ڈاکٹر سید مبین زہرا
8 جنوری، 2016
ایک ہند ی اخبار کا تراشہ کسی نے وہاٹس ا پ پر بھیجا ہے جس کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں مسلم بچیاں دوسرے مذاہب کی بچیوں سے پیچھے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جس مذہب میں علم کی تلاش میں چین تک جانے کی بات کہی گئی ہو، جہاں ‘ اقرا’ کی اہمیت بہت ہو، جو اسلام گود سے گور تک علم حاصل کرنے کےلئے کہہ رہا ہو، وہاں مستقبل کی گود یں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ نہیں ہو رہی ہیں ۔ یہ ہم سب کے لئے تشویش کا مقام ہونا ہی چاہئے ۔ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اب تصویر کچھ حد تک بدلی ہے او رمسلم علاقوں میں بچیاں صبح کو بستہ اٹھا ئے اسکول کی طرف جاتی نظر آجاتی ہیں۔مگر کچھ ایسا درمیان میں ضرور ہورہا ہے کہ جن کی وجہ سے یا تو بچیاں تعلیم کو جاری نہیں رکھ پاتیں یا پھرکچھ کلاسوں تک پڑھا کر انہیں گھر بیٹھا دینے یا پھر شادی بیاہ کردینے کا رجحان بڑ ھ رہا ہے۔ میں بارہا یہاں کہہ چکی ہوں کہ اگر ایک پڑھی لکھی گود آنے والی نسلوں کو ملے گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آگے آنے والی نسلیں بھی تعلیم کی دولت سےمالا مال ہوسکتی ہیں۔آج کی مقابلہ جاتی دنیا میں بغیر تعلیم کے اگر کسی کو لگتا ہے کہ وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ نہ صرف تعلیم حاصل کرنی ہے بلکہ اس تعلیم کو دوسروں تک پہنچانے کاکام بھی کرناہے تب کہیں جاکر ہم یہ امید کرسکتےہیں کہ ہم لوگ دنیا میں بلند مقام حاصل کر پائیں گے ۔ اِکا دُکا اس طرح کی خبریں تو آتی رہتی ہیں جن میں مسلم لڑکیاں اپنی محنت کے بل بوتے پر کوئی نمایاں کامیابی حاصل کرکے آئی پی ایس یا دیگر بڑا عہدہ حاصل کر لیتی ہیں، مگر اس میں جس قسم کی انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے وہ کہیں نہیں نظر آتی ۔ کیا ہمارے سماج میں مردوں کی یہ خطرہ ہے کہ اگر مسلم خواتین زیادہ پڑھ لکھ جائیں گی تو وہ ان پر حاوی ہوجائیں گی یاپھر ان کی شادی بیاہ میں مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔
ایک مسلم علاقے میں گھروں کی دیواروں سے لگے اسکول ہونے کے باوجود وہاں پر لڑکیوں میں تعلیم کو لے کر رجحان نہیں کے برابر ہے ، مگر لڑکیاں تعلیم کو لے کر بہت زیادہ حساس ہیں ۔ مگر یہاں کے مردوں کا سوچنا ہے کہ لڑکیوں کو زیادہ تعلیم کیوں دلائی جائے جب کہ انہیں گھر کا چولہا چوکا ہی سنبھالنا ہے ۔ یہی مسئلہ ہے جو کہیں نہ کہیں ہمارے یہاں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں روک ہے۔ میں نے اینی تعلیم شادی کے بعد دو بچوں کے ساتھ پوری کی تھی ۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ سب لڑکیوں کو شادی کے بعد اس قسم کا ماحول مل جائے یا اپنے شوہر کا ایسا ساتھ مل جائے۔ میری کئی اسٹوڈنٹ چاہ کر بھی شادی کے بعد اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ پائیں ۔ جب کہ اگر کسی لڑکی کا داخلہ آج کے مقابلے کے دور میں ہورہا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ پڑھائی میں یقیناً اچھی ہوں گی۔ اس کے باوجود ایک بار گھر گر ہستی میں گھر نے کے بعد اس کا تعلیم کو جاری رکھنا مشکل ہی ہوجاتا ہے ۔ لیکن یہ سب معاملہ سوچ کا بھی ہے ۔ اگر آپ کی سوچ دور تک کی ہے تب آپ اپنی شریک زندگی کو بھی خود سے زیادہ تعلیم دلانے میں نہیں ہچکچاتے۔ دو دن پہلے ایک کیب ڈرائیور نے جب مجھے کالج چھوڑا تو اس نے پوچھا میڈم آپ یہاں پڑھاتی ہیں ۔ میر ے ہاں کہنے پر اس نے کا کہ وہ توخود پڑھ نہیں پایا مگر اپنی بیوی کوپڑھا رہا ہے۔ وہ اوپن سے بی اے کےسیکنڈ ایئر میں ہے ۔ ایک چھوٹی بچی بھی ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ بیوی کو پڑھانا چاہتا ہے۔ کبھی کبھی پڑھائی میں کچھ ضرورت پڑتی رہتی ہے ۔ کیا اس کی بیوی کی پڑھائی میں کچھ مدد میں کرسکتی ہوں ۔ کتنی بڑی بات تھی کہ وہ ڈرائیور جو خود بارہویں تک ہی پڑھ پایا تھا اپنی بیوی کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتا ہے ۔ اس ڈرائیور کا نام ہم سے ملتا جلتا نہیں تھا۔ اس کا ارادہ گریجویشن کے بعد اپنی بیوی کو بی ایڈ کروانے کا ہے ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے سماج میں کتنے لوگ اس اندازے سے سوچتے ہیں ۔ اس لئے جب میں نے ہندی اخبارکٹنگ دیکھی تو اسے بار بار پڑھا۔ دیگر اقلیتی طبقات کے مقابلے مسلم طبقات میں لڑکیوں کی تعلیم کا احاطہ کرتے ہوئے رپورٹ دی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا تھاکہ جہاں دیگر اقلیتی سماج میں لڑکیاں تعلیم میں لڑکوں کے مقابلے آگے چل رہی ہیں وہیں مسلم سماج میں ایسا نہیں ہے۔ مجھے اخبار کابھی پتہ نہیں کون سا ہے مگر دھیرج کنوجیہ کی رپورٹ ہے جو یہ کہتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں چار اعشاریہ تین فیصد مسلم طلبا ہےہیں اور 2 فیصد دوسرے اقلیتی طبقات سے ہیں۔ فروغ انسانی وسائل کے وزارت نے 14۔2013ء کے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں ان میں اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے والے 3 کروڑ 23 لاکھ 26 ہزار 214 طلبا میں سے 13 لاکھ 96 ہزار 759 مسلم ہیں۔ ان میں لڑکے 7 لاکھ 48 ہزار 654 او رلڑکیاں 6 لاکھ 48 ہزار 105 ہیں ۔ اس سے پہلے کہ ہم دوسرے اقلیتی طبقات کی طرف جائیں یہاں یہ بھی غور کرنے لائق ہے کہ 3 کروڑ 23 ہزار طلبا میں بھی ہم کل 14 لاکھ کے قریب اعلیٰ تعلیم میں ہیں۔ یہ اپنے آپ میں تشویش کامقام ہونا چاہئے ۔ اب اس میں لڑکیوں کی تعداد کم ہونا تو اور بھی تشویش ظاہر کرتا ہے۔ جب ہم دوسرے اقلیتی فرقوں میں اعلیٰ تعلیم کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو ان میں 6 لاکھ 31 ہزار 531 طلبا میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ ان میں 3 لاکھ 42 ہزار 86 لڑکیاں ہیں اور 2 لاکھ 89 ہزار 644 لڑکے ہیں ۔ یہ تب کہ جب جین اور سکھ طبقات میں لڑکوں کےمقابلے لڑکیوں کی تعداد کا اوسط کم ہوا ہے اور یہ ملک میں سب سےکم ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق سکھوں میں ایک ہزار لڑکوں پر لڑکیوں کی تعداد 828 ہے۔ جین فرقے میں 1 ہزار لڑکوں پر 889 لڑکیاں ہیں ۔ مسلموں میں یہ 943 ہے ۔ اس کے باوجود ان دونوں فرقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا رجحان ہم سے بہتر ہے۔
ہمیں اس سلسلے میں نہایت غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم میں ہم آگے نہیں جاناچاہتے ۔ وہ کیا دشواریاں ہیں کہ جنہیں اعلیٰ تعلیم کی راہ سےدور کیا جاناہوگا۔ اگر یہ دشواری سماج کی کھڑی کی ہوئی ہیں تو سماج کو اسے دور کرنا ہوگا اور اگر یہ حالات کی وجہ سے ہیں تو پھر حکومت کو ان حالات کو درست کرنے کی سمت کام کرنا ہوگا جن کی وجہ سے مسلم بیٹیاں اعلیٰ تعلیم سے دور ہوجاتی ہیں ۔ جہاں تک ہم نے دیکھا ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والی جرائم بھی ان کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔ میں نے گزشتہ ہفتے بھی 2016ء کےلئے خواتین کے ایجنڈے پر غور کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کئی ایسی خاص ضرورتیں ہیں لڑکیوں کی جن کے نہ ہونے کی وجہ سےبھی بچیاں پڑھائی بیچ میں ہی ترک کردیتی ہیں۔انہیں دور کیا جانا ہوگا۔اس کے علاوہ جو بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں ان کی بھی ذمہ داری یہ ہےکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے کردار اور انداز میں مثبت تبدیلی پیدا ہونی چاہئے ۔ وہ کوئی ایسا قدم ہر گز نہ اٹھائیں جس سے سماج میں غلط پیغام جائے اور جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم سے روک دینے کابہانہ مل جائے ۔ لیکن والدین کااور اگر لڑکی شادی کےبعد بھی پڑھنا چاہتی ہو تو اس کے شوہر اور خاص طور سے سسرالی عزیزوں کابھی فرض بنتا ہے کہ اس کی تعلیم کی راہ میں آسانیاں پیدا کریں ۔ جو آگے پڑھنا چاہتی ہیں، آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور ان میں حوصلہ ہے، تو وہ کسی نہ کسی طرح اپنی تعلیم تو حاصل کر ہی لیں گی، مگر جب وہ کچھ حاصل کرکے پیچھے مڑ کر دیکھیں گی تو انہیں احساس بے چین کرے گا اس سماج نےاور جس خاندان کے لئے میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی اس نے میری تعلیم میں مدد کرنا تو دور دشواریاں پیدا کرنے کی ضرور کوشش کی۔ یہ تکلیف اس کی اس خوشی کو کافور کردے گی جو کسی حصولیابی پر اسے ہوئی ہوگی ۔ ضروری نہیں ہے کہ تعلیم صرف نوکری حاصل کرنے کےلئے ہی کی جائے۔ تعلیم ذہن کی کھڑکی دروازے کھولتی ہے۔ اس لئے ہمیں آگےآنے والی نسلوں کو تعلیم یافتہ گود دینے کےلئے اعلیٰ تعلیم میں لڑکیوں کی شرکت کو یقینی بنانا چاہئے ۔ امید ہے کہ وہ خبر جو اس مضمون کی بنیاد بنی پورے طور پر بدلے گی اور گود سے گور تک علم حاصل کرنے میں ہمیں آسانی ہوگی۔
8 جنووری، 2016 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/on-muslim-girls-being-less/d/105924