
نہیں تو میرے جگر کو لہو لہو کردے
مشہدی صاحب کا شعری مجموعہ ’ حصار جاں‘ شائع ہوکر شعر ی ادب میں تذکروں اور تجزیوں کا موضوع بن چکا ہے ۔ خود مشہدی عہد ساز شاعر کے طور پر ایوان شعر میں خاصا بلند مقام حاصل کرچکے ہیں ۔ ان کے علمی ، ادبی اور تخلیقی تعارف کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا ، دراصل شفیع مشہدی ایسے مجاہد اردو ہیں جن کی فتوحات کا دائرہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کے تنقید ی ، تجزیاتی اور تاثراتی مضامین عرصہ سے ادبی جرائد کی زینت بنتے آرہے ہیں ۔ ان کا ایک تاریخ ساز کارنامہ عظیم محسن اردو خان بہادر خدا بخش کی اہلیہ جمیلہ خدا بخش کے دیوان کی ترتیب و تدوین اور اس کی اشاعت ہے۔ جمیلہ ہندوستان کی عظیم شاعرہ تھیں ، جن کا دیوان آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تاریخ ساز کاوش مشہدی صاحب نے 2003ء سے 2006ء تک تین برسوں میں انجام دی۔ انہوں نے جمیلہ خدا بخش کی مثنوی ، علی ابن ابی طالب کو بھی مدون او رمرتب کر کے زیورطباعت سے آراستہ کیا ہے۔ علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں وہ شروع سے ہی پیش پیش رہے ہیں ۔ اندرون ملک اور بیرون ملک بڑے مشاعروں اور سیمینار وں وغیرہ میں ان کی شرکت کاسلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ آپ مولانا آزاد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کی انتظامی کمیٹی کے نائب صدر ، امارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ اور اڑیسہ کے رکن ہیں ۔ اردو زبان اور ادب کی خدمت کے لیے وہ ہمیشہ تیار رہتے۔ شاندار اور باوقار شخصیت کے مالک شفیع مشہدی کی سب سے بڑی خوش بختی یہ ہے کہ عظیم فکشن نگار خاتون محترمہ ذکیہ مشہدی ان کی رفیقۂ حیات ہیں ۔
16اپریل،2017 بشکریہ : ہمارا سماج ، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/shafi-mashhadi-bright-metaphor-creative/d/111011
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism