New Age Islam
Wed Jan 22 2025, 10:42 PM

Urdu Section ( 23 May 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Concept of Good Behaviour in Islam اسلام میں اعلیٰ اخلاق کا تصور

 

ڈاکٹر شارق الاسلام

22 مئی 2015

اسلامی تعلیمات کو اگر مختصر او ربڑے بڑے عنوان کے تحت تقسیم کرنا ہو تو چار بڑے عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے اخلاق کی جو اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا ایک مقصد اخلاقی تعلیمات کی تکمیل بتایا ہے، ارشاد ہے:

مفہوم : ‘‘ بیشک میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔’’ ( مسند احمد 2/381)

ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا تھے، تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن مجید تھے یعنی قرآن میں دی گئی تمام اخلاقی تعلیمات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیکر تھے ۔ قرآن مجید نےبھی اس کی شہادت پیش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق کے منصب پر فائز تھے ۔

مفہوم:‘‘ اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں۔’’ ( القلم :3)

اسلام میں اخلاق و کردار ہی وہ معیار ہے جس کی بنیاد پر آدمی ایک دوسرے سے ممتاز قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:

مفہوم : ‘‘ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے درمیان سب سے زیادہ پرہیز گار ہے’’۔ ( الحجرات:13)

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو عورتوں کے بارے میں واقعہ ہے کہ ان میں سے ایک نماز روزہ (نفل) کا اہتمام کیا کرتی تھی ، مگر اپنی زبان درازیوں سے پڑوسیوں کو ایذائیں بھی پہنچاتی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےبارےمیں فرمایا کہ اس کے اندر کوئی نیکی نہیں ہے جب کہ دوسری عورت نماز روز ے کا بہت زیادہ اہتمام نہیں کرتی تھی لیکن کسی کو تکلیف بھی اپنی ذات سے نہیں پہنچنے دیتی تھی، اس کےبارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ جنتی ہے۔ ( الادب المفردللبخاری، باب من لایوذی جارہ)

اس طرح کی او ربھی بہت سی احادیث ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں عبادات اور دوسرے احکام کی جو اہمیت ہے، اس سے کم اخلاق کی اہمیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، مفہوم : ‘‘ سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت بجالاؤ اور بھلائی  کے کام کرو توقع ہے کہ تم کامیاب ہوجاؤگے ۔’’ ( الحج:77)

اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا ایک روشن پہلو یہ ہے بھی ہے کہ ان کو قانونی دائرے میں جگہ دی گئی ہے ورنہ دیگر مذاہب میں اخلاقی تعلیمات محض و عظ و نصیحت تک محدود ہیں،لیکن اسلام نے اس کو قانون کےدائرے میں پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کے گھر میں تاک جھانک کرنا ، مخرب اخلاق افعال کا مرتکب ہونا، سرعام ننگا ہو جانا ، فحش حرکتیں کرنا، ناپ تول میں کمی بیشی کرنا، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کرنا، دھوکہ دینا، جھوٹی گواہی پیش کرنا ، جھوٹی خبر پھیلانا،دوسرے کی ہتک عزت کرنا، یہ سب ایسی باتیں ہیں کہ دنیا کے قوانین و مذاہب میں کوئی سزا مقرر نہیں ہے،مگر اسلام ان کے لیے تعزیری سزائیں مقرر کرتا ہے اور ایک مسلمان کو مجبور کرتاہے کہ وہ ان بد خلقیوں سے پرہیز کرے۔

اخلاق کے مقصد کی تعیین

اخلاق، سلوک، کمزوروں ، معذوروں او رمظلوموں کےساتھ تعاون ، ہمدردی او رایثار و قربانی کا مظاہرہ مختلف اغراض و مقاصد کے تحت کیا جاسکتاہے ۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کسی کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور وہ امید کرتاہے کہ اس کو اس تعاون کامعاوضہ ملے گا، دوسراآدمی معاوضہ کی غرض سے تو تعاون نہیں کرتا، مگر یہ خیال کرتاہے کہ اس سےشہرت ہوگی اور لوگ اچھا سمجھیں گے ، تیسرا آدمی محض اس جذبہ کے تحت اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے کہ اس کو اس سے ایک طرح کی خوشی حاصل ہوتی ہے، غرض کہ مختلف اغراض و مقاصد ہیں جو خوش اخلاقی کا محرک بنتے ہیں یا بن سکتے ہیں، مگر حقیقی اخلاق ان مقاصد سےبلند تر چیز ہیں، ایک سچا اور مخلص مسلمان محض اللہ کی خاطر ، اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے حسن اخلاق کا پابند ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے : مفہوم : ترجمہ: اور ( یہ اللہ کےنیک بندے) اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھاناکھلاتے ہیں اور ان سے کہتےہیں : ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلارہےہیں ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتےہیں نہ شکریہ ۔( الدہر :9:8)

اسلام میں اخلاق کا حقیقی محرک نہ صرف خوشنودی رب ہوتاہے بلکہ اس بارےمیں کسی دوسری چیز کاعمل دخل سرے سے قابل قبول ہی نہیں ہے۔ اس کااعلان خود اللہ رب العالمین نے صریح الفاظ میں کردیا ہے۔ ارشاد ہے:

مفہوم : ‘‘ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو جو اپنا مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتاہے اورنہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے نہ آخرت پر ۔’’ ( البقرہ : 264)

کسی کے ساتھ بھلائی کی جائے اور اس کے ساتھ اپنی ذاتی اغراض بھی وابستہ کر لی جائیں تو یہ بھلائی نہیں ، بلکہ برائی ہے اور اس بھلائی  سے وقتی طور پر متعلقہ شخص کو جو فائدہ حاصل ہوگا اس سے کہیں زیادہ تکلیف اس کے خود غرضانہ عزائم سے ہوگی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نےصاف صاف فرما دیا کہ ایسی بھلائی کی یا صدقہ و خیرات جس کےساتھ ایذا رسانی بھی ہو ، بھلی بات کہہ دینا اس سے کہیں بہتر ہے،ارشاد ہے:

مفہوم : ‘‘ بھلی بات اور در گزر کا رویہ اس خیرات سےبہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو، اللہ بے نیاز اور بردباری اس کی صفت ہے۔’’ ( البقرہ :263)

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ پوچھا گیا کہ اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تو پھر اپنے شر ( برائیوں) سے لوگوں کو بچائے ، یہی اس کے لیے صدقہ ہوگا ۔ ( بخاری، کتاب الادب)

اخلاق کی قسمیں :

اخلاق کی دو قسمیں ہیں، ایک اچھے اخلاق جیسے صداقت، سخاوت، دیانت داری، شرم و حیا، عدل و انصاف ، عفت و پاکبازی ، رحم ، عفوو درگزر ، نرمی، خاکساری، خودداری ، شجاعت ، حق گوئی اور خوش اخلاقی وغیرہ، دوسری قسم ، بری عادتیں جیسے جھوٹ ، خیانت ، غداری ، وعدہ خلافی، چغل خوری، غیبت،بدگمانی ،خوشامد ، بخل ، لالچ ، چوری، ناپ تول میں کمی بیشی، رشوت خوری ، سود خوری ، شراب نوشی ، غصہ ، انتقام ، بغض و کینہ ، ظلم ، فخر و غرور ، بے حیائی اور اسراف اور فضول خرچی وغیرہ ۔اسلام میں جہاں اچھے اخلاق کو اختیار کرنے اور اپنانے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی فضلیتیں بیان کی گئی ہیں، وہیں بری عادتوں سےاجتناب کی تاکید کی گئی ہے اور ان کی وعید وں سے ڈرایا گیا ہے ۔ اچھے اخلاق سے جس طرح آدمی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں،بری عادتوں سے وہ اسی طرح برے اثرات کا شکار ہوتاہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

نیکی ( حسن اخلاق) سے دل کے اندر نور سا پیدا ہوتاہے، چہرے پر چمک آتی ہے ، روزی میں وسعت پیدا ہوتی ہے ، جسم میں طاقت آتی ہے اور مخلوق ( خلق) کے دل میں محبت جاگتی ہے ، جب کہ برائی سے چہرے میں سیاہی طاری ہوتی ہے ،دل میں اندھیرا چھا جاتاہے ،بدن کمزور ہوتاہے، روزی میں کمی واقع ہوتی ہے او رلوگوں کے دلوں میں بغض و عداوت جاگتی ہے ۔ ( منہاج السنۃ النبویۃ لابن تیمیہ 27/3)

اخلاق کا اعلیٰ معیار :

حدیث رسول، ان من خیار کم احسنکم اخلاقاً ( تم لوگوں میں بہتر وہ شخص ہے جو اخلاق میں بہتر ہو) کی تشریح میں محد ث کبیر علامہ ابوبکر بیہقی فرماتے ہیں : حسن خلق کے معنی نفس کو زیادہ بہتر اور زیادہ مناسب کام پر آمادہ کرنے کے ہیں ۔ مثال کے طور پر حسن خلق کاتعلق جب اللہ تعالیٰ سے ہوتو اس وقت اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس کے جو احکام ہیں، ان پر پورے شرح صدر کے ساتھ عمل کیا جائے اور جو نواہی ہیں اس سےبے تکلف رُک جایا جائے ۔ اسی طرح فرائض و نوافل کی انجام دہی کسی کی رغبت اور ڈانٹ پھٹکار کی ضرورت نہ پڑے او رنہ ان کے انجام دینے میں نفس کوتاہی کرے اور نہ تنگی محسوس کرے ۔ انسانوں کے تعلق سے حسن خلق کےمعنی یہ ہیں کہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں وہ کوتاہی نہ کرے، مگر دوسروں سے اپنے حقوق وصول کرنے میں زیادہ دلچسپی نہ لے چنانچہ اگر وہ بیمار ہوجائے اور اس کی عیادت نہ کی جائے ۔ وہ سفر سے آئے اور اس کی زیارت نہ کی جائے، وہ دوسرے کو سلام کرےاور اس کاجواب نہ دیا جائے، وہ دوسرے کے یہاں مہمان بنے مگر اس کی عزت و خاطر نہ کی جائے ، وہ کسی معاملے میں سفارش کرے مگر اسے قبول نہ کیا جائے ، وہ کسی کے ساتھ بھلائی کرے مگر اس کا شکریہ ادانہ کیاجائے، وہ کسی جماعت و قوم کے اندر جائے مگراس کو اہمیت نہ دی جائے ، وہ گفتگو کرےمگر اس کی بات نہ سنی جائے، وہ کسی دوست کے گھر جائے مگر اس کو اندر آنےکی اجازت نہ ملے، وہ کسی کے یہاں شادی کا پیغام بھیجےمگر اس کو قبول نہ کیا جائے، وہ قرض میں مہلت مانگےمگر اس کو مہلت نہ دی جائے تو ان باتوں سے وہ نہ غصہ ہو اور نہ متعلقہ شخص کو کوئی سزادے ، نہ اپنے نفس میں اس کو برا جانے او رنہ یہ خیال کرے کہ اس کےساتھ بے وفائی کی گئی اور اس کو کوئی حیثیت نہ دی گئی اورنہ وہ اپنی روش کو دوسرے کی روش سے مقابلہ و موازنہ کرے اور نہ دوسرے سے اپنے تعلقات منقطع کرے بلکہ جب اس کابھائی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے اور جب اس کابھائی کسی معاملے میں سفارش کرے تو اس کو قبول کرے اور اگر وہ قرض کی ادائیگی   میں مہلت چاہے تو اس کو مہلت دے، اگر وہ اعانت کامحتاج ہو تو اس کی اعانات کرے،غرض کہ وہ یہ نہ دیکھے کہ خود اس کے ساتھ متعلقہ شخص نےایسا رویہ اختیار کیا تھا اور وہ بات حسن خلق میں کیسے داخل ہوسکتی ہے جب آدمی اپنے نفس کو مقدم رکھے، حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس پر دوسروں کو ترجیح دے ۔ ( مختصر شعب الایمان للبہقی ، تالیف ابو جعفر عمر القزوینی، ص 200:201)

ان باتوں کی تاکید قرآن مجید کی تعلیمات سے ہوتی ہے ، ارشاد ہے : مفہوم : ‘‘ اور وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتےہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں، حقیقت   یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی کامیاب ہیں ۔’’ ( الحشر:9)

22 مئی، 2015 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/concept-good-behaviour-islam-/d/103120

 

Loading..

Loading..