New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 05:43 PM

Urdu Section ( 23 Apr 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islamic Law and Khula اسلام کا قانون اور خلع

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

خاندان  ایک ایسا ادارہ ہے جس کی تاسیس کا سہرہ انبیا علیہم السلام کے سر  ہے ، مضبوط کردار سے مستعار مضبوط بنیادو کے باعث سیکولر یورپی تہذیب سے اٹھنے والا طوفان بدتمیزی بھی ہنوز اس ادارے کی فیصلوں کو جنبش نہیں دے سکا ۔ خاندان کا آغاز عمل نکاح سے ہوتا ہے جس میں فریقین باہمی رضا مندی سے زندگی کے نشیب وفراز میں یک جان دوقالب بننے کا فیصلہ کرتے ہیں اور قانون انہیں ایک دوسرے کا وارث تک بنادیتا ہے تاکہ تاحیات یہ بندھن قائم ودائم رہے۔ زندگی کے کچھ ترش و تلخ تجربات بعض اوقات اس بندھن کی چولیں ڈھیلی کردیتے ہیں اور انسانی فطرت کے باعث فریقین کا اکٹھا رہنا معاشرے پر بوجھ بننے لگتا ہے ۔ ان حالات میں شریعت اسلامیہ نے فریقین کو یہ حقوق دیے ہیں کہ وہ عدم اتفاق کی صورت میں اپنے اپنے راستے جدا کرنے کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ یہ حق جدائی جب مرد استعمال کرتا ہے تو اسے اصطلاح میں ‘‘طلاق’’ کہا جاتاہے جب کہ عورت کا اس حق کو استعمال کرنا ‘‘خلع’’ کہلاتا ہے ۔ ‘‘خلع’’ کا لفظی مطلب ‘‘اتاردینا’’ ہے۔ قرآن نے چونکہ زن وشو کو ایک دوسرے کا لباس گردانا ہے اس لیے اس تعلق کو ختم کرنا گویا اس لباس کو اتار دینا کہا گیا۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 229میں ارشاد فرمایا ‘‘ اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو، البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ تعالیٰ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہوتو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہوکہ دونوں حدود الہٰی پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں کے درمیا ن یہ معاملہ ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔‘‘ اسی طرح سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ بیوی نے شوہر سے خلع لے لیا ہو ۔ ایک بار ثابت بن قیس نامی مسلمان کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرے شوہر میں اگر چہ کوئی شرعی یا اخلاقی عیب نہیں ہے لیکن پھر بھی مجھے ان کی شکل انتہا ئی ناپسند ہے اور میں ان کی صورت دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے استفسار فرمایا کیا آپ مہر میں لیا ہوا باغ واپس کرنے کے لیئے تیار ہیں؟ انہوں نے جواب دیا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو حکم دیا کہ مہر میں دیا گیا باغ واپس لے لیں اور ان عورت سے علیحدگی اختیار  کرلیں۔ اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک عورت اپنے شوہر کی شکایتیں کرتی ہوئی حاضر ہوئے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے تین راتوں تک گندگی والے گھر میں قید رکھنے کا حکم دیا اور پھر اسے بلا کر پوچھا یہ راتیں تجھ پرکیسے گزریں ؟ اس نے جواب دیا زندگی بھر میں یہی راتیں سکون سے گزاری ہیں،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے شوہر کو خلع کا حکم دیا اور ان میں علیحدگی کرادی۔

زن وشو میں علیحدگی کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں لیکن ان سب اسباب کا سب سے بڑا سبب عدم برداشت ہے۔ برداشت جب تک قائم رہے گی یہ رشتہ بھی قائم رہے گا اور جب اس رشتے ہیں برداشت کا عمل ڈھیلا پڑجائے گا یہ رشتہ بھی نرم پڑسکتاہے۔ برداشت یا عدم برداشت کا تعلق تو خالصتاً ذاتیات سے ہے لیکن قانون اسلامیہ کے ماہرین نے جنہیں اصطلاح میں ‘‘ فقہا کرام’’ کہا جاتا ہے انہوں نے خلع کی چند شرائط لکھی ہیں جن کے باعث خلع کا عمل جائز  گردانا جائے گا۔ ان شرائط میں پہلی شرط شوہر کی طرف سے نان نفقہ کی عدم ادائیگی کا پابند ہوگا، اگر شوہر اپنی یہ ذمہ داری مرد کے کندھوں پرڈالی ہے اور اسے اس بات کا پابند کیا ہے  کہ وہ اہل وعیال کے جملہ اخراجات کی ادائیگی کا پابند ہوگا، اگر شوہر اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو عورت چاہے تو اس کو برداشت کرے اور چاہے تو خلع کا دعویٰ کرسکتی ہے۔اگر شوہر ازدواجی تعلقات کے قابل نہ تو بھی عورت خلع کا دعویٰ کرسکتی ہے، خاوند کے بے دین ہونے کی وجہ یا طبائع میں بعد الشرقین بھی خلع کے دعوے کا باعث بن سکتا ہے جب تک یہ معاملات برداشت کی حد ود کو پھلانگ نہ جائیں ۔اسی طرح بعض فقہا شوہر کی تند مزاجی او رمار پیٹ کا عادی ہونے کو بھی خلع کے دعوے کا باعث سمجھتے ہیں ۔ پس اگر چہ نکاح کے تعلق کا پہلا باب پیار ومحبت کے مقدمے سے ہی شروع ہوتا ہے لیکن بعد کے ادوار میں یہ تعلق بہر حال برداشت سے عبارت ہے اور جب برداشت عنقا ہوجائے تو شریعت نے عورت کو ‘‘خلع ’’ کے دعوے کا حق تفویض کیا ہے جسے وہ جب چاہے استعمال کرسکتی ہے۔ تاہم علیحدگی کا دعویٰ کسی معقول وجہ کی بنیاد پر ہو ٹھیک ہے اور بغیر کسی وجہ کے ہو یا کوئی ایسی وجہ ہو جس کی برداشت ممکن الحصول ہو تو بھی عورت کی طرف سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جنت کی خوشبو حرام ہونے کی وعید سنائی ہے۔

مرد کی طرف سے عورت کو اس حد تک مجبور کرنا کہ وہ خود سے خلع کا دعویٰ کرے انتہائی ناپسندیدہ ہے اور قرآن نے سختی سے منع کیا ہے کہ کسی صورت میں بھی زوجہ کو دیے گئے کسی مال کی واپسی قطعاً ناجائز ہے خواہ وہ حق مہر ہو یا دیگر ہدیہ وتحائف کی صورت میں ادا کیا گیا ہو۔ بلکہ قرآن مجید نے پوری شدومد کے ساتھ اس بات کی نصیحت کی ہے جب عورت کو رخصت کرو تو اسے خالی ہاتھ رخصت نہ کرو بلکہ کچھ دے  دلا کر رخصت کرو۔ مردوں کے لیے مناسب ہے کہ عورتوں کے مطابہ خلع کو رد نہ کریں ،حضرت عمر سے یہ  قول منسوب ہے کہ عورتیں خلع کا ارادہ کریں تو انکار نہ کرو۔ ان تعلیمات کی موجودگی میں مردوں کا اس طرح عورتوں پر تشدد کرنا کہ وہ خود ہی تنگ آکر لیا ہوا مال لوٹا کر خلع کا دعویٰ کر بیٹھیں ،بالکل بھی ناجائز و ناپسند یدہ ہے ۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے کہ عورت کو تکلیف پہنچا کر اور اس کے حق میں کمی کر کے اگر اسے مجبور کیا گیا اوراس کو ادا کیا گیا مال لے لیا گیا تو اس مال کا عورت کو لوٹانا ‘‘واجب’’ ہے۔ احناف کے ہاں بھی اسی طرح کا فتویٰ موجود ہے کہ اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہوتو شوہر کے لیے اتنا ہی لینا جائز  ہے جتنا کہ دیا تھا اس سے زیادہ کی وصولی قطعاً ناجائز ہے اور اگر زیادتی کا ذمہ دار مرد ہوتو پھر احناف میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ ا س صورت میں مرد کا کچھ بھی لینا جائز نہیں اور بغیر کچھ لیے ہی عورت سے خلع کرنا ضروری ہے ، کم وبیش اسی طرح کی رائے حضرت امام علی کرم اللہ وجہہ سے بھی مروی ہے۔

خلع گھر بیٹھے بھی ہوسکتا ہے اگر فریقین باہمی طور پر اس پر رضا مند ہو ں اور اگر ایک فریق اس پر رضا مند نہ ہوتو عدالت سے رجوع کرنا ضروری ہے کہ عدالت ،پنچایت یا جرگہ میں ا س کا فیصلہ کیا جائے۔جس طرح روایات سے ثابت ہے کہ عورت اپنا دعویٰ خلع لے کر خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئی یا خلفا ئے راشدین کے پاس بھی عورتیں اسی مقصد کے لیے آئیں، اسی طرح یہ قانون ہے کہ عورت کو اپنا دعویٰ لے کر حکیم یا قاضی کے پاس جانا ہوگا ۔حاکم یا قاضی فریقین کا موقف سنے گا اور چاہے انہیں برداشت کی خاطر مہلت دے تاکہ اپنے رویوں اور فیصلوں پرنظر ثانی کرسکیں اور اس طرح ایک گھر اجڑ نے سے بچ پائے او ر چاہے تو ان کے درمیان فیصلہ کردے۔ شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں، پہلی صورت میں حاکم شوہر سے کہے گا کہ عدالت کے روبرو اپنی زوجہ کو طلاق دے دے ، اگر شوہر نے طلاق دے دی تو یہ طلاق بائن صغری ہوگی۔ اور اگر شوہر طلاق دینے سے انکار کردے تو عدالت یا حاکم اپنے صوابدیدی اختیار ات استعمال کرتے ہوئے اس نکاح کو فسخ قرار دے دے گا، نکاح کے فسخ ہونے کا سادہ سا مطلب ہے کہ نکاح اب باقی نہیں رہا اورزن وشواب باہم نامحرم ہوگئے ۔ دونوں صورتوں میں عورت کو ایک حیض تک عدت میں رہنا ہوگا، خلع کے بعد پہلے غسل کے بعد اب اس کی عدت ختم ہوچکی  جب کہ بعض فقہا تین حیض کے بھی قائل ہیں۔ عدت کے بعد وہ چاہے تو اپنا عقد ثانی اپنی مرضی سے کرسکتی ہے اور اس کےگزشتہ شوہر کو حق رجعت باقی نہیں رہتا ۔ حق رجعت کا مطلب ہے کہ طلاق کی صور ت میں مرد اگر چاہے تو رجوع کر کے طلاق کو ختم کرسکتا ہے لیکن طلاق چونکہ مرد کی مرضی سے واقع ہوتی ہے اس لیے اسے رجوع کا حق رہتا ہے جب کہ خلع چونکہ عورت کی مرضی سے واقع ہوا اس لیے خلع کے بعد مرد کا یہ حق رجعت سا قط ہوجاتا ہے یعنی ختم ہوجاتا ہے ۔بعد میں اگر زوجین اپنی اپنی اصلاح کرلیں تو باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔

محسن انسانیت صلی للہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی شان ہےکہ ‘‘زن وشو ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں’’ پس جب تک دونوں پہیے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہیں گے گاڑی بھی چلتی رہے گی، اور جب بھی گاڑی کسی موڑ پر پہنچے گی تو لا محالہ ایک پہیے کو کم اور دوسرے پہیے زیادہ بڑا چکر کاٹنا ہوگا ا س صورت  میں حقوق وفرائض میں توازن کا نظام لازمی طور پر متاثر ہوگا، اب اگر دونوں پہیے گاڑی کی خاطر ایک ایک دوسرے کی کمی وزیادتی برداشت کرتے رہیں گے تو منزل تک پہنچنا یقینی ہوگا بصورت دیگر ایک پہیے کی علیحدگی سے گاڑی یقینی طور پر رک جائے گی اور پھر بعد میں آنے والا پہیہ کس طرح سے اس گاڑی کو کھینچ پاتا ہے اس کا اندازہ قبل از وقت ہوگا۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اس دین کےقانون میں  اختلاف طبائع کا اعتبار کیا گیا ہے اور مزاج کی دوریوں کو بھی خاطر میں لایا گیا ہے اور گاڑی کے پہیوں پر زبردستی نہیں کی گئی تاہم معاشرتی ارتقا او رآنے والی نسلوں کے نفسیاتی وجذباتی استحکام کا تقاضا ہے کہ زوجین باہمی رنجشوں اور وقتی  ناراضگیوں کو دوراز کا ر مقاصد کے حصول پرقربان کریں اور ایک دوسرے سے ہمیشہ سمجھوتہ کرتے رہیں کہ اسی میں نسل انسانی کی بقا مضمر ہے اور علیحدگی سے حل ہونے والے مسائل  کی  نسبت پیدا ہونے والے مسائل کی کمیت و حجم کہیں زیادہ ہے۔

بشکریہ : چترال ٹائمس ،پاکستان

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-law-khula-/d/7135

Loading..

Loading..