New Age Islam
Tue May 20 2025, 12:03 AM

Urdu Section ( 17 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The New Face of Palestinian Resistance فلسطینی مزاحمت کا نیا رُخ

رمزے بارود

17 اکتوبر 2023

گزشتہ ہفتے سنیچر (۷؍اکتوبر) کو حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کردیا جس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں ۔ اس سلسلے میں  حماس کی مؤثر حکمت عملی اور فلسطینی مہم میں  سرگرم تنظیموں  کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس حملہ کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اب فلسطینی تنگ آ چکے ہیں ۔۱۷؍ سال پہلے اسرائیل نے غزہ پٹی کا مکمل محاصرہ کیا تھا جو آج تک جاری ہے۔ اس محاصرہ پر دو مختلف آراء پیش کی جاتی ہیں ۔ کچھ کے نزدیک یہ اقدام اجتماعی سزا دینے کا ایک غیر انسانی طریقہ ہے جبکہ دیگر اسے ’’نام نہاد فلسطینی دہشت گردی‘‘ سے اسرائیل کی حفاظت کیلئے ضروری مانتے ہیں ۔

 تاہم، اس بحث میں  ان ۱۷؍ برسوں  کا ذکر نہیں  ہوتا جن میں  پوری ایک نسل پرورش پائی ہے۔ اس نسل نے محاصرہ میں  اپنی زندگی گزاری ہے اور مزاحمت کا راستہ اپنا کر اپنی آزادی کیلئے لڑنا سیکھا ہے۔ ’’بچوں  کا تحفظ‘‘ (سیو چلڈرن) نامی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں  رہنے والے۲۳؍ لاکھ افراد میں  تقریباً نصف آبادی بچوں  کی ہے۔ فلسطینیوں  کی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی ضرور بتائی جانی چاہئے کہ نصف سے زائد آبادی نے کبھی اس چھوٹے، غربت زدہ اور صرف۳۶۵؍ مربع کلومیٹر رقبہ والے غزہ شہر سے کبھی باہر قدم نہیں  رکھا۔یہ اعدادوشمار فلسطین کی حقیقت ہیں  مگر ایک پیچیدہ داستاں  کا چھوٹا ہی سا حصہ ہیں ۔

 غزہ کے اسرائیلی محاصرہ کے دوران جوان ہونے والی یا محاصرہ کے بعد پیدا ہونے والی اس نسل نے پانچ بڑی اور تباہ خیز جنگیں  دیکھی ہیں  جن میں  اسرائیل کا اہم نشانہ فلسطینی بچے، ان کے والدین اور بہن بھائی تھے۔ سن تزو نے اپنی کتاب ’’دی آرٹ آف وار‘‘ میں  لکھا تھا کہ ’’ اگر آپ اپنے دشمن کو پوری طرح گھیر لیتے ہیں  اور انہیں  بچ نکلنے کا کوئی موقع نہیں  دیتے، نہ ہی انہیں  پناہ دیتے ہیں  تو وہ اپنی آخری سانس تک آپ کے خلاف لڑیں  گے۔‘‘ اسرائیل کا یہ سلوک فلسطینیوں  کے ساتھ برسوں  سے جاری ہے۔ اور اس کی یہی حکمت عملی اسرائیل کیلئے ایک بڑی غلطی ثابت ہوئی ہے۔ فلسطینیوں  کو غزہ محاصرے کی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے اور بڑی تعداد میں  جمع ہو کر احتجاج کرنے کی بھی آزادی نہیں  تھی۔

 ’’عظیم واپسی مارچ‘‘ جیسے عوامی مظاہروں  میں  شرکت کرنے والے مظاہرین کو اسرائیلی فوج نے اپنی بندوقوں  سے بھون دیا تھا۔ نوجوان اپنے زخمی ساتھیوں  کو ہاتھوں  میں  اٹھا کر نعرۂ تکبیر بلند کرتے تھے۔ غزہ کی سرحد پر یہ نظارہ معمول بن گیا تھا۔ جیسے جیسے اموات بڑھتی گئیں ، ان مظاہروں  میں  میڈیا کی دلچسپی ختم ہوتی ہوگئی۔

 ۷؍ اکتوبر کو چار مختلف راستوں  سے اسرائیل میں  داخل ہونے والے سیکڑوں  جیالے کوئی اور نہیں  بلکہ وہی فلسطینی نوجوان ہیں  جو جنگ، محاصرہ اور ایک دوسرے کی حفاظت کرنے کے سوا کچھ نہیں  جانتے۔انہوں  نےغزہ کے نامساعد حالات میں  زندہ رہنے کا فن سیکھا ہے جہاں  صاف پانی اور درست طبی نظام جیسی بنیادی سہولیات بھی نہیں  ہیں ۔یہی وہ مقام ہے جہاں  غزہ کی نوجوان نسل کے راستے حماس یا دیگر مزاحمتی تنظیموں  کے ساتھ ملتے ہیں ۔جی ہاں ! حماس نے اسرائیل پر مسلح کارروائی کرنے کیلئے صحیح وقت اور مناسب طریقہ کار سے کام لیا۔ اس حقیقت سے پردہ پوشی بالکل ممکن نہیں  ہے کہ اسرائیل نے ان نوجوان فلسطینیوں  کیلئے لڑنے کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں  چھوڑا تھا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ویڈیوز میں  دیکھا جاسکتا ہے کہ فلسطینی نوجوان، عربی زبان میں  اپنے سخت مگر درد بھرے لہجے میں  آواز بلند کررہے ہیں  کہ ’’یہ میرے بھائی کیلئے‘‘، ’’یہ میرے بیٹے کیلئے۔‘‘ انہوں  نے خوفزدہ اسرائیلی باز آباد کاروں  اور فوجیوں  پر گولیاں  چلاتے ہوئے ایسے کئی جملے کہے جن سے ان کا غصہ اور درد جھلکتا ہے۔ انہیں  غیض و غضب کے عالم میں  دیکھ کر کئی اسرائیلی فوجیوں  نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور فرار ہوگئے۔

 اس جنگ کا نفسیاتی اثر ان کے دلوں  سے اکتوبر۱۹۷۳ء کی شکست کو زائل کردیگا جس میں  عرب افواج نے پہلے پہل فتوحات حاصل کیں  لیکن اسرائیلی فوج کے غیر متوقع حملہ کے پیش نظر اسے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ مگر اس دفعہ اسرائیلیوں  کی سوچ پر گہرا منفی اثر پڑے گا جس کی وجہ سے جنگ کا نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔

 اکتوبر۲۰۲۳ء کا یہ غیرمتوقع اور اچانک حملہ اکتوبر۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ سے براہ راست منسلک ہے۔ عربوں  نے جس دن اسرائیل کے خلاف عظیم فتح درج کی تھی، اسی دن کی ۵۰؍ ویں  برسی کا انتخاب کرکے فلسطینی مزاحمت کاروں  نے عربوں  کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ ۵۰؍ سال قبل کی طرح آج بھی عرب ممالک اورعرب عوام کا مقصد فلسطین ہونا چاہئے۔ اس مہم میں  پورے عرب کی شمولیت منصوبہ بند ہے۔ القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد دیف، اس کے بانی صالح الاروری اور ترجمان ابوعبیدہ، اور حماس کے سیاسی بیورو کے صدر اسماعیل ہانیہ کے بیانات میں  اس کے حوالے ملتے ہیں ۔یہ سبھی کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں  اور اصرار کررہے ہیں  کہ فلسطین خطہ عرب کا ایک جزو لاینفک ہے اور انصاف کیلئےاسلامی جدوجہد، وقار اور مجموعی اعزاز کا حامل ہے۔حماس نے اسے ’’آپریشن طوفانِ اقصیٰ‘‘ کا نام دیا ہے جس کے ذریعہ ایک دفعہ پھر فلسطین اور عرب کی مرکزیت اور بیت المقدس اور یروشلم کے مقدس مقامات کے سلسلے میں  مسلمانوں  کو اتحاد کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ عربوں  کے آپسی تعاون اور بہادری سے اسرائیل سمیت کئی ممالک حیران ہیں ۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی مظالم کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں  اور ظالم اسرائیلیوں  کا رشتہ ایک نیا موڑ لے گا۔ جنگ کے دوران فلسطینیوں  نے کسی بزرگ اور بچے کی جان نہیں  لی۔ ان کے اس اقدام سے عالمی سطح پر یہ مثبت پیغام جائے گا کہ فلسطینی مزاحمت عالمی قوانین کا لحاظ کرتی ہے۔ دوسری جانب، اسرائیل کی شبیہ خراب ہوچکی ہے۔ اس کی بنیادی کمزوریاں  سامنے آئیں  ہیں ، مثلاً اس کی فوج میں  نظم و ضبط نہیں  ہے، سماج منقسم ہے اور ملک کی سیاسی قیادت صرف اپنا مفاد اور بقا چاہتی ہے۔ جنگ میں  اسرائیل ہزاروں  فلسطینیوں  کو قتل کرچکا ہے اور مستقبل میں  بھی اس کا ظلم جاری رہے گا لیکن وہ اپنی شبیہ سدھار نہیں  پائے گا۔ اس غیر متوقع جنگ کے نتیجہ پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر یہ واضح ہے کہ اس جنگ کے بعد اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کے بنیادی تعلقات ہمیشہ کیلئے تبدیل ہو جائیں  گے۔

17 اکتوبر 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/face-palestinian-resistance/d/130916

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..