ڈاکٹر شبیر احمد، نیو ایج اسلام
9 مئی، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ، نیوایج اسلام)
آئنسٹائن بیسویں صدی کا عظیم ترین سائنس دان تھا۔ اس کی سائنسی کامیابیوں کے علاوہ سے، اسے مذہب اور خدا پر ان کے مضبوط اور واضح خیالات کے لئے جانا جاتا ہے۔ اگر چہ مسلمہ طور پر وہ ایک ایگناسٹک تھا (جو کہ کسی ملحد سے مختلف ہے) در حقیقت وہ ایک ظاہر پرست تھا اس لئے کہ فوق البشریت میں یقین رکھتا تھا ، ایک ایسی ما فوق الفطری قوت میں جو کائنات میں چھایا ہوا ہے اور کائنات کو بہترین نظم و نسق کے ساتھ چلا رہا ہے ۔ اس معنی میں وہ سپینوزا کے خدا پر یقین رکھتا تھا جس نے فطرت کو خدا قرار دیا جس کی کوئی تشخیص نہیں ہے (نراکار)ہے ۔ سپینوزا ایک یہودی فلسفی تھا جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ خدا اور فطرت ایک ہی چیز ہے اور اس فطرت میں یا کائنات میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ سب اسی ایک حقیقت کا حصہ ہے ۔
آئنسٹائن ایک ظاہر پرست تھا ، جو ایک ایسے خدا میں یقین نہیں کر سکتا تھا جسے رسومات اور اصول عقائد کے ذریعہ یاد کیا جاتا ہے اور جو خود کو اپنے بندوں کے قسمت اور اعمال کے ساتھ جوڑتا ہے۔ خدا میں اس کا عقیدے کسی مذہبی جنونی کے معنوں میں نہیں تھا اور خدا کی ذات سے اس کا انکار کا کسی ملحد کی طرح نہیں تھا ۔ خدا کے بارے میں اس کا نقطہ نظر بہت متوازن تھا اس لئے کہ اس کا یقین تھا کہ اس وسیع کائنات میں کسی بھی چیز کو حتمی علم نہیں قرار دیا جا سکتا جس میں انسانی دماغ بہت محدود علم کا حامل ہے ۔ لہٰذا ملحد کے برعکس اس نے خدا کے ہی وجود کا دروازہ نہیں بند کر دیا اور نہ ہی کسی مذہبی آدمی کی طرح ایسےخدا پر یقین رکھتا تھا جسے نمازوں کے ذریعہ یاد کیا جا سکتا ہے ۔ وہ ہمیشہ متحرک اور وسعت اختیار کرتے ہوئے اس فطرت میں یقین رکھتا تھا جو کہ انتہائی کامل ضابطے اور ہم آہنگی میں قادر مطلق کی موجودگی ہے ۔
لہٰذا اگرچہ اس نے واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ وہ مذہبی معنوں میں خدا پر یقین نہیں رکھتا ہے، در اصل وہ ایک ایسے خدا کے بارے میں ایسے طریقے سے سوچ رہا تھا ایک صوفی یا مذہبی کی طرف مائل سائنسدان اس کے بارے میں سوچتا ہے ۔
آئنسٹائن نے کہا کہ جب وہ 12 سال کا تھا تو اس نے دین سے اپنا اعتماد کھو دیا تھا اپنے اس سائنسی مطالعہ کی وجہ سے جس نے اس میں ایک سائنسی مزاج پیدا کر دیاتھا ۔ اس نے بائبل کی کہانیوں کے بارے میں غور و فکر کیا جس میں صرف طفلانہ قصے کہانیاں اور خدا پر ایمان کے بارے میں ذکر تھا ۔ تاہم، جیسے جیسے اس کے عقل و شعور کا عروج ہوااور وہ اپنے سائنسی تحقیقات اور دریافتوں کے ذریعے فطرت کے زیادہ قریب ہوا کائنات یا فطرت میں موجود حیرت انگیز ہم آہنگی، کمال اور نضم و ضبط سے حیرت زدہ ہوتا گیا ۔ یہ فطرت میں ایک پرامن طاقت پر اس کے یقین کا باعث بنا جو کہ اس کائنات کے پیچھے کار فرما ہے ۔ خدا کے تصور کے بارے میں وہ ایک یہودی فلسفی اور مفکر سپینوزا کے نظریات سے بہت متاثر تھا جس کا یہ یقین تھا کہ خدا اور فطرط ایک ہی ہے اور کائنات میں ساری چیزیں اسی عظیم طاقت کا مظہر ہیں جس نے تمام مخلوق میں ہم آہنگی کو برقرار رکھا ہے ۔ خدا پر اس کے ایمان کے بارے میں وہ کہتا ہے :
"میں سپینوزا کے اس خدا پر یقین رکھتا ہوں جو کائنات کی موجودات میں منظم ہم آہنگی کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے ، اس خدا پر نہیں جو خود کو اپنے بندوں کی قسمت اور اعمال کے ساتھ جوڑتا ہے ۔"
وہ خدا کے بارے میں سپینوزاکے نظریات سے متأثر تھا اس لئے کہ ایک سائنسدان کے طور وہ لا محدود اور وسیع تر کائنات اور قیاس سے بالا تر اس کی وسعت سے مغلوب ہو گیا تھا ۔ تاہم وہ ہمیشہ سرعت کے ساتھ گردش کر رہے کائنات کے کمال اور ہم آہنگی سے متأثر تھا ۔ اس کا کہنا ہے کہ :
میں فطرت میں ایک شاندار ساخت دیکھتا ہوں جسے ہم صرف ناقص طریقے سے سمجھ سکتے ہیں ، جس سے ایک غور و فکر کرنے والے انسان میں انکساری پیدا ہو جاتی ہے "۔ " یہ ایک حقیقی مذہبی احساس ہے جس کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ "
آئنسٹائن اس کائنات کے نظام سے مرعوب اور مرغوب تھا جبکہ اسی وقت کائنات کی مکمل سچائی کا احاطہ کرنے میں انسانی دماغ کے حدود اور نقص کو تسلیم بھی کرتا ہے ۔ لہٰذا وہ کہتا ہے:
"میں نے ایک نظام دیکھا ہے، لیکن میرا قیاس اس نظام کے خالق کی تصویر کشی نہیں کر سکتا ۔ میں ایک گھڑی دیکھتا ہوں لیکن گھڑی بنانے والے کا تصور نہیں کر سکتا ۔ انسانی دماغ جب چار تنوعات کا تصور نہیں کر سکتا تو وہ کس طرح خدا کا تصور کر سکتا ہے جس کی نظر میں ایک ہزار سال اور ایک ہزار تنوعات ایک ہیں؟ "
اس نے ایک مثال کے ذریعہ وسیع کائنات کی وسعت اور اس حکومت کرنے والے قوانین کی مکمل حقیقت کو سمجھنے میں انسانی دماغ کے نقص اورانحطاط کا اظہار کیا :
"اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسانی دماغ کتنا اعلی تربیت یافتہ ہے ،کائنات کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔ ہماری حالت اس ایک چھوٹے بچے کی سی ہے جو ایک ایسی بڑی لائبریری میں داخل ہو تا ہے جس کی دیواریں چھت تک مختلف زبانوں کی کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔ بچہ جانتا ہے کہ کسی نے ان کتابوں کو لکھا ضرور ہے ۔ لیکن اسے یہ نہیں پتہ ہےکہ کس نے لکھا ہے۔ وہ ان زبانوں کو نہیں سمجھتا جن میں وہ کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ بچہ کتابوں کے نظم و نسق کے بارے میں ایک معین خاکہ پر توجہ دیتا ہے ، ایک پراسرار نظم جو سمجھ سے باہر ہے ، لیکن صرف دھندلے پن کے ساتھ اس کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ ہمارے محدود دماغ اس پراسرار طاقت کا احاطہ نہیں کر سکتے جو ستاروں کے جھرمٹ پر حکمرانی کرتی ہے۔ میں سپینوزا کی ظاہر پرستی کی کا گرویدہ ہوں ۔ میں جدید افکار میں بھی اس کے تعاون کی تعریف کرتا ہوں۔ سپینوزا دور جدید کے فلسفیوں میں عظیم الشان ہے، اس لئے کہ وہ ایسا پہلا فلسفی ہے جس نے روح اور جسم کو ایک مانا دو الگ الگ چیز نہیں ۔ "
تاہم، اس نے خدا کے وجود یا عدم وجود کے بارے میں اپنے نظریات کو فطرت اور کائنات کے بارے میں اپنی سائنسی تفہیم کے نتیجے کے طور پر تشکیل دیا ہے اور اس کے ساتھ پیش آنے میں وہ یہودی فلسفی سپینوزاکےنظریہ اور فلسفہ سے متاثر ہے، لیکن در حقیقت آئنسٹائن قرآنی خدا کے قریب ہے۔ قرآن کئی مواقع پر انسان کو فطرت پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے، اور فطرت اور کائنات میں موجود ہم آہنگی، نظم اور کمال کی تعریف کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ مشرکوں کی طرح قرآن مادی خدا کے اوتار کے طور پر فطرت کی اشیاء کی عبادت کرنے کا حکم انسانوں کو نہیں دیتا ہے ، فطرت میں اس کے مظاہر کے ذریعہ ایک ما فوق الفطرت وجود کا احسا س کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ قرآن مجید کئی مواقع پر مثال ذریعے خدا کی تعجب خیز صنّاعی کی طرف انسان کی توجہ مرکوز کرواتا ہے اور قادر مطلق اور حاضر و ناظر خدا کے وجود میں پختہ یقین رکھنے کی امید کرتا ہے۔
"اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے ، اس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (اے دیکھنے والے) کیا تو (خدا) رحمٰن کی آفرنیش میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھ کو (آسمان میں) کوئی شکاف نظر آتا ہے؟، پھر دو بارہ (سہ بارہ) نظر کر، تو نظر (ہر بار) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی"( الملک: 2-4)۔
اس طرح سپینوزاکی ظاہر پرستی نادانستہ طور پر آئنسٹائن کو مسلم تصوف کے وحدت الوجود اور کے تصور کی طرف لے جاتی ہے۔
سپینوزا کا یہ نظریہ کہ خدا کی کوئی شکل اور اس کا کوئی تشخص نہیں ہےل، اس کا ذکر قرآن کی مندرجہ ذیل آیت میں ہے جسے آئنسٹائن نادانستہ طور پر تسلیم کرتا ہے :
"(وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے۔" (6:103)
اور جب آئنسٹائن انسان کے محدود وجود اور افہام و تفہیم کے مقابلے میں خدا کے بعیدالقیاس وجود کی بات کرتا ہے تو وہ قرآن مجید کی زبان میں بات کرتا ہے:
" انسانی دماغ جب چار تنوعات کا تصور نہیں کر سکتا تو وہ کس طرح خدا کا تصور کر سکتا ہے جس کی نظر میں ایک ہزار سال اور ایک ہزار تنوعات واحد ہیں ؟" قرآن ایک دو مواقع پر یہ کہتا ہے کہ خدا کے لئے ایک ہزار سال انسان کا ایک سال ہے۔
لہذا آئنسٹائن اگرچہ خود کے بارے ایک ظاہر پرست ہونے کا اعتراف کرتا ہے دراصل وہ اس خدا میں یقین رکھتا ہے جو فطرت میں اس کی مخلوق کے ذریعے خود کو ظاہر کرتا ہے ۔ تاہم وہ خدا پر اس طرح یقین نہیں رکھتا ہے جس طرح مذہبی لوگ رکھتے ہیں بلکہ وہ ایک ایسے کائناتی خدا پر یقین رکھتا ہے جو کہ رسومات اور اصول عقائد سے پاک ہے ۔ وہ لوگوں کو ایسے معنوں میں مذہبی نہیں بنانا چاہتا جن معنوں میں مذہبی جنونی ہیں بلکہ وہ روحانیت کی طرف زیادہ مائل ہے ایسی روحانیت جو موسیقی سن سکتی ہے اور مذہب کی یہ تفہیم صرف خدا اور مذہب کی سائنسی تفہیم کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ۔
لہٰذا اس نے ذاتی طور پر یہ تسلیم کرتے ہو ئے کہ وہ سپینوزا کے خدا پر یقین رکھتا ہے، آئنسٹائن در اصل قرآنی خدا کی سمجھ سے قریب ہے۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-science/agnostic-einstein-closer-quranic-god/d/11605
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/agnostic-einstein-closer-quranic-god/d/12954