اداریہ
جریدہ ہذا کے سابقہ شماروں میں اور پبلک میڈیا پر بھی ہم بد نصیب پاکستانی عوام اپنے کرپٹ حکمرانوں کے شاہانہ جاہ و چشم ، اندرون و بیرون ملک بیش قیمت محلات او ربزنس ایمپائرز ،اور آف شور بنکوں میں پوشیدہ طلسماتی خزانوں کی بہت سی ہوش رُبا داستانیں پڑھ چکے ہیں،جناب وزیر اعظم کی حد تک تو کھلی کرپشن کے یہ معاملات اب قوم کے ایک ’’ عمران خان‘‘ نامی بطل جلیل کی پرُ عزم جد وجہد اور جذبہ ایمانی کی بدولت عدالت عظمیٰ کے زیر غور لائے جا چکے ہیں او راب پوری قوم عدالتی فیصلہ جلد ہی صادر ہوجانے کی توقعات لگائے منتظر بیٹھی ہے۔
وقت کے اس فیصلہ کن موڑ پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کے اس مصر عے: ’’ رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے،دستور بھی ‘‘ کے مصداق ہمارے ہر دلعزیز لیڈر کے کردار کے موازنے کے لئے پڑوسی ملک کے موجودہ وزیر اعظم کے کردار پربھی قدرے روشنی ڈال دی جائے، تاکہ ہمارے پاک وطن کے منظر نامے میں حکومتی طبقے کے ہاتھوں اس بد نصیب قوم کے ساتھ کھیلے جانے والے جھوٹ ، دھوکے ،منافقت اور کوتاہ اندیشی کے جاری مذموم کھیل کی حقیقت ایک تقابلی جائزے کی صورت امانت ودیانت کے میزان عدل پر تولی جاسکے،درج ذیل تحریر میں آپ تضادات کی ایک حیران کن انتہا ء ملاحظہ فرمائیں گے، پڑوسی ملک کے یہ وہ مودی جی ہیں جن پر مسلمان دشمنی کے سنگین ترین الزامات لگائے جاتے رہے ہیں ،مگر پھر بھی وہ ہمارے وزیر اعظم کے ذاتی دوست بھی ہیں او ردونوں حضرات کے درمیان مضبوط فیملی مراسم بھی موجود ہیں۔
انڈیا کے موجودہ پرائم منسٹرمودی جی لڑکپن کی عمر میں ہی وطن کی خدمت کا عزم لے کر گھر بار چھوڑ ہندو قومی جماعت راشٹر یہ سیوک سنگھ کے پرچارک بن گئے تھے ۔ اور ایک سادگی ، قناعت ، خدمت اور سخت محنت وریاضت کی زندگی کو اپنالیا تھا، گجرات کے وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہنچنے سے قبل تک ان کا تیس سالہ کیریر پس منظر میں رہتے ہوئے بے لوث او ربے نام جد وجہد سے عبارت رہا، گجرات کی سیاست میں حصہ لینے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا گیا تو انہوں نے متعدد بار صاف انکار کرتے ہوئے پس منظر میں ہی رہ کر کام کرنے پر زور دیا ، اور یہ تبھی ممکن ہوسکا جب اٹل بہاری واجپائی اور اڈوانی جیسے چوٹی کے قومی راہنماؤں ذاتی طور پر انہیں اس کا اہل اور حقدار سمجھتے ہوئے مسلسل اور پرُ زور اصرار کیا، وہ 2002میں پہلا الیکشن جیت کر وزیر اعلیٰ بنے اور اس کے بعد انہیں انڈیا کے پرائم منسٹر کی کرسی تک پہنچنے کے طویل اور حوادث سے پرُ سفر کے دوران کوئی شکست نہیں دے سکا۔
پرائم منسٹر کے والد اپنے قصبے کے ریلوے اسٹیشن کے سامنے چائے کا ڈھابا چلایا کرتے تھے، ان کی والدہ کی عمر اب 97سال ہے، آج تک وہ کسی بھی مددگار یا نوکری کی خدمت سے بے نیاز اپنے تمام کام اپنے ہاتھوں سے ہی کرتی ہیں، انہیں اپنے پرانے کرانسی نوٹ تبدیل کروانے کے لئے بینک کے باہر قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا، وہ بینک تک آنے کے لئے ایک آٹو رکشا میں سوار دیکھیں گئیں ، حال ہی میں ہیرابا ( مودی کی والدہ) بیمار تھیں توانہیں ایک گورنمنٹ ہسپتال میں داخل کیا گیا، مودی جی اپنی ماں کو نہ کسی اچھے پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کرواسکے او رنہ ہی انہیں اعلیٰ ترین طبی سہولیات فراہم کر سکے ۔
مودی جی کی وائف اپنی گذر واقات کے لئے ایک اسکول میں ٹیچر ہیں اور اپنی تنخواہ میں ہی گزارا کرتی ہیں ، ان کی زندگی میں پہلی تبدیلی تب آئی جب مودی جی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر سرفراز ہوئے اور ان کی وائف کے لئے سرکار نے از خود ہی پولیس کے جوانوں کو سیکیورٹی کی ذمہ پر لگا دیا۔ یاد رہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ کی خدمت کے لئے گھر سے رخصت ہوتے وقت مودی جی نے اپنی لڑکپن کی وائف کو ان کے والد کے گھر اس لئے جانے کی ہدایت کردی تھی کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں اوراپنی گذر اوقات کے لئے کوئی کیریر اختیار کرلیں۔ پچھلے چالیس سال کے لگ بھگ عرصے میں وہ کبھی اکٹھے نہیں رہے۔
مودی جی کی بھتیجی ، ان کے چھوٹے بھائی پرہلاد مودی کی صاحبزادی ، صرف 41سال کی عمر میں دل کے مرض سے پرلوک سدھار گئیں ، وہ اپنی گذر اوقات کے لئے سلائی کاکام کیا کرتی تھیں، مودی جی نے اپنی فیملی یا اپنے بھائی کو وزارتوں میں یا سیاست میں جگہ دینے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی، ان کے بھائی اب بھی عام انسانوں کی زندگیاں گذار رہے ہیں ، ان کی بھتیجی بھی ایک غریب انڈین کی طرح موت سے ہمکنار ہوئیں ، انہوں نے اپنے بھائیوں کو ایم ایل اے یا ایم پی بنانے کے لئے ٹکٹ تک دینے سے احتراز کیا ، ان کی ماں اب بھی آٹو رکشے میں سفر کرتی ہیں، ان کے بھائی اب تک ’’ بلیوکالر‘‘ جاب کرتے ہیں ، ایک بھتیجی کنٹریکٹ پر ٹیچنگ جاب کرتی ہیں، ایک اور بھتیجی نہ صرف کپڑے سلائی کا کام کرتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی گذر اوقات کے لئے ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں ، ان سے شکایت کی جاتی ہے کہ مودی جی آپ کی بہنیں راجیہ سبھا کی ممبربن سکتی تھیں ،آپ کے سالے کم از کم ضلعی سطح کے الیکشن لڑ سکتے تھے ، اس کے ذریعے وہ کم از کم ضلعی سربراہ کے عہدے تک تو پہنچ ہی سکتے تھے ، ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ سیاست کے اچھے اسٹوڈنٹ نہیں ہیں، پندرہ سال گجرات میں اور طاقت کے مرکز میں اپنا آدھا کیریر گذاردینے کے باوجود آپ نے اپنے دیگر ہم عصر لیڈروں سے کچھ نہیں سیکھا، آپ اتنے کچے کھلاڑی ہیں کہ آج تک اپنے کچن کا خرچ بھی خود اُٹھاتے ہیں ؟ ان کے سامنے سابقہ حکمران فیملیوں کی مثالیں دی جاتی ہیں جن کی اولادیں کروڑوں او راربوں کی بزنس ایمپائریں کنٹرول کررہی ہیں، لیکن مودی جی پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوتا، ان کا یہ ببانگِ دہل اعلان ہے کہ وہ کبھی اپنے وطن اور اپنی قوم کے علاوہ کسی کے لئے نہیں کریں گے، انڈیا کی تاریخ میں مودی جی نے حکمران طبقے کی آنے والی نسلوں کے لئے سادگی ،ایثار ، قومی خدمت او ربے لوٹ حکمرانی کی ایک درخشندہ اور قابل تقلید مثال قائم کرتے ہوئے انڈین قوم کا ساری دنیا میں سر بلند کردیا ہے۔
اس کے موازنے یا تقابل میں ہمیں اپنی شہنشاہی صفات کی حامل حکمران ایلیٹ کلاس کے لارہائے نمایاں بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ، قومی اور انسانی تناظر میں کسی بھی اعلیٰ قدر یا صفت سے ان کا دامن خالی ہے،ارض وطن کا چپہ چپہ او ربیرونی دنیا کے ہر با خبر انسان ان کے کرداروں اور دست برُد کے کوائف سے کما حقہ روشناس ہوچکا ہے، فی الحقیقت ہمارے قومی المیے کی جڑیں نہایت گہری ہیں، ارض وطن پر ایک نہایت اور دور رس سامراجی سازش کے تحت مسلط کیے گئے ہمارے فیوڈل مزاج حکمرانوں نے عرصہ دراز قبل ہی قوم ملک کی اصلاح احوال کا راستہ ا س لئے فراموش کردیا تھا کہ انہیں اپنے مربی غیر ملکی آقاؤں کے ایجنڈے پر عمل در آمد کا پابند بنادیا گیاتھا، ان کی حکومت اور شان وشوکت اسی غدارانہ طریق کار کی پابندی سے مشروط تھی، سابقہ آقاؤں کو اپنی ایمپائر سے ہاتھ دھولینے کے بعد بھی اپنے سابقہ مقبوضہ جات میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے ایسے غلاموں کی ضرورت تھی جو اقتدار کی کرسیوں پر بٹھا دیے جانے کے بعد اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی قومیں غلامی کی سابقہ پستیوں سے دوبارہ ابھر نہ پائیں، بلکہ غلامی ایک ایک نئی ایجاد کروہ صورت میں گرفتار کرلی جائیں ، دو وقت کی روٹی کے سوا انہیں اور کچھ بھی سوجھ نہ پائے، ایجنڈے کا مقصدیہی تھا کہ نوازائد ہ مملکت میں عوام کو جاہل ،پسماندہ ، بد حال ، مفلسی او ربے روزگاری کا شکار رکھا جائے تاکہ یہ پاک وطن حقیقی معاشی ترقی سے محروم ، مغربی ممالک کی ایک منڈی اور سستے خام مال کی سپلائی کاذریعہ بنا رہے، اور اس کے محنت کش عوام سامراج کے لئے اجرتی غلاموں کی شکل میں محرومی کی زندگیاں گذارتے رہیں ۔
پس لازم تھا کہ انسانی تاریخ کی روشنی میں معاشرے کے ازل سے شناخت کردہ استحصال مزاج کے حامل مجرم طبقے کو بڑھاوا دے کر اقتدار کی مسندوں پر بٹھا دیا جائے، بانی وطن کی بے وقت وفات او ربعد ازاں ان کے قریب ترین معتمد اور جانشین کے سازشی قتل کے ذریعے یہ راستہ ہموار کیا گیا، آقاؤں کے جوتے صاف کرنے اور کُتے نہلانے والوں کو ان کی بساط سے بہت بڑھ کر مملکت کی حکمرانی جیسی نعمت سے نواز دیا گیا ۔ اقتدار کی بے پناہ قوت کے ہاتھ آجانے پر ، حسب روایت ، یہ ابن الوقت طابقہ بُرے اور بھلے کی تمیز اور اجتماعی قومی سوچ کا وصف بھلا بیٹھا ، اپنی ہی مادر وطن کی رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کی بے توقیر راہ کو اپنایا او ردماغوں پر غیروں کی مستقل غلامی کی مہر لگالی، قوم کی اصلاح ، ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرنے کے حلف کی پاسداری ایک خواب کی شکل اختیار کر گئی، ذاتی منفعت تمام جذبوں پر غالب آئی، اور اندھی لوٹ مار کی ایک بے ننگ و نام جنگ لڑتے ہوئے بالآخر تمام تر انسانی اقدار اور عزت و تکریم سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ، آج انہیں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونے کے باوجود مکافات عمل کا سامنا ہے، پیشانیوں اور خساروں او رپشتوں پر دست قدرت نے دائمی داغ لگا دیئے ہیں، ان کے تمام تر رشک قارون خزانے ، ان کی بے مغزدلیلیں اور فتنہ گر چالیں یہ داغ تذلیل کبھی نہ دھوسکیں گی کیونکہ حدود فراموش کرپشن کی بے مثال داستانیں دنیا کے کونے کونے میں زبان زدِ خاص و عام ہوچکی ہیں، پس ’’ حزراے چیرہ دستاں ، کہ سخت ہیں فطرت کی تعزیریں‘‘۔
مارچ ،2017 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق، کراچی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/comparison-background-panama-leaks-/d/111039
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism