New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 05:45 PM

Urdu Section ( 14 Jul 2010, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

They Have Started Stoking Fire Again In The Kashmir Valley پھر دہکنے لگی آتش چنار


It is a fact that a part of Kashmir is occupied by Pakistan and a solution has not been reached on the Pakistan-occupied-Kashmir. But a few days ago a statement of POK Prime Minister Raja Farooq Haider appeared in the newspapers which made us realise that the people of Pakistan-occupid-Kashmir also want peace. He meant that be it Jammu & Kashmir or Pakistan-occupied-Kashmir, not only the people but the rulers on both sides want a solution that could ensure a lasting peace. That will bring back normalcy and the people will heave a sigh of relief. As of now, the people in both parts of Kashmir are a picture of helplessness and there is no one to address their woes. In a sense, the suggestion of the Prime Minister of PoK, Raja Farooq is a positive one. He said that the affairs of Kashmir should not be attached to the Indo-Pak dialogue as of late Pakistan was embroiled in its own internal problems and was in a weak position. It clearly indicates that Raja Farooq Haider’s stance is that first of all India and Pakistan should resolve their disputes. Once the relations are restored and there is an atmosphere of mutual confidence and bonhomie, the Kashmir issue could also be resolved. His proposal has come at a time when India and Pakistan are readying for talks and Kashmir is going through turmoil. The situation could be brought back to normal acting on the proposal. But first the leaders of Kashmir have to decide not to stoke the fire in the state. Dr Rizwan Ahmad

Source: Hindustan Express, New Delhi

URL: https://newageislam.com/urdu-section/they-started-stoking-fire-again/d/3145


ڈاکٹر رضوان احمد

وادی میں ایک بار پھر سےچنار کے پتوں میں دبی ہوئی چنگاریوں کو ہوادےکر مفاد پرستوں نےشعلوں میں تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ وہاں جس طرح سے گزشتہ چند برسوں سے امن کی بحالیا کاعمل چل رہا تھا اورحالات معمول پر آنے لگے تھے اس سے یہ امید بندھی تھی کہ ایک بارپھر وادی کا ماحول خوشگوار ہوجائے گا۔ لیکن پے بہ پے جو واقعات پیش آئے اور جس طرح سے معصوم لوگوں کا قتل ہوا اس نے چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کردیا۔ اس کے نتیجے میں پھر سے افواج کو شاہراہوں پر آنا پڑا ۔ حالانکہ گزشتہ دودہائیوں سے افواج کو روزمرہ کے معاملات سے دور رکھا گیا تھا اور یہ امید کی جارہی تھی کہ مقامی انتظامیہ اورپولس ہی حالات پر قابو پالینے کے لئے کافی ہیں۔ لیکن اچانک ہی حالات نے جو موڑ لیا اور جو افسوسناک واقعات پیش آئے ان کے سبب پھر سے افواج کو بلانا پڑا۔

دراصل وادی کشمیر میں صرف وہاں کی پارٹیاں سیاست نہیں کرتی ہیں بلکہ اس میں کئی فریق بن جاتے ہیں اور ان سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو زبردست اکثریت حاصل ہوئی تھی اور اس کے بعد عمر عبداللہ وہاں کے وزیر اعلیٰ بنے تھے ۔چونکہ عمر عبداللہ نوجوان اور اولوالعزم ہیں اس لئے ان سے یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ حالات کو سنبھالیں گے ۔گزشتہ ایک برس سے حالات بالکل ٹھیک راستے پر چل رہے تھے، اکاوکاواقعات کے علاوہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا جسے تشویشناک کہا جائے لیکن پھر سوپوریا بڈگام میں جو واقعات پیش آئے اور جس طرح سے نصف درجن معصوم انسانوں کا قتل ہوا ان سے یہ اندازہ تو ہوتا ہی ہےکہ ان باتوں کے پس پشت کوئی سازش کام کررہی ہے جس کامقصد وہاں کے امن کو بگاڑ نا اور حالات کو غلط رخ پر لے جانا ہے۔ حکومت نے یہ کوشش تو ضرور کی کہ وہ حالات پر قابو حاصل کرلے لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور پھر حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے جس کے بعد حکومت کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ وہ افواج کو بلائے تاکہ جلد سے جلد حالات کو قابو میں کیا جاسکے ۔ظاہر ہے یہ فیصلہ بے حد مجبوری کے تحت لیا گیا ہوگا ۔کیونکہ اس طرح کے اقدامات سے عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور حکومت کی اپنی ساکھ کمزور ہوتی ہے ۔کشمیر گزشتہ کافی برسوں سے دہشت گرد ی کی آگ میں جلتا رہا ہے اور یہ کوئی بھی امید نہیں کرسکتا کہ راتوں رات وہاں حالات قابو میں آجائیں گے لیکن حالات جس ڈگر پر چل رہے تھے اس سے یہ توقع تو ضرور بندھی تھی کہ اب حالات معمول پر آجائیں گے۔ لیکن حالیہ واقعہ سے اس خیال کو کافی ضرب لگی ہے اور لوگوں کا اعتماد بھی مجروح ہوا ہے۔ دراصل گزشتہ ہفتہ جو چار افراد ہلاک ہوئے اور 70سے زیادہ افراد مجروح ہوگئے وہ سب کے سب بچے یا نوجوان تھے اور ان کی عمر 9برس سے لے کر 25برس کے درمیان تھی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل کے اندر کس طرح کی بداعتمادی پیدا کی گئی ہے۔ وہ لوگ اب اس قسم کے احتجاج اور حکومت مخالف مہم میں شامل ہونے لگے ہیں تاکہ اپنی برگشتگی کا اظہار کرسکیں ۔حد تو یہ ہے کہ معصوم بچے نکل کر سڑکوں پر آگئے اور انہیں گو لیوں کی باڑھ پر لے لیا گیا ۔ اگر ان واقعات کو روکا جاسکتا تو شاید تصادم کی یہ نوبت نہ آتی اور  حالات اس قدر نہ بگڑنے پاتے ۔ لیکن کچھ مفاد پرست لوگ ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں جس سے حکومت کا نبرد آزما ہونا مشکل ہوجاتا ہے اور انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ معصوم بچے یا نوجوانوں کا قتل ہورہا ہے ۔کیونکہ اس کے بغیر انہیں اپنی سیاست چمکانے کا موقع نہیں مل سکتا ۔ اس طرح کتنے ہی نوجوان حالات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

اتفاق سے یہ واقعات اس وقت پیش آئے جب کہ امرناتھ یاترا شروع ہوچکی تھی چونکہ یہ یاترا بہت ہی حساس موضوع ہے اور اس پر قابو پانا جمو ں وکشمیر حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ پورے ملک سے زائرین وہاں آتے ہیں جن سے وادی کی اقتصادیات کوبھی فائدہ پہنچتا ہے اس لئے عوام کو حالات بگاڑنے سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی ،لیکن جیسے ہی حالات بے قابو ہوئے ،کئی جانب سے افواج کو لانے کا مطالبہ شروع ہوگیا۔ حالانکہ وادی کے عوام برسوں سے یہ مطالبہ کررہے تھے کہ اب کشمیر سے مسلح افواج کو ہٹالیا جائے۔ اس کے باعث یہ امید بھی کی جارہی تھی کہ جب افواج ہٹا لی جائیں گی تو حالات معمول پر آجائیں گے۔گزشتہ سال وزیر دفاع اے کے انتونی نے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ جلد ہی یہاں سے 35ہزار مسلح افواج کو ہٹالیا جائے گا اور یہ اعلان عمر عبداللہ نے ریاستی اسمبلی میں بھی کردیا تھا کہ اب حالات معمول پر آرہے ہیں اس لے مسلح افواج کویہاں سے رخصت کردیا جائے گا اور امن وقانون کی مشنری کو مقامی انتظامیہ سنبھال لے گی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ کیونکہ حالات پھر سے بے قابو ہونے لگے ۔ جس کے سبب افواج کو پھر سے بیرکوں سے نکل کر باہر آنا پڑا۔

ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کو کشمیر مسئلے پر بہت ٹھنڈے دل سے غور کرنا پڑے گا اور اس کا دیر پا حل نکالنا پڑے گا ۔ظاہر ہے کہ پاکستان اس میں کوئی فریق نہیں ہے۔ یہ ضرور ہےکہ کشمیر میں حالات خراب ہوتے ہیں تو اسے اس معاملہ پر بولنے کا یا بغلیں بجانے کا موقع مل جاتا ہے ۔لیکن کشمیر کی جو تنظیمیں ہیں خواہ وہ حریت کانفرنس ہوں یا پھر میرواعظ مولانا عمر فاروق کی تنظیم ۔ ان سے تو بات چیت کر کے کوئی حل نکالا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ بھی عجیب وغریب اتفاق ہے کہ حکومت جب ان کے ساتھ گفت وشنید کا کوئی موقع نکالتی ہے تو اس قسم کے واقعات پیش آجاتے ہیں اور گفت وشنید کی بات دھر ی کی دھری رہ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں جب پاکستان کے ساتھ بات چیت آجاتے ہیں اور اس کے بعد بات چیت کا شیرازہ ہی بکھر کر رہ جاتا ہے۔

یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے قبضے میں ہے اور اس مقبوضہ کشمیر کا حل بھی اب تک نہیں نکل سکا ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں وہاں کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا جو بیان اخبارات میں آیا ہے اس سے یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اس کشمیر کے عوام بھی امن چاہتے ہیں ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ جموں وکشمیر ہویا پھر پاکستان کا مقبوضہ کشمیر دونوں جگہ کے عوام ہی نہیں حکمراں بھی ایک ایسے حل کے خواہش مند ہیں جو دیرپا امن دے سکے ۔ اس سے نہ صرف اس علاقے کے حالات معمول پر آجائیں گے بلکہ عوام بھی سکون کا سانس لے سکیں گے۔ ابھی تک تو کشمیر کے ان دونوں حصوں کے عوام بے چارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور ان کے دروکا مدادا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایک طرح سے پاکستان کے قبضے والے کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا مشورہ بہت ہی مثبت ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہند۔پاک مذاکرات کے ساتھ کشمیر کے معاملات کو منسلک نہ کیا جائے ۔کیونکہ فی الوقت پاکستان خود ہی داخلی انتشار کا شکار ہے اور اس کی اپنی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ راجہ فاروق حیدر یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ہندوستان کے ساتھ اپنے تمام چھوٹے بڑے اختلافات اور تنازعات کو پہلے حل کر لے اور جب دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آجائیں نیز خیر سگالی کا ماحول پیداہوجائے تو تناؤ خود بخود ختم ہوجائے گا۔ اس کے بعد کشمیر کے مسئلے کو بھی بات چیت سے حل کرلیا جائے گا۔ چونکہ ایسے حالات میں راجہ فاروق حیدر کی یہ تجویز آئی ہے جب ہندوپاک گفت وشنید کے لئے تیار ہورہے ہیں اور کشمیر انتشار سے دوچار ہے تو ان کی تجویز پر عمل کر کے حالات کو معمول پر لایا جاسکتا ہے ۔مگر سب سے پہلے کشمیر کے رہنما ؤں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ چنار کے پتوں میں دبی ہوئی چنگایوں کو ہوا دے کر شعلہ بنانے کی کوشش نہ کریں۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/they-started-stoking-fire-again/d/3145

 

Loading..

Loading..