By Dr.Ghazala Afaque Quazi
14 Aug. 2011
Who is responsible for the bias and narrow-mindedness in the society? If they talk of beheading their opponents on petty issues, who has given them the training? The limitation of the media that they can raise only a few issues can be understood but at least they can refrain from making provocative statements for cheap popularity and adopt a soft stand. They should set a standard of their newspapers that instead of provoking the sentiments of anger and grief, they express their opinions with seriousness.
Source: Urdu Daily, Hamara Akhbar, Karachi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/urdu-media-pakistan-/d/5289
ڈاکٹر غزالہ آفاق قاضی
پاکستان کے اردو اور انگلش
کے اخبارات کو آپ پڑھیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ ایک ہی ملک سے شائع ہوتے ہیں۔ اردو
کے اخبارات میں خبروں سے لے کر اس کے مراسلوں اور کالموں میں ایک ہی لمحہ نمایا ں ہے
اور وہ ہے اشتعال انگیز لہجہ ۔ اردو اخباروں کے کالموں اور مراسلو ں میں بھی ناقابل
برداشت حد تک متعصب اور غیر روادانہ رویہ ملتا ہے۔ دوسری طرف آپ انگلش کے اخبار اٹھا
کر دیکھیں تو عورتوں اور اقلیتی حقوق کی پاسداری سے لے کر ان عناصر پر بھی آزادنہ تنقید
ملتی ہے۔ جو پاکستان میں مذہبی تعصب کو پاکستانی ریاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ۔ اردو
میڈیا میں ایسے مضامین کا شمار آنٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہی کیفیت اردو کے ٹی وی
پروگراموں کی ہے ۔ اردو میڈیا میں جب کسی دوسرے ملک پر تنقید کی جاتی ہے یا اس کی فارن
پالیسی پر بات کی جاتی ہے تو بڑے آرام سے اس ملک کے باشندوں کو جانوروں سے بھی بدترالقاب
سے نوازا جاتا ہے ان کی عورتوں اور مردوں کے رہن سہن خصوصاً ان کی جنسی زندگی پر کھلے
عام تنقید کی جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں یہ جاننا ناممکن ہوجاتا ہے کہ لکھاری کو دراصل
کس بات پر غصہ ہے۔ میں نے اردو کے مشہور اخباروں میں اس طرح کے کالم بھی پڑھے ہیں ،
جس میں یہاں لکھا گیا کہ اس مردود کی کھال میں بھنس بھردینا چاہئے ۔ یا فلاں عورت اگر
ہمارے ملک میں ہوتی تو سنگسار کردی جاتی ۔ کسی کے مرنے پرایسا بھی کہا گیا کہ ’وہ آخرکار
جہنم رسید ہوگیا‘ انگلش میڈیا میں آپ کو تاریخ اسلام اور تاریخ ہند کے مثبت اور منفی
پہلوؤں پر بحث بھی نظر آئے گی۔ مگراردو میڈیا میں صرف چند باتوں پر ہی تنقید ی مواد
ملتا ہے۔ اردو میڈیا میں آپ کو اپنے ہمسائے ملک بھارت کے کسی اچھے پہلو پر کم ہی کوئی
مضمون نظر آئے گا۔ اگر کوئی لکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے پاکستان دشمن قرار دیا جاتا
ہے اسی طرح اگر کوئی مغرب کی سوسائٹی کی اچھی باتیں اپنانے کی بات کرتا ہے تو اسے مغرب
زدہ قرار دے کر چپ کروادیا جاتا ہے اگر کوئی مذہبی اقلیتوں سے منصفانہ سلوک کی تلقین
کرتا ہے تو اسے دشمن اسلام قرار دیا جاتا ہے۔ ملعون ، مردود اور مرتدجیسے الفاظ کاکھلے
عام استعمال کیا جاتا ہے اور کفر اور قتل کے فتووں کا سلسلہ مسجدوں سے نکل کر اخباروں
اور ٹی وی پر بھی آگیا ہے یہ زیادہ تر اردو میڈیا میں ہی نظر آتا ہے ایسے لوگوں کیلئے
ضمیر جعفری کا شعر تھوڑی سی تعریف کے ساتھ حاضر ہے۔
جو انسان نوح انسانی کا جب
قتال کرتے ہیں
نہایت مذہبی الفاظ استعمال
کرتے ہیں
آج کے اردو میڈیا میں تنگ
نظری، اشتعال انگیزی اور متعصب رویے میں بہت شدت آگئی ہے مگر تنگ نظری کی یہ روایت
پرانی ہے۔ آپ علامہ اقبال کی اردو اور انگلش میں لکھی تحریر یں دیکھیں تو آپ کو واضح
نظر آئے گا کہ علامہ انگلش میں بہت آسانی سے ہند کے علماء کی تنگ نظری پر تنقید کرتے
ہیں وہ ترکی میں ہونے والی اصلاحات ، خصوصاً عربی چھوڑ کر ترکی زبان کو اپنانے والی
اصلاح کی تعریف جس طرح انگلش میں کرتے ہیں وہ شاید اردو میں نہ کرسکتے ہوں۔ حقیقت یہ
ہے کہ مسلمان ملکوں میں سے ایک ترکی ہی ہے جس نے اپنے آپ کو سخت گیر عقیدوں کی گہری
نیند سے جگاکر خود آگاہی کی منزل کو پایا ہے۔علامہ نے اردو شاعری میں تو مسلمان کی
تنگ نظری کی سوچ پر تنقید کی ہے مگر جو کچھ انہوں نے مندرجہ ذیل بالاکتاب میں انگلش
میں لکھا ہے وہ اردو نثر میں نہیں لکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجابی میں لکھی کلاسیکی
شاعری میں بھی کھلے عام مذہب کی بنیاد پر تنگ نظری کی مخالفت کی گئی ہے۔ اردو شاعری
یا افسانوں میں دبے لفظوں میں اس پر احتجاج ملتا ہے مگر ببانگ دہل اس کا اعلان پنجابی
شاعری کی طرح نہیں ہوتا ۔ میں سندھی ، پشتو اور بلوچی ادب سے متعارف نہیں ہوں لہٰذا
میں ان پر اپنا نقطہ نظر نہیں بیان کرسکتی ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اردو میڈیا میں
وہ مضامین کیوں شائع نہیں ہوتے جو انگلش میڈیا میں چھپتے ہیں ۔ کیا اردو میڈیا والے
اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر وہ مذہبی رواداری اور امن وآشتی کی بات کریں گے تو ان
کا اخبار اور ٹی وی چینل نہیں چلے گا؟ یا وہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی باتیں لکھنے پر
ان کے میڈیا کے بزنس کو مذہب اور وطن کے ٹھیکے دار اپنے تشدد کا ٹارگٹ بنالیں گے؟ یا
پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اردو پڑھنے والے مذہبی رواداری اور تعصب سے پاک معاشرے میں
نہیں رہنا چاہتے ؟ اردو پڑھنے والوں کی اکثریت اردو میڈیا اسکولوں میں پڑھتی ہے جہاں
نصاب کی کتابوں کے علاوہ آپ کو مشکل کوئی اور کتاب میسر ہوتی ہے۔ ان اسکولوں میں سوال
کرنے والا سزا وار ٹھہرایا جاتا ہے اور آؤٹ آف باکس سوچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ان
لفظوں کے معافی سمجھانے کی بجائے رٹالگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔افسوسناک بات یہ ہے
کہ ہمارے ملک کی اکثریت ایسے ہی اسکولوں میں پڑھتی ہے اس پر رہی سہی کسر اردو کا میڈیا
پوری کردیتا ہے اور ان کی سوچ پر اپنی تنگ نظری کا ٹھپہ لگا دیتا ہے۔ان کو ایک خاص
قسم کی سوچ فراہم کی جاتی ہے جس کی منزل تنگ نظری ہے۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھتے
ہوئے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر ہمارا معاشرہ اس وقت تنگ نظری اور تعصب کا شکار ہے
تو قصور کس کا ہے؟ وہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر مخالف کا ’سرتن سے جدا‘ کرنے کی بات
کرتے ہیں تو ان کی یہ ٹریننگ کس نے کی ہے؟ اردو میڈیا کی فی الوقت مجبور ی سمجھ میں
آتی ہے کہ وہ ایک حد تک ہی کچھ موضوعات پر قلم اٹھا سکتے ہیں لیکن وہ اتنا تو کرسکتے
ہیں ک سستی مقبولیت کی خاطر عوام کو اشتعال دینے کی بجائے ایک نرم لہجہ اختیار کریں۔
اپنے اخباروں کا ایک اسٹینڈر ڈ مقرر کریں جس میں غم وغصے کے جذبات کو ابھارنے کی بجائے
ایسے موضوعات پر سنجیدگی سے اظہارخیال کریں ۔ اردو میڈیا کی اگر یہ روایت نہیں ہے تو
اسے اپنانے کا وقت ہے تاکہ اردو میڈیا بھی مہذب ومتمدن دنیا کا حصہ بن کر معاشرے کے
زخموں پر مرہم کا کام دے سکے۔
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/urdu-media-pakistan-/d/5289