New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 11:31 PM

Urdu Section ( 22 Feb 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Even If You Are Living In the Era of Sorrow, Live With a Smile غموں کادو ر بھی آئے تو مسکراکے جیو

مفتی ثناء الہدی قاسمی

21فروری،2025

زندگی میں بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جب آدمی پر خوشی یا غمی کا غلبہ ہوتاہے۔ ان دونوں موقع سے آدمی بے خود ہوجاتاہے، اپنے میں نہیں رہتا۔ یہ انسانی سرشت ہے۔شریعت چاہتی ہے کہ ان دونوں موقعوں سے بھی آدمی قابو میں رہے۔بے پناہ خوشی کے موقع سے وہ لہوولعب میں مبتلا نہ ہو اور غم کی پرُوائی اسے مایوسی میں مبتلا نہ کرے۔ اسے احساس رہے کہ معاملہ خوشی کا ہو یا غمی کا،سب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ وہ حکیم ہے اوراس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا۔ اللہ ایک معتدل زندگی گزارنے کی تلقین کرتاہے۔ اس لیے وہ زیادہ ہنسنے کو منع کرتاہے او رہنسنے کی بجائے اللہ کے سامنے رونے کاحکم دیتا ہے۔کم ہنسو اور زیادہ روؤو، جو اعمال ہم کرتے ہیں، اس کا تقاضہ یہی ہے۔اسی طرح وہ ناامید ہونے کو بھی پسند نہیں کرتااور بندے کو حکم دیتاہے کہ اسے اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوناچاہئے، کیونکہ ناامید وہی ہوتے ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے۔

اس اعتدال، توازن کے ساتھ جب زندگی گزرتی ہے تو غم کے موقع سے بھی خوشی کا پہلو نکل آتاہے۔ مثلاً آپ کثیر العیال ہیں اور رزق کی تنگی کاسامناہے۔ دن بھر محنت کرتے ہیں، کوئی آپ کے کان میں سرگوشی کرتاہے کہ یہ ساری پریشانی زیادہ بچوں کی وجہ سے ہے۔ اگر ہم دوبچوں کے باپ سو چتے ہیں کہ میرے آنگن میں جوبچوں کی کلکاریاں اور گھروں میں روشنی ہے وہ ان بچوں کے ہی دم قدم سے ہے۔ اگر یہ بچے نہ ہوتے تو گھرکیسا ویران لگتا،یہ پریشانی میں خوشی کی بات نکل آئی۔ یہ سوچ کر آپ کے ذہن ودماغ پرجو بوجھ تھا وہ اتر جائے گا۔ آپ سو چیں گے کہ کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے،یہ بچے اپنے ساتھ دوکمانے والے ہاتھ اور ایک سوچنے والادماغ بھی لے کر آئے ہیں۔ یہ بڑے ہوں گے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں گے۔میراخیال رکھیں یا نہیں، لیکن اپنی زندگی گزارنے کے وہ لائق ہوجائیں گے تومیرا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔ گھرمیں آپ کی بیوی کو بھی ان بچوں کی وجہ سے دن بھر کام میں لگا رہناپڑتا ہے۔ بچوں کے کپڑے دھونا، اسکول جانے کے پہلے انہیں ناشتہ کھلاکر تیار کرنا، دن کا کھانا ساتھ کرنا، اسکول سے لوٹیں تو پھر سے ان کاموں پرلگ جانا، جسمانی، دماغی ہر طرح کی مشقت کا سامنا ہے، لیکن اگر آپ کی بیوی عقل مند ہے تو اس میں اس کے لیے خوشی کابھی پہلو ہے کہ وہ بچے اس کی ممتا کو تسکین دیتے ہیں اورعورت کودنیاوی اعتبار سے اپنے جینے کا ایک مقصد سمجھ میں آتا ہے، وہ ان بچوں کے لیے جیتی ہے اور ان کی ترقیات دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔کسی کا شوہر بہت خراٹے لیتاہے، وہ ان خراٹوں کی آواز سے رات بھر سونہیں پاتی ہے۔ اسے اس صورت حال سے پریشانی ہے، لیکن وہ اس پریشانی میں خوشی کاپہلو ڈھونڈھتی ہے کہ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ میرے شوہر میرے پاس رہتے ہیں اوران کے خراٹے ہمیں ان کے پاس ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ وہ ہم سے دور ہوتے، کہیں پردیس میں رہتے تو میں کیسی تنہائی محسوس کرتی او رزندگی کس قدر بے رس او ربے مزہ ہوتی، خراٹے ان کی زندگی کا ثبوت ہیں اور اس کا بھی کہ وہ میرے پاس موجود ہیں۔

آپ کی آمدنی محدود ہے او رہر مہینے آپ کوبجلی،پانی، گیس وغیرہ کابل جمع کرناپڑتاہے۔ اس کا بوجھ آپ کی جیب پرپڑتا ہے، جو آپ کوملول کرتاہے،لیکن خوشی کایہ پہلو اس میں ہے کہ یہ چیزیں آپ کومہیا ہیں۔ ذرا تصور کیجئے ایسی آبادی کا جہاں ابھی بجلی نہیں پہنچی ہے، پانی کی سطح زیر زمین اس قدر نیچے چلی گئی ہوکہ آپ پینے کے پانی کے لیے پریشان ہورہے ہیں، ایندھن کے لیے آپ پریشان ہیں، گیس نہیں مل رہی ہے۔ ایسے میں آپ کی زندگی کس قدر دشوار ہوتی، لیکن ان چیزوں کی سہولت نے آپ کی زندگی کو کس قدر خوشگوار بنادیاہے۔ آپ کالڑکا روز صبح اٹھ کر اپنی ماں سے جھگڑا کرتاہے، کہ مچھر اور کھٹمل نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا، جھگڑا بُری چیز ہے، اسے نہیں کرناچاہئے، لیکن اس کا خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ وہ رات بھر گھر پررہتا ہے۔آپ کے پڑوس میں رہ رہے نوجوانوں کی طرح آوارہ گردی نہیں کرتا، وہ برُی صحبت میں مبتلا نہیں ہے، وہ مچھر،کھٹمل کے آزاد برداشت کرتاہے، لیکن رات گھر ہی میں گزارتا ہے۔ ذرا سوچئے جو بچے رات رات بھر گھر سے باہر رہتے ہیں، ان کے گارجین کو کس قدر کلفت اٹھانی ہوتی ہے۔ خود ان بچوں کی صحبت ایسے لوگوں سے ہوجاتی ہے جو بعد میں خاندان کے لیے ننگ وعار کا سبب ہوجاتاہے۔ کبھی کبھی وہ ان کاموں میں مبتلا ہوجاتا ہے جو تھانے پولیس تک اسے پہنچا دیتاہے اور آپ وکیلوں کے چکر لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایک آدمی ہسپتال میں پڑا ہوا ہے۔یقینا یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہے، اسی درمیان اس کے گاؤں میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا، گاؤں کے لوگ اس میں ہوتے تو دوسروں کے ساتھ ہم بھی ملوث ہوجاتے اورہمیں بھی ان مسائل کاسامنا کرناپڑتا، جس سے گاؤں کے لوگ جو جھ رہے ہیں۔

یہ اور اس قسم کی بہت ساری مثالیں آپ کومل جائیں گی، جو غم ناک اورالمناک موقعوں سے بھی آپ کے ذہن میں یک گونہ خوشی ا حساس جگائیں گی اور آپ اللہ کے فیصلے پرراضی تو ہرحال میں ہونا اور رہنا ہے، اس سے مفر نہیں،لیکن رضا کا ایک درجہ ہنسی خوشی ہے اور ایک بجبرواکراہ اورظاہر ہے دونوں کا جو فرق ہے وہ ہر ایک پر واضح ہے۔خوشی رہنے کے اس فارمولے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کاذہن نئے منصوبوں کے بنانے اور عملی پیش رفت کے لیے تیار رہتاہے۔ اس کے برعکس جب غم والم کی کیفیت ذہن ودماغ پر طاری ہوتو مایوسی کاغلبہ ہوتاہے اور مایوس انسان ڈپریشن اوراحساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔مایوسی او رڈپریشن کے ساتھ تعمیری کاموں کانہ تو کوئی منصوبہ ذہن میں آتاہے او رنہ ہی کام کو آگے بڑھانے کا حوصلہ انسان اپنے اندر پاتاہے۔ اس لیے خوش رہیے، نہیں رہ پاتے تو خوش رہناسیکھئے۔ بامقصد زندگی گزارنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔ایک عربی شاعر نے بڑی اچھی بات کہی کہ جب مصائب تم پر شدید ہوں تو سورہ الم نشرح میں غور کرو، تمہیں معلوم ہوگاکہ عسر (پریشانی اور تنگی) دو آسانیوں کے درمیان ہے، یعنی کوئی پریشانی جو آتی ہے اس کے پہلے بھی آسانی کادور گزرتاہے اوربعد میں بھی آسانیاں آنے والی ہوتی ہیں، اس زاویے سے غور کریں گے تو غموں کے دور میں بھی مسکرا کر جینا آجائے گا۔

21فروری،2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/even-living-era-sorrow-smile/d/134697

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..