ڈاکٹر سید ظفر محمود
1 جنوری، 2015
گزرے ہوئےکل سول سروس امتحان کا پرچہ دینے کے بعد آج عید تھی لیکن آنےوالے کل کو سول سروس کا اگلا پرچہ تھا۔ ہم لوگ ( علی گڑھ سے آئے ہوئے سول سروس کے امیدوار) پیدل پارلیمنٹ اسٹریٹ گئے اور جامع مسجد میں عید کی نماز ادا کرکے واپس آکر پڑھائی میں لگ گئے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ چلو کم از کم اللہ نے آلوکی سبزی کا انتظام تو آج پھر کر ہی دیا ہے ۔ اچانک دیکھا تو وہ پرانے ماڈل کی اپنی فئیٹ کار چلاتے ہوئے پھاٹک میں داخل ہوئے ، ان کے دونوں بچوں کے ہاتھ میں ایک ایک بڑا ساڈونگا تھا اور تیسرا بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں ۔ وہ ہمارے لیے گھر کی بنی ہوئی سوئیاں ، کباب اور بریانی لے کر آئے تھے ۔ ہم سے عید ملے، امتحان کی تیاری کے بارے میں ہم سے دیر تک گفتگو کی جب کہ انکے گھر پر یقیناً دوست احباب او رملنے والے منتظر رہے ہوں گے۔ انہوں نے صرف ہمیں اُس دن عید کی خوشی نہیں دی بلکہ پوری عمر کے لیے ہمیں اعلیٰ اخلاقیات اور ملت سے لگاؤ بر قرار رکھنے کی تعلیم بھی دی ۔ یہ تھے اُس وقت کے حکومت ہند کے سکریٹری جناب سید حامد ، اعلیٰ اقدار کے علمبردار ، مالک مطلق کے لیے درد پہلو کے طلبگار ۔ یقیناً دنیا میں ان کے کارنامے کافی ہیں جنت میں ان کےوالدین کوبھی تاج پہنا ئے جانے کے لیے ۔ میں نے انہیں سے سیکھا کہ کسی سے بھی کبھی بھی ملاقات پر پھرتی سے لیکن احترام کے ساتھ سلام میں پہل مجھے ہی کرنی ہے، وہ میرے ساتھ شروع سےایسا ہی کرتے رہے حالانکہ اس وقت وہ عمر میں مجھ سے دو گنے تھے او رعلم و عہدے میں کئی گنا ۔ بعد میں مجھ پر عقدہ کھلا کہ وہ تو وہی کررہے تھے، جس کی ہدایت ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانیت کو دی ہے۔ آگے کے برسوں میں جب بھی میں او رمیری اہلیہ ڈاکٹر ناظرہ محمود ان سے اور بیگم ثریا حامد سے ملاقات کے بعد ان کے دولت کدے سے باہر آتے تو ہمیشہ پشیمان ہوتے کیونکہ وہ ہمیں باہر تک پہنچانے ہی نہیں آتےبلکہ ناظرہ کے لیے کار کا دروازہ بھی ضرور کھولتے تھے ۔ ان کے ہمراہ سفر کے دوران میں نے دیکھا کہ اجنبی عورتوں سےبھی وہ بہت زیادہ احترام کے ساتھ پیش آتے ۔ بیگم حامد کو انہوں نے ہمیشہ اپنے لیے خدا کا تحفہ سمجھا اور انہیں بہترین رواداری ، قدردانی اور توقیر و تکریم سے نوازا۔ وہ آنکھیں اپنے برابر کا کار آمد دوست سمجھتےتھے نہ کہ عام ہندوستانیوں کی طرح ماتحت یا فرمانبردار۔
1984۔1981 کے دوران محکمہ انکم ٹیکس علی گڑھ میں میرس روڈ پر میرا دفتر و رہائش گاہ ہوتے تھے ۔ اُس وقت حامد صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ۔ بیگم حامد نے وی سی لاج کے دروازے کھول دیئے اور اس میں اپنی ذاتی دیکھ ریکھ میں ایک دارالاطفال( Creche) قائم کردیا۔ میرے بڑے بیٹے کاشف تین برس سے کم عمر کے تھے وہ روز وہاں جاتے تھے اور اس طرح انہیں اس وقت کی اعلیٰ ترین تربیت حاصل ہوئی۔ اس سے زیادہ یونیورسٹی میں حامد صاحب کے رول سےمتعلق میری ان سے گفتگو کی گنجائش نہیں تھی حالانکہ وہ اور بیگم صاحبہ غریب خانے پر بھی تشریف لاتے تھے لیکن میں تو ماضی قریب میں ہی دانش گاہ علی گڑھ سے طالب علمانہ استفادہ کرچکا تھا اور لکچرر بھی تھا تو میرے ہم عصر وں کے ذریعہ معلوم ہوتا رہتاتھا کہ سید حامد صاحب وہاں کیا انقلابی کارروائی کررہے ہیں۔ عمدہ قسم کی ہاکی ٹیم کے انتخاب کےلیے انہوں نے اس کھیل کے ماہر جادوگر دھیان چند کو مدعو کیا ۔ کانفرنسوں میں شمولیت کی غرض سے ملک بھر سے و بیرون ملک سے جو دعوت نامے آتے تھے ، وہ رسمی طور پر صدر شعبہ کو بھیجنے کے بجائے اب رجسٹرار کی طرف سے یونیورسٹی کےنوٹس بورڈ پر لگائے جانے لگے اور جمع ہونے والےپیپر بیرون یونیورسٹی ایکسپرٹ لوگوں کو بھیج کر طے کرایا جانے لگا کہ کون سا پیپر سب سے زیادہ قابلیت پر مبنی ہے، اور اسی کے مصنف استاذ یا محقق کو کانفرنس میں شرکت کے لیے اسپانسر کیا جانے لگا۔ کثیر تعداد میں یونیورسٹی کے اساتذہ برسوں سےبیرون ملک ملازمت کررہے تھے لیکن ان کی پوسٹ یہاں ان کے لیے خالی تھی، جس کی وجہ سے تعلیمی معیار مجروح ہورہا تھا ۔ ان سب اساتذہ کونوٹس دیا گیا کہ فلاں تاریخ تک واپس آکر علی گڑھ میں اپنا تدریسی کام سنبھالیں ورنہ ان کی پوسٹ خالی مانی جائے گی۔ کچھ جلد واپس آگئے کچھ کی پوسٹ پر دیگر اشخاص کا تعین ہوگیا ۔ جو طلبا عرصہ دراز سے ہاسٹل میں رہ کر اپنی سینئر ٹی بیجا طور پر بڑھاتے جارہے تھے، ان کا داخلہ منسوخ کردیا گیا۔ یونیورسٹی کے کاموں کے ٹھیکے لینا اب مفادات کے حامل چنندہ افراد تک محدود نہیں رہ گیا تھا۔
اس طرح کے اصلاحی اقدامات کی فہرست طویل ہے۔ اب یونیورسٹی میں اہلیت اور قابلیت کا بول بالا ہونے لگا تھا ۔ یونیو ر سٹی انتظامیہ اور تدریس و مطالعہ کے میدانوں میں جفا کشی کو اہمیت ملنے لگی۔ در ایں اثنا سید صاحب کو غرضداروں کے غصہ کا شکار ہونا پڑا، لیکن انہوں نے طویل مدتی ملی مفاد کو قلیل مدتی ذاتی مفاد پر ترجیح دی ۔ وہ چاہے تو اس وقت اور بعد کے اس طرح کے لوگوں کےاچھے بن کر اور حکومت میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے متعدد صوبوں کے گورنر بنے رہتے اور راج بھونوں میں رہ کر افتتاحی فیتے کاٹتے ہوئے بقیہ زندگی آرام و آسائش میں گزار دیتے لیکن انہوں نے طے کرلیا تھاکہ قصر سلطانی کے گبند پر ان کا نشیمن نہیں ہے اور انہیں زندگی پہاڑ وں کی چٹانوں پر بسر کرنی ہے۔ انہوں نے اپنی خودی کا مقام تلاش کرلیا۔ انہیں احساس تھا کہ ان کی جنت ان کے خون جگر میں پنہاں ہے اور کیوں نہیں ان کے پیکر گل نےاپنی کوشش پیہم کی جزا دیکھ ہی لی ۔ انہوں نے سورۃ العصر ( 103:1:3) میں دیئے گئے اللہ کے پیغام کو عملی جامہ پہنا دیا ، جہاں کہا گیا ہے کہ انسان خسارہ میں ہے بجز اس کے کہ وہ ایمان لائے او ر اعمال صالح کرے۔ انہوں نے ملت کے لیے کن اعمال صالح کی ضرورت ہے، اس کی صحیح نشاندہی اور عکاسی کردی۔
مسلمانان ہند کے لیے وزیر اعظم کی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے سینئر ترین رکن کی حیثیت سےان کا رول افلاطون کے فلسفی بادشاہ جیسا تھا ۔ ہر میٹنگ سے قبل اور اس کے بعد وہ دہلی کی پارلیمنٹ اسٹریٹ پر کمیٹی کے دفتر میں آکر میرے کمرے میں صوفے پر بیٹھ کر دیر تک سنجیدہ گفتگو کرتے تھے کہ ملک میں مسلمانوں کی صورتحال کی صحیح تقویم و تشخیص کس طرح کی جائے اور ملی پریشانیوں کے ازالے کے لیے کیا کیا سفارشیں کی جائیں ۔ بورڈ روم میں جانے پر وہ میٹنگ بھی زیادہ تر خاموش رہ کر گہرے غور و خوض سے گفتگو سنتے رہتے تھے لیکن بوقت ضرورت ملت کے حق کا مدلل احساس اراکین کو اپنی مخصوص لسانی فصاحت سےبھرپور ہلکی آواز میں دلوادیتے تھے ۔ ساتھ ہی وہ روحانی پاکیزگی ، نفاستِ قلب، بلندی، تخیل او رلطافتِ ذوق کی مکمل پاسداری کرتے تھے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں متعدد اہم سفارشیں سید صاحب کی اُن مدبرانہ تحریری تجاویز کی مرہون منت ہیں، جنہیں وہ جسٹس سچر کو پیش کرتے تھے اور جنہیں سچر صاحب اراکین کے مابین گردش اور پھر رپورٹ میں شمولیت کے لیے منظور کرلیتے تھے۔ ملت کے کھوئے ہوئے حقوق کی بازیابی کا مقام سید صاحب کے قلب سلیم کا محور تھا، حتیٰ کہ اس کے حصول کے لیے انہیں کسی نادان بے بہرہ جونیئر کے ہاتھوں ذاتی فضیحت بھی منظور تھی ۔
ان کی اردو میں چشمہ شیریں کا زیرو بم تھا، شبنم کا رخت نم تھا، موتی کی آب تھی، گل کی مہک تھی ۔ ان کی انگریزی سجیلی تھی، ان کا انداز دلفریب تھا۔ وہ بغیر تیاری کے کبھی تقریر نہیں کرتے تھے ۔ ان کی گفتگو تحقیق شدہ مغز کا مظہر ہوتی تھی، ان کے سامنے الفاظ رقص کرتے تھے، ان کی تحریر یں او ر مقالے کئی پہلو ؤں سے سبق آموز ہوتے تھے ۔ ان کی حیات کا خلاصہ علامہ اقبال بہت پہلے کر گئے ہیں:
قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈنڈی سلطان کی درگاہ
خدا انہیں اور بیگم حامد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سےنوازے اور خدا کرے کہ خلیل اللہ کے دریا میں اسی طرح کے اور بھی گہر پیدا ہوتے رہیں، آمین۔ خدا کرے کہ سر سید رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ان کی حیات کو بھی ہم صرف سالانہ ڈنرتک محدود نہ کردیں۔ آئیے حامد صاحب کے کارناموں او ر ان کی شخصیت سے سبق لیں اور اس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور ہم خود بھی کرنا شروع کردیں۔ مشہور حدیث ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جب 2 افراد ملیں تو سلام میں پہل کس کو کرنی چاہئے ، ارشاد ہوا: جو اللہ کے زیادہ قریب ہو اسے ۔ یعنی جو پہل کرے گا اسے اللہ اپنےزیادہ قریب مانے گا۔ گھر میں او رسماج میں ہم صدق دل سے خواتین کو وہ مقام دینے لگیں جو ان کا دینی حق ہے۔ آج ہمیں ملت کے نوجوانوں کی ایسی مدد کرنی ہے کہ مقابلے میں کامیاب ہوکر ایوان حکومت میں با اختیار ہوجائیں ۔ ملت کے حق میں عملی میدان میں آئیے ہم ‘‘ ہم’’ کے ساتھ ‘‘میں’’ کونہ بھولیں ۔
1 جنوری، 2015 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/syed-hamid-darwish-/d/100782