ڈاکٹر راشد شاز
اپریل ، 2013
سیاسی گروہ بندیوں پر جب خطرات او راندیشوں کی آندھیاں چل رہی ہوں اور مختلف گروہ اقتدار اعلیٰ کے لیے خود کو سزا وار سمجھتے ہوں اور اس کے لیے مسلسل کوشاں بھی تو خفیہ تبلیغ اور زیر زمین تحریکوں کا وجود میں آنا فطری ہے۔ کیسا نی ، قرامطی اور فاطمی دعوت نے اپنی نشر و اشاعت کے لیے اسی خفیہ تبلیغ کا سہارا لیا۔ محبان اہل بیت کے مختلف فرقے جو اموی اور عباسی خلافت کے عہد میں مخالفین کی حیثیت سے دیکھے گئے ، اپنے سیاسی نظریات کی پردہ پوشی پر مجبور تھے ۔ البتہ اس دعوتی سٹریٹیچی اور سیاسی لائحہ عمل کو عقیدے کی شکل اس وقت تک نہ مل سکی جب تک کہ کلینی نے اس قبیل کی روایتوں کو اہل بیت کے فکری سرمائے کے طور پر متعارف نہ کرایا ۔128 حالانکہ خود آزمائش کی ان ابتدائی صدیوں میں بھی سیاسی نظریات کے اخفاء پر تمام شیعان اہل بیت کا عمل نہ تھا۔ حجر بن عدی ، عمر و بن حامق الخزاعی، میثم التّمار اور رُشید الحجر ی ان شیعان اہل البیت میں تھے جنہوں نے اپنے سیاسی نظریات کو افشاء کرنا مناسب جانا ۔ حالانکہ انہیں یقین تھا کہ اس طرح وہ اپنی شہادت کو دعوت دے رہے ہیں۔ لیکن تحریک اہل البیت کا ہر شخص اس منصب جلیل کا حقدار نہیں ہوسکتا تھا سو اکثریت نے اپنے سیاسی نظریات کے اخفاء کو ہی عافیت جانا ۔ البتہ آگے چل کر شیعہ فکر کے معماروں نے تقیہ کو شیعہ عقیدے میں رکن رکیں کی حیثیت عطاء کردی۔ تقیہ اہل تشیع کے اجتماعی مزاج کا علامیہ سمجھا جانے لگا ۔ اس صورت حال نے نہ صرف یہ کہ اغیار میں محبان اہل البیت کی شبیہہ کو سخت نقصان پہنچایا بلکہ یہ اندرونی حملہ خود شیعہ سائیکی کی تخریب کا باعث بھی ہوا۔
تقیہ کے جواز پر شیعہ اور سنّی علماء قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: (لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّہِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْھُمْ تُقَاة (3:28) ۔ عام طور پر اس آیت کی تفسیر میں عمار بن یاسر کا وہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے جب آپ نے اپنی جان بچانے کے لیے الہٰ قریش کی تقدیس اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ کہا جا تا ہے کہ آپ نے اپنے اس عمل سے اس قدر آزردہ خاطر ہوئے کہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دل گرفتہ صورت حال سے آگاہ کرنا مناسب جانا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار کے ایمان کی خود شہادت دی اور جان بچانے کے لیے کلمہِ کفر کے صدور کو جائز ٹھہرایا۔
قرآن مجید میں اس قبیل کا ایک اور واقعہ فرعون کے ایک درباری حزقی ایل کا بیان ہوا ہے جو حالات کی نزاکت کے سبب اپناایمان چھپا ئے رہا ( 40:28) ۔ یہ دونوں واقعات حالات کے دباؤکے تحت وقتی سٹر یٹجیی کے طور پر بیان ہئوے ہیں جن کا لب لباب رخصت کی گنجائش پیداکرنا ہے عزیمت کا متبادل نہیں ۔ رہے ائمہ اہل بیت تو ان کی سیرت پر رخصت کے بجائے عزیمت کا پہلو کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ مثال کے طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جلیل القدر شخصیت کو لیجئے آپ نے خلافت جیسے منصب عظیم کو ان شرائط کے ساتھ قبول نہ کیا جس میں شیخین کی پالیسی کے استمرار پر زور تھا ۔ حالانکہ اگر آپ چاہتے تو مصلحتاً پالیسی امور پر اپنے اختلاف کو تقیہ کی راہ دکھاتے اور پھر جب ایک بار آپ کی خلافت مستحکم ہوجاتی تو آپ کے لیے یہ کہیں آسان ہوتا کہ اپنے منصوبہ پراصحاب حل و عقد کو متفق کرسکیں۔ لیکن آپ نے ایسا نہ کیا۔ امام حسن رضی اللہ عنہ کی معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح ایک بڑا جرأت مند انہ قدم تھا۔ خود آپ کے قریبی اور معتمد رفقاء آپ کے اس فیصلہ کے سخت خلاف تھے یہاں تک کہ سلیمان بن صرد نے انہیں طنز السلام علیکم یا مذل المومنین تک کہا لیکن امام حسن اپنے اس موقف پر جمے رہے اور اس صلح کےبعد کوئی نوسال تک ، جب تک آپ زندہ رہے، ریاست کے لیے کوئی دشواری پیدا نہیں کی ۔ رہے امام حسین رضی اللہ عنہ تو ان نازک لمحات میں بھی جب ان کے سامنے بیعت یزید اور موت دونوں میں سےکسی ایک کو اختیار کرنے کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہ رہا آپ نے اپنے موقف پر تقیہ اختیار کرنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی۔ اہل بیت کے خانوادے سے اموی اور عباسی حکومتوں کے خلاف چھوٹے بڑے پچاس سے زائد خروج عمل میں آئے جو اس بات پر دال ہے کہ مصائب و آلام کی اس دنیا میں اہل حق کے لیےرخصت اور عزیمت دونوں متبادل موجود ہیں۔ البتہ اصحاب عزیمت نے ہمیشہ زندگی پر موت کی ہی ترجیح دی ہے۔
چو تھی صدی میں جب شیعہ فکر نے جمہور سے اپنا راستہ الگ کر لیا تو اسے یہ مشکل پیش آگئی کہ ائمہ اہل بیت جو اپنے اپنے عہد میں خلیفہ وقت کی بیعت قبول کرتےرہے ہیں ان کے اس نظر ی موقف کی کیا توجیح پیش کی جائے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی ۔امام حسن رضی اللہ عنہ نے مصالح امت کی خاطر خلافت سے دست برداری اختیار کی۔ محمد الباقر اور جعفر الصادق نے خود کو سیاسی جھمیلوں سے دور رکھا ۔ سوا گر یہ اساطین شیعہ خلیفہ وقت کی بیعت کو انگیز کرتے رہے ہیں تو کیا ائمہ منصوص کا تصور بعد کی پیدا وار ہے؟ کیا ان ائمہ کو اپنے منصو ص و مامور ہونے کاعلم نہیں تھا؟ اور یہ کہ بارہ اماموں کے اس سلسلے سے باہر اہل بیت کے دوسرے اصحاب عزیمت جو وقتاً فوقتاً خروج بالسیف کی راہ پرچلتے رہے ہیں کیا وہ بھی اس امر سے آگاہ نہ تھے کہ امامت پر حسینی سلسلے جانشینوں کا تقرر من جانب اللہ عمل میں آچکا ہے ؟ امامت اگر امر رہی اور امر منصوص تھا تو پھر خود اہل بیت کے دوسرے اصحاب اس راز سے کیوں کرنا واقف رہ سکتے تھے ؟ اگر باقر واقعتاً امام منصوص تھا تو پھر خود اہل بیت کے دوسرے اصحاب اس راز سے کیوں کرنا واقف رہ سکتے تھے ؟ اگر باقر واقعتاً تھے تو ان کے بھائی زید کو یہ حق کیسے حاصل ہوگیا تھا کہ وہ امام منصوص کی ایماء کے بغیر خروج بالسیف کا راستہ اختیار کر تے؟ تو کیا منصو ص ائمہ کا عقیدہ امام غیبت کی پیداوار ہے؟ اس پیچیدہ اور نازک سوال کا تنقیدی اور تاریخی محا کمہ کرنے کے بجائے راویوں نے امام باقر اور ان کے صاحبزادے جعفر الصادق پر تقیّہ کاالزام عائد کردیا۔ امام سے منسو ب ایک روایت میں یہ کہا گیا کہ تقیہ میرا اور میرے آباء کا دین ہے جو تقیہ نہ کرے اس کا دل ایمان سے خالی ہے :لا ایمان المن الا تقیہ لہ129؎ اور یہ کہ جو تقیہ کی پاسداری نہ کرے او رجو ہمیں نا سمجھ عوام کی مضرت رسانیوں سے نہ بچائے وہ ہم میں سے نہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایمان کے دس حصوں میں سے نو تقیہ پر محیط ہیں ۔131؎
شیعہ امہات الکتب میں ایسی روایتو ں کی کمی نہیں جو تقیہ اور کتمان کو دین شیعہ کی اساس بتاتی ہیں۔ قرآن مجید میں کتمان کا لفظ جہاں بھی آیا ہےسوائے فرعون کے اس درباری کی بابت جو اپنا ایمان چھپائے بیٹھا تھا، کہیں بھی کتمان کو یک مستحسن قدر کی حیثیت سے نہیں دیکھا گیا ۔ اہل حق کے لیے حق کی شہادت اور اس کی نشر و اشاعت ہمیشہ ان کی ذمہ داری سمجھی گئی ہے۔ خود شیعہ مفسرین آیت قرآنی (یا ایھا الرسول بلغ.....)کی شان نزول یہ بتاتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے افشا ئے ولایۃ کے لیے نازل ہوئی تھی جس کی تبلیغ کے بغیر کارِ رسالت تشنہِ تکمیل رہ جاتا ۔ اس کے برعکس تقیہ کے نظری جواز پر قرآن مجید سےدلائل لانے کی کوشش کی گئی اور پھر جب متن میں اس کی وافر گنجائش نہ ملی تو تاویل کا سہار ا لیا گیا ۔ مثال کے طور پر آیت قرآنی ( ولا تستوی الحسنۃ و لا السیئہ) (41:34) کے بارے میں کہا گیا کہ یہاں حسۃ سے مراد تقیہ اور سئیہ سے مراد تبلیغ ہے ۔ 132؎ (وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ )(2:61) کی تاویل سےیہ دلیل لائی گئی کہ اہل یہود نے اپنے پیغمبروں کو تلوار سے قتل نہیں کیا تھا بلکہ وہ ان کی خفیہ تعلیمات کے افشائے عام کے مرتکب ہوئے تھے جس کے نیتجے میں ان کے انبیاء کو جان سے ہاتھ دھو نے پڑے تھے ۔ 133؎ سو شیعان اہل بیت کا یہ فریضہ منصبی قرار پایا کہ وہ اپنے ائمہ کی تعلیمات پر اخفاء کا پردہ ڈالے رکھیں کہ جعفر الصادق سے منسوب ایک قول کے مطابق ان کے لیے ایسا کرنا جہاد کے مماثل قرار دیا گیا ۔ 134؎ ائمہ کے خیال کی اشاعت کے بجائے ان کے خیالات کو لوگوں سے چھپا نا خدمت دین سمجھا جانے لگا ۔135؎ جو شخص امام کی خفیہ تعلیمات کو افشاء کرے اس پر لعنت جائز سمجھی گئی اور اگر غلطی سے ایسا ہو جائے تو راوی کے لیے اس کی تردید کو جائز بتایا گیا ۔ 136؎ جعفر الصادق سے یہ بات بھی منسوب کی گئی انہوں نے امامی عقائد کو ان لوگوں پر افشاء کرنے سے سختی سے منع کیا ہے جو ان کے جاننے کے مجاز نہیں۔ کہنے والوں نے یہ بھی کہا کے جعفر الصادق کے بعض خصوصی معتمدین جب انہیں بازار میں ملتے تو وہ انہیں قصداً سلام سے احتراز کرتے او رکچھ ایسا انداز اختیار کرتے جیسے ان سے واقف ہی نہ ہوں ۔ 237؎ بلکہ ایک بار تو یہ بھی ہوا کہ امام جب اپنے بیٹے موسیٰ کا ظم کے ساتھ بازار سے گزررہے تھے ایک شخص نے موسیٰ کی بابت ان سے یہ استفسار کیا کہ یہ کون ہے۔
تو آپ نے تجاہل عارفا نہ سے کام لیتے ہوئے فرمایا مجھے نہیں معلوم۔ جعفر الصادق سے منسوب ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا کہ جو شخص ہماری روایتو ں کی اشاعت کرتا ہے وہ دراصل ان کی تکذیب کا مرتکب ہوتا ہے ۔ 138؎ ایک دوسری روایت میں وہ اپنے شیعوں کو اس بات کی تلقین کرتے نظر آئے کہ ہمارے عقائد کے سلسلے میں اخفاء سے کام لو۔ جو شخص ایسا کرے گا خدا اسے دنیا میں کامیاب و کامران کرے گا اور آخرت میں یہ عقائد اس کی آنکھوں نور بن کر بہشت تک اس کی رہنمائی کریں گے اور یہ کہ جو شخص ہماری روایتوں او رعقائد کے افشاء کا سبب بنے گا خدا اسے اس دنیا میں ذلیل ورسوا کرے گا اور آخرت میں اس کی آنکھیں نور سے محروم کردی جائیں گی،اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ تقیہ ہمارا مذہب ہے او رہمارے آباء کامذہب ، جو تقیہ سے خالی ہے وہ دراصل ایمان سے محروم ہے۔ 139؎ شیعان اہل بیت کے لیے تقیہ کو دین ایمان کی ضمانت قرار دیا گیا جس کے بغیر صحیح العقیدہ مذہبی زندگی کا تصور محال ہوگیا۔ کہا گیا کہ امام زین العابدین جو بظاہر جمعہ کی نماز ائمہ الجو ر کے پیچھے پرھتے دیکھے جاتے تھے تو ایسا اس سبب سے تھا کہ وہ گھر پہنچ کر اپنی نماز یں دُہرا لیتے تھے ۔140؎ گویا اس خیال کے مطابق ابتداء سے ہی تقیہ کے سہارے ائمہ اہل بیت کے لیے زندگی جینے کی بڑی سہولت پیدا ہوگئی تھی ۔ بعض روایتوں میں یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی گئی ، جیسا کہ امام الرضا سے منسوب ہے، کہ قائم کے ظہور تک محبان اہل بیت کو چاہئے کہ وہ تقیہ پرعمل جاری رکھیں۔
تقیہ اور کتمان کے علاوہ اخفائے حقیقت کے لیے مدارات کی ایک اور اصطلاح سامنے لائی گئی ۔کہا گیا کہ مومنین کو کتمان خدا سے ملا، مدارات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مصائب و آلام پر صبر کا راستہ امام نے دکھایا ۔ 141؎ ایک منسوب الی الرسول قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مدارات پرعمل پیرا ہوگا مرنے کے بعد اسے شہیدوں کے منصب پر سر فراز کیا جائے گا۔ 142؎ بعض روایتوں نے یہ بھی بتایا کہ جعفر الصادق کا اپنے دشمنوں کی عیادت کرنا، ان کے جنازے میں شرکت اور ان کے ساتھ مسجدوں میں نمازوں کا پڑھنا دراصل اسی مدارات کے سبب تھا۔144؎
وہ تمام سیاسی عقائد جن کے سبب اہل تشیع کا تاریخی تصور جمہور مسلمانوں سے الگ ہوگیا ہے تقیہ کی ہی پیداوار بتائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار ابو حمزہ الشمالی نے زین العابدین سے تین سوالوں کا جواب چاہا اور ساتھ میں یہ شرط بھی عائد کردی کہ ان سوالوں کاجواب تقیہ سے آزاد ہو۔ان تینوں سوالوں میں جس کا جواب امام موصوف نے تقیہ کے بغیر دینا قبول کرلیا تھا۔ ایک سوال فلاں وفلاں (یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ) سے متعلق تھا۔ اس روایت کے بقول امام نے فرمایا کہ خدا کی لعنت ہو ان پر انہوں نے حالت کفر میں جان دی۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا ائمہ کو اس قسم کے معجزات عطا ہوئے ہیں کہ وہ زندوں کو مردہ کر سکیں یا پانی پر چل سکیں اس کا جواب اثبات میں تھا۔ تیسرے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا ک ائمہ کو وہی علم دیا گیا ہے جو رسول کو عطا ہوا تھا ۔ اس پر مستز ادیہ کہ ان پر علوم کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ۔ 145؎ کتمان ، تقیہ او رمضارات کے پردے میں بیان ہونے والی ان روایتوں کا مقصد دراصل اس خیال پر دلیل لانا تھا کہ ائمہ اہل بیت چونکہ منصوص امامت کا افشاء سےاحتیاط برتا کرتے تھے ، اس لیے یہ روایتیں مخصوص حلقے میں ہی گردش کرتی رہیں ۔ اسی قبیل کی ایک اور روایت موسیٰ کا ظم کے بارے میں بھی شیعی مصادر میں پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موسیٰ کے ایک خاص معتمد الحسن بن عبد اللہ جب ایک بار ان کے سر ہوگئے تو انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھا یا کہ الر جلین (ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا کچھ کیا اور یہ کہ ائمہ منصوص کو ن کون لوگ ہیں؟ پھر اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ وہ فی تفسہ امام وقت ہیں۔ اظہار معجزہ کے طور پر انہوں نے ایک شاہ بلوط کو حکم دیا جو ان کے حکم کی تعمیل میں چل کر ان کے پاس آیا او ر پھر واپس اپنے اصل مقام پر چلا گیا ۔
ان روایتوں پر عباسی اورفاطمی دعوتوں کے پر اخطرا یام کی جھلک بآسانی دیکھی جاسکتی ہے جب عہد ہِ خلافت کے مختلف دعویدار خاموش تبلیغ ، خفیہ پیام رسانی سے لے کر مسلح جد وجہد تک ہر حربے کو آزمانا اپنا حق سمجھتے تھے ۔ ان حالات میں قائد ین اور کبار داعیوں کی شخصیت اور ان کے ناموں پر ابہام کا پر دہ ڈالنا جنگل سیاسی سٹر یٹیجی کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ غیبت کے زمانے میں جب شیعوں کے مختلف گروہ امام غائب کے سلسلے میں مختلف اور متضاد اطلاعات کی خبر دیتے تو اس بات نے بھی اہمیت اختیار کرلی کہ امام کے پوشیدہ مسکن کے ساتھ ہی امام کے نام کی پوشیدگی بھی خدائی اسکیم کاحصہ ہے۔ 147؎ اہل ایمان پر لازم آیا کہ وہ امام غائب کا نام لینے کے بجائے انہیں الحجۃ من آلِ محمد سے خطاب کریں۔ 148؎ بعض لوگوں نے انہیں رمزاً الناھیۃ المقدسۃ بھی کہا ۔ 149؎ البتہ جب آگے چل کر امام غائب کو مہدی موعود کے طو رپر دیکھا جانے لگا تو اس روایت کی رعایت کرتے ہوئے جس میں کہا گیا ہے کہ مہدی میری نسل سے ہوگا اس کا نام میرا نام ہوگا اس کی کنیت میری کنیت ہوگی ۔ 150؎ امام غائب کا نام محمد المہدی کے طور پر لوگوں کی زبان پر آگیا ۔ لیکن امام کا مسکن اور ا ن کے ممکنہ ظہور کے وقت پر کتمان کا پردہ پڑا رہا۔ باقر سے منسوب ایک روایت میں کہا گیا کہ ابتداء خدا نے مہدی کے ظہور کے لیے سال 70 ھ میں حسین رضی اللہ عنہ شہید کردیئےگئے تو خدا اہل زمین پر اتنا غصہ آیا کہ اس نے ظہور مہدی کا وقت آگے برھا کر 140 ھ متعین کردیا لیکن مصیبت یہ ہوئی کہ شیعہ اس راز کو پوشیدہ نہ رکھ سکے سو خدا نے وقت ظہور کی بابت اب ہمیں نا آگاہ کردیا ہے ۔ 151؎
سادہ لوح شیعوں کے ذریعے افشائے راز کا اگر خطرہ نہ ہوتا تو ائمہ اہل بیت نہ جانے کن کن رازوں سے ہمیں مطلع کر جاتے کہ ان روایتوں کے مطابق انہیں ماکان و مایکون کا علم حاصل تھا۔ جعفر الصادق سے منسوب ایک روایت کے مطابق انہوں نے ایک بار ابو بصیر کو بتایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعض اصحاب اس بات سے پیشگی آگاہ تھے کہ مستقبل میں انہیں کن المنایہ و البلایہ سے سابقہ پیش آئے گا۔ 152؎ بعض روایتوں کےمطابق زین العابدین نے اپنے خاص معتمدین کو اس بات سے پیشگی آگاہ کردیا تھا کہ ان کی موت کس طرح واقعی ہوگی البتہ اب قائم کے ظہور تک یہ بات بند ہوچکا ہے ۔ 153؎ کہا گیا کہ جعفر الصادق نے ایک بار اپنے اصحاب سے یہ کہا گیا کہ اگر تم اپنی زبانیں بند رکھنے پر قادر ہوتے تو میں تم میں سے ہر شخص کو آگاہ کردیتا کہ تمہارے آگے کیا آنے والا ہے ۔154؎
تقیہ کے پردے میں ائمہ اہل بیت پر حقائق و معارف چھپانے کا جتنا بھی الزام عائد کیا جائے واقعہ یہ ہے کہ ان تمام روایتوں سےمعرفت کا جو گنجینہ ہم تک پہنچتا ہے اس کی حیثیت بنیادی طور پر سیاسی نزاع سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ وہی ائمہ منصوص کا عقیدہ اور وہی خلیفہ بلا فصل کی تاریخی تعبیر ، یہی ہے وہ سرّالا سرار جس کے اخفا ئے راز کے لیے ان تمام ائمہ حتیٰ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مامور بتایا گیا ہے۔ کہا گیا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر بن عبداللہ سے فرمایا کہاائمہ اثناعشر کامعاملہ ایک ایسا راز خدائی ہے جسے لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے ۔ اس بار ے میں اخفائے راز سے کام لو سوائے ان لوگوں کے جو اس کے جاننے کے حقدار ہیں ۔155؎ بقول جعفر صادق ، جیسا کہ روایتیں بتاتی ہیں ، ائمہ اثنا عشر کا معاملہ ایک ایسا راز ہےجو خدا اور اس کے فرشتوں کے دین کا حصہ ہے، اسے عام لوگوں سے پوشیدہ رکھنا چاہئے ۔ 156؎ یہ بھی کہا گیا کہ یہ ایک ایسی گراں بار ذمہ داری ہے جس کا ہر شخص متحمل نہیں ہوسکتا ۔ بقول الصادق خدانے اپنے خفیہ علوم میں سے ایک ایسا حصہ ائمہ کو عطا کو کیا جس کے بوجھ کے متحمل فرشتے ہوسکتے تھے ، نہ نبی او رنہ ہی اہل ایمان۔ البتہ علم خدائی کا ایک اور حصہ تھا جس کاائمہ کو حکم دیا گیا کہ وہ اسے عام کردیں لیکن جب ائمہ کو ایسا کوئی نہ ملا جو اس گراں بار ذمہ داری کو اٹھا سکتا تو خدانے اسی مٹی اور نور سے ، جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ہوئی تھی، کچھ او ر لوگ بنادیئے یہی ہوگ (یعنی شیعہ) اس بوجھ کو اٹھانے والے ہیں ۔ 157؎
کہا جاتاہے کہ ایک بار الباقر نے جابر الجوافی کو جوان کے معتمد شیعوں میں تھے دوکتابیں اس تنبیہ کے ساتھ سونپیں کہ اے جابر تم اگر تم اس کتاب کے مندرجات میں سے ایک لفظ بھی عہد بنوامیہ میں ظاہر کرو گے تو تم پر میری اور میرے آبا واجداد کی لعنت ہوگی او راگر بنو امیہ کے زوال کے بعد تم اس کے مندرجات کی اشاعت نہ کروگے تب بھی تم میری میرے آباد و اجداد کی لعنت کے مستحق ہوگے۔ اس کے بعد انہوں نے دوسری کتاب جابر کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا اگر تم نے اس کتاب کے مندر جات میں سے کبھی بھی کسی بات کو افشا کیا تو تم پر میر ی اور میرے آباد و اجداد کی لعنت ہوگی ۔ 158؎ پہلی کتاب کے بارے میں سیاسی مطلع کی تبدیلی کاانتظار تو قابل فہم ہے البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ دوسری کتاب کے ذریعے جابر الجوفی کو جو علمی امانت سپر د کی گئی اسے تسیا منسیا بنا دینے کی کیا مصلحت ہوسکتی ہے؟ لیکن صورت حال جب اتنی پیچیدہ ہوکر شیعان علی کی کبار شخصیتیں ، مثلاً سلمان فارسی ، مقداد اور ابوذر ، ایک دوسرے پر اپنے راز افشاء کرنے پر روک دیئے گئے ہوں مباد ا بقول امام زین العابدین اگر ابو ذر کو یہ معلوم ہوتا کہ سلمان کے دل میں کیا کچھ ہے تو وہ انہیں قتل کر ڈالتے ۔159؎ ایسی صورت میں تقیہ کے علاوہ اور کون پناہ گاہ باقی رہ جاتی تھی ۔ کہا گیا کہ بر وزمحشر داروغہ جنت رضوان کو یہ معلوم کر کے سخت حیرت ہوگی کہ جنت میں بعض ایسے لوگ بھی نظر آرہے ہیں جنہیں داخل ہوتے انہوں نے نہیں دیکھا تھا ۔ وہ پوچھیں گے آپ کون لوگ ہیں اور کس طرح یہاں آ پہنچے ؟ ان کا جواب ہوگا کہ ہم سے ہوشیار رہنا ہم وہ لوگ ہیں جو وہاں خدا کی عبادت پر دہِ اخفا میں کیا کرتے تھے (یعنی تقیہ سے کام لیا کرتے تھے ) او ریہاں بھی خدا نے ہمیں چپکے سے داخل کر دیا ہے۔
تقیہ جو کبھی وقتی مصلحت اور اضطراری حالت کی سٹریٹجیی سمجھی جاتی تھی جب دین کی اساس قرار پایا گیا تو اس نے اندرون اور بیرون ہر دو سطح پر اہل تشیع کے اہداف اور عقائد کے سلسلے میں سخت غلط فہمی اور اندیشوں کو جنم دیا۔ جب ایک آدمی کا علم اور اس کی معرفت دورسرے کیلئے جہل اور کفر قرار پایا جائے اور ا س کی پوشیدگی کو مصالح دین سمجھا جانے لگے تو خود اس فرقے کے اندر مختلف النوع قسم کے التباسات کا پیدا ہونا فطری لازمہ تھا۔جب یہ پتہ چل سکے کہنے والا جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس کا اصل موقف ہے یا ایسا تقیہ کے سبب ہے تو نہ کوئی داخلی افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہوسکتی ہے اور نہ ہی بین المسالک مکالمے کے لیے کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ۔ رسالہ محمدی کے وہ حاملین جن کی ابتدائی نسل کبھی اعلائے کلمۃ الحق کےلیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنااپنا فریضہ منصبی جانتی تھی اور جو امت کے قبلہ کی درستگی کے لیے اپنی امکانی ناکامی کے باوجود خروج بالسیف کو راہ عزیمت پر محمول کرتے تھے اور جس کی روشن مثال خود حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، افسوس کہ متبعین اہل بیت کا وہی طائفہ تقیہ کی تراشیدہ روایتوں کے سبب نہ صرف یہ کہ امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کی پیمبر انہ روایت سے دور جا پڑا بلکہ عامۃ المسلمین میں اس کی چلت پھرت پر خفیہ سر گرمیوں کاگمان کیا جانے لگا ۔
تقیہ شیعہ سائیکی میں کچھ اسی طرح سرایت کر گیا کہ بڑےبڑے فقہاء و مجتہدین نے بدعات و خرافات پراپنی زبانیں بند رکھنے میں عافیت جانی۔ مثال کے طور پر عزاد اری کی وہ بدعتیں مثلاً تعزیہ ، شیبیہ ، اور خونی ماتم وغیرہ جنہیں علماء مجتہدین دین مبین سے انحراف پر محمول کرتے ہیں وہ خود تو اس میں شریک نہیں ہوتے کہ عرب و عجم یا بلادِ غرب میں جہاں بھی تلوار زنی اور لہو آمیز زنجیرو ں کا ماتم منعقد ہوتا ہے ، آج تک کسی نے حلقہ علماء کے خواص کو لہولہان پیٹھ اور خون آلود چہروں کے ساتھ نہیں دیکھا کہ وہ دل سے ان خرافات کو گمراہی پر محمول کرتے ہیں لیکن ان کے امتناع کے سلسلے میں کبار مجتہدین بھی تقیہ کی راہ پر گامزن رہے ہیں۔ اس صورت حال نے نہ صرف یہ کہ فقہا ئے اہل بیت کو قول و عمل کی دوئی سے دوچار کر رکھا ہے بلکہ سچ پوچھئے تو تقیہ کے اس نظر ی ماحول میں کسی مؤثر اصلاحی تحریک کی گنجائش بھی باقی نہیں رہ گئی ہے۔
شیعہ اسلام کے سماجی مظاہر
اہل قبلہ کے مختلف گروہ جب تاریخ کی اختلافی تعبیر کو اپنا نظری سرمایہ قرار دے بیٹھے اور فرقہ وارانہ نقطہِ نظر سے مرتب کی جانے والی آثار و روایات کی کتابوں نے ان کے نزدیک تقدیسی اہمیت اختیار کر لی تو انہیں بہت جلد اس بات کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ وہ اپنے نظر ی اور سیاسی موقف کے استحکام کے لیے قبلہ ابراہیمی سے الگ چھوٹے چھوٹے قبیلے تشکیل دیں۔ کعبہ سے الگ نئے کعبہ کی تعمیر کا تذکرہ ہم عہد عبدالملک میں کر آئے ہیں کہ کس طرح اس نے محض سیاسی مصالح کی خاطر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ایام خلافت میں لوگوں کو حج سے روکنے کے لیے ارض شام میں قبہّ صحری کے نام سے ایک نئی زیارت گاہ تعمیر کردی۔ قرامطیوں کو جب مکہ میں نفوذ کا موقع ملا تو حجر ا سود اکھاڑ لے گئے تاکہ ان کے سیاسی مرکز میں روحانی محرومی کا ازالہ ہوسکے ۔ فاطمیین کو جب مصر میں اقتدار ملا تو المعز کے زمانے میں حسین رضی اللہ عنہ اب علی رضی اللہ عنہ کا سر جو اسقلان میں 61 ھ میں دفن کیا گیا تھا اس کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ اب یعنی 364 ھ میں مصر میں منتقل کرلیا گیا ہے جس کی یاد گار مسجد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ہے ۔ الحاکم کے عہد 411 ھ میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ مبارک مدینہ سے فاطمیین کے دارالحکومت قاہر ہ منتقل کر لیا جائے تاکہ فاطمیین کی سیاسی عظمت کو دوام و استحکام اور استناد نصیب ہو۔اہل بویہ کی امیر الا مرائی بھی اس بات کی متقاضی تھی کہ اثنا عشری شیعوں کے لیے عراق کی سرزمین میں نئے روحانی مراکز وجود میں آئیں ۔ عضد الدولہ نے 369 ھ میں پہلی بار شیعہ اسلام کو دو روحانی مراکز مشہدِ علی رضی اللہ عنہ اور مشہد ِ حسین رضی اللہ عنہ کی شکل میں عطاء کیا۔ عضد الدولہ کے اس اقدام سے پہلے کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ کوفہ سےآٹھ میل کی دوری پر نجف کے ویرانے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر ہوسکتی ہے۔ عضد الدولہ کے عہد تک لکھی جانے والی تاریخ و آثار کی تمام کتابیں نجف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر کی نشاندہی نہیں کرتیں ۔ مثلاً ابن قتیبہ (متوفیٰ 276 ھ) نے تصریحاً لکھا ہے کہ وقال ابو الیقظان صلی علیہ الحسن و دفن با لکونہ عند مسجد الجما عۃ فی قصر الامارۃ ۔ 161 ۔ طبری ( متوفیٰ 310 ھ)نے بھی قصر امارت کی مسجد کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کےدفن ہونے کی بات لکھی ہے ۔ 162؎ خطیب بغدادی کی ایک روایت کے مطابق محمد الباقر خود اس بات کے قائل تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تدفین رات کے وقت کوفہ میں عمل میں آئی تھی البتہ ان کی قبر چھپا دی گئی تھی ۔ 163؎ نجف میں قبر ِ علی رضی اللہ عنہ کی دریافت عضد الدولہ کا کار نامہ ہے جس کی اصلیت پر صدیاں گزر جانے کے بعد بھی شبہات وارد کئے جاتے رہے حتیٰ کہ 730 ھ میں جب ابن بطوط وہاں پہنچا ہے تو اس زمانے تک زائرین کی کثرت کے باوجود قبر کی اصلیت کے سلسلے میں شبہات باقی تھے ۔ 164؎
حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے انتقال کے وقت ایک با اختیار حکمران تھے۔ کوفہ ان کے حامیوں کا گڑھ تھا پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ان کی قبر مبارک پر سرّیت کی طناب کیوں کھینچ گئی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ آپ بقیع میں دفن ہیں، کوئی افغانستان کے شہر مزار شریف کو آپ کا مرقد بتاتا ہے اور کسی کو نجف میں آپ کی قبر کی موجودگی پر اصرار ہے ۔ البتہ جس بات پر تاریخ شاہد ہے وہ یہ کہ آپ کی شہادت سے کوئی تین سو اٹھائیس سال بعد اہل بویہ کے زمانے میں نجف کی قبر دریافت ہوئی ۔ مورخ مسعودی (متوفیٰ 346 ھ) جو خود مسلکا ًشیعہ تھا اور جس نے بنی بویہ کا ابتدائی زمانہ پایا تھا اس نے بھی اپنی کتاب مروج الذہب میں آپ کے مدینہ میں دفن کا ذکر کیا ہے۔نجف میں قبر علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی کے لیے جو پر اسرار دیو مالائی روایتیں تخلیق کی گئی ہیں وہ سب کی سب مشہدِ علی رضی اللہ عنہ کی تعمیر کے بعد کی پیداوار ہیں اور بسا اوقات ایک دوسرے سے متحارب اور متضاد بھی ۔ خود شیعہ راویوں پر اگر اعتماد کیا جائے تو ان روایتوں کے مطابق نجفی قبر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تدفین کے بعد جب دیکھنے والوں نے وصیت کے مطابق پتھر ہٹا کر قبر میں جھانکا تو وہاں کسی کو نہ پایا ۔ ہاتف غیبی کی یہ آواز سنائی دی کہ ‘‘بندہِ شائستہ خدا بود امیر المومنین حق تعالیٰ اور ابہ پیغمبر خود ملحق گردانید’’ یعنی امیر المومنین خدا کے نیک بندے تھے سو حق تعالیٰ نے انہیں اپنے پیغمبر سے ملحق کردیا ہے ۔ 165؎ ایک دوسری شیعہ روایت میں ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے منقول ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی میت کو قبر میں رکھ دیا گیا تو وہ غائب ہوگئی ۔ پتہ نہیں زمین کے نیچے چلی گئی یا آسمان کے اوپر ۔ 166؎ بعض شیعان علی نے اس معجز ے کی تحقیق و جستجو کے شوق میں وہاں خاصی کھدائی بھی کی مگر میت کو کچھ پتہ نہ چل سکا۔167؎ ابن کثیر نے خطیب بغدادی کی سند پر ایک شیعہ راوی کا قول نقل کیا ہے جس کے مطابق حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کے جسد مبارک کو مدینہ میں قبر فاطمہ کے نزدیک منتقل کردیا تھا۔ جب کہ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ تابوت کو جس اونٹ پر لے جارہے تھے وہ اونٹ راستے میں گم ہوگیا سو کسی کو بھی نہیں معلوم کہ ان کی قبر واقعی کہاں ہے۔168؎
مشہدِ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں مشہد ِ حسین رضی اللہ عنہ کی تاریخ قدرے مختلف اور قدیم ہے۔ آل بویہ کے زمانے میں باقاعدہ مشہد کے تعین اور اس پر قبہ کی تعمیر سے پہلے بھی کربلا کی سرزمین اپنی حساّسیت کے سبب عباسی خلفاء کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہی تھی ۔ باطنی دعوت کے مبلغوں نے مرقدِ حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سیاسی تحریک کے مرکز کے طور پر استعمال کیا ۔ شیعان علی رضی اللہ عنہ کے مختلف طائفے زیارت قبرِ حسین رضی اللہ عنہ کو سیاسی مقاصد اور نظری شناخت کے طور پر استعمال کرنے لگے تھے یہاں تک کہ متوکل کو احیاءِ سنّت کے حوالے سے اس سیاسی تحریک کی سر کوبی کی ضرورت محسوس ہوئی ۔
(ادراک زوال امت حصہ دوم سے ۔ جاری ہے۔)
اپریل ، 2013 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/dissimulation-shia-islam-/d/11645