ڈاکٹر واثق الخیر
23 اپریل،2022
ہندوستانی مدارس جداگانہ
تشخص او رمکمل خود مختاری کے ساتھ وسیع نیٹ ورک کی صورت میں صدیوں سے قرآن و حدیث
اور ان سے متعلقہ علوم کی حفاظت ان کی تعلیم و تدریس کے تسلسل آئندہ نسل تک صحیح
حالت میں پہنچانے کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کا وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات
یعنی قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے ساتھ رابطہ قائم
کرنے اور اسلامی عقائد اور ثقافتی روایت کی حفاظت کرنے کا کام بخوبی انجام دیتا
ہے۔ اس کے لئے وہ معاشرے میں مسجد او رمکاتب کو قائم کرتاہے اورمسجد اور مکاتب کے
لیے ایسے علما ء پیدا کرتاہے جو ان کے کاموں کا بخوبی انجام دے سکے۔
یہ مسلم حقیقت ہے کہ
مدارس اسلام کی تقویت ۔شریعت کی حقانیت مذہب کی حفاظت اور ایمان کی طہارت کے ضامن
ہوتے ہیں ۔ یہ مدار س ہی کا فیضان ہے کہ جن کے توسط سے انسانوں میں خدمت خلق کا
جذبہ پیدا ہوتا ہے اور حق و باطل میں خصوصی امتیاز پیدا کرنا انہیں کا طرۂ امتیاز
ہے۔ انہیں مدارس کے وجود سے اسلام و شریعت اور دین و ایمان کی شمعیں تمام انسانیت
کے لئے رحمت اور بقاو تحفظ کا سامان فراہم کررہی ہیں۔ مگر افسوس کہ کچھ
شرپسندعناصر انہیں کے وجود کو خطرہ محسوس کررہے ہیں اور ان کی بڑھتی مقبولیت
دشمنان اسلام کے لئے ناقابل برداشت ہے۔
ہندوستانی مدارس کے قیام
کی بنیاد تحفظات پر تھی اور ان کے اہداف میں اساسی طور پر یہ باتیں شامل تھیں کہ :
(1) دینی علوم کی تحفظات ہو، (2) عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق قائم رہے اور (3)
اگلی نسل تک دینی علوم و روایات بحفاظت منتقل ہوتی رہے۔ نو آبادیاتی دورمیں ان
مدارس نے اپنے اہداف میں شاندار کامیابی حاصل کی اور اس خطے کے ممالک کی آزادی کے
بعد بھی مدارس کی ان خدمات کا تسلسل کامیابی کے ساتھ جاری رہا ۔ اس کے علاوہ مدارس
کے اہداف میں کوئی مقصد شامل نہیں رہا ہے۔یہ مدارس اب تک اپنے اہداف میں بے حد
کامیاب ہیں۔ جب کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے لئے الگ سے کالجز اور یونیورسٹیاں قائم
ہیں جس کے لئے حکومت کی طرف سے بجٹ بھی متعین کیے جاتے ہیں۔لیکن سائنس اور
ٹکنالوجی کے ادارے اپنے اہداف کو پانے میں ناکام ہونے کے باوجود عوام اور حکومت
سارے کے سارے الزامات مدارس پر عائد کرتے ہیں اور سارا غصہ مدارس پر نکالا جاتا ہے
او رسارے مطالبات ان کی طرف رخ کر کے کیے جاتے ہیں۔
مدارس کا یہ کردار عالمی
استعمال کو کھٹکتا ہے ۔ اس لیے کہ معاشرے میں مغربی ثقافت کو نافذ کرنے اور
استعماری تسلط کے استحکام میں مدارس کا یہ رول سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مغرب نے تاریخ
کے مختلف ادوار میں مختلف انداز میں اسلام، اس کے ماخذ اور اس کی تعلیمات کو ہدف
بنایا ہے۔ قرآن پاک، اس کی حقانیت اور صداقت کو ہدف بنانا ، نبی پاک کی سیرت
مطہرہ ، ان کی ذات اقدت کو متنازعہ بنانا اور اسلام کی عالمگیر جہت کو ہدف تنقید
بنانا مغرب کے سوچے سمجھے منصوبہ کا حصہ ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں کی طرح آج پھر
قرآن، سیرت ، جہاد اور امت کو ہدف بنا کر ان پر حملے کیے جارہے ہیں ۔ ہندوستان
میں بھی مدارس کی کردار کشی او ران کے کردار کو ختم کرنے ، محدود کرنے یا دیگر
قومی شعبوں میں ضم کرکے تحلیل کردینے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔
آج مدارس کو مختلف
چیلنجز کا سامنا ہے کبھی انہیں دہشت و بربریت کا اڈہ بتایا جاتا ہے او رکہا جاتا
ہے کہ مدارس میں فرقہ واریت کا درس دیا جاتا ہے ۔معاشر زندگی کی راہوں سے دور ہٹ
کر چلنے بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا بتایا جاتا ہے ، تو کبھی مدارس کے
نصاب کو تحریف کرنے کی بات ہوتی ہے او رکبھی مدرسہ بورڈ کو بنانے کی پرزور حمایت
کی جاتی ہے۔ اس پس منظر میں مدارس کو آج کے حالات میں درپیش چیلنج ہے۔ جس میں ان
کے وجود کے جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار کے تحفظ کامسئلہ ہے۔ مدارس کو اس وقت
خارجی سطح پر ایک اور چیلنج لاحق ہے اور وہ یہ ہے کہ ان پر الزام عائد ہوتا ہے کہ
یہ انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔
ہندوستانی مدارس کو سب سے
بڑا چیلنج عالمی میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے آتے ہیں ۔ ان کی کردار کشی منظم اور
مربوط طور پر چلائی جارہی ہے او رمدارس کی ایسی خراب تصویر دنیا کے سامنے پیش کی
جارہی ہے کہ جو حقیقت کے منافی اور نفرت انگیز ہے۔ عالمی میڈیا مدارس کی غلط تصویر
پیش کرکے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ مدارس ظلم وجہالت اور دہشت
گردی کے داعی ہیں اور اسے بڑھا وا دے رہے ہیں ۔ اس طرح مدارس کو اپنے امیج کو صحیح
کرنے اور اپنی تصویر کو عالمی سطح پر بہتر بنانے کے چیلنج کا بھی سامنا کرنا پڑرہا
ہے ۔ ملکی سطح پر غیر مسلم طبقے کے لوگ ایک مدت سے اس تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ
ان مدارس کا وجود اپنی موجودہ صورت میں باقی نہ رہے۔ بلکہ حکومتی نظام میں لاکر
اجتماعی دھارے میں شامل کرنے کے ساتھ انہیں جداگانہ دینی تشخص سے محروم کردیا جائے
یا جدید علوم بالخصوص سائنس او رٹکنالوجی کو نصاب میں شامل کرکے دینی تعلیم کے
نصاب کو تحلیل کردیا جائے اور اس کے ساتھ ہی اس کا آزادانہ کردا ر بھی باقی نہ
رہے۔ یہ وہ چیلنج ہیں جو خارج کی طرف سے مدارس کو درپیش ہیں ۔ اپنے داخلی نظام اور
ترجیحات کے حوالے سے بھی مدارس کے موجودہ نظام کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
داخلی سطح پر چیلنج یہ ہے
کہ مدارس کے نظام تعلیم اور طبقہ علماء سے متعلق خود مسلمانوں کے جدید تعلیم کے
حامل ایک بڑے طبقے کے درمیان پیدا ہونے والی بے اعتمادی ہے۔ اس طبقے کی طرف سے
مدارس اور طبقہ علماء پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ معاصر زندگی کے حقائق سے آشنا
نہیں ہیں او ردور جدید کے تقاضوں سے انہوں نے عمداً چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔ اس
میں ایک حلقہ بلاشبہ معاندین پر مشتمل ہے لیکن دوسرے حلقے میں سنجیدہ مخلص افراد
بھی شامل ہیں۔ بلکہ خود علماء اور فاضلین مدارس کی ایک تعداد بھی اس میں شامل ہے
جو اسی بات کے پرزور حامی ہیں کہ مدارس کے اصل اور مطلوبہ کردار کو بحال کرنے کے
لئے بڑی سطح پر اس میں تبدیلی لائی جائے۔ اس طرح داخلی سطح پر مدارس کے نظام و
نصاب کی اصلاح وتجدید کا سوال بھی مدارس کی بقاء اور فروغ کے لیے نہایت اہم ہے۔
مدارس کے ذمہ داران اور ارباب حل و عقد کی طرف سے ان دونوں سطحوں پر اقدام کی
ضرورت ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے
مدارس پر پچھلے بیس پچیس سال سے الزام عائد کی جاتی رہی ہے۔ وہ مدارس جنہوں نے جنگ
آزادی میں پیش پیش رہ کر ملک کو آزادی دلائی۔ ان کی قربانیوں کو یاد کرنے کے
بجائے انہیں دہشت گردی کے مرکز بتائے جارہے ہیں ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی
نگرانی میں مدرسے میں چھاپے ڈال کر یا پھر غلط رپوٹ پیش کرکے ہندوستانی مدارس کو
کلی طور پر مشکوک قرار دے دیا گیا ہے ، اور برادران وطن کو یہ باور کرانے کی حتمی
کوشش کی گئی ہے کہ یہ مدارس دہشت گرد پیدا کرتے ہیں جو اس ملک کے لئے خطرہ ہیں ۔
ایسی صورت میں بھی اگر مدارس کے ذمہ داران طلباء کے اندر ان حالات سے قلمی اور
زبانی صورت میں مدافعت کی قوت پیدا نہ کریں تو یہ اس کی ناکامی ہوگی۔ اس کیلئے ایک
طرف مدارس کے طلبا ء کو انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنی ہوگی تو دوسری طرف حالات
حاضرہ پر پوری پکڑ مضبوط کرنی ہوتی ۔ اسلام کی تبلیغ اور اس کی مدافعت کے لیے صرف
اسلامی کتابوں کامطالعہ ضروری نہ ہوگا بلکہ دوسرے مذاہب کی کتابوں پر بھی دسترس
رکھنی ہوگی۔
ہندوستان میں مسلم پرسنل
لاء کو لے کر جو مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں اور اس میں مسلمانوں کو جس طرح الجھا یا
جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ علماء کرام کی اہمیت کو ختم کیا جارہا ہے ایسی صورت میں
مدارس کے منتظمین کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم جس کھیپ کو تیار کررہے ہیں کیا وہ اسلام
کی مدافعت کے لئے کلی طور پر فٹ ہیں۔ مدارس کے منتظمین کو ا س بات پر بھی غور
کرناچاہئے کہ تمام مسلکی اختلافات ہونے کے باوجود اسلامی مسئلے اور اس کی مدافعت
میں جو رائے قائم کی جائے ا س پر سب کا اتفاق ہو۔ اس کے لئے پہلا کام یہ کرناہوگا
کہ علماء مسلکی اختلافات کو ہوا دینا بند کریں اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے
پرہیز کریں ، کیونکہ آپ کی ان حرکتوں سے آپ کے مخالفین کو مسلمانوں کے درمیان
مزید تفرقہ پیداکرنے کاموقع مل جاتاہے۔
جدید ذرائع ابلاغ کے اس
سیلاب نے منفی پراپیگنڈے کا بھی ایک طوفان برپا کیا ہے ۔ جسے محض نیک خواہشات اور
آنکھیں بند کرکے نہیںٹالا جاسکتا ۔ ان ایجادات کاوجود کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ ان
ماخذ میں اگر منفی معلومات موجود ہیں تو بلاشبہ ان کے جواب میں مثبت حقائق کو پیش
کرنے کا بھی موقع موجود ہے۔ گویا کہ ٹکنالوجی کے اس شر سے خیر کا کام لینے کے
مواقع پوری طرح میسر ہیں ۔یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ اگر نیٹ اوراسلام کے حوالے سے
ایک سوسائٹس ہیں توان میں سے نوے فیصد تک سائٹس اسلام کے نام پر گمراہ کن تصورات
پھیلانے بلکہ مخالفانہ کیچڑ اچھالنے والی ہیں۔ اس لیے انٹرنیٹ کے تکنیکی دائرہ کار
کا بغور جائزہ لے کر اندازہ لگانا چاہئے کہ اسلام کا پیغام پھیلانے ،اسلامی تہذیب
و ثقافت کو متعارف کرانے اور اسلام کی حقیقی صورت پیش کرنے کے لے کیا کچھ کیا
جاسکتا ہے ۔ بہر حال یہ کام فرد کو کرنا ہے۔اگر فرد میں ایمان، فہم، شعور، قوت
استدلال ، راست نقطہ نظر اور موـزوں
لب و لہجہ میں بات کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو وہ اسلام کا سفیر بن کر اس میدان
میں قابل قدر خدمات انجام دے سکتا ہے۔اسلام کے سفیر مدارس کے ہی پیدا کردہ ہیں ۔
جن میں جدید اور بین الاقوامی نزاکتوں کو ملحوظ رکھنے والے اسلوب نگارش پر گرفت
بھی ہونی چاہئے ۔ یہ چیز مسلسل مشق، تحقیق، مشاورت اور رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں
۔چاہئے یا نہ چاہئے کے باوجود وقت کے اس چیلنج کو مدارس نے قبول کرنا پڑے گا ۔ کچھ
مدارس نے اسیقبول کیا ہے مزید اس میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستانی مدارس کو جو
جدید چیلنجز ہیں ان میں فارغین مدارس کے معاش کا مسئلہ بھی ہے کیوں کہ تمام کے
تمام فارغین مسجد اور مدارس میں خدمات انجام نہیں دے سکتے ۔ معاش کے لئے روزگار کے
دوسرے راستے اپنانے ہوں گے ۔سرکاری محکموں میں ملازمت کے لئے سرکانے منظور شدہ سند
کی ضرورت ہوتی ہے اور ہندوستان میں جو بڑے مدارس ہیں وہ خود مختار ہیں جس کی سند
سرکار سے منظور نہیں ہے ۔ اس مدارس کی سند کو کچھ یونیورسیٹیوں نے گریجویشن میں
داخلے کے لئے منظور کیے ہیں۔ان یونیورسیٹیوں میں مزید تعلیم کی بنیاد پر سرکاری
محکموں میں فارغین مدارس کو ملازمت مل جاتی ہے ۔ جب کہ دیکھا جائے تو عربی انگریزی
انٹر پر یٹر ہو یا ٹرانسلیشن کی ملازمت ہو یا پھر عرب ممالک کے ایمبیسی ہوں ہر جگہ
فارغین مدارس اچھی خدمات انجام دے سکتے ہیں ۔ جہاں تک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے
مدارس کاکام دین کا داعی اور اسلام کا سپاہی بنانا ہے، نہ کے اسکول ، کالج اور
سرکاری محکموں کے لئے کارندے پیداکرنا ۔ اس کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ مدارس کا کام
انسان کے اندر اسلامی روح کو اتارنا ہے تاکہ وہ کہیں بھی رہے اسلامی شعار کے ساتھ
رہے ۔ جو بھی کام کرے وہ اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق کرے تاکہ غیر مذاہب کے لوگ
انہیں دیکھ کر متاثر ہوں اور اسلام کے اصل روح کو سمجھیں ۔ اسلام اسی وقت پھل پھول
سکتا ہے جب اسلامی شعار کو غیر مسلموں کے سامنے عمل کرکے دکھایا جائے ۔ اس لیے
مدارس کے منتظمین کو اس طرف غور کرناچاہئے کہ ان کی سند کے سلسلے میں جو رکاوٹیں
ہیں وہ جلد از جلد دور ہو۔
اس کے لئے آل انڈیا مسلم
پرسنل لاء کی طرز پر آل انڈیا مسلم ایجوکیشن بورڈ بنایا جائے اور تمام مدارس اس
ملحق ہوں۔اس بورڈ کے تحت وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے تعلیمی انحطاط کا جائزہ لیا
جائے اور جامع لائحہ عمل تیار کیا جائے ۔ اسی بورڈ کے تحت مدارس کے نصاب میں بھی
اس کی روح کو باقی رکھتے ہوئے زمانے کے اعتبار سے تبدیلی کی جائے ۔
23 اپریل،2022 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism