اداریہ، ماہ نامہ صوت الحق
،کراچی
جنوری، 2013
ماہ محرم کی آمد پر حکومت
کی طرف سے اعلان ہوا تھا کہ موٹر سائیکل سواری
او رموبائل سروس پر شام تک پابندی لگادی گئی ہے جس سے عوام میں بے چینی کی لہر دوڑ
گئی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر کراچی میں رش کا یہ عالم ہے کہ سال کے بارہ مہینے بس میں اتنی سواریاں نہیں
ہوتی جتنی بسوں کی چھتوں پر ہوتی ہیں ۔ موٹر سائیکل پر پابندی سے اسکول کالج جانے والے طلبا اور دفتر ی ملازمین
کو بہت پریشانی ہوتی مگر اچھا ہوا کہ یہ حکم
سندھ عدلیہ نے معطل کردیا۔ ایسا دہشت گرد ی
کو روکنے کی خاطر ہوا تھا ۔
انگریز کے دور میں اگر چہ راقم کی عمر زیاد ہ تونہیں تھی بہر حال دنگا فساد ،خون خرابہ، نزاع
، ہنگامہ ، اور شورش تو کوئی جانتا نہ تھا، ہما رے چھوٹے سے شہر ( نوشہرہ ۔ضلع پشاور)
میں محرم الحرام کے ا جتماعات نکلتے تھے ، دسہرے ، دیوالی ، او رہولی کے تہوار میں دیکھتا رہا ہوں تمام پشتون دور کھڑے دیکھتے تھے ، کسی کے
دل میں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ ان کے رنگ میں بھنگ ڈال دے یا ان کا تیا
پانچہ کردے۔ وجہ یہ تھی کہ اس وقت حاکم کی گرفت مضبوط تھی وہ غیر جانبدا ر رہ کر مجرم
کو کیفر کردار تک پہنچاتا تھا ۔ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ جو شخص مسلمانوں کا امیر بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مخلص اور امین ہونے کے علاوہ چرواہوں کی
سی صفت کا حامل ہو۔ جس ریوڑ کا چرواہا غافل،
سست الوجود ، آرام طلب اور سہل انگار ہوگا اس کی بھیڑ بکریاں بھیڑیوں کا شکار ہوں
گی۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو تو قوم کی شیرازہ بندی کاموقع نہیں ملا، ان کے بعد
ہمیں کوئی زعیم ملا ہی نہیں ۔
جب سے پاکستان وجود میں آیا
ہے وطن عزیز میں ایک رجحان چلا آرہا ہے او رہر بار یہ رجحان پختہ تر ہورہا ہے کہ جو
نہی محرم الحرام کی آمد ہوتی ہے تو ایک غیر
معمولی او رہنگامی نوعیت کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے ۔ جس طرح بجٹ کی آمد سے قبل اشیاء کی قلت ، ذخیرہ اندوزی
اور مہنگائی کے امراض قوم کو لاحق ہوجاتے ہیں
اسی طرح محرم کے آغاز میں مذہبی فضا میں تناؤ او رکھنچاؤسا آجاتا ہے ، حکومت کی
طرف سے بعض علماء کی زبان بند ی ، بعض علماء پر دوسرے علاقوں میں جانے کی ممانعت ، دفعہ 144 کا نفاذ ، اور انتظامیہ کو
الرٹ کردینے کے احکام جاری کردیئے جاتے ہیں۔ حالانکہ ہند سے پہلے یہ بغض ، کینہ اور
عداوت نہ تھی ۔
امن کمیٹیاں بننی شروع ہوجاتی ہیں، ان کے اجلاس کا سلسلہ چل نکلتا
ہے ، اور سنی شیعہ فرقوں کے درمیان دھمکی آمیز
بیانات کی یلغار ہوجاتی ہے ، یہ رجحان کم از کم ایک سادہ اور عام مسلمان کے لئے ناقابل فہم اور انتہا تعجب انگیز ہے ۔ یوں محسوس
ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب یا طوفان آرہا ہے جس
کی پیش بندی کے لئے یہ سارے سامان ہورہے ہیں ، اگر بند نہ باندھے گئے ، پشتے مضبوط نہ کئے گئے ، کٹاؤ کے انتظامات نہ کئے گئے ، اور بہا ؤ کے رخ متعین نہ کئے گئے تو اللہ نہ
کرے بڑی تباہی مچ سکتی ہے ۔ آخر آغاز محرم
میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ حکومت پر کپکپی ، لرزہ، تھرتھری، خوف گھبراہٹ ، اضطراب ، او ر بے
قراری کیوں چھا جاتی ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ فرقہ واریت ہے جس کے زہر نے ذہنو ں کو آلودہ اور جس کی نفرت نے دلوں کو
کبیدہ کر رکھا ہے ، اور وہ ایام او رمواقع جو کسی قوم کے لئے ذریعہ اتحاد ، سرمایہ افتخار ، اور طرۂ امتیاز ہوتے ہیں
الٹا موجب افتراق ، باعث فساد اور وجہ نزاع بن
جاتے ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو تخلیق آدم کے موقع پررب نے ملائکہ
سے کہا تھا کہ وَ اِذُ قَالَ رَبَّکَ
لِلْمَلئِکَۃَ اِنِّی جَا عِلْ فِی الاَ رْضِ خَلِیفَۃ کہ میں زمین
پر خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔ ملائکہ
نے کہا ۔ قَالُوْٓ ا اَتَجْعلْ فِیھَا مَنْ یَّفْسِدُ فِیھَا وَ یَسْفِکْ الدِّ
مَآءَ وَنَحْنْ نْسَبِّحْ بِحَمْدِکَ وَ نْقَدِّ س لَکَ (30۔2) وہ پیدا کروگے جو زمین پر خون بہائے گا؟ یہ اشارہ حقیقتاً ہماری جانب تھا۔
جن کو رب نے تاکید کی تھی کہ تم دیگر لوگوں کی طرح
نہیں ہو۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَث
لِلنَّاسِ تَاْ مُرُوْنَ بِا لْمَعْرْوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَروَ توّ مِنُوْنَ
بِا للہِ( 110۔3) دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسےانسانوں کی ہدایت اور بھلائی کے لئے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دو گے اور بدی سے روکو گے اور خود بھی اللہ
پر ایمان والے رہوگے۔
اور رب نے یہ اعزاز بھی بخشا تھا کہ ۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُ مَّۃً
وَّ سَطًا لِّتکْوْ نُوْ اشُھَدَ آ ءَ عَلَی النَّاسِ وَیِکُوْ نَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ( 143۔2) کہ تم وسطیٰ (بیچ) کی انگلی
کی طرح سب سے سر بلند ہو، تم سب قوموں کے نگہبان
ہو اور رسول تم پر نگراں ونگہبان ہیں ۔ مگر
وائے ناکامی .....
کریں گے کسی کی وہ کیا نگہبانی
لٹا کر جو خود کارواں چھوڑ
آئے
جو قوم خود ننگی ہو وہ کسی
کی پردہ پوشی کیا کرے گی۔ ہم اپنے آپ کو دنیاکے مسلمانوں سے بہتر اور افضل سمجھتے ہیں لفظ مسلم اور اسلام ہی میں سلامتی پوشیدہ ہے
، مسلمان وہ ہوتا ہے جو خودبھی امن اور سلامتی سے زندگی گزارے اور دوسروں کوبھی اس
کے ہاتھ، زبان اور کسی فعل سے ضرر نہ پہنچے۔ امن
اور سلامتی کے معاملے میں ہمارا کردار مثالی ہونا چاہئے تھا ۔ لازم تھا کہ ہم امن اور سلامتی دوسروں
کو بر آمد کرتے۔ مگر ہماری اپنی حالت نا گفتہ
بہ ہے۔
اللہ سے تو اس معاملے میں کوئی اُمید رکھنی ہی نہیں چاہئے ، کیونکہ اللہ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ
اِنَّ اللہَ لاَ یْغَیّرْ مَا بقَوْمٍ حَتّی یْغَیِّرُ وْا مَا بِاَ نْفُسِھِمْ
(11۔13) اللہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو قوم اپنی حالت خود نہ بدلے ۔ اب یہ
تو ممکن نہیں کہ ہمارے لئے وہ جل جلالہ اپنی عادت بدلے ۔ یہ دروازہ بھی اللہ نے یہ کہہ کر بند
کردیا کہ ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسْنَّۃِ اللہِ تَبْھدِ یلاً (23۔48) اگر ہماری
یہی بے ڈھنگی چال رہی تو کوئی بھی ہماری بدحالی، کمزوری، خستہ حالی سے فائدہ اٹھا کر ہمیں
اپنا غلام بنا سکتا ہے ، کیونکہ یہ اللہ کا قانون ہے فرمایا ۔ وَاِنْ
تَتَوَ لَّوْ ا یَسْتَبُدِلْ قَوْ مًا غَیْرَ کُمْ ثْمَّ یَکْوْ نُوْ ا اَمْثَا لْکُمْ ( 38۔47) اگر
تم (قوانین الٰہی کی طرف) نہ لوٹو گے تو وہ
تمہاری جگہ وہ لوگوں کو لے آئے گا جو تمہاری طرح نہیں
ہوں گے ۔گل مک گئی۔
عاشورہ محرم تاریخ اسلام کا ایک درد ناک باب ہے، اور غم آگیں روق
! دنیا کا دستور ہے کہ غم اور دکھ کےموقع پر برادریوں میں اختلاف ہو بھی تو وقتی طور پر ختم ہوجاتا ہے او رہر فرد درد میں
شریک ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں اس لمحہ
الم میں پہلے سے بھی زیادہ اختلاف رونما
ہو جاتا ہے ، اور دلوں کی دوریاں اور بڑھ جاتی
ہیں، اس ناخوشگوار کیفیت کے یوں تو بہت سے
اسباب ہیں جن کا گہرا علمی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ا س نفرت کو ختم کرنے کے لئے ہمیں دیگر
مسلم حکومتوں کی تقلید کرنی چاہئے ۔
آخر فرقہ پرستی نہ رہی
تو کیا ہوگا ؟ ہمارے خیال اور تاریخ کے تجربے کے مطابق کچھ ہوا بھی تو اچھا ہوگا؟ یعنی فرقہ پرستی کا زور ٹوٹنے پر انشاء اللہ
عالم اسلام میں حائل تعصّبات کی دیواریں گر
جائیں گی، ہر دوسرے مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی مہم کمزور
پڑ جائے گی ، مسجدوں کے بٹوارے بند ہوجائیں گے ، مذہب کے نام پر نفرت کا کاروبار
ٹھپ ہوجائے گا، ہر فلاحی اور معاشرتی مسئلہ فرقہ وارانہ عصبیت کی
بھینٹ نہیں چڑھے گا ، مسجدوں کے محراب مسلمانوں
کے خلاف مورچہ بندی کا کام نہیں دیں گے ، محرم
الحرام میں قتل و غارت ، پکڑ دھکڑ ، فوج طلبی
اور کرفیو کی نوبت نہیں آئے گی، کفر سازی
کی مشینیں فتوے اگلنا چھوڑ دیں گی،
نوجوان نسل دین سے بیگانہ نہیں ہوپائے گی،
علماء ایک دوسرے کی داڑھیاں نوچنے اور پگڑیاں اچھالنے سے باز آجائیں گے ، کوزہ و عصا سے لے کر دعائے جنازہ تک
ہر مسئلہ میں اختلاف کا رجحان کم ہوجائے گا، زہر آلودہ اور ایمان سوز لٹر یچر کی طباعت ختم ہوجائے گی، گیارہویں ، تعزیے ، رفع یدین وغیرہ کی بنیاد پر لوگوں کا اسلام ناپنے اور ایمان تولنے کا سلسلہ رک جائے گا، دنیا امت
مسلمہ کی قوت اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائے گی ، مسلمان فرقہ بندی چھوڑ کر حکم الٰہی کی تعمیل میں اس کی خوشنودی کے مستحق بن جائیں گے اور اتحاد امت کے
ذریعے روح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون پہنچے گا۔ جب کہا جاتاہے کہ فرقہ پرستی
ناگریز ہے تو آخر کیسے ناگریز ہے؟ ہمارے پاس
اس کے ناگریز ہونے کی کیا دلیل ہے؟ ہمار ا اس کے بغیر گزارہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ اگر شیعہ ، سنی، حنفی ، جعفری ، مالکی ، شافعی ، اہلحدیث
، دیوبندی، کہلائے بغیر امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا گزار ا ہوسکتا ہے تو ہم
امتیوں کا کیوں نہیں ہوسکتا ؟
خلفاء راشدین سنی تھے یا شیعہ ؟ آخر ان کا گزارہ کیسے ہوگیا ؟ آئمہ
فقہا ء خود کون تھے ؟ ان میں کوئی حنفی ، حنبلی ، مالکی ، شافعی تھا؟ یا یہ صرف اللہ
کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی
تھے اور یہی نسبت ان کے لئے کافی تھی اور انہی
کی اطاعت ان کا حاصل زندگی! وہ اس فرقہ پرستی کے بغیر کیسے گزارا کرگئے ؟ ہمارے آئمہ کا گزارا ہوسکتا
ہے تو ہم پیر و کاروں کی کیا وقت پیش آتی
ہے؟ کیا آپ اس تاریخی حقیقت سے واقف نہیں کہ فرح بن برقوق ، جسے مورخین نے
بدترین بادشاہوں میں شمار کیا ہے، نے اپنے
عہد میں مسلکی خانہ جنگیوں سےتنگ آکر حرم
کعبہ میں چار فقہاء کے الگ الگ مصلے قائم کر
دیے تھے جس کے نیتجے میں کوئی پانچ سو سال
تک حرم مکی میں ایک ہی امت چار الگ الگ اماموں کی اقتداء میں نماز یں پڑھتی رہی ۔ اس
دوران امت میں بڑے بڑے فقہاء ومتکلمین پیدا ہوئے لیکن اس انحراف کو ختم کرنے کی کسی
میں جرأت نہ ہوئی یہاں تک کہ نجدی تحریک اصلاح نےبیسویں صدی کی ابتداء میں حجاز پر اپنے قبضہ کے بعد لوگوں
کو ایک مصلیٰ پر جمع کردیا۔ اور اب جب ان عمل پرکوئی پون صدی کا عرصہ گزر چکا ہے، کسی
کو اس بات کا خیال بھی نہیں آتا کہ چار علیحدہ
مصلوں کے لپیٹ دینے سے ہماری نمازوں میں کوئی فقہی خلل واقع ہوگیا ہو۔ پھر کوئی وجہ
نہیں کہ ان جیسے دوسرے انحراف کی درستگی کو ناقابل عمل سمجھا جائے ۔
فرقہ پرستی کے حق میں اور
اس کے جاری رہنے کے بارے میں جو دلائل دیئے جاتے ہیں نجانے اس کے پیچھے امت مسلمہ کے کس مفاد کا تحفظ مقصود ہوتا ہے؟ اور
فرقہ پرستی کے اجراء سےملت اسلامیہ کی سر خروئی اور نیک نامی اور کتنا اضافہ ہوتا ہے؟ یہ بات آج تک ہماری
سمجھ سے بالا ہی رہی ۔ وَلاَ تَکُوْ نُوْ ا مِنَ الْمُشْرِکیْنَ مَنَ الَّذِینَ فَرَّ قُوْا دِیْنَھْمْ وَ کَا نُوْا
شِیَعًا کُلُّ حِژبٍ بِمَا لَدَ یْھِمْ فَرِ حُوْنَ دیکھو مشرکوں میں سے نہ ہوجانا ،جنہوں نے دین فرقے بنا لئے
اور ہر شخص اس پر فرحاں ہے جو اس کے
پاس ہے( 32۔30) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ۔ اِنَّ الَّذِینَ فَرَّ قْوْ ا دِیْنَھمْ
وَ کاَ نُوْ اشِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْ ءٍ (159۔6) جنہوں نے دین میں فرقے بنالئے
۔ تمہارا ان سے کوئی واسطہ نہیں ۔ جب نبی سے واسطہ نہ رہا تو رب سے کیسے واسطہ رہ سکتا ہے۔ ہماری بربادی
کا سبب یہی ہے کہ رب نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے ۔ بہ ادنیٰ تغیر شعرِ پروین شاکرپیش خدمت ہے۔
کیسے کہہ دوں کہ ہمیں چھوڑ دیا ہے رب نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
جنوری، 2013 بشکریہ : ماہ نامہ صوت الحق ،کراچی
URL: