ڈاکٹرراشد شاز
پروگرام کے اختتام پر گرم جوش مصافحوں اور جزاک اللہ، ماشا ء اللہ کی صداؤں میں پھر ملنے کے وعدہ و عید کا سلسلہ ذرا کم ہوا تو میں نے بسمہ ، نحلہ اور ان کی سہیلیوں کا شکریہ ادا کیا۔ باہر نکلے تو دیکھا کہ مصطفیٰ اوغلو اپنی گاڑی نکال لائے ہیں جہاں پہلے سے ہی پچھلی نشست پر دو صاحبان براجمان ہیں۔ پتہ چلا کہ ان میں ایک نام شیخ محمد کامل ہے جو منہج سلف سے وابستہ بوسنیا کی ایک مسجد میں امامت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہاں تبلیغ و سیاحت کی خاطر کویت کے ایک مذہبی گروہ کے ساتھ آئے تھے اور آج شب واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ دوسرے صاحب گل محمد جرمنی کے شہر میونخ میں قالین کا کاروبار کرتے ہیں۔
مرکز مطالعۂ تاریخ کے مرغزاروں سے نکل کر اب ہم لوگ دوبارہ سلطان فاتح پل کی طرف چلے ۔ یہیں بائیں جانب ذرا دور استنبول کے انا طولیائی حصہ میں حیدر پاشا ریلوے اسٹیشن واقع ہے۔ مصطفیٰ اوغلو نے پل کی بلندی سے ایشیائی ساحل کی طرف اشارہ کیا ۔ یہی وہ ریلوے اسٹیشن ہے جہاں سے ترک خلافت کے زمانے میں لوگ حجاز او ردمشق جایا کرتے تھے ۔ سنا ہے کہ اب دوبارہ سعودی عرب میں مونوریل چلانے کی باتیں ہورہی ہیں۔
جی ہاں جن لوگوں نے حجاز ریلوے کی پٹریاں اکھاڑیں ، انہیں بارودی دھماکوں سےتباہ کیا ، انہیں شاید اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ آمد و رفت کی ان سہلوتوں نے عالم اسلام کے ایک خطّے کو ایک اور مسلمان کو دوسرے مسلمان سے کس طرح جوڑ رکھا تھا ۔ گل محمد نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہو ئے کہا ۔
ٹرین کے سفر کی بات ہی اور ہے۔ ٹرین میں صرف آپ سفر نہیں کرتے بلکہ آپ کے ساتھ ایک تہذیب سفر کرتی ہے ، آگے بڑھتی ہے، بات سے بات نکلتی ہے ، تبادلۂ خیال ، بحث و مباحثہ رقابتیں اور محبتیں .....
عشوہ وادا ، غمزہ و رو مانس سب کچھ بیک وقت متحرک ہوتا ہے۔ گل محمد نے شیخ کی بات کو درمیان سے ہی لپکتے ہوئے لقمہ دیا ۔ اس کے برعکس پرائیویٹ کاروں میں سفر بے مزہ اور بے کیف سا لگتا ہے ۔ بس ایک ہی فکر سوار کہ جلد سے جلد منزل پہ جا پہنچیں ۔ جب کہ ٹرین کے اجتماعی سفر میں سفر خود منزل کا لطف دیتا ہے بلکہ بعض مراحل تو ایسے بھی آتے ہیں جب جی چاہتا ہے کہ بس یہی آخری منزل ہو اور تاریخ اسی لمحہ ٹھہر جائے ۔ گل محمد نے اپنی شاعرانہ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا ۔
پتہ چلا کہ وہ پیشے سے تو قالینوں کے تاجر ہیں لیکن ساتھ ہی شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق بھی رکھتےہیں اور اپنی غزلوں میں محبوب کے لیے دید ہ و دل کے قالین بچھائے رکھنے میں انہیں بڑی مہارت حاصل ہے۔ شیخ محمد کامل پہلے تو کچھ لیے دیئے رہے لیکن جلد ہی گل محمد کی گل افشانیوں کاشکار ہوکر ہٹو بچوں کے تکلف سے نکل آئے ۔ طر بوش کو دونوں ہاتھوں سے حرکت دی اور پھر اسے سر سے اتار کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ اب جو خاطر بوش ہٹا تو اس کے اندر سے عام گوشت پوست کا انسان بر آمد ہوا۔ گویا بے تکلفی کا رہا سہا حجاب بھی جاتا رہا ۔
شیخ سے ملئے ،شیخ کامل بڑے روشن خیال عالم ہیں ۔ پہلے نقشبندی تھے پھر قادری ہوئے ادھر چند سالوں سے منہج سلف کے داعی بن گئے ہیں۔ مصطفیٰ اوغلو نے مجھ سے شیخ کا مزید تعارف کراتےہوئے کہا ۔
شیخ کامل؟ دنیا کو آج ایک شیخ کامل کی تلاش ہے، میں نے شیخ کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا ۔
جی ہاں یہ بھی شیخ کامل ہیں ۔ پانی پر چلنے والے شیخ لیکن جب سے انہیں وہابیوں کی صحبت ملی ہے شاید اب صرف باتھ روم میں ہی پانی چلا کرتےہیں۔ شیخ کامل نے ان ظریفانہ حملوں کے جواب میں مسکراہٹیں بکھیر دیں ۔ کہنے لگے میں ایک صوفی خانوادے میں پیدا ہوا لیکن دل میں ایک چبھن سی تھی جو کسی مراقبۂ نیم شبی اور اوراد وو ظائف سے جاتی نہ تھی سو سلوک کے مختلف سلسلوں اور طریقوں پر گامزن رہا یہا ں تک کہ اللہ نے منہج سلف صالح تک میری رہنمائی کی ۔ میں آپ کے جلسے میں درمیان میں آیا تھا مجھے وہاں بیٹھنا بہت اچھا لگا ۔ سچ تو یہ ہے کہ نوجوان ذہنوں میں متضاد روایتوں اور طرح طرح کی بے اصل باتوں نے بڑا کنفیوژن پیدا کر رکھا ہے۔ اب اسی مہدی کے قضیہ کو لیجئے ہم اہل سنت کوئی واضح بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہم نہ تو اس کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی دل و جان سے مہدی کی آمد کے منتظر ہیں ۔ شیعہ اگر اس عقیدے کو مانتےہیں تو وہ شب و روز اسی احساس میں جیتے ہیں کہ نہ جانے کب کس لمحہ مہدی کا ظہور ہوجائے ۔ ظہورِ مہدی کی دعائیں ان کے شب و روز کا حصہ ہیں۔
لیکن اہل سنت اب بچے ہی کہاں۔ مصطفیٰ اوغلو نے مداخلت کی ۔ امویوں کے خاتمے کے بعد عباسی اور فاطمی جو دو خلافتیں قائم ہوئیں وہ دونوں قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بر سراقتدار آنے والی شیعہ تحریکیں تھیں ۔ عباسیوں نے جمہور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لینے کے لیے سبیل المومنین کا سا انداز تو ضرور اختیار کیا لیکن اہل بہت کے حوالے کے بغیر ان کاکام بھی نہ نکلتا تھا ۔ مہدی اور اسطورہ ہو یا اہل بیت کے تفوق کی باتیں یا سادات کے خصوصی عز و شرف کا معاملہ ، یہ سب دعوت عباسی، دعوت فاطمی اور اسمٰعیلی و اثنا عشری شیعوں کے سیاسی پروپیگنڈے کی نظری اسا س تھی ۔ اس غبارے میں سبھی بر سر اقتدار گروہ حسب توفیق و ضرورت ہوا بھرتے رہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اہل تشیع کی سیاسی فکر نے ہمیشہ ہمیش کے لیے جمہور مسلمانوں میں اپنی جگہ بنالی ۔ اب سنی مسلمانو کے لیے مصیبت یہ ہے کہ عملاً تو وہ اہل تشیع کی راہ پر گامزن ہیں البتہ انہیں زعم اہل سنت و الجماعت ہونے کا ہے۔ اس صورت حال نے انہیں مخمصے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ تفصیل علی رضی اللہ عنہ کے انکاری بھی نہیں اور معاویہ کو امیر کہتے ہوئے بھی ان کی زبانیں نہیں تھکتیں ۔ وہ شیعوں سے مہدی کا عقیدہ شیئر کر تے ہیں لیکن قدرے بے دلی کے ساتھ ۔
میں نے سوچا شیخ کامل طرح طرح کے روحانی تجربوں سے گزرے ہیں سلوک کی مختلف منزلیں سر کی ہیں کیو ں نہ ان سے پچھلے تجربوں کی بابت پوچھا جائے ۔
سلفی فکر سے وابستگی کے بعد اب ان مراقبوں اور اذکار و سماع کو اپنے کس طرح دیکھتے ہیں؟ میں نے ان سے جاننا چاہا۔ گمر ہی ہے گمر ہی، سراب سے سراب جس کے پیچھے یہ بے وقوف بھاگتے ہیں۔ اہل صفا کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کے لہجہ کا تشدد کسی قدر نمایاں ہوگیا ۔
میں نے پوچھا: آپ تو ان مراحل سے بنفس نفیس گزرے ہوں گے، ذکر کی مجلسوں میں حق و ہوکی آواز نکالی ہوگی ۔ کیا اس تجربے میں سالک کو واقعی یہ لگتا ہے کہ وہ کسی روحانی تجربے سے گزر رہا ہے؟
جی ہاں! میں نے کہا نا! وہ ایک سراب ہے جس پر حقیقت کا گما ں ہوتا ہے۔ آواز میں بڑی قوت ہے اور خاموشی اس سےبھی کہیں بڑھ کر ہے۔ جو لوگ آواز کی دھار سے زخمی نہیں ہوتے وہ خاموشی کےآگے سپر ڈال دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہ بہت سے لوگ خاموشی کی بے پناہ قوت سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ انہیں اس کا تجربہ نہیں ہوتا۔ مراقبے میں اچانک انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ جس مصنوعی شور و غل کے سہارے اب تک جیا کرتے تھے اس نے اچانک ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ ایک ہلا مارنے والی تنہائی میں انہیں ایسا لگتا ہے جیسے ان کا وجود تحلیل ہوتا جارہا ہو اور وہ وجود کے نقطۂ صفر کی طرف سفر کررہے ہوں ۔ بعض لوگ اس قسم کے تجربے سے مشاہدۂ حق کی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
میں جن دنوں نائجیریا میں تھا اہل حق کی ایک مجلس میں ذکر کے لیے جایا کرتا تھا ۔ واللہ کیا بتاؤں ایک دوسرے کاہاتھ تھام کر جھٹکے سے ہوُ ہوُ کی مسلسل آواز نکالتے رہنے سے دل و دماغ معمولات شور و شغب سے دور جا پڑتے تھے ۔ یہ بیک وقت ایک جسمانی ورزش بھی تھی جس میں ہوُ کی آواز کےساتھ بہت سی ہوا مسلسل پھیپھڑے سے نکلنے کے سبب دماغ پر ایک خواب آسا کیفیت طاری ہوتی ۔ ہم لوگ سمجھتے شاہد مشاہد ۂ حق کی کیفیت کا ابتدائی ظہور ہو۔
تو کیا کبھی آپ کو دو ضربی اورسہ ضربی نفی اثبات کے ذکر کابھی موقع ملا؟
جی ہاں نقشبندیوں کے بعض گروہ میں یہ ذکر خاصا مقبول ہے ۔ یہ بھی دراصل ایک جسمانی ورزش ہے ۔ نفی اور اثبات کے ذکر میں بھی پھیپھڑے کو ہوا سے خالی کرنے اور پھر اس کو مکمل سانس سے بھرنے پر زور دیا جاتا ہے۔شیخ نے اپنا بیان جاری رکھا۔
مجھے یاد آیا کہ مشاہدۂ حق کی ان ہی کیفیات کا ذکر ایک بار ایک روسی ڈپلو میٹ نکولائی نے بھی مجھ سے کیا تھا ۔ نکولائی نے سوویت یونین کی پالیسیوں سے دل برداشتہ ہوکر استعفیٰ دے دیا تھا جب میری اس سے ملاقات ہوئی اس وقت وہ ہالینڈ میں قیام امن کی ایک تنظیم کا روح رواں تھا ۔ کہنے لگا کہ جن دنوں میں نیویارک میں اپنی ملازمت پر متعین تھا، روز علیٰ الصباح سولہ کلو میٹر جاگنگ کےلیے جایا کرتا تھا ۔ بارہ کلو میٹر دوڑ نے کے بعد میرا وجود اس قدر چارج ہوجاتا کہ میں خود کو کائنات کے ذرے ذرے سے Connected محسوس کرتا، ایسا لگتا جیسے مجھ پر وحی آنے والی ہو۔ بعد میں پتہ لگا کہ یہ سب دراصل مسلسل دوڑتے رہنے سے آکسیجن کی کمی کے سبب ہے۔ اب شیخ نےاپنے ذاتی تجربے سے اس خیال کی مزید توثیق کردی۔
پچھلے دنوں نیو رو سائنس میں جو تحقیقات ہوئی ہیں اس نے بھی تصوف کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے ۔ اب ملائے اعلیٰ کی سیر کے لئے نفی و اثبات کے ورزش کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی رگِ کیماس پکڑ کر مرغ کی طرح اللہ ہوُ کی بانگ دینے کی ضرورت ہے، بس ہیروئن کا ایک انجکشن لیجئے اور چشم باطن سے ارض و سماوات کی سیر کر آئیے ۔ دماغ میں سیر و ٹونین کی سطح اگر بلند رہے تو سرشاریٔ اعتماد کی اس کیفیت میں سلطانی ما اعظم شانی یا مافی جبتی الااللہ یا براہِ راست انا الحق کانعرہ بلند کیجئے اور اگر سطح نیچے چلی گئی تو خود کو حقیر فقیر سراپا تفصیر ملامتی فرقہ کا ایک رکن جانیے ۔ گویا ادویات نے ان مشکل روحانی تجربات کو جس میں سالک کو ایک عمر گزارنی پڑتی تھی اب آپ کی دہلیز پر لاکر رکھ دیا ہے۔ میں ابھی ان ہی خیالات میں گم تھا کہ مصطفیٰ اوغلو کی کار میں نغمے کی سحر انگیز لئے کچھ اس طرح بلند ہوئی :
یا من یرانی فی علاوہ و لا اراہ
یا من یجیر المستجیر اذا دعاہ
حمزہ شکور ........ ارے یہ تو حمزہ شکور کی آواز ہے ۔ ایسا لگا جیسے شیخ کا مل کو اپنے پرانے دن یاد آگئے ہوں ۔
جی ہاں! حمزہ شکور کو سنئے اور سر دھنیے ۔ واللہ حمزہ شکور کا جواب نہیں مصطفیٰ اوغلو نے تحسینا کہا ۔
یا من یجود علی العباد بفضلہ
جل القدیر و جل ماصنعت یداہ
یا من لہ الا لاء فی اکوانہ
و اذا سالنا العفولم نسال سواہ
ھبني رضاک فانت اکرم واھب
واغفر العبدک یا عظیما فی علاہ
میں نے پہلی بار حمزہ شکور کو فِض ( مراکش) کے ایک بڑے مخمعے میں سنا تھا ۔ شیخ مغنّیوں کا پورا طائفہ لے کر آئے تھے ۔ گلو کاروں کے مخصوص مشرقی لباس میں ایسا لگتا تھا کہ خوش شکل نوجوان لڑکے لڑکیوں کاطائفہ تمجید و تمحید کے لیے آسمانوں سے اتر آیا ہو ۔ یہاں تک تو ٹھیک لیکن جب طبلے کی تھاپ پر یا رسول اللہ مد د کی صدا بلند ہوتی یا شئیاً للہ یا رسول اللہ کانعرہ لگتا تو میں بار بار سوچتا کہ موسیقی کے سحر میں ہم راسخ العقیدگی کو کتنی آسانی سے خیر باد کہہ رہے ہیں۔
شیخ نےاپنے پرانے ایام کی یاد تازہ کرتےہوئے کہا : نغمے کی زبان بڑی با جبروت ہوتی ہے، بسا اوقات یہ عقل و خرد کو بہالے جاتی ہے۔ آج بھی جب یہ نغمے میرے کانوں سے ٹکراتے ہیں تو پر مسرت لمحات کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ۔ کیف و جذب میں ڈوبے ہوئے لمحات ۔
بات یہ ہے کہ جب مشرق کامغنی اپنی غلوئے فکری میں مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے تو یہ سب کچھ ایک پیچیدہ داخلی عمل کاحصّہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے نغمے کی زبان انسان کے وجود میں سرایت گر گئی ہو۔ اس کا رُواں رُواں موسیقی کے لَے پر بربط بن گیا ہو ۔ مذہبی موسیقی کا یہ داخلی تجربہ جب کبھی اہل مغرب کے مشاہدے میں آتا ہے تو وہ چیخ پڑتے ہیں ۔ واللہ یہ ہوئی بات۔ ان میں سے بعضے ایمان بھی لے آتے ہیں گوکہ ان کا یہ ایمان اسلام پر کم اور مشرق کی مسلم ثقافت پر زیادہ ہوتا ہے۔
بھئی آواز میں بڑا دم ہے یہ چاہے تو صائقہ بن جائے اور چاہے تو مضراب داؤ د پر مسرت و سکنیت کی لے بن کر چھا جائے ۔
شیخ نے مزید و ضاحت کی ۔
اور کُن بھی تو ایک آواز ہی تھی جس کے بارے میں صوفیاء کہتے ہیں کہ اگر آج بھی کلمۂ کُن کو اپنی تمام ابعاد کے ساتھ برتاجاسکے تو ہر لمحہ ایک نئی کائنات وجود میں آسکتی ہے۔ میں شیخ کی رائے جانناچاہی ۔
میں نہیں سمجھتا کہ واقعی ایسا میرے ، میرے خیال میں صوفیاء سخت مغالطے کاشکار ہیں ۔ وہ اپنےہنگامہ ہاؤ ہوکی آواز سے متاثر ہو کر بلکہ اس کے سحر میں خود ہی مبتلا ہوجانے کے سبب یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کُن بھی کوئی دو ضربی ، سہ ضربی ذکر ہو جو سامع پر ایک کیفیت مرتب کرتا ہو یا اس کی دماغی رَد کو مسحور یا کنٹرول کرنے پر قادر ہو ۔حالانکہ دونوں میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ کُنْ حقیقی تخلیق کا استعارہ ہے جب کہ ہمارے نطق کی آواز یں ایک مصنوعی حقیقت تخلیق کرتی ہیں۔ وہ ہمیں ایک ایسی خواب آسا دنیا میں لے جاتی ہیں جس پر ہمیں چند لمحے کے لیے حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ شیخ نے اس نکتہ کی مزید و ضاحت کی۔
تو کیا جو لوگ نغموں سے شغل رکھتے ہیں یا مضراب و بربط کے شائق ہیں یا اعلیٰ شاعری کو پسند کرتے ہیں ، وہ سب کے سب جی ہاں بڑی حد تک ایسا ہی ہے۔
میرا بھی یہی خیال ہے۔ مصطفیٰ اوغلو نے گاڑی چلاتے ہوئے کن انکھیوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ اب مجھ ہی کو لیجئے میں اہل تصوف کے فکری سراب سے خوب واقف ہوں لیکن میرے پاس مختلف صوفی نغموں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ عربی زبان گو کہ مجھے کم آتی ہے لیکن جب میں حمزہ شکور اور شیخ حبّوش جیسے لوگوں کو سنتا ہوں تو دل کے مضراب بج اٹھتے ہیں ۔ یہ الفاظ بڑے قاتل ہوتے ہیں آوازوں کے سحر اور اس کے جال میں اگر کوئی ایک بار پھنس جائے تو اس سے رہائی کچھ آسان نہیں ہوتی۔
شیخ کامل تو مدتوں آوازوں کے سحر گزیدہ رہے ہیں ۔ مصطفیٰ اوغلو اپنے تمام دانشورانہ تحلیل و تجزیے کے باجود آج بھی صد اگزیدہ ہیں ۔ انہوں نے نغمے کی زبان سے ہیروئن کا انجکشن لیا اور تائب بھی ہوئے تو اس طرح کہ پرانی لذتوں کے ذکر سے اب بھی مشام جاں معطر ہوجاتے ہیں ، روح میں بالیدگی آجاتی ہے ۔ بقول غالب :
پیتاہوں روزِ ابرو شبِ ماہتاب میں
بلکہ اگر بنظر غائر دیکھیں تو آوازوں کے سحر کایہ سلسلہ پوری امت پر محیط ہے۔ اگر صوفیاء کی محفلوں کی رونق ہاؤ ہوُ کی طربناک آوازوں کے سہارے قائم ہے تواہلِ تشیع کے ہاں جذبات کی گرم بازاری کا سارا کارو بار دراصل منقبتِ حسین رضی اللہ عنہ ،نوحوں اور مرثیوں کے دم سے چل رہا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مذہبی شاعری اور مختلف قسم کا Devotional music نہ ہوتو مختلف فرقوں کا روحانی کارو بار اچانک ٹھپ پڑجائے ۔ ذر ا غور کیجئے ! عرس کے موقع پر اگر قوالی کااہتمام نہ ہو ، و جدو حال کے ماحول میں دھمال ڈالنے کا سلسلہ بند ہوجائے یا عاشورہ اور چہلم کے موقع پر نوحہ و منقبت اور ذکر کی مجلسوں میں مقرر اور شاعر الفاظ کے جادونہ جگائیں تو فکری التباسات کے یہ مختلف خیمے جو شعر و نغمہ کی بدولت قائم ہیں اپنی جاذبیت کھودیں۔
الفاظ میں بڑی قوت ہے حتیٰ کہ بے معنی الفاظ بھی کم قتیل نہیں ہوتے ۔ صائفہ ہے صائفہ ، شیخ نے اپنی متفکر انہ خاموشی توڑی ۔ مشرق کی منقبت اور قوالی ہو یا مغرب میں روشنی کی اسٹیج پر وحشیانہ اور دلخراش ہنگامۂ ہاؤ ہوُ ، یہ سب آوازوں کاطلسم ہی تو ہے جس نے انسانوں کو گرفتار رکھا ہے۔ کہیں یہ سب کچھ محض Entertainment کے نام پر ہے او رکہیں مذہب کے حوالے سے اسے داخلی کیفیت کا حصّہ بنادیا گیا ہے۔
گل محمد جواب تک کبھی بے اعتنائی او رکبھی شوق و تجسس کےساتھ ہماری گفتگو سنتے اور کبھی نیم بند آنکھوں سے، ایسا لگتا جیسے چشم تصور میں ریل کے کسی رومانوی سفر پرروزانہ ہوجاتے ہوں، اب انہوں نے مداخلت کے انداز میں پہلو بدلا۔ کہنے لگے صوت و ساز کے علاوہ ایک اور چیز ہے جو صوفی مجلسوں ، سماع کی محفلوں اور نوحہ وعزا کے جلسوں میں ہمارے حواس معطل کیے دیتی ہے اور وہ ہے رنگ و آہنگ کے امتزاج سے ایک خواب آسا یا نیم کرشماتی ماحول ۔ جرمنی میں اکثر مولوی فرقے کے صوفیاء اور مغنیوں کا گروہ آتا رہتا ہے ۔ بلکہ اب تو یہ لوگ پیرس، لندن بلکہ امریکہ تک جاتے ہیں جہاں ان کی مقبولیت روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ رومی کی شاعر ی پر یورپ اور امریکہ میں مسلسل کتابیں شائع ہورہی ہیں ۔مجھے میونخ کے ایک ناشر نے بتایا کہ یہ کتابیں ہزار، دس ہزار نہیں چھپتیں بلکہ امریکہ میں شائع ہونے والی بعض مقبول عام کتابوں کی تعداد تو ڈھائی لاکھ تک جاپہنچی ہے۔ رومی ایک اس مقبولیت کا ایک سبب شاید یہ ہے کہ جب رنگ و نور کے ہالے میں سماع زن اپنا نغمہ بکھیر تا ہے اسی اثناء نیم تاریک گوشوں سے محفل پر سحاب کی بارش ہوتی ہے اور پھر رقاص کے چھتری نما اسکرٹ محفل پر ایک و جُد کی سی کیفیت طاری کردیتے ہیں ۔ جو لوگ شعر و نغمے کی زبان سے واقف نہیں ہوتے ان کے لیے بھی یہ طلسماتی منظر کچھ کم قتیل نہیں ہوتا۔
تو کیا یہ سب کچھ جسے ہم مذہبی میوزک یا رقص و سماع سمجھے بیٹھے ہیں ان کی حیثیت ایک طرح کے فنونِ لطیفہ کی ہے۔ میں نے گل محمد سے وضاحت چاہی۔
جی ہاں با لکل صحیح فرمایا آپ نے۔ ہم مذہب کے نام پر دراصل ایک طرح کےفنونِ لطیفہ کےسحر میں گرفتار ہیں۔
گفتگو کاسلسلہ شاید ابھی کچھ اور دیر تک جاری رہتا لیکن آگے راستہ مسدور تھا ۔ ہماری کار رینگتے رینگتے اب تقریباً حالتِ سکوت میں آگئی تھی ۔ ہمارے بائیں طرف آبنائے با سفورس کی لہر وں کے مچلنے اوربل کھانے کامنظر تھا اور دوسری جانب ہوٹل کی عمارت نظر آرہی تھی ۔ خیال آیا کہ اس ٹریفک جام میں وقت ضائع کر نےکے بجائے کیوں نہ پیدل سڑک عبور کرلوں ۔ بالائی سڑک سے ہوٹل کا راستہ چند ثانیے کا ہے ۔ سو میں نے مہمانوں کو یہیں الوداع کہا اور اپنے میزبان مصطفیٰ اوغلو سے اجازت چاہی۔
استنبول میں کسی جام میں پھنسنے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا لیکن مجھے اس بات پر قطعی حیرانی نہ ہوئی کہ دوڑ تے بھاگتے شہروں میں جہاں زندگی بظاہر برق رفتاری سے دوڑتی ہے ،ٹریفک جام میں وقت کا زیاں ایک عام سی بات ہے۔ ہاں جن شہروں میں زندگی کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ نئے متبادل راستے بنتے رہے ہیں یا فلائی اوور کی تعمیر ہوتی رہی ہے وہاں اژدہام کی یہ شدت یازندگی کے جام کا احساس کچھ کم ہوتا ہے۔ عام شاہراہوں کی طرح تہذیب کی شاہراہ پر بھی اگر نئے راستے تعمیر نہ ہوں تو انسانی زندگی ایک طرح کے انجماد کا شکار ہوجاتی ہے او رکچھ یہی حال فکر و نظر کی دنیا کا ہے جہاں مسلسل نئی شاہراہوں اور نئے فلائی اوور کی تعمیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترکوں کی پانچ سو سالہ قیادت میں، اگر دانشورانہ تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے ، تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ نئے فکری راستوں یا متبادل شاہراہوں کی تعمیر کا کام بہت کم ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ ہماری فکری شاہراہیں نت نئے امکانات کے بجائے ہلا مارنے والے انجماد کامنظر پیش کرنے لگیں ۔ جب انسانی ، معاشرہ ایسی صورت حال سے دو چار ہوجائے تو اقتصادی ، ثقافتی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں ۔ پھر ان ہی راستوں پر چلتے رہنے پر مزید اصرار ہمیں اس التباس فکری میں تو ضرور مبتلا کرتا ہے کہ ہم مائل بہ منزل ہیں، ہماری گاڑی کاقبلہ بھی درست ہے لیکن ہم جام میں پھنسے کہیں پہنچتے نہیں ۔(لستم پوخ جاری ہے)
نومبر، 2013 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL for Part 1:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-1/d/14317
URL for Part 2:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-2/d/14328URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-3/d/14375