ڈاکٹر سید عبد الودود
صوت الحق، کراچی
جنوری، 2013
قرآن کریم ایک ضابطہ حیات ہے اور کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسا ضابطہ قوانین بناکر دکھاؤ ۔ قرآنی خصوصیات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان کو احاطہ تحریر میں بھی نہیں لایا جاسکتا ، لیکن یہاں صرف ایک خصوصیت پر غور فرمائیے جو کہ بڑی اہم ہے۔
دنیا کے کسی بھی مذہب کو لیجئے اس نے نہ صرف انسانی زندگی کو بلکہ کائنات کے ہر شعبے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے مادی، اور روحانی ، یہ دونوں شعبے نہ صرف ایک ووسرے سےمختلف ہیں۔ بلکہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں صرف یہی نہیں بلکہ ان دونوں کو یکجا کرنا ناممکن ہے۔ مذہبی لوگ مادی دنیا کو قابل نفرت سمجھتے ہیں اور ما دیت کو مذہب کا دشمن قرار دیتے ہیں ۔ دوسری طرف مادی دنیا کے علماء جنہیں سائنس داں کہا جاتا ہے مذہب کو ایک علمی تنزل اور توہمات کا ملغو بہ قرار دیتے ہیں ۔ ان دو قسم کے لوگوں کے درمیان تصادم زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے ۔ موجودہ زمانے کا سیکولرزم اسی مذہب سے نفرت کا نتیجہ ہے ۔ لیکن قرآن کریم کی یہ خصوصیت ملاحظہ فرمائیے کہ یہ خود مذہب کے پلیٹ فارم پرکھڑا ہے لیکن اپنی سچائیوں کے ثبوت میں مادی دنیا کو پیش کرتا ہے، قرآن کا بنیادی نظریہ قانون کی حکمرانی ہے گو قرآن کا آخری مدعا (Objective ultimate) انسانی دنیا میں قوانین الہٰی کی حکمرانی کا قیام ہے۔ لیکن یہ قوانین الہٰی کو انسان کے سامنے مظاہر فطرت کی محسوس شکل میں پیش کرتا ہے اسی لئے قرآن مظاہر فطرت پر غور و فکر کرنے کےلئے بار بار زور دیتا ہے ۔وَ فِی اُلْأَ رْضِ ءَ ایٰتُُ لِّلْمُو قِنِینَ وَ فِیٓ أَ نفُسِکُمْ أَ فَلاَ تُبْصِرُونَ ( 21/20/51 )‘‘ اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں موجود ہیں اور خود تمہارے اندر نفوس میں ۔ تو پھر تم غور وفکر کیوں نہیں کرتے’’۔
چنانچہ کائنات پر غور و فکر کرنا خود اللہ تعالیٰ کو پہچاننا جس قدر ہم کائنات پر غور و فکر کرتے جائیں گے اسی قدر ہمارا اللہ پر ایمان مضبوط ہوتا جائے گا۔ کائنات میں چھپے ہوئے خزانوں کو دریافت کرنے کے بعد قرآن ہمیں بتا تا ہے کہ ان خزانوں کو استعمال کس طرح کرنا ہے۔ گویا تسخیر کائنات او روحی کی روشنی دو پہیئے ہیں جن کے اوپر انسانی زندگی کی گاڑی آگے چلتی ہے ان دونوں میں سے کسی ایک کی عدم موجودگی میں زندگی کی گاڑی کی حرکت رک جاتی ہے۔ وہ قو میں جو علوم سائنس میں آگے نکل چکی ہیں لیکن وحی کی روشنی سے خالی ہیں وہ ابھی صرف اندھیرے میں آگے بڑھنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی مثال ایک ایسے کارواں کی ہے جس کے پاس بے بہا خزانے ہوں لیکن وہ زندگی کی شاہراہ پر بے مقصد گھوم رہا ہو کیونکہ اسےنشان راہ نہیں مل رہا ۔ دوسری جانب حامل قرآن قوم اس اندھے کی مانند ہے جس نے ہاتھ میں ٹارچ پکڑی ہوئی ہو۔ چنانچہ قدرت کے بے بہا خزانوں کو اگر قرآن کی روشنی میں جو قرآنی قوانین اور اس کی مستقل اقدار کے ذریعے ملتی ہے استعمال کیا جائے تو انسانی زندگی قابل رشک بن جاتی ہے پھر وحی کی روشنی میں انسان کی آخری منزل مقصود بھی متعین ہوجاتی ہے اور اس تک پہنچنے کا راستہ بھی صاف نظر آتا ہے۔
ہمارے غیر سائنس داں مفسرین کا نظریہ ہوتا ہے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں بلکہ نکتہ صرف یہ ہے کہ قرآن نے خارجی کائنات کے متعلق جو کچھ کہا ہے سائنس کے انکشافات اس کی تائید کرتے ہیں۔ میں اس نظریہ سےمتفق نہیں مظاہر فطرت کے علاوہ بھی قرآن نے بہت سی چیزوں کی طرف اشارے کئے ہیں تفصیلات بیان نہیں کیں۔ اسی طرح جن مظاہر فطرت کی طرف قرآن نے مختصر الفاظ میں اشارے کئے ہیں۔ ان پر غور و فکر اور ریسرچ کے بعد ایسے ایسے انکشافات سامنے آتے ہیں کہ انسان حیران و ششدر رہ جاتاہے ۔ اس نکتہ کی وضاحت کے لئے قارئین صوت الحق کے لئے مثالیں پیش کروں گا۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ آسمان ایک محفوظ چھت ہے یہ عام فہم بات ہے کہ چھت اپنے نیچے بسنے والوں کو دھوپ بارش و دیگر ہر قسم کی آفات سماوی سے محفوظ رکھتی ہے بظاہر ہمیں کوئی چھت نظر نہیں آتی لیکن قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ چھت یقیناً موجود ہے اور چھت بھی ایسی کہ عدم موجودگی میں پوری دنیا چند لمحوں میں نیست و نابود ہوجائے ۔ چنانچہ کہا گیا ۔ وَجَعَلْنَا اُ لسَّمَآ ءَ سَقْفًا مَّحْفُو ظًا وَھُمْ عَنْ ءَ ا یٰتِھَا مُعْرِ ضُونَ (32۔21) ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا لیکن اس پر ہماری نشانیوں سے منہ موڑ رہے ہیں ۔ یعنی قرآن کریم کا ارشاد کہ کاش لوگ اس عظیم الشان حقیقت کی ہر سوبکھری ہوئی نشانیوں سے کبھی منہ نہ موڑ تے پھر فرمایا ۔ کِتَٰبُ فُصِّلَتْ ءَ ایَتُہُ قُرْءَ انًا عَرَبِیًّا لِّقَوْ مٍ یَعْلَمُونَ ( 3۔41) اللہ نے ایک ایسی کتاب نازل کردی جس کے احکام الگ الگ نکھار کر بیان کئے گئے ہیں تاکہ کسی قسم کا ابہام و التباس باقی نہ رہے۔ اس کی زبان بھی بڑی واضح اور صاف ہے تاکہ جو لوگ علم و بصیرت سے کام لیں اس کے مطالب واضح طور پر ان کے سامنے آجائیں ۔
مذہب کی دنیا نے نہ قرآن پر توجہ دی او رنہ علم و بصیرت سے کام لیا البتہ سائنس دانوں نے محنت اور ریسرچ کے بعد یہ عقدہ حل کرکے رکھ دیا کہ آسمان کی چھت سے کیا مراد ہے؟ یہ کہاں ہے؟ یہ کن عناصر پر مشتمل ہے اور اس کے افعال کیا ہیں؟ اور کیا اس کے بغیر زمین پر زندگی ممکن تھی ؟
اب پہلے یہ دیکھئے کہ قرآن کریم اس مسئلے کو کیسے واضح کرتا ہے چنانچہ کہا گیا ۔وَ زَ یَّنَّا اُ لسَّمَآ ءَ اُ لدُّنْیَا بِمَصَبِیحَ و َ حِفْظًا ذَ لَکَ تَقُدِیرُ اُ لْعَزِیزِ اْ لْعَلِیمِ (12۔41) او رہم نے اُ لسَّمَآ ءَ اُ لدُّنْیَا بِمَصَبِیحَ (مصا بیع) چراغوں سے مزین کیا اور اس میں (دنیا والوں کے لئے ) سامان حفاظت رکھ دیا یہ سب کچھ اللہ کے اندازوں کے مطابق طے پایا جو تمام قوتوں او رغلبہ کا مالک ہے ۔ پہلے دیکھئے کہ (12۔41) میں سماء الدنیا سے کیا مراد ہے ؟ لغوی معنوں میں اس سے مراد وہ آسمان ہے جو زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس آسمان کی حدود کیا ہیں؟ کیا یہ آسمان ہے جس سے بارش برستی ہے ؟ یعنی وہ آسمان جسے سائنس کی زبان میں (Trophosphere) کہتے ہیں اور جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ الَّذی جَعَلَ لَکُمُ اُ لْأَ رَضَ فِرَ شًا وَ اُ لسَّمَآ ءَ بِنَآ ءً وَ أَ نزَلَ مِنَ اُ لسَّمَآ ءِمَآ ءً ....... (22۔2) او رہم نے زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا اور آسمان کو چھت اور آسمان سے بارش برسائی۔ یا اس سے وہ آسمان مراد ہے جہاں سے ارب ہا ارب میل دور ستارے چمکتے دکھائی دیتے ہیں؟ پھر یہ بھی دیکھئے کہ ‘‘مصا بیح’’ سےکیا مراد ہے۔ کیا ان سے مراد (Planets) ہیں یعنی وہ کرّے جو کسی ستارے کے گرد گھومتے ہوں مثلاً عطا رد ، زہرہ، مریخ، مشتری، زحل وغیرہ جو سورج کے گرد گھومتے ہیں یا مصابیح سے مراد اربوں میل دور وقوع پذیر ستارے ہیں ۔ قرآن کریم ہر مسئلے کو تصریف آیات کے ذریعے واضح کرتا جاتا ہے چنانچہ کہا إِ نَّا زَ یَّنَّا اُ لسَّمَآ ءَ اُ لدُّنْیَا بِزِ ینَۃٍ اُ لْکَوَ اکِبِ (6۔37) ‘‘ بے شک ہم نے سماء الدنیا کو کواکب کی روشنی سے مزین کردیا’’ اب دیکھئے (12۔41) میں لفظ ‘‘مصابیح’’ تھا اور (6۔37) میں لفظ کواکب (واحد کوکب ہے) قرآن کریم ا س لفظ کو کب کویوں واضح کرتا ہے ۔اللہُ نُورُ السَّمَوٰتِ وَ اُ لْأَ رْضِ مَثَلُ نُو رِہِ کَمِشْکَوٰۃٍ فِھَا مِصْبَاحُ اُ لْمِصْبَاحُ فِی زُ جَا جَۃٍ اُ لزُّجَا جَۃُ کَأَ نَّھَا کَوْ کَبُ دُرِّیُّ (35۔24) ‘‘اللہ ارض و سماوات کا نور ہے اس نور ( روشنی) کی مثال ایسی ہے کہ ایک طاق ہے جس میں ایک چراغ ہے اور چراغ ایک (شیشےکی ) قندیل میں ہے اور قندیل ایسی صاف و شفاف ہے گویا موتی کا چمکتاہوا تارا ہے’’
پھر اس سے آگے کہا گیا ہے کہ اس قندیل کی وجہ سے ‘‘نور علیٰ نور’’ روشنی ہی روشنی ہے، بات صاف ہوگئی ، کواکب وہ کرّے ہیں جن جن کی تیز روشنی شیشے کی عکسی روشنی ( Reflected light) کی طرح ہے اب دیکھئے کہ سماء الدنیا میں ایسے کرّے کون سے ہیں جن کی روشنی عکسی ہے؟ظاہر ہے کہ یہ کرّے (Planets) اور ان کے (Satellites) چاند ہیں۔ یہ روز مرہ کامشاہدہ ہے کہ زمین کے چاند کی روشنی اپنی نہیں بلکہ عکسی ہے۔
اس بحث کا نتیجہ کیا نکلا کہ سماء الدنیا سے مراد نہ وہ نزدیک کا آسمان ہے جس سے بارش برستی ہے اورنہ وہ دور کا آسمان ہے جہاں ستارے چمکتے ہیں بلکہ اس کا دائرہ نظام شمسی تک محدود ہے اب اصل موضوع کی طرف لوٹنے یعنی (12۔41) ٹحں کو ‘‘حفظاً’’ کا لفظ ہے اس سے کیا مراد ہے؟ یہ کس چیز سے حفاظت ہے او رعملاً کیا چیز ہے؟ اس نکتہ کو نہ ملائی سطح کے علماء واضح کرسکے او رنہ وہ نامور مفسرین قرآن جن کے اقوال کا بطور سند حوالہ دیا جاتاہے بلکہ اس کا حل ان لوگوں نے پیش کیا جن کو خود قرآن ‘‘علماء’’ کے نام سے پکارتا ہے یعنی سائنس دان دیکھئے ( 28۔35:27)‘‘حفظاً’’
زمین کے گرد ( Atmosphere ) گیسوں کا ایک خول ہے جوزمین کو چاروں طرف گھیرے ہوئے ہے نہ صرف یہ کہ یہ آکسیجن کی موجودگی میں زندگی کو قائم رکھتا ہے بلکہ یہ حفاظتی (Insulater) بھی ہے (انسولیٹر اس چیز کو کہتے ہیں جو دو کنڈکٹر وں کے درمیان نان کنڈکٹر ہو) مثلاً لو ہے کہ سلاخ میں سے گرمی کی لہر تیزی سے گزرتی ہے لیکن اگر لوہے کی سلاخ کےدو ٹکڑا انسولیٹر کاکام دے گا ۔ گویا زمین کے گرد ہوا کا کرّہ ایک انسولیٹر ہے جو زمین تک سورج کی شدید گرمی کو نہیں پہنچنے دیتا چاند کو دیکھئے اس کے گرد ہوائی کرّہ موجود نہیں چنانچہ رات کے وقت یہ بے حد سر دہوجاتا ہے اور دن کے وقت اس کاٹمپر یچر 100 ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے چنانچہ چاند پر زندگی کا وجود ممکن نہیں اب دیکھئے کہ زمین کا (Atmosphere ) ہوائی کرّہ سطح زمین سے کم از کم ایک ہزا رمیل اوپر تک جاتا ہے لیکن مختلف سطحوں پر اس کاحجم ایک جیسا نہیں ۔ کہیں ہوا ہلکی ہے او رکہیں بھاری ۔
1:۔ زمین کے گرد سات میل اوپر تک جو ہوائی کرّہ ہے اسے ٹروفو سفئیر کہتے ہیں یہ وہ آسمان ہے جہاں ہوا گردش کرتی ہے اور جہاں موسم تبدیل ہوتے ہیں او ربارش برستی ہے سطح سمندر پر درجہ حرارت پندرہ سینٹی گریڈ ہے اور سات میل اوپر جاکر 56 سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے۔
2:۔ اس سے اوپر ہوائی کرّے کی دوسری تہہ شروع ہوتی ہے 10 میل موٹی ہے اور سطح زمین سے 17 میل اوپر تک جاتی ہے اسے سٹریٹو سیفئیر کہتے ہیں یہاں ہوائیں اوپر نیچے گردش نہیں کرتیں بلکہ اس کی تمہیں موجود ہیں اسی لئے اس کا نام سٹریٹو سیفئر ہے چنانچہ اس کی نچلی سطح پر بھی موسمیات کا کوئی وجود نہیں ۔
3:۔17 میل سے اوپر کی تیسری تہہ شروع ہوتی ہے جسے (Chemosphere) کمیو سفئیر کہتے ہیں یہ 20 سے 30 میل تک اور اوپر جاتی ہے اس تہہ میں بڑی مقدار میں (OZONE) گیس موجود ہے جو کہ آکسیجن کی ایک قسم ہے اگر آکسیجن میں الٹروائلٹ شعاعین گزاری جائیں تو یہ اور زون بن جاتی ہیں اور زون لاانتہا توانائی وائی سورج کی شعاؤں کو روکتی ہے کمیو سفیئر کا درجہ حرارت اس سے اوپر اور نیچے والی تہوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
4:۔پھر اس سے اوپر والی ہوا کی تہہ کو Inosphere)) آئینو سفیئر کہتے ہیں یہ زمین کی سطح سے 250 میل اوپر تک جاتی ہے اس میں بجلی موجود ہوتی ہے جو الٹراوائلٹ شعاؤں کے ذریعے پیدا ہو تی ہے اس تہہ میں درجہ حرارت نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا جاتا ہے اور 250 میل اوپر پہنچنے تک 73 سے 1600 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اوپر سے (Meteor) شہاب ثاقب جب اس تہہ کے بالخصوص نچلے حصے میں پہنچتے ہیں تو اس بجلی والی ہوا کے ساتھ رگڑ کھا کر جل جاتے ہیں ۔
5:۔اس سے اوپر ہوائی کرّے کی سب سے اوپر والی سطح ہے جسے (Exosphere) ایکسو سفئیر کہتے ہیں یہ 250 میل سےشروع ہوکر 1000 میل تک جاتی ہے ۔ اس میں ہوا نیچے سےاوپر تک رقیق ہوتی جاتی ہے اوپر جاکر اس کے ذرے خلا میں غائب ہوجاتے ہیں۔ مندرجہ بالا بیان سے ظاہر ہے کہ زمین کے اوپر جس چھت کاذکر قرآن نے کیا ہے وہ ایک ہوائی کرّہ ہے ۔ جس کی مخصوص تمہیں ہیں اب یہ دیکھئے کہ چھت آفات سماوی سے کس طریقے سے حفاظت مہیا کرتی ہے ؟ کون کون سی خطرناک قوتیں ہیں جو مسلسل زمین کی طرف بڑھتی ہیں ۔ قرآن کریم کاارشاد ہے۔
وَلَقَدْ زَ یَّنَّا ا السَّمَآ ءَ الدُّنْیَا بِمَصَبِیحَ وَ جَعَلْنَھَا رُجُو مًا لِّلشَّیَطِینِ وَأَ عْتَدْ نَا لَھُمْ عَذَابَ السَّعِیرِ (5/67) ‘‘ ہم نے سماء الدنیا کو چراغوں سے مزین کیا اور اس کو شیاطین (سر کش قوتوں) کو مار بھگا نے کا ذریعہ بنایا ’’ (ہمارے نامور مفسرین نے ان آیات کی مضحکہ خیز تفاسیر بیان کی ہیں لیکن یہاں ان کی تفاصیل بیان کرنے کاموقع نہیں ) کائنات کے اندر ہر قوت سرکش ہے لیکن اگر ان قوتوں کو (Tame)کیا جائے یعنی سدھایا جائے تو یہ انسانی زندگی کے لئے نفع بخش بن جاتی ہیں مثال کے طور پر دریا ایک سرکش قوت ہے لیکن اگر اس کے گرد بند باندھ دیئے جائیں تو یہ انسان کے لئے نفع رساں بن جاتا ہے اب دیکھئے کہ یہ سرکش قوتیں کیا ہیں جو آسمان سے زمین کی طرف آتی ہیں نظام شمسی کے دائرہ سے بھی باہر سے آنے والی سب سے خطرناک شے (Cosmic Rays) کا سمک ریز ہیں توانائی کی لہروں میں سب سے کم لمبائی کا سمک ریز کی ہیں اور یہ سب سے زیادہ زہریلی ہیں یہ لہریں جب آئنو سفیر میں پہنچتی ہیں تو اس کے آئمزر کے (Lons) کے ساتھ ٹکرا کر پرائمری ریز سے سیکنڈری ریز میں تبدیل ہوکر بے ضرر ہوجاتی ہیں۔
گویا آئنو سفیر ایک فلٹر ہے جو توانائی کی ان لہروں کو آگے گزرنے سےروک دیتا ہے جو زندگی کے لئے ضرررساں ہیں علاوہ ازیں ( Meteor) شہاب ثاقب جب آئنو سفیر کے بالخصوص نچلے حصے میں پہنچتے ہیں تو وہ بجلی کی موجودگی میں جل کر تباہ ہوجاتے ہیں یہ شہاب ثاقب یا (Shooting Stars) کیا ہیں یہ ٹھوس ٹکڑے ہیں جو مسلسل بھاری تعداد میں زمین پر گرنے کی کوشش کرتے ہیں ان میں سے نوے فیصد لوہے کے ٹکڑے ہیں اور باقی دس فیصد پتھر ہیں ان چھوٹے ٹکڑوں کے علاوہ (Meteors) کے علاوہ بڑے بڑے ٹکڑےبھی ہیں جو سطح زمین تک پہنچ چکے ہیں ان کو میٹیورائٹس کہتے ہیں لیکن اس سے نقصانات کی اطلاعات نہیں ملیں اس صدی میں دو ٹکڑے (Siberia) ایک 1908 اور دوسرا 1947 میں گرے تھے ان ٹکڑوں کے میٹر یل سے انداز ہ ہوتا ہے کہ (Meteors) کامٹس سے آتے ہیں میٹیو رائٹس ایسٹر ائڈ بلٹ سے جو کہ دونوں نظام شمسی کےکرّے ہیں یوں سمجھئے کہ آئنو سفیر آسمان سے زمین پر گرنے والی سرکش قوتوں کے خلاف پہلی (line of defence) مدافعت کی قطار ہے پھر کیمو سفیر جو سورج کی انتہائی گرمی کے خلاف ایک ڈھال ہے دوسری (line of defence) مدافعت کی قطار ہے پھر اس کے بعد ٹرفو سفیر جو موسمیات کا خطہ ہے شدید گرمی سے بچاؤ کے لئے تیسری مدافعت کی قطار ہے یہ ہے زمین پر آسمان کی چھت او ریہ ہے وہ سامان حفاظت (حفظاً) جو یہ چھت زمین پرزندگی کو بچانے کے لئے مہیا کرتی ہے۔
اب قرآن کریم کی ان عظیم الشان آیات کی طرف آئے جن میں کہا گیا
وَا لصَّفَّتِ صَفًّا فَا لتَّلِیَتِ ذِکْراً اِنَّ اِلَھَکُمْ لَوَاحِدً رَّ بُّ اُ لسَّمَوَٰتِ وَ الْأَ رْ ضِ وَمَا بَیْنَھُمَا وَ رَبُّ اُلْمَشَرِقِ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآ ءَ اُ لدُّنْیَا بِزِ ینَۃٍ اُ لْکَوَ کِبِ وَ حِفْظاً مِّن کُلِّ شَیْطَنٍ مَّا رِدٍ (7۔37:1) ‘’قسم ہے ان قوتوں کی جو صف در صف پر ا جما کر کھڑی ہیں جو مخالف قوتوں کو سختی سےروک دیتی ہیں پھر قانون الہٰی کا اعلان کرتی ہیں کہ تمہارا اللہ ایک ہی ہے جو آسمانوں او رزمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (ہوائی کرّہ وغیرہ) ان کا رب یعنی ان کے نکتہ آغاز سے لے کر نکتہ تکمیل تک ان کی پرورش کا ذمہ دار ہے اور جو سورج کے طلوع کے ہر مقام سے واقف ہے ۔ بے شک ہم نے سماء الدنیا کو کواکب کی روشنی سے مزین کیا او رہر شیطان مارد سر کش قوت کے خلاف سامان حفاظت مہیا کیا ’’ یہ ہے سقفاً محفوظاً ( 21:32) جو رب العالمین نے انسانی زندگی کی حفاظت کے لئے تیار کی او رجس کے بعد وجد آفریں ! اعلان کیا گیا کہ
‘‘ان لھکم لواحد ( 21:32) اب آیت کامفہوم بھی کھل کر سامنے آگیا ‘‘ ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا لیکن اس عظیم کارخانہ قدرت کو دیکھنے کے بعد بھی تم ہماری نشانیوں سے منہ پھیر رہے ہو؟’’
جنوری ، 2013 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-sky-protected-ceiling-/d/10347