New Age Islam
Sat Jun 07 2025, 06:51 PM

Urdu Section ( 19 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Familiarity With Contemporary Narratives is Essential معاصر بیانیوں سے واقفیت ناگزیر

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

19 مئی 2025

یہ سچ ہے کہ دنیا کے تمام معلوم  نظاموں میں سب سے زیادہ متوازن اور مبنی برعدل نظام اسی کو کہا جاسکتا ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہو ۔ جس کے اندر حقوق  وفرائض اور انسانی احترام و تکریم کی تسلی بخش تشریحات موجود ہوں ۔ سماج میں پائے جانے والے ثقافتی تنوع میں یقین رکھتا ہو ۔ اس نظام و تاریخ کی تہذیب و تمدن اور معاشرت ایسے اصولوں سے آراستہ ہو جو اپنے دامن میں مثبت و تعمیری رجحانات کی علمبردار ہو ۔  اس تناظر میں جب ہم عالمی سطح پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام دنیا کا وہ واحد نظام ہے جس نے اپنے روز اول سے انسانی قدروں ، جغرافیائی و سماجی رابطوں کی تفریق و مخاصمت کو مٹانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ احترام آدمیت اور اکرام انسانیت جیسی تہذیب سے روشناس کراکے کائنات میں امن و آشتی اور خیر سگالی کے جذبہ کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ یہ بھی واضح رہے کہ اسلام جو تعلیمات و ارشادات معاشرے میں نافذ کرنا چاہتا ہے وہ آفاقی اور عالمی ہیں ان کی سماجی ، معاشی ، تہذیبی اور دینی وقعت و جامعیت ہے۔ تصور کیجیے جس مذہب میں اِنسانیت کا خیال رکھنے اور سماج میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کے لیے جن تعلیمات کو اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے وہ اپنے آپ میں ایک تاریخ رکھتی ہیں ان کا صالح اور پر امن معاشروں کی تعمیر میں جو کردار رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ حسن اخلاق پر زور دینا اور انسانی ضرورتوں کی تکمیل میں بلا تفریق مذہب و ملت بڑھ چڑھ کر حصہ لینا یہ اسلام کے ایسے روشن خطوط ہیں جن کی نظیر آج تک کوئی معلوم  تہذیب پیش نہیں کرسکی ہے ۔ اسلام کی  ان تمام تعلیمات کو جو چیز پاکیزہ بناتی ہے وہ ہے اعتدال و توازن کا فلسفہ۔

المیہ یہ ہے کہ معاصر رویے جو آج اسلام کے خلاف  پائے جارہے ہیں وہ ہٹ دھرمی ، جہالت اور نرے تعصب و تنگ نظری پر مبنی ہیں ۔ جتنے بھی اسلام مخالف بیانیے ترتیب دیئے جاتے ہیں وہ یوں ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ منصوبہ بند اور دانستہ طور مرتب کیے جاتے ہیں ان کا اپنا ایک مقصد ہوتا ہے وہ مقصد ہر کس و ناکس کے سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے اس سے فائدہ ان طاقتوں کو ہوتا ہے جو اس کی پشت پناہی کرتی ہیں ۔ اس لیے آج اسلام اور مسلم مخالف جو رویے اور بیانیے اپنے نئے اہداف اور مقاصد کے ساتھ  وقوع پذیر ہورہے ہیں ان کو ہمیں سمجھنے اور ان کے پس پردہ حقائق کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ذرا سوچیے! آج عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف جو باتیں اور سازشیں ہورہی ہیں ان کی بظاہر ہیئت سادہ اور معمولی معلوم ہوتی ہے مگر اس کے نتائج بڑے ضرر رساں ثابت ہورہے ہیں ۔ اسلام اور مسلم مخالف رویوں کے لیے آج جن ذرائع کا سہارا لیا جارہا ہے ان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی  پوری طرح شامل ہے ۔ دانستہ طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسا مواد فراہم کیا جاتاہے جسے پڑھ کر اور دیکھ کر نفرت پیدا ہوتی ہے ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ عام طور پر ایسے مسائل کو اٹھایا جاتا ہے جو نفسیات کو متاثر کرتے ہیں ۔ آج کا جو لبرل طبقہ یا جدید مزاج سے ہم آہنگ ہے وہ ان اعتراضات سے کافی متاثر ہو رہے ہیں ۔ غیر مسلم ہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مخالف رویوں اور بیانیوں کی اثر انگیزی اس قدر خطرناک ہوتی ہے کہ اس سے خود مسلم طبقہ بھی بڑی تیزی سے لپیٹ میں آرہا ہے ۔

مثلاً ہمارے صفوں میں ہی رہنے والے افراد بسا اوقات اسلام کی تعلیمات پر اعتراض کرتے نظر آتے ہیں اس کی وجہ ان کے ذاتی شکوک وشبہات نہیں ہیں بلکہ مسلم مخالف رویوں نے اسلام کی تعلیمات کو اس قدر سماج اور معاشرے کے لیے مضر بنا کر پیش کیا ہے جس کا نتیجہ  اس صورت میں سامنے آرہا ہے ۔ ان بیانیوں سے جو عہد حاضر میں مسلمانوں کے خلاف دییے جارہے ہیں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمان دفاعی پوزیشن میں رہیں ، تعمیری اور فکری طور پر کوئی عمل انجام نہ دے سکیں ۔ اب دیکھیے ! بھارت میں گزشتہ کئی برسوں سے جو تجزیے اور بیانیے مسلم مخالف اور اسلام مخالف آرہے ہیں ان تمام کی حیثیت دفاعی نوعیت کی ہے ۔ طلاق ثلاثہ ، حجاب اور دیگر اس نوعیت کے جو مسائل پیش کیے گئے ان کا دفاع کرنے میں مسلم کمیونٹی کو لگادیا گیا ۔  ان کی تمام تخلیقی اور تعمیری صلاحیتیں اسی میں لگی ہوئی ہیں ۔ یہ بات سب بخوبی جانتے ہیں کہ طلاق ثلاثہ ، تعدد ازواج یا حجاب سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے، پھر بھی ان مسائل کو سماج میں لایا گیا اور اس کے لیے برسوں میڈیا میں چلوایا گیا، اس  پر مباحثہ کیے گئے ، تاکہ عام رجحان مسلمانوں کے خلاف بنے ان کی عظمت رفتہ میں گہن لگے ۔  اس سے ظاہر ہے کسی ہندو یا کسی غیر مسلم کو یقینی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر جن کے اشاروں پر اس طرح کے بیانئے تیار کیے جاتے ہیں ان کو سیاسی طور پر خاصا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ ارباب اقتدار سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا، جن مدعوں پر انتخابات لڑا گیا تھا ان کے متعلق کوئی سوال نہیں کرے گا ، نوجوانوں سے لے کر خواتین اور بوڑھے تک سب اسی میں مگن رہیں گے کہ مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ ہو رہا ہے ۔ مہنگائی ، بے روزگاری اور دیگر وہ تمام سوالات خود بخود معدوم ہوجاتے ہیں جن سے جمہوری اداروں اور جمہوری روح کو نہ صرف تقویت ملتی ہے بلکہ  جمہوریت کی بقاء کے لیے لازمی ہیں ۔ ادھر مسلمان اپنے دفاع اور ان اعتراضات کے جوابات دینے میں لگے رہتے ہیں۔ اس طرح سے جال بنا جاتا ہے کہ پورا معاشرہ ایسے ہی لگا رہے  تاکہ سماجی حقائق اور زمینی مدعوں اور مسائل پر کسی طرح کی کوئی گفتگو نہ ہو ۔ یہ تمام کے تمام ایسے کھیل ہیں جن کو  صحیح معنوں میں سمجھ پانا عوام کے حصار سے کوسوں دور ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی شکل و صورت اور انداز و اسلوب اتنا پر لطف بنا کر پیش کیا جارہاہے کہ آج کا نوجوان بھی ان مخالف بیانیوں کے دام میں پوری طرح پھنس چکا ہے ۔ تعلیم یافتہ ہوکر بھی نہ اسے اپنے مستقبل کی فکر ہے اور نہ وہ اس سیاسی کھیل کو سمجھ پارہا ہے۔  وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر نوجوان طبقہ بیدار ہوگیا یا وہ اس کھیل کو سمجھ گیا تو اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرے گا ۔  اس لیے انہیں اسی طرح کے مسائل میں الجھا کر رکھا جائے ۔

اسلام مخالف بیانیوں کا بھارت میں جو انداز ہے اس کو سمجھنا بھارت کی گنگا جمنی تہذیب اور یہاں کے سماجی تنوع کے نظام کو باقی رکھنے کے لیے بھی لازمی ہے ۔ افسوس یہ ہے ان تمام رویوں کو مذہب کا رنگ دے کر پیش کیا جارہاہے جس سے مزید سماجی رابطوں میں کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت پیدا ہورہی ہے ۔  مذہب کا لبادہ اس لیے بھی اڑایا جا رہا ہے کہ مذہب کے نام پر ہی کسی بھی طبقہ کو جذباتی بنایا جاسکتا ہے اور پھر اسے اپنے مفادات کی بالادستی کے لیے استعمال کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے ۔

آج جس طرح سے اسلام مخالف رویوں میں شدت پیدا ہورہی ہے اور اس کے جو مایوس کن نتائج بر آمد ہورہے ہیں وہ یقینی طور پر ہر حساس اور باشعور فرد و طبقہ کے لیے پریشان کن ہیں۔ لہٰذا ان مخالف رویوں اور بیانیوں کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے بنیادی طور ہمیں بلا تفریق مذہب و ملت سماج میں کام کرنے کی ضرورت ہے البتہ اس طرح کی کاوشیں ہوبھی رہی ہیں ،ان کو مزید بڑے پیمانے پر انجام دینے کی ضرورت ہے ۔

سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ جتنا ہوسکے ان مخالف  بیانیوں کے اثر کو معاشرے سے کم کیا جائے اور اس کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ ہمیں محبت پر مبنی ادب کی بڑے پیمانے پر ترویج و اشاعت کرنے ہوگی ۔ تو وہیں ہمیں معاشرے میں پائے جانے والے تمام رجحانات اور نظریات سے واقفیت پیدا کرنی ہوگی تاکہ ان مخالف بیانیوں اور رویوں کی روح کو سمجھ کر ان کا جواب دیا جاسکے ۔ جس طرح منفی عوامل کو منظم اور منصوبہ بند طور پر پیش کیا جارہاہے اسی طرح اس کے قلع قمع کے لیے بھی منظم تداویر اختیار کرنی ہوں گی ۔ کیوں کہ یہ معاملہ نہایت سنجیدہ اور حساس ہے تو اس کا دفاع بھی بڑے حساس اور سنجیدہ انداز میں ہی کرنا ہوگا تبھی جاکر ہم مشترکہ اقدار کے تحفظ اور سماجی تنوع کے بقاء میں کامیاب کردار ادا کرسکتے ہیں ۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/familiarity-contemporary-narratives-essential/d/135582

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..