New Age Islam
Fri Mar 31 2023, 12:01 AM

Urdu Section ( 8 Jan 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam A Religion of Peace اسلام امن کا مذہب ہے

 

 فیصل شفیع واٹ

6 جنوری، 2015

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پشاور حملہ انسانیت پر ایک حملہ تھا، اس وحشیانہ حملے کے بعد جس نے ہم سے ہمارے عزیزوں کو چھین لیا ، بہت سے بد طینت لوگ دہشت گردی کی مذمت کرنے کے بجائے بنیاد پرستی کو اسلام سے منسوب کر کے دین اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کے بعد کے ہفتوں میں مجھے ایک اچھی تعداد میں میرے غیر مسلم دوستوں کے میل موصول ہوئے۔ مجھے ان کی نیت پر کوئی شک نہیں ہے لیکن ان کے مواد پر ایک سرسری نظر ڈالنا مجھے ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے الجھنوں کو سمجھنے کے لئے کافی تھا۔ جی ہاں، انہوں نے مجھ سے اسلام کے بارے میں سوالات کیے جس پر میں فخر کے ساتھ عمل کرتا ہوں اور جس کا چرچہ کرتاہوں۔

میں نے ان کے سامنے اسلام کا واضح پیغام پیش کرنے کا ارادہ کیا۔ عربی میں لفظ اسلام کا مطلب خود سپردگی اور اطاعت قبول کر لینا ہے۔ مسلمان وہ ہے جو خود کو مرضی مولیٰ کے حوالے کر دے۔ لفظ "سلم" وہ مادہ ہے جس سے لفظ اسلام اور سلام نکلتے ہیں۔

مسلمان دلیل، حکمت، تجارت اور دوسرے تمام ممکنہ ذرائع کا استعمال کر کے "امن قائم کرنے والے ہیں"۔ سلام ایک ایسا لفظ ہے جسے ہر روز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ملاقات کے وقت کہتے ہیں۔ قرآن کا فرمان ہے 'رحمٰن کے (سچے) بندے وه ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وه کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے' (قرآن مجید 25:63)۔ قرآن کریم اسے امن کا راستہ قرار دیتا ہے (5:16)۔

قرآن کا فرمان ہے کہ خدا امن میں کسی بھی خلل کو سخت نا پسند فرماتا ہے(2:205)۔ قرآن کی پہلی آیت ہی امن کا پیغام دیتی ہے۔ "اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور رحم والا۔ یہ آیت قرآن میں 114 مرتبہ سے بھی زیادہ مذکور ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہو تا ہے کہ اسلام نے رحمت اور شفقت کو کتنی اہمیت دی ہے۔

قرآن مجید کے مطابق خدا کے ناموں میں سے ایک نام سلام ہے جس کا مطلب امن ہوتا ہے۔ یہ بات اب واضح ہو چکی کہ اسلام امن پر زور دیتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے (21:107

قرآنی آیات براہ راست یا بالواسطہ طور پر امن پر ہی مبنی ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق مثالی معاشرہ دار السلام ہے جو کہ امن کا گھر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں امن کا ایک خاص معنی ہے۔

قرآن مجید میں امن کے تصور کا حوالہ بار بار دیا گیا ہے۔ ایک شخص اپنے اہم جذبات (خواہشات اور غصہ) اور اپنی روحانی خودی اور اپنے ضمیر کے مابین ہم آہنگی اور توازن پیدا کر کے روحانی امن و سکون حاصل کر سکتا ہے۔ انسان کی روحانی طاقت یا اس کا ضمیر کوئی مستحکم رجحان نہیں ہے/  کیوں کہ اس میں  ارتقاء کے ساتھ ساتھ اور فساد کی صلاحیت بھی موجود ہے۔

اللہ انسان کی روح کی قسم کھا کر فرماتا ہے۔"پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی، جس نے اسے پاک کیا وه کامیاب ہوا، اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وه ناکام ہوا"۔ (قرآن؛ سورۃ: 91، آیت 10)

اسلام یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ انسان امن کی حالت میں نہ ہو اس لیے کہ اس کا مقصد روحانی ترقی، دانشورانہ عروج، کردار کی تعمیر، سماجی اصلاحات، تعلیمی سرگرمیاں اور سب سے بڑھ کر دعوت کا کام ہے جو کہ صرف ایک پرامن ماحول میں ہی پورا کیا جا سکتا۔

اسلام کے مطابق امن صرف جنگ کا نہ ہونا ہی نہیں ہے، امن کسی بھی صورت حال میں موجودہ تمام قسم کے مواقع کے دروازے کھولتا ہے۔ اور صرف پرامن صورت حال میں ہی منصوبہ بند سرگرمیوں کا انجام پانا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کا فرمان ہے کہ مصالحت سب سے اچھی پالیسی ہے (4:128

بدقسمتی سے، کچھ لوگ انصاف سے امن سکون کو الگ کر کے دیکھتے ہیں، لیکن اسلام اس تصور کو مسترد کرتا ہے۔  اسلام امن پر یقین رکھتا ہے اور ایک مشن کے طور پر امن کو برقرار رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ہمیشہ انصاف کے لئے کام کرنے کے لئے پر امن حالات کو ایک اچھا موقع سمجھاہےاور اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی براہ راست امن سے انصاف کو الگ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مخالفین کے درمیان حدیبیہ کا امن معاہدہ اس کی ایک واضح مثال ہے اس لیے کہ اس میں انصاف کے حوالے سے اس میں کوئی شق نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدے کو قبول کر لیا اس لیے کہ اس سے انصاف کے لئے کام کرنے کی راہیں ہموار ہوئیں۔

اسلام کے مطابق امن ہی ضابطہ حکومت ہے اور جنگ صرف ایک استثنائی صورت حال ہے۔ جہاد کا لفظی معنیٰ کوشش کرنا یا جدوجہد کرنا ہے۔ قرآن کا فرمان ہے کہ قرآن مجید کی مدد سے عظیم جہاد کرو (25:52)۔ قرآن صرف ایک کتاب کوئی تلوار نہیں لہٰذا "جہاد عظیم کرو" کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی نظریاتی قوتوں کی مدد سے عظیم جہاد کرو۔

حقیقت میں جہاد ایک پرامن سرگرمی کا دوسرا نام ہے۔ اور پرامن سرگرمی ہی صرف ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے اسلام اپنے تمام اغراض و مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  صرف مذہبی ظلم و ستم کے تشدد آمیز نظام کے خاتمے اور بنی نوع انسان پر مذہبی آزادی کا دروازہ کھولنے کے لیے جنگ کا سہارا لیا۔

تاہم یہ آپریشن اپنی نوعیت کے اعتبار سے محض عارضی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ " اللہم انت السلام و منک السلام و الیک یرجع السلام، فحینا ربنا بالسلام و ادخلنا الجنۃ دار السلام" ترجمہ: اے اللہ تو ہی امن و سلامتی کا مصدر و منبع ہے اور سلامتی کا صدور تجھ سے ہی ہوتا ہے اور سلامتی تیری ہی طرف لوٹتی ہے، لہذآ، اے ہمارے رب ہمیں امن و سلامتی میں زندہ رکھ اور سلامتی والے گھر جنت میں ہمیں داخل فرما۔

اب ہمیں قرآن کی تعلیمات اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور ارشادات کو امن اور خوشحالی حاصل کرنے کے لئے فروغ دینا چاہیے۔

ماخذ:

http://www.risingkashmir.com/islam-a-religion-of-peace

URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/islam-religion-peace/d/100880

URL for this article:  https://newageislam.com/urdu-section/islam-religion-peace-/d/100919

 

Loading..

Loading..