فرح ناز زا ہدی
4 اکتوبر 2013
کراچی ۔ یہ تصور کہ کوئی ایک عقیدہ، فلسفہ یا نظریہ اپنے طور پر گذشتہ ہفتے پاکستانی شہر پشاور میں "آل سینٹس چرچ" پر ہونے والے اندوہناک خود کش حملے جیسے متشدد واقعات روکنے کے لئے کافی ہے، ناقابل فہم ہے۔ اس کے باوجود دہائیوں سے اس نقطہ نظر میں دلچسپ اضافہ دیکھنے کو آ رہا ہے کہ صوفی ازم پاکستان میں متشدد انتہا پسندی کا جواب ہے۔
سادہ الفاظ میں صوفی ازم کی تعریف اسلامی تصوف یا روحانیت کے طور پر کی جاتی ہے لیکن اکثر چیزوں کی طرح یہ اتنا عمیق اور وسیع تصور ہے کہ اتنی سادہ تعریفوں سے اس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ تاہم بلا شبہ محبت، امن اور قبولیت کے پیغامات اس کی بنیاد میں شامل ہیں۔
لیکن کیا صوفی ازم درحقیقت پاکستان میں متشدد انتہا پسندی کا ایک ممکنہ حل ہے؟ کیا یہ اس داخلی امن عمل کی گمشدہ کڑی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے؟ اس مشکل دور میں اکثر پاکستانیوں کو ہمارے صوفی بزرگوں کے نظریئے میں دانش نظر آتی ہے جن کا ایمان تھا کہ انسانیت کی خدمت خدا کے قرب کا یقینی راستہ ہے۔ ہمارے صوفی بزرگوں کے مرکزی پیغامات پر ایمان ایک اشد ضروری امید کا پتہ دیتا ہے۔ تاہم یہ سوچ شاید بہت سادہ لوحی پر مبنی ہو کہ صوفی ازم پاکستان میں انتہا پسندی کا تریاق ہے، بالخصوص جب اسے اسلام کی کٹر تشریحات کی مخالفت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے جو صوفی ازم سے تحریک لینے والے کرتے ہیں۔
پاکستان میں، جو ایک پیچیدہ معاشرہ اور یک سنگی کیفیت سے کوسوں دور ہے، کچھ ایسے لوگ ہیں جو مذہب پر جائز اور ناجائز کی سخت تشریح کے مطابق عمل کرتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کا جھکاؤ فقہ کی نسبت روحانیت کی طرف زیادہ ہے۔ اس بڑھتی ہوئی تقسیم کے ساتھ وہ لوگ جو ان کے درمیان میں ہیں اور دونوں نقطہ ہائے نظر کا احترام کرتے ہیں وہ ایک اقلیت بنتے جا رہے ہیں اور خود کو حاشیوں کی طرف دھکیلا گیا محسوس کرتے ہیں۔
مسئلہ اس حقیقت میں ہے کہ آج پاکستانی معاشرہ ان دو گروہوں، یعنی ایک جن کا رجحان صوفی ازم کی طرف زیادہ ہے اور دوسرے جو اسلام میں جائز اور ناجائز پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں، ایک دوسرے کا دشمن گردانتا ہے۔
ایک اور ستم ظریفی اس معاملے کی یہ ہے کہ گرچہ صوفی ازم کی روح یا اس کا مرکزی پیغام قبولیت ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صوفی ازم کے کچھ نوآموز علمبردار اسلام کی کٹر تشریح کے پیروکاروں اور صوفی ازم کو درست حل سمجھنے والوں کے درمیان پہلے سے ہی موجود خلیج کو مزید بڑھا رہے ہیں۔
یہ روش صوفی ازم کے مرکزی پیغامات سے متصادم محسوس ہوتی ہے۔
اس طرح ہم صوفی ازم کے مرکزی نکتے، یعنی ہر ایک کو آغوش میں سمو لینے اور نسل، زبان، ذات اور حتٰی کے عقیدے سے قطع نظر ہر قسم کو لوگوں کو قبول کرنے، کو کھو دینے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اس مسئلے کے حل کا ایک جز یہ ہو سکتا ہے کہ صوفی ازم سے تحریک لینے والے اس کے آزاد خیال علمبردار میدان وسطٰی میں موجود کچھ اسلامی دانشوروں کی کوششوں کا اعتراف کریں اور حقدار کو اس کا حق دیں۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کو اسلامی قانونی رائے دینے کے ذمہ دار دستوری ادارے، اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے لچک دکھانے کا حالیہ مظاہرہ ایک قابل غور پہلو ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں شامل مولانا طاہر اشرفی جیسے علما توہین رسالت کے قوانین کےمعاملے میں غلط الزامات کی مضبوطی سے مخالفت کر کے واضح طور پر معاشرے کے مختلف حصوں کے درمیان پل تعمیر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
لگتا ہے کہ گیارھویں صدی کے فارسی فقہ دان، عالم دین اور صوفی امام غزالی نے درست طور پر اس نکتے کو پا لیا تھا۔ وہ زیادہ دین دار اسلام اور صوفی ازم کے پیروکاروں کے درمیان پل بن گئے تھے۔ دونوں مکتبہ فکر کے پیروکاروں نے ثابت شدہ علم دین کے استعمال سے صوفی ازم اور دین داری میں مفاہمت پیدا کرنے اور صوفی ازم کے ذریعے دینیات کو مزید مضبوط کرنے کے لئے امام غزالی کے ذریعے باہمی تفہیم کو ترقی دی۔
شاید صرف ایک ایسے فلسفے کو تشدد کے حل کے طور پر پیش کرنے کی بجائے جس میں دوسروں کو غلط ثابت کرنے اور انہیں دفاعی پوزیشن میں لانے کا رجحان بھی ہے، مفاہمت اور تعاون زیادہ بہتر طریقہ ہے۔ اگر حل نہیں تب بھی کم از کم یہ امن کی سمت میں پیش رفت کا ایک قدم ہو سکتا ہے۔
٭ فرح ناز زاہدی ایک پاکستانی لکھاری اور مدیرہ ہیں۔ جن شعبوں پر وہ کام کرتی ہیں ان میں انسانی حقوق، صنف، امن اور اسلام شامل ہیں۔ آج کل وہ انگریزی روزنامہ "ایکسپریس ٹریبیون" کے ساتھ فیچر ایڈیٹر کے طور پر منسلک ہیں۔ وہ http://chaaidaani.wordpress.com/ پر بلاگ لکھتی ہیں اور ان کا "فوٹو جرنلزم" http://www.flickr.com/photos/farahnaz_zahidi/ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس Common Ground News Service (CGNews). کے لئے لکھا گیا۔
ماخذ: کامن گراؤنڈ نیوز سروس ﴿سی جی نیوز﴾، 4 اکتوبر 2013
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-politics/collaboration,-sufism,-answer-pakistan’s-violence/d/13782
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/collaboration,-sufism,-answer-pakistan’s-violence/d/13836