اسلام میں ذبیحہ جسےہم نے قربانی کا نام دیا ہے ایام حج میں مکہ سے مربوط ہے باقی دنیا کی قربانی سے نہیں ۔ مقصد تھا ان لوگوں کامعاشی مسئلہ حل کرناجو ایک عظیم مقصد کے لئے مکہ میں جمع ہوتے ہیں اور عظیم کام کیا ہے؟ کہ جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ (5:97) فرمان رب ہے کہ کعبہ کو ہم نے واجب الاحترام بنایا تاکہ انسانیت کا قیام ہو ( وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے) جب لوگ یہا ں جمع ہوں تو ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی ضروری ہے اس کے بارےمیں بتایا ۔
کہ جتنے دن یہاں قیام کرناہے تو کھانے پینے کا انتظام کرنا پڑے گا کیونکہ مکہ ایک غیر ذی زرع خطہ تھا یہاں زراعت وغیرہ تو تھی ہی نہیں ۔ اس لئے یہا ں آنے والوں سےکہا کہ کھانے پینے کا انتظام خود کرنا ہوگا ۔ رب نے فرمایا کہ جن جانوروں پر تم جاتے ہو یا مال برداری کا کام لیتے ہو انہیں وہاں ذبح کرو خود بھی کھاؤ اور محتاجوں ، ضرورت مندوں کو بھی کھلاؤ۔ آیات ملاحظہ فرمائیں ۔
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ( 22:27،28)
اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے۔ پیادہ بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی جو کہ دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی ، تاکہ اپنے فوائد کے لئے آموجود ہوں اور ایام مقررہ ہیں ۔ ان چوپایوں میں ( ذبح کے وقت ) اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا کئے ہیں ۔ ان جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ او رمحتاج کو بھی کھلاؤ۔
اسلام میں اس قسم کی قربانی یا صدقے کی رسم نہیں ہے ۔ رب نے بڑی وضاحت سے فرما دیا ہے ۔لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ (22:37) نہ ان کا گوشت او رنہ خون اللہ کو پہنچتا ہے صرف تم میں سے تقویٰ اللہ کو پہنچتاہے ۔
حج ملت کے اس عظیم القدر اجتماع کا نام ہے۔ جس میں قرآنی نظام حیات کے پروگرام کو نافذ کرنا ہے۔ اس اجتماع کا مرکزبیت الحرام ( خانہ کعبہ ، بیت اللہ، بیت العتیق پرانا گھر) ہے۔ قرآن کریم میں جانوروں کو ذبح کرنے کاذکر اسی اجتماع کے سلسلہ میں آیا ہے ان جانوروں کے متعلق آگے چل کر یوں ارشاد ہے۔ لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ (22:33)
ان جانوروں میں تمہارے لئے ایک مدت تک فائدہ اٹھانا ہے۔ اس کے بعد ان کو حلال کرنے کی جگہ بیت العتیق (خانہ کعبہ کے قریب) ہے۔ مثلاً حکم ہوکہ نماز میں رخ کعبۃ اللہ کی طرف کیا جائے ۔ کیا کسی دوسری طرف رخ کرنا جائز ہوسکتا ہے؟ تو جب اللہ نے ذبیحہ کی مخصوص جگہ بتادی کہ کہاں ذبح کرنا ہے۔ بیت العتیق ہے اللہ کا پرانا گھر تو پھر لاہور، پشاور اور لاکو کھیت میں قربانی کیسے قرار پاسکتی ہے؟
کچھ حضرات کو جب قربانی کی حقیقت بتادی جائے کہ قربانی کی جگہ تو حج ہے یہاں تک اللہ نے ذبیحہ کا مقام بھی بتا دیا ہے آپ پاکستان میں جانور ذبح کررہےہیں یہ تو درست نہیں ہے؟تو وہ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو سنتِ ابراہیمی ادا کرتے ہیں ، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ابراہیم اعلیہ السلام تو اپنے فرزند اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دے رہے تھے ! سنت ابراہیمی ادا کرنے والے اپنے اپنے بیٹوں کو لٹالیں اگر کوئی بچ گیا تو ٹھیک ورنہ قربان ہوجائے گا۔ ویسے یہ بھی ایک جلیل القدر پیغمبر کی توہین ہے۔ کہ ایک طرف فرزند ، نبی اللہ کا جلیل القدر پیغمبر اور دوسری طرف چند ٹکوں کا دنبہ۔ یعنی پیغمبر کا رتبہ آپ لوگ دبنے سے ملارہے ہیں ؟ یہ تو اسماعیل علیہ اسلام کی توہین ہے۔
وہ قوم جو باقی مہینوں میں سبزی اور دال کو روتی ہے کہ قوت خرید سے باہر ہوگئی ہے۔ وہ آج کل گوشت کا رونا رو رہی ہے کہ اسے کہاں محفوظ کریں آس پڑوس میں جہاں بھی بھیجا جواب ملا کہ ہمارے فرج اور ڈیپ فریز میں جگہ نہیں ہے کہیں او رکوشش کریں ۔ کہاں کوشش کریں ہر گھر میں یہی کیفیت ہے۔
عید کے پہلے دن یعنی 16 اکتوبر کو ٹی وی پر خبر نشر ہوئی کہ ایک صاحب قربانی کے لئے بیل لائے تھے اسے ذبح کرنے قصائی کی خدمات لی تھی بیل اڑی کررہا تھا چھری مالک کو لگی اس کی شہہ رگ کٹ گئی، ہسپتال لے جاتے ہوئے وہ دم توڑ گیا ۔ جانے یہ کس کی سنت تھی ؟
دوسری خبر 17 اکتوبر کی ہے کہ نشاط آباد فیصل آباد میں قصائی کو بلایا تھا قربانی کے لئے قصائی کو پہلے کون لے جائے گا اس پر جھگڑا ہوا یہ کیپٹل ٹی وی کی خبر ہے آخری خبر یہ تھی کہ پانچ زخمی ہوئے ۔ آنکھوں اور عقل والو! یہ کس کی سنت ہے؟۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غریبوں کا معدہ جو سبزی دال کا عادی ہوتا ہے ۔ دال بھی ایسی کہ غوطہ ماریئے تو دال کا دانہ ملے گا ۔ ورنہ نمک مرچ والا پانی ہوتا ہے ۔ اس کے ہاں جب ہر گھر سے گوشت آتا ہے اور فرج اس کے پاس نہیں ہوتا کہ محفوظ کرلے تو وہ بیچارہ خراب ہونے کے ڈر سے صبح گوشت دوپہر گوشت اور رات گوشت کھانے لگتا ہے سبزی دال والا معدہ روزانہ گوشت قبول نہیں کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے چار پانچ سو روپیہ اسے دے آتا ہے ۔ سال بھر سبزی دال کھانے والے پر یہ اضافہ بوجھ پڑ جاتا ہے ۔ کیا رب کی یہی منشا تھی؟ کہ اس طرح رب کی نعمت کا ضیاع ہو؟۔ خود سوچئے ایک محلے میں بیس گھر ہیں ان میں 18 گھرانے قربانی کرتے ہیں بلکہ سب ہی قربانی کرتے ہیں کیونکہ رشوت خوروں ملاوٹیوں ذخیرہ اندوزوں اور منشیات فروشوں کے لئے دس بارہ لاکھ کا جانور خرید نا کون سا مشکل کام ہے؟ ۔جب عقیدہ بھی یہ ہو کہ پل صراط کے ایک جانب میدان حشر ہوگا اور دوسری جانب جنت اور نیچے جہنم ہوگا ۔ ہر ایک اسی پل سے گزر کر جنت میں داخل ہوگا اور پُل تلوار کی دھار سے تیز او ربال سے باریک ہوگا۔ گنہگار دوٹکڑے ہوکر جہنم میں گریں گے ۔ مگر جس نے دنیا میں قربانی کی ہوگی وہ اپنے قربانی کے جانور کے بال پکڑ کر بے خوف و خطر گزر جائے گا ۔ اسے کوئی خطرہ کٹنے کا نہیں ہوگا۔ جب عقیدہ یہ ہوتو وہ اُدھار لے بھی قربانی کرتاہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہر حکم مبنی برحکمت ہوتاہے اور بامقصد ہوتا ہے۔ سعودیہ والے تو ہمارے ذبیحہ کو زمین میں دبا دیتے ہیں ۔ اللہ کے نزدیک تو بقاء اس عمل کو حاصل ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ۔ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (13:17) کہ زمین پر بقاء اس عمل کو حاصل ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچا تا ہے۔
دسمبر 2013 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/true-objective-animal-sacrifice-/d/97895