New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 11:14 AM

Urdu Section ( 26 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Edara-e-Shariah: Its Historical Roots, Organizational Framework, and Socio-Religious Impact ادارۂ شریعہ: اس کا تاریخی پس منظر، تنظیمی ڈھانچہ، اور سماجی و مذہبی اثرات

 سید امجد حسین، نیو ایج اسلام

 22 اگست 2024

  ادارۂ شریعہ، 1968 میں قائم کیا گیا، اس کا مقصد اسلامی شریعت کی روشنی میں، قوم مسلم کی ضروریات کا حل پیش کرنا، قانونی رہنمائی، تعلیم، اور سماجی مدد فراہم کرنا ہے۔

 اہم نکات:

1.      ادارۂ شریعہ کو، 1968 میں علامہ ارشد القادری اور دیگر اہم شخصیات نے، قوم مسلم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا تھا۔

2.      اس کی قیادت علاقائی مذہبی رہنما کرتے ہیں، اور اس میں دارالقضاء اور دارالافتا جیسے شعبے کام کرتے ہیں۔

3.      یہ ادارہ رویت ہلال، تہواروں کے اعلانات، اور فتوے جاری کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

4.      یہ مدارس اسلامیہ کے نیٹ ورک کا انتظام و انصرام بھی کرتا ہے۔

-----

Edara-e-Sharia

-----

تعارف

ادارۂ شریعہ، جو ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بااثر سماجی و مذہبی ادارہ ہے، اس کا قیام 1968 میں عمل میں آیا۔ اس کا قیام اہل سنت و جماعت (بریلوی) تحریک کے لیے ایک عظیم لمحہ تھا، جس کا مقصد اسلامی قانون کے مطابق، مسلمانوں کے مختلف ذاتی اور اجتماعی مسائل کا حل پیش کرنا تھا۔ ادارۂ شریعہ کا ہیڈ کوارٹر کھجوربنا، سلطان گنج پٹنہ بہار میں واقع ہے، اور ہندوستان کی کئی ریاستوں میں اس کی شاخیں ہیں۔ اس تفصیلی مضمون میں ادارۂ شریعہ کے تاریخی پس منظر، تنظیمی ڈھانچہ، اس بنیادی ذمہ داریوں، اور اس کے قوم مسلم پر وسیع تر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

تاریخی پس منظر

ادارۂ شریعہ کا قیام علامہ ارشد القادری کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ان کا مقصد ایک ایسا ادارہ قائم کرنا تھا، جو نہ صرف مسلمانوں کی ذاتی قانونی ضروریات کو پورا کرے، بلکہ قوم مسلم کی سماجی اور مذہبی سرگرمیوں کے لیے بھی ایک فریم ورک فراہم کرے۔ 1968 میں ادارۂ شریعہ کا قیام اسی مقصد کی تکمیل تھی، جس کی سنگ بنیاد ہندوستان بھر کے بڑے بڑے علماء اور قائدین نے مل کر رکھی تھی۔

تاسیسی تقریب میں کئی بااثر مسلم شخصیات نے شرکت کی، اور اس کا اہتمام علامہ ارشد القادری اور سید مظفر حسین کچھوچھوی، سابق ممبر لوک سبھا، جیسی بڑی ہستیوں نے کیا تھا۔

اور اس تاسیسی تقریب میں، ہندوستان کے سابق مفتی اعظم مصطفیٰ رضا خان قادری، مدھیہ پردیش کے سابق مفتی اعظم مفتی اور سابق ایم ایل اے برہان الحق جبلپوری، سید آل مصطفی مارہروی، حافظ ملت علامہ عبدالعزیز مرادآبادی، بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اور مولانا ظفر الحسن قادری پوکھریروی، جیسی بڑی بڑی شخصیات نے شرکت کی تھی۔

اس اجتماع سے، بڑے بڑے علمائے اسلام کے ذریعہ ادارہ شریعت کی اجتماعی طور پر توثیق و تائید سامنے آئی، اور بریلوی تحریک کے اندر اس کی حیثیت مضبوط ہوئی۔

تنظیمی ڈھانچہ

 ادارۂ شریعہ ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے ذریعے کام کرتا ہے، جس کا مقصد قوم مسلم کی مختلف ضروریات کو پورا کرنا ہے:

ابھی اس ادارے کی قیادت، سابق ممبر راجیہ سبھا، اور بہار قانون ساز کونسل کے سابق ممبر، مولانا غلام رسول بلیاوی، اس کے قومی صدر کے طور پر کر رہے ہیں۔ اس کے زیادہ تر ہندوستان کی تمام ریاستوں میں ریاستی صدور ہیں، اور بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشہ، مغربی بنگال، آسام، راجستھان میں، زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں۔

ریاستی صدور اپنے اپنے علاقوں میں ادارۂ شریعہ کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں، اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کی پالیسیوں اور ہدایات کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔

تنظیم کی انتظامیہ کو کئی اہم شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

دارالقضاء: یہ غیر رسمی اسلامی عدالتوں کے طور پر کام کرتی ہے، جس کا کام شادی، طلاق اور وراثت جیسے پرسنل لاء کے معاملات میں، تنازعات کو حل کرنا ہے۔ یہ عدالتیں شرعی اصولوں کی بنیاد پر کام کرتی ہیں، قوم مسلم کے مسائل کا حل فراہم کرتی ہیں، اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں۔

دارالافتاء: قرآن و حدیث سے ماخوذ فتوے یا قانونی آراء جاری کرتا ہے۔ یہ شعبہ قوم مسلم کے ذاتی اور سماجی اصول و ضوابط کے مختلف پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

محکمہ تعلیم: ایسے مدارس اسلامیہ کے ایک وسیع نیٹ ورک کا انتظام و انصرام کرتا ہے، جو پرائمری اور اعلی اسلامی تعلیمات فراہم کرتے ہیں۔ یہ نیٹ ورک دینی تعلیمات کی جان ہے، جس کا کام نوجوان نسل تک اسلامی تعلیمات اور اسلامی اقدار کی ابلاغ و تبلیغ کرنا ہے۔

قوم مسلم کی رہنمائی اور امداد: ادارۂ شریعہ سماجی و سیاسی مسائل پر قوم مسلم کو مفید مشورے بھی فراہم کرتا ہے، بشمول انتخابی رہنمائی اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (NRC) جیسے انتظامی عمل کے لیے تیاری کے۔ ادارۂ شریعہ کے اس شعبے سے، بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے میں، قوم مسلم کے ردعمل کی جہت متعین کرنے میں، اس کے اثر و رسوخ کا اندازہ ہوتا ہے۔

اِسکل ڈیولپمنٹ: یہ ادارہ مختلف ترقیاتی اقدامات کا بھی اہتمام کرتا ہے، بشمول اِسکل ٹریننگ سینٹروں کے۔ مثال کے طور پر، پٹنہ کے مرکزی ادارۂ شریعہ کا انتخاب، وزارت برائے اقلیتی امور نے، پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے کے لیے کیا تھا، جس کا مقصد مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی مواقع میں اضافہ کرنا تھا۔

مذہبی اور قانونی رہنمائی

عید میلاد النبی، محرم، عید الفطر اور عید الاضحی جیسے اسلامی تہواروں کے اعلان کے لیے، رویت ہلال میں ادارۂ شریعہ کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے۔ رویت ہلال کا اہتمام، مذہبی رسومات کو زندہ رکھنے، اور تہواروں کو اسلامی روایات کے مطابق منانے کے لیے ضروری ہے۔

دارالافتاء ذاتی معاملات سے لے کر وسیع تر سماجی معاملات تک، مختلف مسائل پر مذہبی احکام فراہم کرتا ہے۔ یہ فتوے اسلامی قانون کی پاسداری اور روزمرہ کے مسائل حل کرنے میں، مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ضروری ہیں۔

محکمہ تعلیم ایسے ہزاروں مدارس کا انتظام و انصرام کرتا ہے، جو دینی اور دنیاوی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ ادارے اسلامی ورثے کے تحفظ، اور طلباء کو پرائمری اور اعلی تعلیم فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

قوم مسلم کی رہنمائی

ادارۂ شریعہ اپیلوں اور بیانات کے ذریعے، انتخابی معاملات میں قوم کی رہنمائی کرتا ہے، جس سے مختلف سیاسی مسائل پر تنظیم کے موقف کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ رہنمائی، اسلامی اصولوں کے مطابق مسلمانوں کے سیاسی شعور کی تشکیل میں، مدد کرتی ہے۔

این آر سی کے لیے مسلمانوں کو تیار کرنے میں، ادارۂ شریعہ کی کوششوں سے، مسلمانوں کی بیوروکریٹک اور انتظامی چیلنجوں میں مدد کرنے میں، ادارے کا کردار واضح ہوتا ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے، کہ مسلمان قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اچھی طرح سے تیار رہیں۔

سماجی اور اقتصادی ترقی

حکومتی اداروں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے، ادارۂ شریعہ مسلمانوں کے لیے اِسکل ڈیولپمنٹ اور اکانومیک امپاور منٹ میں، اپنا کردار نبھانے رہا ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد پیشہ ورانہ تربیت اور دیگر معاون خدمات کے ذریعے مسلمانوں کے ذرائع معاش کو بہتر بنانا ہے۔

ادارۂ شریعہ وسیع تر اثرات

ادارہ شریعت نے مذہبی اور سماجی و اقتصادی دونوں ضروریات کو پورا کرتے ہوئے، ہندوستانی مسلمانوں پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس کا جامع نقطہ نظر، اس بات کو یقینی بناتا ہے، کہ مسلمانوں کو مذہبی رہنمائی، تعلیمی مواقع، اور مختلف ذاتی اور اجتماعی مسائل کا عملی حل فراہم کیا جائے۔

تنظیم کا اثر و رسوخ مذہبی معاملات سے ہٹ کر، سماجی ترقی اور سیاسی معاملات تک پھیلا ہوا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے، کہ مسلمانوں کے اندر اس کی حیثیت ایک مرکزی ادارے کی ہے۔ اپنی مختلف خدمات کے ذریعے، ادارۂ شریعہ اپنے پیروکاروں کی زندگیوں کو سنوارنے، اور ہندوستان کے اندر مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

خلاصہ

ادارۂ شرعیہ، مذہبی اصولوں اور عملی اجتماعی ضروریات کے سنگم کا ثبوت ہے۔ ادارۂ شریعہ کا قیام 1968 میں دور اندیش مسلم رہنماؤں کے ہاتھوں عمل میں آیا، اور اب یہ ایک عظیم سماجی و مذہبی تنظیم کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو ذاتی قانون کے تنازعات سے لے کر، تعلیمی اور سماجی و اقتصادی ترقی تک، وسیع پیمانے پر مسائل کو حل کر رہا ہے۔ اس کے منظم طریقِ کار اور وسیع تر اثرات سے، ہندوستانی مسلمانوں کی زندگیوں میں، اس کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے، جس سے مذہبی اور سیکولر دونوں شعبوں میں، اس کی مضبوط دعویداری اجاگر ہوتی ہے۔

-----

English Article: Edara-e-Shariah: Its Historical Roots, Organizational Framework, and Socio-Religious Impact

URL: https://newageislam.com/urdu-section/edarashariah-historical-framework-socio-religious-impact/d/133042

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..