ایڈون ایس جے، نیو ایج اسلام
جنوری کے اوائل میں، (آئی سی پی[Interfaith Coalition for Peace]) نیو دہلی میں "عیسائی مسلم تعلقات: چیلنجز اور امکانات" کے موضوع پر [theMarkfield] انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن، لیسٹرشائر، برطانیہ کے پروفیسر عطاء اللہ صدیقی کی نے ایک خطاب کا اہتمام کیا۔
اپنے طویل خطاب میں پروفیسر صدیقی نے کہا کہ عیسائی مسلم مکالمہ نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ انہوں نے اس طرح کے مکالمے کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے مختلف مسائل، پریشانیوں اور امکانات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مغرب میں عیسائی مسلم تعلقات کا تاریخی جائزہ بھی پیش کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب مسلم تارکین وطن یورپ پہنچے تو بہت سے مختلف گرجا گھروں نے اپنے نئے پڑوسیوں کے لئے عبادت اور تعلیم کے لیے جگہوں کا انتظام کیا۔ ان علاقوں میں نو مورود مسلمانوں کی مدد کرنے کے لئے گرجا گھروں نے سول حکام اور مسلمانوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ آنے والی دہائیوں میں، بہت سے گرجا گھروں نے اپنے درمیان مسلم کمیونٹیز کی موجودگی کی روشنی میں انہیں 'خاندان' اور 'کمیونٹی' سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ پروفیسر صدیقی نے ان کے درمیان موجود مسلمانوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے گرجا گھروں کی یورپین کونسل کی جانب سے اٹھائے گئے بہت سے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مشترکہ علاقوں میں مغربی ایشیا اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان سے پیدا ہونے والے مقامی مسائل نے اکثر مغرب میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تعلقات پر منفی اثر ڈالا ہے۔
پروفیسر صدیقی کہا کہ ایک زمانے میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے نیک نیتی پر مبنی اقدامات نے متوقع نتائج برآمد نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر عیسائیوں کی جانب سے خطاب اور مکالمے میں استعمال ہونے والے ‘خیر سگالی’ اور 'مہمان نوازی' جیسے کچھ عیسائی جملے یقینا اچھے معانی رکھتے ہیں لیکن ان میں بنیادی طور پر فطری خامیاں بھی ہیں۔ اگر چہ ان الفاظ میں مسلمانوں کے لئے احترام کا جذبہ جھلکتا ہے لیکن پھر بھی ان الفاظ نے 'ہم' اور 'وہ' کے طور پر وسیع تر کمیونٹی کو تقسیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذمی، جزیہ، دار الاسلام اور دارالحرب جیسے کچھ مسلم مذہبی نظریات غیر افادیت بخش ہیں، اور ان جیسے اصطلاحات اور نظریات کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ موصوف نے کہ ہر فرد کی یکساں شہریت کے حق کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ انسانی تشخص کی عظمت سب کے لئے ایک پیمانہ ہونا چاہئے، اور تمام مکالماتی کوششوں کا مرکز انسانی وقار ہونا چاہیے۔
پروفیسر صدیقی نے کہا کہ ایمانداری اور اعتماد کسی بھی مکالمے کے دو ضروری اجزاء ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بنیادی اقدار کو بات چیت کے میدان میں لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رحمت، بخشش، انصاف اور احسان اسلام کے بنیادی اقدار ہیں اور ان موضوعات پر مکالمہ کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ '(تبلیغ) اور ‘مشن’ بالترتیب اسلام اور عیسائیت کے لیے انتہائی ضروری اور اہم ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کو اپنے 'حدود' کا خیال رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ جاننا ضروری ہے کہ کب "ان کی دعوت جبر کی شکل اختیار کر لیتی ہے"۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے اپنے بنیادی اقدار کو یکجا کرنا اور مشترکہ تشویش کے شعبوں میں اقدامات اٹھانا ممکن ہے۔ شرکاء میں سے ایک نے کہا کہ اس نقطہ سے اس بات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ مکالمہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/christian-muslim-relations-challenges-prospects/d/105948
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/christian-muslim-relations-challenges-prospects/d/105997