ڈاکٹر صفدر محمود
23 اپریل، 2016
روم علم و دانش کا سرچشمہ ہیں اور علامہ اقبال انہیں اپنا مرشد قرار دیتے ہیں ۔ گویا مرشد کے لیے زندہ ہونا ضروری نہیں ۔‘‘ مثنوی مولانا روم’’ قرآن حکیم کی فارسی تفسیر ۔ تین ضخیم جلدوں پر مشتمل مثنوی پڑھنا بہت مشکل اور ‘‘اوکھا’’ کام ہے اس لیے میں بحیثیت جزوقتی طالب علم کبھی کبھی مثنوی کے کچھ صفحات پڑھتا رہتا ہوں ۔میرے نزدیک مولانا روم ان بزرگ اور اعلیٰ وارفع روحانی شخصیات میں سے تھے جو قرآن حکیم ، سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حدیث مبارکہ کو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ ان کی روح سے آگاہی رکھتے تھے ۔ ایسا علم اللہ کادین ہوتا ہے جو صرف محنت سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا روم کو ان عظیم روحانی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے ساری زندگی قرب الہٰی کی راہ میں گزار دی ۔ اللہ سبحان تعالیٰ نے ان کا نام قیامت تک تابندہ کردیا اور آج کئی صدیوں بعد بھی وہ علم و دانش اور روحانیت کا روشن مینار بن کر چار سو روشنی پھیلارہے ہیں ۔
مولانا روم نے زندگی قرب الہٰی کے حصول میں گزار دی اور پھراس راہ کے مسافروں کی سینکڑوں انداز سے رہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دے دیا۔ شرط فقط ایک ہے کہ آپ پورے خلوص ، نیک نیتی اور مکمل لگن سے راہ کے مسافرہوں اور صرف یہی ایک منتہا ئے مقصود ہو۔ یہ بات کہنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بے شمار لوگ نیک کام کرتےہیں، مخلوق خدا کی خدمت کرتے ہیں اور اللہ کی مخلوق سے پیار بھی کرتے ہیں لیکن ان کا مقصد محض اور صرف رضائے الہٰی نہیں ہوتا،کچھ لوگ اپنے مزاج ، اپنے جذبے ، اپنی تربیت اور سرشت یا کسی اور وجہ سے نیک کام سر انجام دیتے ہیں، مخلوق خدا کی خدمت کرتےہیں ، انسانوں میں محبت بانٹتے ہیں ، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں، فلاحی کام کرتے ہیں اور نادار مریضوں کا علاج کرواتے ہیں لیکن وہ یہ سارے کام صرف اور صرف رضائے الہٰی یا قرب الہٰی کےلیے کرتےہیں ۔ ان میں سے کچھ حضرات دنیا میں ناموری ، شہرت، عزت و مرتبہ اور مقام حاصل کرنے کے لیے یہ خدمات سر انجام دیتے ہیں اور کچھ اپنی نیک فطرت یا خدمت کےجذبے کے تحت یا قلبی سکون کے حصول کے لیے خدمات سر انجام دیتے ہیں ۔ اللہ پاک نیکی کا اجر اس دنیا میں بھی دیتے ہیں اور آخرت میں بھی کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا نظام انصاف کے ستون پر کھڑا ہوا ہے ، چنانچہ وہ عام طور پر اپنے مقصد میں کامیاب رہتے ہیں یعنی انہیں ناموری ، عزت، مقام یا قلبی اطمینان مل جاتا ہے لیکن قرب الہٰی نہیں کیونکہ قرب الہٰی صرف اسی صورت میں ملتا ہے جب مقصد اور نیت ہی صرف اور صرف یہ ہو ۔ اللہ پاک نیتوں کا حال خوب جانتے ہیں، ہمارے ارادوں کوبہترین سمجھتے ہیں۔ رہا نیکی کا عمل تو وہ سمندر کی مانند ہر سو پھیلا ہوا ہے ۔ السلام علیکم میں پہل، مسکراہٹ کا صدقہ، کسی کی مدد یا اچھا مشورہ دینا، صبر، برداشت ، انسانیت کا احترام ،قلب کو حسد، غصے ، نفرت ، انتقام ، ہوس ، غیبت وغیرہ سےپاک رکھنا ، دوسروں کا بھلا چاہنا ، جھوٹ ، تکبر ، لوگوں کی عزت نفس مجروح کرنے سے پرہیز یہ سب نیکیاں او رنیکیوں کی روشن راہیں ہیں اور ان کا بہر حال اجر ملتا ہے لیکن اگر یہ کام محض اللہ پاک کی قربت حاصل کرنے کے خالص ارادے سے کیے جائیں تو ان کے اجر کے ساتھ ساتھ قرب الہٰی کے حصول کی منازل بھی طے ہو تی چلی جاتی ہیں ۔ اپنے فہم کے مطابق یہ وضاحت اس لیے کررہا ہوں کہ دنیابھر میں پھیلے ہوئے انسان نیک کام کرتےرہتے ہیں لیکن انہی قرب الہٰی کی لگن ہوتی ہے نہ ادراک۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ مجھے خود بھی علم نہیں ، ایسے ہی ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہوں اور جو خیال ذہن کے آنگن میں اترتا ہے ۔ قلم سے لکھ رہا ہوں:
شاید کے اتر جائے ترے دل میں مری بات
یہ حال ہے مولانا روم اور ان کے روحانی علم و دانش کا ، آج مولانا روم کا ایک قول پڑھا تو لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی کیونکہ میرے ناقص ادراک نے یوں جانا جیسے یہ مولانا روم کے مطالعے ، غور و خوض ، من کے مشاہدے اور منزل کے حصول کے حوالے سےتجربات کا نچوڑ ہے۔ نچوڑ نہ بھی ہو تو کم از کم نشان منزل اور راستے کی جانب رہنمائی ضرور ہے۔ اب ذرا مولانا روم کے نہایت سادہ، عام فہم اور دل میں اترنے والے الفاظ پہ غور کریں ۔ انہیں یونہی سطحی انداز سے نہ پڑھ جائیں بلکہ ان پر تدبر کریں ۔ مولانا روم کا فرمان ہے : ‘‘ خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن میں نے آسان ترین اور اللہ پاک کا پسندیدہ ترین راستہ چنا اور وہ راستہ ہے اللہ کی مخلوق سے محبت اور اللہ کی مخلوق کی خدمت ’’۔
ذرا ان الفاظ کی گہرائی اور گیرائی دونوں پر غور کریں ۔ اول تو یہ کہ منتہائے مقصود قرب الہٰی اور صرف قرب الہٰی کا حصول ہوتو پھر منزل پر پہنچنے کے راستے کی جستجو ہوتی ہے۔ مولانا کا فرمان ہے کہ بہت سےراستے اس منزل پر لے جاتے ہیں مثلاً بہت سی روحانی شخصیات ، اولیائے کرام اورنیک ہستیوں نےاس منزل کے حصول کے لیے عبادات و مجاہدات ، نفس کشی کے سنگلاخ راستے منتخب کیے اور اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے کیونکہ اللہ پاک کے انصاف پر مبنی نظام میں اجر ضرور ملتا ہے ، تھوڑا زیادہ اس کا انحصار نیت او رمحنت پر ہوتا ہے ۔ کچھ معصوم حضرات جن کے باطن روشن تھے انہیں یہ منزل کسی کی نظر سے مل گئی ۔
مطلب یہ کہ اگر یہ مقام آپ کے مقدر میں ہے اور آپ نے اپنے دامن کو دنیاوی ہوس اور لہو و لعب سے آلودہ نہیں ہونے دیا اور پھر یہ کہ آپ کی خواہش اور آرزو سو فیصد نیک نیتی پرمبنی ہے تو کبھی کبھی یہ منازل کسی مرد کا مل ، کسی ولی کامل یا مرشد کی نگاہ سے بھی طے ہوجاتی ہیں لیکن مولانا روم کا فرمان ہے کہ انہوں نے اس منزل عظیم پر پہنچنے کے لیے اللہ کی مخلوق سےمحبت اور خدمت کا راستہ چنا۔ غور کیجئے مولاناروم اس راستے کو آسان اور اللہ سبحان تعالیٰ کا پسندیدہ ترین راستہ قرار دیتے ہیں یعنی یہ قرب الہٰی حاصل کرنے کا شارٹ کٹ ہے اور ہاں یاد رہے مولانا اللہ کی مخلوق کا لفظ استعمال کیا ہے محض مسلمان اور انسان کا نہیں کیونکہ سارے انسان ، بلا امتیاز مذہب، رنگ و نسل انسان ہیں اور اللہ کی مخلوق ہیں اور پھر صرف انسان ہی اللہ پاک کی مخلوق ہیں اور پھر صرف انسان ہی اللہ پا ک کی مخلوق نہیں ، حیوانات بھی اللہ پاک کی جاندار مخلوق ہیں ۔ مخلوق کے لفظ پر غور کرتے جائیں تو معانی کے نئے نئے دروازے کھلتے جائیں گے، پھر محبت اور خدمت کے الفاظ پر غور کریں کیونکہ خدمت تو محبت کے بغیر نہیں ہوسکتی لیکن محبت خدمت کے بغیر بھی ہوسکتی ہے جب کہ مولانا روم نے محبت اور خدمت دونوں کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ بظاہر مولانا روم نے اسے آسان راستہ قرار دیا ہے لیکن یہ راستے بھی اتنے آسان نہیں او رنہ ہی اپنی شخصیت کو ان اصولوں کے سانچے میں ڈھالنا آسان ہے۔مسئلہ ہے لگن کے تحت اپنے نفس کو مارنے کا جس کے بغیر اس راہ کا مسافر نہیں بنا سکتا ۔ یہ راستہ یقیناً آسان ہے ان کے لیے جن کی لگن سچی ہو اور جن کے باطن میں عشق الہٰی کی چنگاری موجود ہو۔
23 اپریل، 2016 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-rumi-love-service-god’s/d/107090