فیض الرحمٰن عمر
1 اگست، 2014
اسلام کی 14 سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے خلاف ہر دور میں زور آزمائی کی گئی ہے اور اس آفاقی مذہب کو مٹانے کے قدیم منصوبے کو مختلف رنگ و روپ دیئے گئے ۔ موجودہ اکیسویں صدی میں اسی تحریک کو مزید مضبوط کیا گیا اور اسلام کو قدامت پسند اور دہشت گرد جیسے اجنبی الفاظ سے یاد کیا جانے لگا۔حالانکہ حقیقت ا س کے خلاف ہے۔ اسلام کی آمد ہی دہشت گردی ، قتل وغارت گری اور کشت و خون کو ختم کرنے کے لئے ہوئی ہے۔ اسلام کا اولین مقصد امن و امان کا قیام ہے۔ درج ذیل سطور میں امن و امان سے متعلق اسلام کے نقطۂ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
غور و فکر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دہشت گردی کاپہلا سبب یہ ہے کہ دوسروں کو جبراً اپنے مذہب و عقیدہ کا متبع بنایا جائے جب کہ قرآن نے اس سلسلہ میں اپنا نظریہ واضح کردیا کہ دین کے معاملہ میں جبرواکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ( البقرہ : 256) کسی معاشرہ میں دہشت گردی کے پنپنے کا اصل سبب ظلم و نا انصافی ہے ، جو گروہ مظلوم ہوتاہے ، اگر وہ ظالم کامقابلہ نہیں کر پاتا اور انصاف کے حصول سے محروم رہتا ہے تو اس میں انتقامی جذبات پر ورش پاتے ہیں ۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ قانونی راستے بند ہیں تو غیر قانونی راستہ اختیار کرلیتا ہے ، اس لئے دہشت گردی کو روکنے کا مؤثر طریقہ یہ ہے کہ معاشرہ میں ظلم و جور کا دروازہ بند کیا جائے اور عدل و انصاف کو پوری غیر جانب داری کے ساتھ نافذ کیا جائے تاکہ دہشت گردی پر ابھارنے والے عوامل باقی نہ رہیں ۔
قرآن نے عدل و انصاف کے متعلق اپنے خیال کو نہایت سخت انداز میں واضح فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد ربّانی ہے : ‘‘ اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہےانصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کو دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی او رنا معقول کام سے تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھوو’’۔
دوسری جگہ فرماتاہے : ‘‘ کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز مت چھوڑو’’۔
انسان کے لئے مادی اعتبار سے سب سے اہم جان کی حفاظت اور زندگی کی سلامتی ہے۔ قرآن نے قتل ناحق کو خواہ کسی بھی انسان کا ہو، سخت گناہ قرار دیا ہے تاکہ معاشرہ کا امن و امان مفلوج نہ ہو اور خوف و ہراس پیدا نہ ہو۔ کسی کے مال کو ناجائز طریقہ سے ہتھیا لینے کی کوشش کرنے سے بھی معاشرہ میں دہشت گرد ی بڑھتی ہے ۔ قرآن نے اس بات کو سختی کےساتھ منع کیا ہے۔ اسی طرح کسی کی آبرو ریزی اور کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے سے بھی معاشرہ میں دہشت گردی پنپتی ہے ،قرآن نے اپنے پیروکاروں کو سختی کے ساتھ اس سے روکا ہے اور اس بات سے بھی روکا ہے کہ کسی کی بہو بیٹی پر نگاہِ غلط انداز ڈالی جائے : اس لئے قرآن نے نگاہوں کو نیچی رکھنے کاحکم دیا ہے ( النور : 31:32)
غربت و افلاس بھی معاشرہ میں دہشت گردی اور ظلم و تعدی کو ہوا دیتا ہے ، کیونکہ اس سے انسان بے چینی و بے کیفی کاشکار ہوجاتاہے ، ا س کی راحت قلبی اور طمانیت ذہنی ختم ہوجاتی ہے اور معاشرتی انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ مذہب اسلام نے اس پر روک لگانے کے لئے بیت المال کو مکلف بنایا ہے کہ ایسے افراد کو بیت المال سے اتنی رقم دی جائے کہ جس سے ان کی موجودہ پریشانی دور ہو اور وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکے ۔
الغرض اسلام اپنے ماننے والوں کو نہ صرف دہشت گردی کے اسباب سے دور رہنے کی ہدایت دیتا ہے بلکہ امن و امان کے قیام کی تعلیم بھی دیتا ہے، اسی لئے اس نے اپنے متبعین کے لئے ایسی تعبیرات کیں جن کے معنی ہی امن و امان اور صلح و شانتی کے ہیں یعنی مومن اور مسلم ۔ مومن کے معنی امن دینے والے کے ہیں او رمسلم کے معنی صلح پسند اور دوسروں کی سلامتی کالحاظ رکھنےوالے کے ہیں ۔
خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و امان کے لئے غیر اقوام سے معاہدے کئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے ‘‘ حلف الفضول ’’ میں شریک ہوئے جس کا مقصد مظلوموں کی بلا امتیاز نسل و قوم مدد کرنا تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ میں سننے والی تمام مذہبی اور نسلی اکائیوں کے درمیان باہمی امن ، مذہبی آزادی، ایک دوسرے کے احترام او رمدینہ کی مشترکہ مدافعت کے سلسلہ میں تحریری معاہدہ فرمایا ۔ صلح حدیبیہ میں بھی دس سال کے لئے جنگ بندی کا معاہدہ فرمایا ۔ قرآن بھی امن و امان کے قیام کی طرف متبعین کی خصوصی توجہ مبذول کرائی۔ فرمایا : ‘‘ اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا مت کرو’’( اعراف :56) ایک دوسری جگہ فرمایا : ‘‘ اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا ’’۔ ( قصص:77)
آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو ظلم اور تنگ نظری سےبچنے کی تاکید کی ۔ فرمایا : ‘‘ ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کی بدترین تاریکیوں کا ایک حصہ ہے۔’’( مسلم)
اسلام کے نظام حیات کا جائزہ لیا جائے، تب بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے ۔ اسلام کے نظامِ حیات کی بنیاد ہی امن و سلامتی پر رکھی گئی ہے ۔ اسلام نظام پانچ بنیادوں پر قائم ہے: (1) عقائد (2) عبادات (3) معاشرت (4) معاملات اور (5) اخلاقیات ۔ ان پانچوں میں امن و امان مضمر ہے ۔ عقائد کو ہی لے لیجئے ۔ ایک مومن یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ساری دنیا کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے وہی اصل حاکم او رمعبود ہے، سارے انسان ا س کے بندے اور اس کے محتاج ہیں اور اس کے احکام کے پابند ہیں ۔ علاوہ ازیں عقائد کا ایک اہم ترین عقیدۂ آخرت بھی ہے۔ مومن اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہے کہ دنیا دارالا متحان ہے، ایک دن دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور سارے انسان خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے ۔ وہاں پر ہر انسان کو اس کے اچھے یا برے اعمال کابدلہ دیا جائے گا ۔ جزا، سزا، حساب کتاب کا یہ عقیدہ انسان کو دنیا میں اس بات کا پابند بنا دیتا ہے کہ وہ کسی پر ظلم نہ کرے۔اسلام کا یہ ٹھوس عقیدہ دنیا میں امن و سلامتی کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔
اسلامی نظام کا دوسرا شعبہ عبادات کا ہے۔ اسلامی عبادات چار ہیں ۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ ان چاروں ارکانِ اسلام کا جہاں ایک بنیادی اور اہم پہلو عبادات کا ہے،وہیں تربیتی پہلو بھی ہے ۔ ساری بد امنی اور ظلم کی جڑ تکبر و سرکشی ہے۔ نماز کے ذریعہ انسان کی اس مہلک اخلاقی بیماری کا علاج کیا جاتا ہے۔ نماز کی حالت میں آدمی اپنے ماتھے کو خدا کے سامنے رگڑ کر اس بات کا اعتراف کرتاہے کہ بڑی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ، باقی سب چھوٹے ہیں۔ قیام و قعود ، رکوع او رسجود کے وقت بار بار اللہ اکبر کے الفاظ دُہراکر انسان اپنی بڑائی کو کچل دیتا ہے۔ نماز آدمی میں عجز و انکساری اور تواضع کی صفت پیدا کرتی ہے جو ظلم و تکبر کا توڑ ہے ۔ دن میں پانچ مرتبہ یہ مشق مومن کو عجزو انکساری کامجسمہ بنا دیتی ہے۔
روزہ کے ذریعہ جہاں متمول طبقہ میں بھوک پیاس کا احساس پیدا کیا جاتاہے اور ان کے اندر دوسرے بھائیوں کے ساتھ غم خواری پیدا ہوتی ہے ، وہیں نفساتی شہوتوں کو توڑا بھی جاتاہے جن کی رو میں آکر آدمی دوسروں پر ظلم ڈھانے لگتا ہے ، ہر طرح کی خواہشات کی تکمیل سے انسانی نفس مو ٹا ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں آدمی بے لگام ہوجاتا ہے ۔ انسانی نفس ہی ہر برائی کی جڑ ہے۔ رمضان کے پورے مہینے میں روزو ں کے ذریعہ نفس کو قابو میں رکھنے کی مشق کرائی جاتی ہے ۔ دنیا میں پائی جانے والی رسہ کشی کی ایک اہم وجہ انسانی طبقات میں پایا جانے والا معاشی عدمِ توازن ہے۔ مالی تفاوت ہر دور میں کمز ور طبقہ کو امیروں کے خلاف صف آرا کرتا رہا ہے اور دونوں طبقوں میں طویل کشمکش کا سبب بنتا رہا ہے اس لئے اسلام میں زکوٰۃ کانظام رکھا گیا ہے۔ امراء کے مال کا چالیسواں حصہ غریب طبقہ کو دیاجاتاہے جس سے ان دونوں طبقات کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہوجاتے ہیں۔ نسل و خاندان اور قومیت و وطنیت بھی انسانی سماج میں پائے جانےوالے ظلم کی ایک اہم وجہ رہی ہے۔ رنگ و نسل کی بنیاد پر دنیا میں سیکڑوں جنگیں لڑی گئی ہیں او رلاکھوں انسانوں کا خون بہا یا گیا ہے ۔ اسلام نے رنگ ونسل اور قومیت و وطنیت کے سارے امتیازات کو مٹا ڈالا اور بزرگی کا اصل معیار تقویٰ کو قرار دیا ۔ حج کے ذریعہ جہاں بندہ ، خدا کے ساتھ والہانہ عشق پیدا کرتاہے وہیں دنیا بھر کے مسلمان ہر طرح کے امتیازات کو مٹا دیتے ہیں ۔ اس طرح سے رنگ ونسل سے اٹھنے والا ظلم ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے ۔ الغرض تمام اسلامی عبادات انسانی افراد کی ایسی تربیت کرتی ہیں کہ جس کی وجہ سے ہر فرد ایک پر امن سماج کے قیام میں بھر پور تعاون کرتاہے۔
اسلامی نظام کا تیسرا شعبہ معاشرتی زندگی کا ہے۔ معاشرتی زندگی میں اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ آدمی ایسی زندگی گزارے کہ اس کی ذات سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے ۔ معاشرتی زندگی میں مختلف انسانوں سے سابقہ پڑتا رہتا ہے ۔ ایسے میں اگر آدمی دوسرے کو تکلیف پہنچائے گا تو پھر تعلقات میں ناچاقی پیدا ہوجائے گی اور ایک دوسرے پر زیادتی ہونے لگے گی۔ ا س کے برخلاف آدمی کا رہن سہن دوسروں کو تکلیف دینے والا نہ ہو تو پھر انسانوں کے تعلقات خوشگوار ہوں گے اور ظلم و ستم کا صفایا ہوگا ۔ ایسی معاشرتی زندگی گزارنے کے لئے اسلام حقوق کا ایک مکمل نظام پیش کرتا ہے اور مسلمانوں میں یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ ہر شخص دوسروں سے اپنے حقوق کے مطالبہ کے بجائے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی فکر اور کوشش کرے۔ والدین ، قرابت دار، پڑوسی ، ہم وطن اور مختلف تعلقات رکھنے والے انسانوں کے حقوق متعین کئے گئے ہیں ۔ موجودہ دور میں ساری بدامنی کی جڑ یہ ہے کہ ہر شخص دوسروں سے اپنا حق وصول کرناچاہتا ہے جب کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ حقوق ادائیگی اور ہر شخص کا حق حاصل ہونا اسی وقت ممکن ہے جب کہ سماج کاہر فرد دوسروں کے حقوق ادا کرنے والا بن جائے ۔ معاشرتی زندگی سے متعلق اسلامی نظام اس قدر ٹھوس ہے کہ اس سے ہر طرح کی بد امنی کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ تعلقات چاہے خاندانی سطح کے ہوں یا ملکی جب ان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو پھر خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے۔
اسلامی نظام حیات کا چوتھا شعبہ معاملات کا ہے ۔سماج کے مختلف لوگوں سے آدمی معاملہ کرتاہے، کسی سے کچھ لیتا ہے تو کسی کو کچھ دیتا ہے ، معاملات کے شعبہ میں اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لئے وہی پسند کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آدمی اپنی ذات کے لئے نقصان کو پسند نہیں کرتا تو دوسروں کے لئے بھی نقصان کو پسند نہیں کرنا چاہئے ۔ معاملات کے تمام اصولوں کی جڑ یہ ہے کہ اس سے نہ اس کو نقصان ہو اور نہ دوسرے کو نقصان ہو ‘‘ لا ضرر ولاضرار فی الاسلام ’’ چنانچہ اسلام ہر اس خرید و فروخت کو نا درست قرار دیتا ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو یا دھوکہ ہوسکتا ہو۔
ان سارے شعبوں میں پختگی پیدا کرنے کے لئے اسلام اخلاقیات کا نظام پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ انسان کے اندر ون کی اصلاح کی جاتی ہے، روحانی امراض کا علاج کیا جاتاہے ، بری خصلتوں کو ختم کرکے ان کی جگہ اچھی عادتوں کو پروان چڑھا یا جاتاہے ، تکبر کی جگہ تواضع ، حسد کے بجائے خیر خواہی و ہمدردی اور انتقام کی جگہ عفو و در گزر کے اوصاف پیدا کئے جاتے ہیں ۔ اس طرح اس پورے تربیتی نظام کے ذریعہ اسلام ایک سماج کو تشکیل دیتا رہا ہے ، جو سراپا امن و سلامتی کا خوگر ہے چنانچہ اس نظام کی روشنی میں تربیت یافتہ معاشرہ نے سارے عالم میں امن کو قائم کر کے دکھایا تھا ۔
خیر القرون کا دور اس کی گواہی دیتا ہے ۔
1 اگست، 2014 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/foundation-islamic-system-life-peace/d/98366