سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
25جون 2022
اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا
مفہوم یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت کی ہی طرح صاف، بے لوث اور سادہ ہے۔ اس کی شریعت
اور اس کے اصول و قوانین عین انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ لیکن مسلمانوں رفتہ رفتہ
دین اسلام میں ایسے رسوم اور بدعات داخل کر دئیے جن کا اسلام کے بنیادی احکام سے
کوئی لینا دینا نہیں ہے اور ان عقائد کی کوئی دلیل یا جواز قرآن یا سنت میں نہیں
ہے۔
یہ غیر اسلامی عقائد
اسلام میں دین میں مبالغہ آمیزی یا غلو کی وجہ سے داخل ہوئے ہیں ۔مبالغہ آمیزی
انسانی فطرت ہے اور یہ ایک غیر عقلی اور غیر متوازن طرز فکر ہے۔ انسان مبالغہ یا
تو محبت میں کرتا ہے یا نفرت میں۔ انسان کو جس چیز یا جس شخص سے محبت ہو اس کی
خوبیوں کے بیان میں مبالغہ کرتا ہے اور جس چیز یا جس شخص سے نفرت کرتا ہے اس کی
خامیوں کے بیان میں بھی مبالغہ سے کام لیتا ہے۔
یہی حال قوموں کا ہے۔
قومیں خود کو دوسری قوموں سے افضل قرار دیتی ہیں ۔ اسی طرح مذہب کے معاملے میں بھی
ایک مذہب کے لوگ مبالغے سے کام لیتے ہیں اور اس مبالغہ آمیزی کی وجہ سے دین میں
بدعات اور غیر عقلی عقائد اور رسوم ورواج داخل ہو جاتے ہیں۔
قرآن نے مسلمانوں ہی کو
نہیں تمام انسانوں سے غلو اور مبالغہ آمیزی سے منع کیا ہے۔ قرآن پچھلی قوموں کے
ذریعہ غلو کا ذکر کیا ہے اور غلو کے نتیجے میں در آنے والے غیر اسلامی عقائد کا رد
کیا ہے۔
قرآن اہل کتاب یعنی
عیسائیوں سےسورہ النسا کی آیت نمبر 171 میں کہتا ہے:
۔۔"اے اہل کتاب، مت مبالغہ کرو اپنے دین کی بات میں اور مت
کہو اللہ کی شان میں سوائے حق بات کے۔ بیشک مسیح عیسی بن مریم اللہ کا رسول ہے اور
اس کا کلام ہے جس کو ڈالا مریم کی طرف اور اس کے ہاں کی روح ہے۔ سو مانو اللہ کو
اور اس کے رسولوں کو اور نہ کہو کہ خدا تین ہیں۔ اس بات کو چھوڑو بہتر ہوگا تمہارے
واسطے۔ بیشک اللہ معبود ہے اکیلا اس کے لائق نہیں کہ اس کی اولاد ہو۔ اسی کا ہے جو
کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمہین میں ہے اور کافی ہے اللہ کارساز۔"۔
قرآن نے عیسائیوں پر یہ
بات واضح کردی کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق ان کے کچ عقائد غلو پر مبنی ہیں
۔انہوں نے تثلیث کا جو عقیدہ وضع کیا ہے
وہ دین کی اصل روح کے منافی ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں ان کو
اللہ کا بیٹا کہنا غلط ہے۔
پچھلی قوموں نے اپنے مذہب
کے معاملے میں غلو سے کام لیا اور ایسی باتیں کہیں جو دین ابراہیمی کی روح کے
منافی تھیں۔ انہوں نے خصوصا اپنے انبیا کے متعلق غلو سے کام لیا۔ قرآن کہتا ہے کہ
قوم یہود اپنے نبی حضرت عزیر علیہ السلام کے متعلق بھی غلو سے کام لیتے تھے وہ
انہیں خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ سورہ التوبہ کی آیت نمبر 30 میں قرآن ان کے اس باطل
عقیدے کا رد کرتا ہے۔
۔۔"اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاری نے کہا
کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔یہ باتیں کہتے ہیں اپنے منہ سے ۔ریس کرنے اگلے کافروں کی
باتوں کی۔ ہلاک کرے ان کو کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔۔"۔
اتنا ہی نہیں یہودی اور
نصرانی اپنے متعلق بھی غلو سے کام لیتے تھے۔ وہ خود کو اللہ کے بیٹے اور اس کے
چہیتے سمجھتے تھے ۔قرآن سورہ المائدہ آیت نمبر 18 میں ان کے اس عقیدے کا رد کرتا
ہے۔
۔۔" اور کہتے ہیں یہود و نصاری ہم بیٹے ہیں اللہ کے اور اس کے
پیارے تو کہہ پھر کیوں عذاب کرتا ہے تم کو تمہارے گناہوں پر , کوئی نہیں بلکہ تم
بھی ایک آدمی ہو اس کی مخلوق میں۔۔"۔
خدا نے قرآن میں پچھلی
قوموں کے غلو پر مبنی عقائد کا رد اور توڑ کردیا ہے اور مسلمانوں کو بھی دین کے
معاملے میں غلو سے بچنے کی تلقین کی ہے۔گذشتہ قوموں کی غلطیوں کے پیش نظر اللہ نے
مسلمانوں کو بھی دین کے معاملے میں اور اپنے نبی نے کے معاملے میں بھی غلو سے بچنے
کی تلقین کی۔ قرآن میں الہ نے پیغمبر اسلام ﷺ کے کرربہ و مقام کو بیان کردیا اور
ان کے تقدس واحترام کا پاس رکھنے کی تلقین کی۔
مسلمانوں نے قرآن کی اس
نصیحت سے کوئی سبق نہیں لیا اور مبالغہ آمیزی میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے غلو پر
مبنی ایسے عقائد وضع کر لئیے جن کی سند قرآن اور حدیث میں نہیں ہے۔ مسلم معاشرے
میں غلو پر مبنی بدعات اور خرافات نے مذہبی اور سماجی بگاڑ پیدا کردیا ہے۔ مسلمان
نماز اوردیگر بنیادی احکام کی خلاف ورزی تو کرتے ہیں مگر غیر اسلامی رسم ورواج کی
دین کا بنیادی عمل سمجھ کر پیروی کرتے ہیں۔قرآن مسلمانوں کو ان غیر اسلامی رسوم
وعقائد سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism