ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی
20 نومبر، 2015
تاریخ عالم گواہ ہے کہ اس کرۂ ارضی پر لڑی جانے والی اکثر وبیشتر جنگوں میں نہ کسی ضابطے کا خیال رکھا جاتاہے اور نہ ہی کسی قوانین و اصول کی پاسداری کا خیال ذہن انسانی میں آتا ہے۔ بلکہ ان جنگوں کے ذریعہ کائنات انسانی کو فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا دیا جاتا ہے اور انسانوں کو بے دریغ تہہ تیغ کردیا جاتا ہے اور جب میدان کارزار گرم ہوتو بلا فرق و امتیاز سب لوگوں کے ساتھ ایک سلوک و برتاؤ کیا جاتا ہے۔
انسان کا بنایا ہوا ضابطہ اور وضع کیا ہوا قانون حالات کے نشیب و فراز اور مستقبل میں پیش آمدہ احوالہ و کوائف سے ناواقفیت پر مبنی ہوتا ہے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قانون میں مخصوص رنگ و نسل اور جنس و علاقہ کے رجحانات کی عکاسی ہوتی ہے، اس لیے ایسے قانون کو ہمہ گیریت اور جامعیت کامقام نہیں ملتا۔ ان کے یہاں جنگ کے اغراض و مقاصد کی وجہ جواز کیا ہے۔اس کا مقصد کیا ہے۔ کن حالات میں جنگ کی اجازت دی جاسکتی ہے اور کن مواقع میں جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ کیا کمزور انسانوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کےلئے جنگ کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ کیا یہ قرینہ قیاس اور مناسب ہے جب کہ جی چاہا اپنے جابرانہ نظام کے تسلط کو قائم کرنے کے لئے کسی بھی ملک کی سرحد میں جنگی جہاز اتار دیا، ان تمام سوالوں کا تشفی بخش جواب انسانی قوانین جنگ میں نہیں مل سکتا ۔اس لئے انسانوں کا خود ساختہ قانون امن و آشتی کا ضامن نہیں بن سکتا ۔ اس کے بالمقابل دین اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔اسلام نے میدان جنگ کےلئے اصول و ضابطے مقرر کئے ہیں۔ ان کا پاس و لحاظ رکھنا ہر اہل ایمان پر فرض ہے۔ اس کے لئے جب جنگ ناگزیر ضرورت بن جائے تو تلوار اٹھانے والوں کو کھلی چھوٹ نہیں ملتی ہے، بلکہ حدود وقیود میں رہ کر فتنہ و فساد ، سفاکیت و درندگی اور ظلم و جور کے سد باب کےلئے اپنی طاقت و قوت کا استعمال بجا قرار دیا جاتاہے۔
یہ اعزام تو صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے جنگ وجہاد کے واضح مقاصد متعین کئے اور اس کے آداب و اصول مرتب کئے او ربلا جواز قتل و خوں ریزی کو سنگین جرم قرار دیا۔ کسی مسلمان فرد کو یا اسلامی حکومت کو ان بنیادی اصول و ضوابط میں ترمیم کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسلامی قوانین ہمہ گیر اور دائمی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ نامور مصری عالم رقم طراز ہیں:
اسلامی قوانین جنگ کےتعلق سے ذیل میں وہی امور بیان کیے جارہے ہیں جن پر قوانین جنگ کی بنیاد قائم ہے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ ان امور کو زیربحث لایا جاتا ہے۔
اطاعت امیر:
اسلامی قانون میں جنگ کے تمام اعمال کی ذمہ داری اور امرونہی کے تمام اختیارات کا حامل امیر کو بنایا گیا ہے۔ کوئی بھی معمولی جنگ کی کارروائی امیر کی اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی ہے۔اسلام نے اطاعت امیر کو خود خدا اور رسول کی اطاعت کے برابر قرار دیا ہے اور اس کی نافرمانی کو وہی درجہ دیا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ہے۔ اطاعت امیرکو خیر و فلاح کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے ارشاد ربانی ہے:
مفہوم: اے ایمان لانے والو! تم اللہ اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں جو اہل حکومت ہیں ان کا بھی ۔ پھر اگر کسی امر میں تم باہمی اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور اس کے رسول کےحوالے کردیا کرو اگر تم اللہ اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ امور سب بہتر ہیں اور ان کا انجام بہتر ہے۔ ( النساء:59)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے:
لڑائی دو قسم کی ہیں، جس شخص نے خالص اللہ کی رضا کےلئے لڑائی کی اور اس میں امام کی اطاعت کی اپنا بہترین مال خرچ کیا اور فساد سے پرہیز کیا تو اس کا سونا جاگنا سب اجر کا ذریعہ ہے اور جس نے دنیا کو دکھاوے اور شہرت و ناموری کے لئے جنگ کی اور اس میں امام کی نافرمانی کی اور زمین پر فساد پھیلایا تو وہ برابر ہی چھوٹے گا یعنی الٹا عذاب میں مبتلا ہوگا۔
ایک دوسرے مقام پر حدیث پاک میں آتا ہے:
جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نےخدا کی نافرمانی کی اور جس نے امام کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت پر اس قدر زور دیا کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک حبشی غلام جس کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں، حاکم بنادیا جائے تو اس کی اطاعت بھی واجب ہے۔ ارشاد سنیے:
اگر تم پر ایک حبشی غلام جس کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں ،حاکم بنا دیا جائے اس کی بھی اطاعت کرو، بشرطیکہ وہ کتاب اللہ پر تمہیں عمل کرواتا ہو۔
دوران جنگ اگر اطاعت امیر کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو اس سے شکست و ہزیمت کے ساتھ ساتھ جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ جیسا کہ غزوۂ احد میں فرمان نبوی سے حکم عدولی اور امیر کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے بڑا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا ۔ اس واقعہ کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ پس قرآن و سنت کی درخشاں تعلیمات کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اطاعت امیر ایک اہم حکم ہے جس کی اطاعت ہر فرد مجاہد پر لازم ہے ، ورنہ اس کےدور رس منفی اثرات و نتائج مترتب ہوں گے۔
ایفائے عہد :
ایفائے عہد کے تعلق سےکتاب اللہ میں متعدد فرامین و ہدایات موجود ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی سخت تاکید کی ہے، ایک جگہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مفہوم: اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کرلینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو، حالانکہ تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو بے شک اللہ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو ۔ ( النمل :91)
وفا شعاری اور تقویٰ کی سند وہ حضرات حاصل کرتے ہیں جو لوگوں سےکئے ہوئے عہد و پیمان کو نہیں توڑ تے ، بلکہ پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں، اللہ رب العزت کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے ایفائے عہد کرتے ہیں اور جس قول و قرار کو برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، خشیت الہٰی کےساتھ اس کی پاسداری و لحاظ بھی کرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مفہوم: او رجو لوگ اللہ سے جو کچھ انہوں نے عہد کیا ، اس کو پورا کرتے ہیں اور وہ اس عہد کو توڑتے نہیں ۔ اور یہ ایسے ہیں کہ اللہ نے جن علاقوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ، ان کو قائم رکھتے ہیں اوراپنے رب سے ڈرتے ہیں اور سخت عذاب کا اندیشہ رکھتے ہیں ۔ ( الرعد :20،21)
عہد و پیمان اگر کر لیا ہے تو اس کو نبھانا ضروی ہے ورنہ نقض عہد کی وجہ سے اس سے مواخذہ ہوگا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اور وعدہ پورا کیا کرو یقیناً وعدہ کے لئے ضرور باز پرس ہوگی ۔ (بنی اسرائیل :34)
مشرکین مکہ نے ابورافع کو اپنا قاصد بنا کر بارگاہ رسالت میں بھیجا ۔ بارگاہ نبوی کا اثر ابورافع کی ذات پر اتنا ہوا کہ مشرف بہ اسلام ہوگئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ میں کافروں کے پاس واپس نہیں جاؤں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم قاصد ہو اور قاصد کو روک لینا عہد و پیمان کی خلاف ورزی ہے۔ تم ابھی جاؤ، پھر واپس آجانا ۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔
ابورافع نے فرمایا کہ قریش نے مجھے نمائندہ بنا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ جب میں نے نبی کریم کو دیکھا تو اللہ نے میرے دل میں اسلام ڈال دیا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قسم میں اب کبھی ان کی طرف لوٹ کر نہیں جاؤں گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں عہد نہیں توڑتا او رنہ قاصد کو قید کرتا ۔ تم اس وقت واپس جاؤ اور جو چیز اس وقت تمہارے دل میں ہے اگر وہ برقرار رہے تو واپس چلے آنا۔
اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابو جندل پاؤں میں زنجیریں پہنے ہوئے آئے اور زخموں سےچور بدن کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ مشرکین مکہ مجھ پر مصائب و آلام کےپہاڑ توڑ رہے ہیں ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، لیکن مشرکین مکہ سے معاہدہ ہوچکا ہے کہ کوئی مسلمان اگر مکے سےبھاگ کر آئے گا تو ہم اس کو قریش کےپاس بھیج دیں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےسفارش کررہی تھی کہ ان کو واپس نہ بھیجا جائے تاکہ ابو جندل رضی اللہ عنہ مزید جو روستم کا نشانہ بنیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاہدہ لکھا جا چکا ہے۔ اس کے خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا ابو جندل رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ دینے سے انکار کردیا اور حسب معاہدہ قریش مکہ کے حوالے کردیئے گئے۔
ان تمام آیات ، احادیث مبارکہ اور واقعات سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاہدہ کیا ان کو ہر حال میں پورا کیا۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوب معلوم تھا کہ مکہ کے مسلمان نا گفتہ بہ مصائب و مشکلات سے دو چار ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحین حیات ایفائے عہد کا عظیم الشان نمونہ پیش کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا کہ کسی معاہد سے عہد و پیمان توڑ نے والا جنت کی خوشبو سے محروم ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی معاہدہ کو بغیر کسی وجہ سے قتل کردے تو اللہ اس پرجنت حرام کردیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہوتو اس گرہ کو مضبوط کرے اور وہ نہ کھولے یہاں تک کہ جب مدت گزر جائے تو وہ برابری پر عہد کو توڑے۔
اسیران جنگ کے قتل کی ممانعت:
اہل عرب اسیران جنگ سے نہایت برا سلوک و برتاؤ کیا کرتے تھےجیسا کہ موجود دور میں امریکہ گوانتا موبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ دنیا کے سامنے موجود ہے۔ لیکن اس کے بالمقابل اسلام نے جنگی قیدیوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک کی تاکید فرمائی اور یہ قانون وضع کردیا کہ نہ ہی ان کو ایذا پہنچائی جائے گی اور نہ ہی ان کو قتل کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاپاک ارشاد ہے:
زخمی پر حملہ نہ کرو بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو قیدیوں کو قتل نہ کرو اور جو اپنا دروازہ بند کرے اس کو امان دیدو۔
اسیران جنگ سے متعلق اسلام کا قانون یہ ہے کہ جنگ جب اپنے اختتام کو پہنچ جائے تو انہیں بغیر فدیہ کے آزاد کردیا جائے یا تو فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ اگر انہیں قیدی بنا کر رکھا جائے تو ان کے ساتھ اچھا سلوک و برتاؤ کیا جائے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے۔
مفہوم: پس ( اے ایمان والو)جب تمہارامعاملہ کافروں سے ہوتو ان کی گردنیں اڑا دو یہاں تک کہ جب خوب قتل کرچکو تو ان کو رسی سےباندھ لو۔ اس کے بعد ( تم کو اختیار ہے کہ یا تو احسان رکھ کر (رہا کردو) یا معاوضہ لے کر چھوڑ دو۔ ( محمد:4)
اسیران جنگ کی صرف قیدی بنا کر رکھنے کے لئے ہی نہیں کہا گیا بلکہ ان کے ساتھ نرمی و ملاطفت کی بھی تعلیم دی گئی۔ قرآن مجید میں اسیر اور مسکین و یتیم کو کھانا کھلانے کے عمل کےلیے تحریض و ترغیب کی گئی ہے اور اسے نیکو کاروں کا فعل قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
مفہوم : وہ خاص اللہ کی خوشنودی کےلئے مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں او رکہتے ہیں کہ ہم تو محض اللہ کےلئے تمہیں کھلاتے ہیں ۔کسی جزا یا شکریہ کے خواستگار نہیں ہیں۔ہم تو صرف اس تنگی کے دن سے ڈرتے ہیں جس میں شدت تکلیف سے چہرے بگر جائیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی قیدیوں کو اہل ایمان کا بھائی قرار دیا ہے اور تاکید کی ہے کہ تم ان کے ساتھ بھی اپنے بھائیوں جیسا معاملہ کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
یہ تمہارے بھائی تمہارے خادم ہیں جن کو اللہ نے تمہارا دست نگر بنایا ہے۔ پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہئے کہ اس کو وہی کھلائے جو خود کھاتاہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے ۔ تم ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسی کسی بھاری خدمت کو ان کے ذمہ کرو تو خود ان کا ہاتھ بٹاؤ۔
جنگ بدر میں مشرکین مکہ کے ستر سے زیادہ آدمی مارے گئے اور کم و بیش اتنے ہی قیدی بنا کر لائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو صحابہ رضی اللہ عنہ کے درمیان تقسیم کردیا اور نصیحت کی کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک و برتاؤ کرو۔
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی لایا جاتا تو آپ اسے کسی مسلمان کے حوالے کردیتے اور فرماتے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ قیدی ان کے پاس دو تین دن رہتا اور وہ مسلمان اس کی ضروریات کواپنی ضروریات پر ترجیح دیتا تھا۔
مثلہ کی ممانعت:
دشمن کی لاشوں کو بے حرمت اور ان کے اعضاء کی بے حرمتی کرنے سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے ، یہ کسی بھی طرح سےجائز نہیں ہے کہ انسانی لاشوں کےساتھ درندگی کاثبوت دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی سختی سےمنع کیا ہے ۔ عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ کے مال اور جسم کو مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسود سے مروی ہے کہ کفار کو اچھے طریقے سےقتل کرنے والے اہل ایمان ہیں ۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو مثلہ کرنے سے منع فرماتے اور صدقہ کرنے کی تلقین کرتے تھے، ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو صدقہ کرنے کی ترغیب دیتے اور مثلہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔ (جاری)
20 نومبر، 2015 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/meaning-islamic-laws-battle-contemporary/d/105352