ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی
14 اکتوبر، 2014
اسلام نوعِ اسلام کی خیر و
فلاح ، امن و عدل اور صلح و آشتی کوبڑی تاکید کے ساتھ اقوام و ملل او رملک و معاشرہ
میں قائم و دائم رکھنے کا حکم دیتاہے، نیز فتنہ و فساد اور ظلم و جور کے سد باب کی تلقین کرتا ہے ۔ دیگر
مذاہب عالم میں اس قدر واضح، درخشاں اور تاکیدی
تعلیمات اگر معدوم نہیں تو تشنہ اور مفقود ضرور ہیں ۔ اسلام دین فطرت ہے۔ وہ معاشرہ
انسانی میں امن و امان ، صلح و آشتی اور فطری
حقوق کے حصول کی جد وجہد کو کامیابی کا ضامن قرار دیتا ہے اور فساد فی الارض اور قتل و غارتگری کو دنیا و
آخرت میں ناکامی و نا مرادی کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ اسلام کا نظام ‘ جنگ و جہاد’ بھی
بنی نوع انسان کے لئے فلاح و بہبود کا ضامن قرار پاتا ہے۔ یہ نظام ظلم و عدوان کی ساری
پگڈنڈیوں کو حقیر جانتے ہوئے ملک و معاشرہ
میں امن و عدل کی بحالی کے لئے راہیں ہموار کرتا ہے۔
عام معنی و مفہوم کے لحاظ
سے قتال یا جنگ کو اسلام میں مسعود و مبارک عمل قرار نہیں دیا جاتا ۔ دوسرے الفاظ میں
اس کی تعبیر یوں کی جاسکتی ہے کہ اپنی نفسیاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے، ذاتی ، گروہی
اور قومی مفادات کے حصول کی خاطر یا منصب و اقتدار کی چاہت میں اگر جنگ کی جائے تو
یہ جنگ انتہائی مذموم ہے۔اس جنگ یا قتال کو اسلام طاغوت کی راہ میں جنگ قرار دیتا ہے۔
اس لیے کہ اس نہج سے کی جانے والی جنگ میں جائز و ناجائز ، حلا ل و حرام اور مستحسن و قبیح ، یہ سب بے معنی ہوجاتےہیں ۔ جنگ کرنے والا حدود کو پھلانگ جاتا
ہے، انسان کی عزت و آبرو کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اور لوٹ کھسوٹ مرکز توجہ بن
جاتی ہے۔ اَنا اور ہٹ دھرمی کے محور پر گردش کرتے ہوئے اور ذاتی مفادات کو مظمح نظر
بناتے ہوئے جنگ کی آگ بھڑکانے والا شخص یا گروہ، انسانیت کے حدود و قیود کی پروا نہیں کرتا، یہاں تک کہ انسانی خون کی ندیاں بہہ جائیں،
تو ایسے شخص یا گروہ کے لئے یہ دلدوز واقعہ بھی باعث قلق و اضطراب نہیں ہوتا ۔
کفر و شرک کا علمبردار طاغوت
کی راہ میں لڑتا ہے اس لیے کہ اس کے احباب شیاطین ہوتے ہیں اور قرآن مجید کے اعلان
کے مطابق یہ شیاطین انسان کے کھلے دشمن ہوتے ہیں ۔ معبود ان باطل کے علمبردار یا طاغوت
کے پرستار حزب الشیطان سے موسوم ہوتے ہیں اور ان کے بارےمیں کتاب اللہ واضح انداز میں
ناطق ہے کہ ناکامی و نامرادی ان کا مقدر ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے علمبردار صرف اور
صرف اللہ کی راہ میں برسر جنگ ہوتے ہیں۔ یہ حزب اللہ موسوم ہوتے ہیں اور ان کی کامیابی
و کامرانی کا اللہ رب العزت کی طرف سے اعلامیہ جاری ہوتا ہے ۔ ایک ایسا شخص مخلص اور اسلام کا سچا پیامی
ہوہی نہیں سکتا جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے
نہ کردے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معبود ان باطل کا
قلادہ اتار پھینک کر ببانگ دہل اعلان کرتاہے: بلاشبہ ہم نے اپنا رخ یکسو ہوکر اس ہستی کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور
زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
بندۂ مومن سے تقاضا ہوتا
ہے کہ وہ اخلاص و للّٰہیت کو شیوۂ حیات بنالے اور اطاعت و بندگی کو اسی کے لئے خالص کرلے۔ اور عملی طور پر بھی تمام معاملات زندگی میں اللہ واحد کے دین کو ہی اپنا ہادی و پیشوا قرار دے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ برملا اس حقیقت کا اعلان بھی کرتا ہے کہ اس کی تمام تر مصروفیات و مشغولیات اللہ واحد کے لئے ہوں گی۔ بندہ ٔ مومن
کا یہ مبارک اعلان اللہ کی کتاب یوں محفوظ کرتی ہے: بے شک میری نماز اور میری قربانی
اور میرا مرنا اور میرا جینا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔ رسالت مآب صلی اللہ
علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی بندہ مومن
کی صحیح تصویر کشی کرتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا
یہاں تک کہ اس کی خواہشات اس ( شریعت) کے تابع نہ ہوجائے جو میں لے کر آیا ہوں ۔
مندرجہ بالا تعلیمات قرآن
و حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت تشت ازبام ہوجاتی ہے کہ اسلام کا علمبردار اللہ کو دیئے
گئے ضابطہ زندگی کا تابع ہوتاہے اور ہمہ آن اور ہمہ وقت اللہ رب العزت کی مرضی ہی اس کے فکر و عمل و سعی و جہد کا محورو مستقر بنتی
ہے۔ اس لیے اگر جنگ و قتال کا اقدام بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے تو صرف اور صرف دین و
شریعت کے حدود میں اور اللہ کی خوشنودی کا پروانہ حاصل کرنے کے لیے ۔
اللہ کی راہ میں جو جنگ ہوتی
ہے وہ مقدس جنگ ہوتی ہے اور اسے عرف عام میں جہاد سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اگر چہ جہاد
اپنے وسیع مفہوم میں ان تمام انتھک کوششوں سے عبارت ہے جو اللہ کی مرضی کا پابند ہوکر
اللہ کے دین کی سرفرازی کے لئے کی جائیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ کلمہ
طیبہ کا دل کی گہرائیوں سے اظہار و اعلان فکری جہاد کا پہلا مرحلہ ہے اور نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور
حج جیسی عظیم الشان عملی عبادتیں جنہیں ستون دین کا بھی درجہ حاصل ہے، اس عظیم ترین
فکری جہاد کے تقاضے ہیں ۔ ان کے علاوہ ہر وہ محنت شاقہ جو وقت ، مال اور جان کا سرمایہ
لگا کر کی جائے، جہاد میں شامل ہے۔ بلاشبہ
جان جیسی متاع عزیز کا سرمایہ اگر اللہ کے دین کی سر بلندی میں لگایا جارہا
ہو تو یہ جہاد بالسیف ہے جسے جہاد فی سبیل اللہ کی آخری منزل سے موسوم کیا جاتا ہے۔
جہاد کا لغوی مفہوم ، جہاد
کی شرعی تعریف ، اہمیت ، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی فرضیت اور آداب جہاد، جیسے
ذیلی مباحث زیر بحث باب کے حصہ ثانی کے مشتملات
و مباحث ہیں جن کی روشنی میں اسلام کا تصور جنگ منظر عام پر آجاتا ہے۔لغوی اعتبار
سے جہاد کے معنی ا س طرح ہیں : جہاد مصدر ہے، یہ مشتق ہے جہد سے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ
۔
مفردات القرآن کے مؤلف ان
الفاظ کی تحقیق میں لکھتے ہیں : جہاد دشمن
سے دفع میں بھر پورکوشش کرنے سے عبارت ہے۔ تفسیر نیشاپوری میں مرقوم ہے: المجاہدہ جہد
سے ہے فتح کے ساتھ اور یہ مشقت کے معنی میں
ہے یاضمہ کے ساتھ طاقت کے معنی میں، اس لیے کہ یہ دشمنوں سے قتال میں بھرپور
کوشش او ر طاقت صرف کرنے کا نام ہے۔
امام کسائی اپنی مشہور و معروف
کتاب بدائع الصنائع میں تحریر کرتے ہیں : بہر حال جہاں تک جہاد کی لغوی تعریف کامسئلہ ہے ۔تو وہ یہ ہے کہ لغت میں یا تو جہاد
‘‘ بذل الحید’’ ( تمام وسعت و طاقت لگا دینا) سے عبارت ہے۔ یا تو ( المبالغہ
العمل) کسی کام کو انتہائی بلیغ انداز سے سر انجام دینے سے عبارت ہے۔
علامہ بدرالدین عینی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عرف شرعی میں
جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ملحد انہ طاقتوں کی پوری طاقت و قوت سے سرکوبی کرنے سے
عبارت ہے۔ صاحب فتح القدیر قمطراز ہیں : مسلم کا ملحد سے قتال کرنا ہےبغیر کسی عہد
وپیمان کے اس کو اسلام کی دعوت دینے کے بعد، اور اس کے انکار کرنے کے بعد اللہ کے کلمہ
کو بلند کرنے کے لئے ۔ امام کا سانی حنفی جہاد کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ عرف
شرعی میں جہاد اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کےلئے
جانی و مالی اور لسانی قوتوں کو پوری طاقت
سے صرف کرنے سے عبارت ہے۔
فتح الباری میں ابن حجر لکھتے
ہیں : شریعت کی اصطلاح میں کفار سے جنگ میں جہد و کاوش صرف کرنے کو جہاد کہا جاتاہے
۔
جہاد کی مذکورہ بالا تمام
تعریفیں اگر چہ درست ہیں اور بڑی حد تک قرآن کے فلسفۂ جہاد کے قریب
دکھائی دیتی ہیں ۔ لیکن جدید عصری تقاضوں کے پیش نظر جہاد کی مختلف جہات، اقسام اور
عصر جدید میں اسلام کے سامنے پیش آنے والے
حالات کو سامنے رکھتے ہوئے راقم الحروف کے
مطابق دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ ، ترویج وسربلندی ، اعلاء کلمۃ اللہ اور حصول رضائے الہٰی کے
لئے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی،
فکری اور ذہنی صلاحیتوں کو اسلام کے لئے وقف کردینا جہاد کہلا تا ہے۔ گویا جہاد معاشرے
سے ظلم و استحصال ، جو روستم اور ناانصافی و فتنہ و فساد کو ختم کرکے عدل و انصاف ، اخوت و بھائی چارگی ، مساوات و برابری ، حریت و آزادی اور مظلوم و مجبور انسانیت کو مژدہ ٔ امن سنانے
والی جہد مسلسل کا نام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ
ہے ۔ مفہوم : آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور
پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے
ظالم ہیں ۔
اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو جھنجھوڑ ا جارہا ہے کہ تمہیں کیا ہوگیا
ہے کہ کمزور وں ، بے بسوں اور لاچاروں او رملک و معاشرہ کے مجبور و مظلوم انسانوں کی حمایت
و تائید میں ظالموں کے خلاف جہاد نہیں کرتے ۔ تمہارے بھائی ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں ، اس قریہ جبر
و قہر سے نکلنے کے لئے مظلوموں کو ظالموں کے پنجہ أستبداد سے خلاصی دلاؤ۔
مذکورہ بالا صورت میں اسلام
کے پیروکار پرجہاد فرض ہوجاتا ہے۔ ایک مومن و مسلم اپنے اوپر آرام کو حرام کرلیتا
ہے جب تک فتنہ پردازوں کی فتنہ پردازی اور فسادیوں کا فساد ہمیشہ کے لئے ختم نہ ہوجائے
اور یہ زمین امن و شانتی کا گہوارہ بن کر عالم
انسانیت کی بقاء و سلامتی کی ضامن نہ بن جائے۔
علامہ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے
ہوئے فرماتے ہیں : اللہ اپنے مومن بندوں کو جہاد کرنے پر ابھارتا ہے اور مکہ کے کمزور
وں کو نجات دینے کی سعی کرنے پر ابھارتا ہے
خواہ وہ بچے ہوں، خواہ وہ عورتیں ہوں، خواہ
وہ مرد ہوں، جنہوں نے مکہ میں اقامت اختیار کر رکھی ہے۔
اسلام میں قتال و جہاد کا پہلا مقصد یہ ہے کہ مخلوقِ خدا کو استعماری قوتوں کے
ظلم و ستم کے چنگل سے خلاصی دلائی جائے۔ اس کا دوسرا مقصد ہے اعلائے
کلمۃ اللہ یعنی اللہ کے دین کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے کے لئے فتنہ و
فساد کا قلع قمع کیا جائے ۔جہاد کا تیسرا مقصد
ہے کہ ظلم و استحصال کی ہر شکل کو دنیا سے مٹا دیا جائے تاکہ کائنات انسانی
میں عدل و انصاف کا قیام ہو اور انسانیت کو اس کے فطری حقوق مل سکیں ۔
14 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز
نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-doctrines-peace-jihad-islam/d/99518