فراز طلعت
29 جنوری، 2015
یہ امر بالکل واضح ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سعودی عرب کی جو تاریخ رہی ہے اس کی طرف مغرب کی توجہ مبذول کرنے کے لیے اس اصطلاح میں فوری ترمیم کرنے کی ضرورت جو ہم ہمیشہ سعودی حکومت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
شاہ عبداللہ کے لئے دنیا بھر میں "مصلح" جیسے انتہائی معزز الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
صدر اوباما نے سعودی عرب روانہ ہونے کے لئے تاج محل کا دورہ منسوخ کر دیا۔
شاہ عبداللہ کی وفات پر اپنے بیان میں اوباما نے شاہ کے اقدامات کے بارے میں کہا کہ "خطے میں امن قائم کرنے کی کوشش کے لئے ان کی پائیدار شراکت داری ایک لمبے عرصے تک جاری رہے گی"۔
امریکہ میں نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی نے مرحوم سعودی بادشاہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک مقابلہ جاتی مضمون کا اعلان کیا ہے۔
جاپانی حکومت نے تعریف میں انہیں "امن کا رکھوالا" کہا۔
شاہ عبداللہ کی تعریف میں شاید سب سے زیادہ چونکانے والا بیان آئی ایم ایف کے کرسٹائن لیگارڈ کا تھا جنہوں نے انہیں "حقوق نسواں کا ایک مضبوط علم بردار" قرار دیا۔
(شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ) مبینہ طور پر شاہ عبداللہ نے جن چار جوان بیٹیوں کو اپنے ہی گھر میں صرف اس لیے قید کر کے رکھا تھا تاکہ وہ اس کی سابق بیوی کے پاس واپس نہ لوٹ سکیں، وہ بظاہر لیگارڈ کے خراج تحسین کا جواب دینے کے لئے موجود نہیں۔
اور افسوس کی بات ہے کہ، نہ ہی وہ دیگر لاکھوں سعودی خواتین ان کا جواب دے سکتی ہیں جو ان کے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے گھر باہر نہیں نکل سکتیں۔
ڈیوڈ کیمرون نے "امن اور مذاہب کے درمیان باہمی مفاہمت کو مضبوط بنانے کے لئے ان کے عزم و حوصلہ" کے لئے سعودی بادشاہ کی تعریف کی ہے۔ ایک لیک ہونے والے سفارتی کیبل کے باوجود جس میں انہوں نے ذاتی طور پر امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا؛ اور 'شیعہ نسل کشی' میں مصروف انتہا پسند تنظیموں کے لئے اپنی حمایت کے اعلان کرنے کے باوجود شاہ عبداللہ کو اس قدر داد و تحسین سے نوزا جا رہا ہے۔
اگر چہ دنیا کے تقریبا ہر کونے سے شاہ عبد اللہ کے لیے داد و تحسین میں آوازیں بلند کی جارہی ہیں، ہمارے پاس معقول وجہ ہے کہ ہم خاص طور پر شاہ عبداللہ کی مغربی ممالک کی مدح سرائی کو اہمیت دیں۔
ان ممالک کی جمہوریت اور آزادی کے لئے سرکاری حمایت اور ان کے غیر جمہوری حکمرانوں کو داد و تحسین سے نوازنے اور انہیں اہمیت دینے کے درمیان بالکل واضح تضاد ہے۔
بہت سے مغربی ممالک اور خاص طور پر برطانیہ نے شہنشاہیت سے ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کے ایک غیر منتخب بادشاہ بنیادی طور پر ایک 'ڈکٹیٹر' ہوتا ہے، برطانیہ کو اپنے ملک کی "علامتی آمریت" میں بڑی تسلی ملتی ہے۔
شہنشاہیت کے تئیں اس 'نرم گوشہ' کا مظاہرہ وقتا فوقتا کیا جاتا رہتا ہے۔
بہت سے ممالک میں مرکزی دھارے کی سیاست، بچوں کی کتاب، آرٹ اور موسیقی میں منظم طریقے سے شہنشاہیت کی مدح و ستائش کی جاتی ہے جو کہ بنیادی طور پر کسانوں اور اعلی طبقے میں انسانوں کی من مانی تقسیم ہے جس کی بنیاد محض پیدائش کے حادثے پر ہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہندوستان سعودی بادشاہ کی موت کے سوگ میں دوسروں سے ایک قدم آگے کیوں چلا گیا!
یہ سمجھنا بالکل آسان ہے لفظ 'بادشاہ' ایسے ممالک کے باشندوں کے لیے کم تہدید آمیز کیوں ظاہر ہو سکتا ہے۔
"امراء" صدام حسین اور صدر بشار الاسد جیسے لوگ ہیں۔ بادشاہوں اور ملکاؤں کو نور افشاں مسکراہٹ اور نرم لہروں کے ساتھ اچھی طرح سجا سنوار کر اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ ہم ان سے متاثر ہو جاتے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ ایک بادشاہ کا شاہی خاکہ مشرق وسطی اور اس کے علاوہ کے علاقوں میں ناعاقبت اندیش لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھایا جا رہا ہے۔
تاہم ان سفارتی ماہرین عالمی غم و غصہ کو بڑھاوا دینے کے لیے لسانیات کی عام طاقت کا استعمال کیا، جب کبھی بھی انہیں کوئی منافع بخش موقع ہاتھ لگا تو انہوں نے داخلی طور پر 'دہشت گردوں' کو 'باغی' قرار دیا ، اور 'بغاوت' کو 'نظم و نسق سنبھالنے' کا نام دے دیا۔
جب ہم سیاسی شور و غل پیدا کرنا چاہتے ہیں تو لفظ "ہلاک" کا استعمال کرتے ہیں اور جب شور و غل سیاسی طور پر تکلیف ہو تو ہم 'موت' کا استعمال کرتے ہیں۔
اب جبکہ سعودی انتظامیہ اور آئی ایس آئی ایس کے درمیان نظریاتی سرحدیں دن بہ دن دھندلی ہوتی چلی جا رہی ہیں، ہم غیر ضروری کاموں اور خرافات میں مصروف ہیں۔
ایسا نہ ہونے دیں۔
ایک غیر منتخب حکمران جو اکثر عجلت میں دقیانوسی اور اخلاقی وجوہات کی بناپر اپنے شہریوں کا عوامی طور سر قلم کرتا ہے اور کوڑے لگواتا ہے، سیاسی طور پر غیر مستحکم بے شمار ممالک میں اپنے انتہاپسند نظریات کی برآمدات کرواتا ہے اس کے لیے آسانی کے ساتھ "بادشاہ" سے بھی معمولی لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ماخذ:
http://www.dawn.com/news/1159990/call-them-dictators-not-kings
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/call-them-‘dictators’,-‘kings’/d/101256
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/call-them-‘dictators’,-‘kings’-/d/101441