New Age Islam
Mon Sep 16 2024, 10:25 PM

Urdu Section ( 20 Oct 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

In Pakistani Society Woman Is Free or A Slave? پاکستانی معاشرے میں عورت آزاد ہے یا غلام؟

اداریہ

مئی سے جولائی،2020

اگر مسلم کمیونٹی کی خواتین کو،اور خصوصاً ”پاکستان جیسے نام نہاد،”اسلام کے قلعے“ سے تعلق رکھنے والی خواتین کو، ان کے قرآن میں تاکید کردہ مساوی حقوق او رمعاشی خود مختاری دے دی جائے، تو انسانی آنکھ یہ نظارہ دیکھ کر ششدررہ جائے گی کہ کم از کم 0 فیصد شادی شدہ خواتین اپنے موجو دہ شوہروں او رفیملیوں کو چھوڑ کر گھر سے بھاگ جائیں گی۔ غیر شادی شدہ میں سے کتنی خواتین خود مختاری ملتے ہی اپنے گھروں کی ”قید“ سے نکل بھاگیں گی، یہ معاملہ ابھی التوا میں رکھتے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ ان میں وہ بھی ہوں جن کے پاس کوئی متبادل گھر، ٹھکانہ یا پناہ گاہ فوری طور پر دستیاب ہی نہ ہو۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی موجودگی دائمی قید،دائمی 24گھنٹے کی پرُ مشقت زندگی، اور مردوں کی دائمی غلامی سے چھٹکارہ ملنے پر اس بات کی پروا نہیں کریں گی کہ گھروں سے نکل کر وہ فوری طور پر کہاں جائینگی۔ ان کا معاشی استحکام انہیں یہ یقین دہانی کروانے کے لئے کافی ہوگا کہ وہ بہر حال اپنے لئے کوئی بھی ایسا ٹھکانہ تلاش کرلیں گی جہاں وہ آزادی کا سانس لے سکیں اور ایک سُکھ بھری اپنی مرضی کی زندگی گزار سکیں گی۔ یاد رہے کہ 80فیصد خواتین اپنے گھروں میں ایک پرُ مشقت زندگی کی صرف اس لئے پابند ہیں کہ وہ معاشی لحاظ سے خود کفیل نہیں ہیں۔ وگرنہ وہ کبھی بھی مرد کی غلامی اور ایک پورے کنبے کی غیر مشروط او رہمہ وقتی نوکر کی حیثیت قبول نہ کریں گی۔ اس حقیقت کے ثبوت کے لئے کچھ ایسے گھروں کا تجزیہ کیا جاسکتاہے جہاں خاتون خانہ خود کفالت کی منزل تک پہنچ کر اپنے معاملات میں اپنے فیصلے کرنے کی قوت حاصل کرچکی ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے،یہ ہے وہ قیامت خیز صورت حال جو اس مسلم معاشرے نے اسلامی طرز ندگی کے نام پر اپنی خواتین پرمسلط کررکھی ہے۔اور ایک نہایت منظم اجتماعی انداز میں اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے جس میں لفاظی اور چاپلوسی ملی منافقت سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ فرعون بن کر اس کے آگے خوراک وپوشاک ایک احسان کے طور پر پھینکتے ہیں۔ یہ بدبخت باہر کی دنیا میں جو چاہے کرتے پھرتے ہیں۔ جب کہ اسی دنیا کو اپنی عورتوں کے لئے ممنوع قرار دیتے ہیں۔ یہ بدبخت طلاق کا حق بھی صرف اپنے لئے ہی مخصوص رکھتے ہیں۔اور جانتے ہیں کہ خلع لینے کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کی طاقت اور وسائل 95فیصد عورت کے پاس موجود ہی نہیں ہے۔ انہیں یہ بھی خوب ادراک ہے کہ معاشی تو یہ خود کماتے ہیں، اس لئے عورت ان کی دست نگر ہے۔ اور اسی لئے وہ بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتی۔ اگر جائے گی تو کھائے گی کہا ں سے؟اور اسے اپنی عزت گنوادینے کا خوف دامن گیر ہوگا۔ یعنی عورت کی ذات اور شخصیت کو اس قدر محتاج اور حقیر بنا دیا گیا ہے کہ وہ ایک مجبور محض بن کر رہ گئی ہے او رمرد کے اشاروں کی غلام۔ اور اس کے ہاتھوں عزت کے لُٹ جانے کا خوفزدہ۔۔۔۔ کہا جاتاہے کہ بچے بھی عورت کی مجبوری بن جاتے ہیں۔ اور ان کی خاطر بھی مرد کی غلامی سے راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتی۔ اس نکتے میں بھی کچھ فیصد حقیقت تو موجود ہے،لیکن یہ سراسر درست بھی نہیں ہے۔جہاں گھروں میں عورتوں کی حیثیت کنیزوں کے برابر کردی گئی ہے وہاں انہیں بچوں سے بھی کوئی محبت باقی نہیں رہتی۔ او روہ بے بس و بے کس رہ کر اپنے لیے ایک آزاد زندگی کا خواب دیکھتی رہتی ہیں۔ او راپنی زندگی بھر کی ناتمام حسرتوں پر آنسوں بہاتی رہتی ہیں۔

کیا ایسا معاشرہ غیر اسلامی یا غیر قرآنی نہیں ہے؟ ذرا سوچ کر جواب تلاش کریں۔ کیا ہم سب اللہ تعالیٰ کے حکم: ”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ “ کی صریح خلاف ورزی میں زندگی نہیں گذار رہے؟ کیا عورت کے ساتھ قسط یعنی انصاف قائم کرنا ہماری سرشت سے ہی غائب نہیں ہے؟۔ کیا ہمارے نکاح و طلاق کے قوانین سب کے سب غیر قرآنی نہیں ہیں، کیا ہمیں چودہ سو سال کی عرب کلچر کی غلامی کے بعد اب اپنے عائلی قوانین میں جو ہری تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا ہمیں اب عورت کو مرد کے برابر حقوق دے کر خود کو اللہ کی نظر میں ” قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ “ کی صف میں لے آنے کی ضرورت نہیں ہے؟

تیزی سے بدلتے ہوئے اس قدیمی،زنگ خوردہ معاشرے میں، عورت کو بھی اپنی فیملی اوراپنی زندگی کے لئے آزادانہ فیصلے کرنے کا حق دینا اب وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ معاشرے میں بڑی تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں شہروں کی ہر فیملی کورٹ میں ہرماہ ہزاروں کی تعداد میں خواتین کی جانب سے طلاق یا خلع کی درخواستیں لگ رہی ہیں۔ او رہر کیس کا فیصلہ تصفیہ پر نہیں بلکہ علیحدگی پر ہی ہوتا ہے۔غالب اکثریت ان کیسوں کی ہے جہاں شادی کو ابھی چند روز،چند ہفتے،یا صرف چند ماہ ہی ہوئے ہوتے ہیں اور عورت کی جانب سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا جاتاہے۔ اس میں بے شک ہمارے مردانہ تغلب رکھنے والے معاشرے کے لئے پیش آگاہی اور سبق ہے۔کیونکہ اس سے یہ واضح طور پر ثابت ہوتاہے کہ نئے زمانے کی مسلم عورت اب مرد کی معاشی اور سوشل برتری بلکہ فرعونیت کو مزید برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

ہمارا ذاتی تجربہ و خیال یہ ہے کہ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے کہ ہمیں مغربی معاشرے کی قبول کر دہ ان شرائط کو تسلیم کرنا ہوگا جن کے تحت عورت کے حقوق کی از سر نو تشخیص و تعیین کردی گئی ہے۔ او راسے مرد کے مساوی ہی نہیں، بلکہ اس کے بدرجہ برتر حقوق عطا کردیئے گئے ہیں۔ اب کوئی مرد عورت پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا۔ طلاق دینے والا مرد زر تلافی میں عورت کو اپنی جملہ املاک کا نصف ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔عورت کا بھی حق ہے کہ جب چاہے مرد کو اپنی زندگی سے باہر نکال پھینکے۔مرد کے تشدد پر عورت صرف ایک فون کال پر اسے پولیس کے حوالے کرسکتی ہے۔

وہ وقت اب غالباً گذر چکا ہے،یا گذر جانے والا ہے جب دو میاں بیوی،سوشل تقاضوں،فضول نوعیت کی فیملی روایات یا اولاد کی محبت میں،باہم سخت منافرت اور کشیدگی کا شکار ہوتے ہوئے بھی، ساتھ ساتھ پوری زندگی گذاردینے کیلئے مجبور پائے جاتے تھے۔ او روہ زندگی سراسر تشنگی او رمحرومی کے باعث ایک جہنم کی زندگی سے کم نہ ہوتی تھی۔ یہ کیسی ظالمانہ پابندی تھی، او رکس اتھارٹی کی جانب سے عائد کی گئی تھی کہ جو مرد وعورت کی تمام زندگیاں نگل جاتی تھی؟ مرد تو پھر بھی باہر کی دنیا میں اپنی بھڑاس نکال کر گھر آیا کرتاتھا، لیکن عورت بیچاری تو گھر کی چار دیواری میں محبوس،گھُٹ گھُٹ کر مرجاتی تھی۔۔۔جب کبھی عورتوں کے ایک تعلیم یافتہ طبقے نے اپنی انہی مجبوریوں کے خلاف آواز اٹھائی تو اسے ا س مردانہ تسلط والے بے رحم معاشرے میں بے حیائی او رفحاشی کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ ان عورتوں کی کردار کشی کی جاتی رہی او ران کی ذاتیات کو پارہ پارہ کیا جاتا رہا۔ مردوں کی اس دنیا میں عورت کا اپنے لیے آواز اٹھانا ایک بہت بڑا جرم بنادیا گیا، جس کی پاداش میں اس پر بدنامی او رمذہبی فتاویٰ تھوپ دیئے جاتے رہے۔لیکن یاد رہے کہ یہ آگ اب بھی موجود ہے او راندر ہی اندر تیزی سے بھڑک رہی ہے۔ اگر اس معاشرے نے اپنی اصلاح نہ کی تو یہ آگ اس کی خرمن ہستی کو جلاکر راکھ کردینے والی ہے۔ ظلم پر قائم معاشرے اندر سے غلاظت اور تعفن سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں او رسیرت وکردار کے پیمانے پر تباہ و برباد شدہ ہی گردانے جاتے ہیں، خواہ ان کی بیرونی چمک و دمک کسی حد تک قائم بھی رہ گئے ہو۔ کیا اپنی نصف بہتر اور محترم تر آبادی کی غلام بنا لینے والے ہمارے بے رحم معاشرے کا بھی ایسا ہی متعفن احوال نہیں ہے؟

مئی سے جولائی،2020، بشکریہ: صوت الحق،کراچی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/in-pakistani-society-woman-free/d/123200

 

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..