ڈاکٹر راشد شاز ۔ دہلی
صبح غیر معمولی طور پر آنکھ کچھ پہلے ہی کھل گئی ۔ خیال تھا کہ فجر کی نماز جامع سلطان احمد میں پڑھو ں گا لیکن ابھی تو صبح کے دو ہی بجے تھے ۔ کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا ۔ سمندر کے کنارے روشنیوں کی قطاریں کچھ مدھم پڑتی ہوئی نظر آرہی تھیں ۔ صبح ہونے میں گوکہ خاصا وقت تھا کچھ تو مصنوعی روشنی کے اثرات او رکچھ ساحل سمندر ہونے کے سبب جھٹپٹے کا احساس ہوتا تھا ۔ ماحول پر ایک طرح کی پر اسرار یت چھائی تھی ۔ فطرت اپنی تمام سرّیت کے ساتھ ۔
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
کے عشوہ وادا کا اظہار کررہی تھی ۔ خیال ہوا کیوں نہ اس دلفریب منظر سےبھی لطف اندوز ہو ا جائے ۔جیسے تیسے چائے کی پیالی ختم کی، وہیں فرش پر دو رکعت نماز داغی کہ سن رکھا تھا :
ہٹتی ہے رات ہی کو خواجہ تری گلی میں
اور ساحل سمندر کی سیر کے لئے نکل کھڑا ہوا ۔ استنبول بڑا شہر ہے۔ خیال تھاکہ لیل و نہار کی گردش ا س کی سر گرمیوں پر کم ہی اثر انداز ہوتی ہوگی کہ مغرب کے بعض بڑے شہر اس بات کے اعلان میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ This city never sleeps لیکن یہاں استنبول کے اس حصے میں ٹریفک نام کو نہ تھی ۔ ہاں سمندر کے کنارے واک ویز پر گاہے بگاہے کوئی شب گزیدہ اور کوئی سحر خیز نظر آجا تا تھا ۔ پتہ نہیں یہ لوگ کسی سبز پرندے کی تلاش میں آئے تھےیا سمندر کی مہیب پر اسرار یت انہیں یہاں کھینچ لائی تھی یا ان گہری باتوں سے ماوراء صرف صبح کی چہل قدمی کے لئے آنے والے لوگ تھے ۔ واقعہ کچھ بھی ہو ایک بات کا شدت سے احساس ہوتا تھا کہ سبز پرندے کی بشارت کا سب سے مناسب وقت یہی ہے کہ اس جھٹپٹے میں سالک کو مختلف رنگوں پر سبز رنگ کا گمان ہوسکتا تھا ۔
اور ہان پا موک نے لکھا ہے کہ استنبول کے درو دیوار اور اس کے ماحول پر ایک طرح کا حزن سایہ کیے ہوئے ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ محزون ہو۔ صبح کے اس جھٹپٹے میں جہاں ایک طرف آبنائے ہاسفورس کے ا س پار براعظم ایشیا اپنی تمام تر تاریخی عظمت بلکہ خطِ عظمت کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے تو دوسری طرف قصر خلافت سے ملحقہ باز نطین کا تاریخی چرچ اور وہیں اس کے مد مقابل سلطان احمد ہمیں تاریخ کے مختلف ادوار اور اس کے اسر ار ور موز سے آگاہ کرتا ہے اور اس پورے منظر نامے میں جہاں تاریخ کچھ خوابیدہ سی لگتی ہے اور جسے دانستاً پچھلی پون صدی سے تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کی گئی ہے ہر لمحہ اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب کس موڑ پر اس خوابیدہ شہر کو جگانے کے لئے کوئی اذان دے ڈالے۔
تو کیا وہ آنے والے ہیں؟
کم از کم جھٹپٹے کے اس پر اسرار ماحول میں ، جہاں چند ایک افراد کے علاوہ پورا شہر خاموشی کی چادر تانے سوتاہے ، اگر اپنی ہئیت کذائی اور نا مناسب وقت کے سبب ان اکاد کا افراد پر رجال الغیب کا گمان ہو اور یہ دھڑکا لگا رہے کہ نہ جانے کب کس لمحہ آنےوالا آجائے تو یہ کچھ عجب نہیں ۔ یہ تو نیچے سطح سمندر سے قصر خلافت کا ایک تناظر تھا ۔ میں نے جب بھی قصر خلافت کی بلندی سے آبنائے باسفورس کی نیلگوں لہروں اور اس سے پرے ایشیائی حصے کو دیکھا ہے، ہر دفعہ مجھے پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ یہ بات محسوس ہوئی کہ استنبول پر حزن کا نہیں، بلکہ ان پیروں اور فقیروں کا سایہ ہے جن کے آثار مساجد سے لے کر پارکوں ، سیر گاہوں ، بازاروں اور سیاحت گاہوں تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ قبروں کی تزئین و آرائش ، اس کے تحفظ، مقبروں کی آراستگی اور ان کا انتظام و انصرام جس بڑے پیمانے پر اس شہر میں نظر آتا ہے اور بعد از مرگ بھی جس طرح سلاطین سے لے کر اولیاء تک اپنی اپنی کلاہوں ، مراتب کی درجہ بندیوں کے ساتھ زائرین کے استقبال کے لئے اپنی بانہیں واکیے ہوئے ہیں اس نے شہر اور اس کے اہالیان کا ذہنی رشتہ زندگی کے بجائے ویران قبروں اور بے کیف خرابوں سے منسلک کر رکھا ہے۔ ا س میں شبہ نہیں کہ مومن کے لئے موت سے غفلت سم قاتل ہے لیکن موت کی یاد ایک چیز ہے اور اس کا جشن منانا بالکل ہی دوسری چیز ۔ اور یہ جشن جب جشن شادی کا رخ اختیار کرلے اور اس عرس کہا جانے لگے تو افشائے حقیقت کے لئے صرف ان اصطلاحوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا ان کی وجہ تسمیہ معلوم کرنا ہی اپنے اندر عبرت کا بڑا سامان رکھتا ہے۔
جوں جوں صبح قریب آتی جاتی تھی، فطرت کے حسن بلکہ یہ کہہ لیجئے کہ اس کی سحر انگیزی میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جاتا تھا ۔واک وے ( Walk-way) کے بنچ پر بیٹھ کر دو ر افق کو دیکھئے تو ایسا لگتا ہے کہ ہر لمحہ سریت کا ایک ورق الٹتا ہواور حیرت کی ایک نئی دنیا ہےہو یدا ہوجاتی ہو ۔ اب بیٹھنے کی تاب نہ تھی، ہر لمحہ ایکے نئی تجلی کا سماں تھا ۔ ایسا لگتا تھا میرے وجود کا رُواں رُواں اس تجلی کی زد پر ہو، اس کے سہار نے کی تاب بھی نہ ہو اور اس سے یک گونہ دامن چھڑا نا بھی ممکن نہ ہو۔
سمندر سے میرا پرانا یارانہ ہے۔ کبھی بحر ہند کے ساحلوں پر ، کبھی بحرا حمر کی گزر گاہوں پر ، کبھی یورپ امریکہ اور جاوا اسماترا کے ساحلی شہر وں میں سمندر کی مہیب ، پر اسرار وسعت کو دیکھتے جانا میرا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔ بازاروں میں بکنے والا وہ پوسٹر جس پرلکھا ہوتا ہے اسے خدا ! تیرا سمندر اتنا بڑا اور میری کشتی اتنی چھوٹی ، میرے ذہن پر بچپن سے کچھ ایسا چپکا کہ آج تک اتر نہ سکا ۔ البتہ فطرت کو دیکھ کر خدا کو بے ساختہ پکارا اٹھنے کا جو تجربہ مجھے فن لینڈ کے ایک جزیرے ماری ہام میں ہوا وہ اس سے پہلے بلکہ اس کے بعد بھی کبھی نہ ہوا ۔ یہی کوئی گیارہ بارہ بجے کا عمل ہوگا ۔ اولانڈآئر لینڈ کی پارلیمنٹ سے ہماری قیام گاہ کی دوری ڈھائی تین کلو میٹر سے زیادہ نہ رہی ہوگی ۔ سوچا موسم اچھا ہے، طبیعت ہشاش بشاش بھی ہے کیوں نہ پیدل ہی قیام گاہ کوچلایا جائے ۔ اس ارادے سے میں نے ساحل کےکنارے واک وے کا رخ کیا ۔ اب جو علمی اور دانشورانہ مباحث سے دور عالم تنہائی میں فطرت پر نظر پڑی تو آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ خدا نے ہمارے لئے دنیا اس قدر خوبصورت اور سحر انگیز بنائی ہے۔ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی شعائیں پھینک رہا تھا جس نے درختوں ، سبز ہ زاروں اور نیلگوں سطح آب پر ، بقول شاعر، سنہری قبا لپٹنے کا سماں پیدا کردیا تھا ۔ دور بہت دور تک آر کی پلیگو کا سلسلہ آب رواں کے دوسری جانب مسرت بھری زندگی کے مزید امکانات کی نشاندہی کررہا تھا ۔ میں کچھ بے خود سا ہوگیا ۔کبھی خدا کی حمد و تسبیح کرتا، کبھی عالم بے خودی میں دو دو فٹ اچھلتا او رکبھی شدت حظ کے مارے رو پڑتا ۔ ڈھائی تین کلو میٹر کا یہ سفر خدا، بندے اور کائنات کے اس نا محسوس رشتے کی دریافت کاعمل بن گیا ۔
شاید عالم بے خودی کا کچھ ایسا ہی تجربہ رومی کو اس زرد وز کی دھمک سن کر ہوا تھا جو ہتھوڑے کی ہر ضرب کے ساتھ اِلاّاللہ ، الاّ اللہ کہتا جاتاتھا ۔ کہتے ہیں کہ رومی اس دھمک کو سن بے قابو ہوگئے ۔ ہتھوڑے کی ہر ضرب انہیں ایک نئی وجد آفریں کیفیت سے دو چار کرتی رہی ، ان پر پہلی بار لا الہ الا اللہ کا مفہوم واضح ہوا ، وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے ۔ اس تجربہ نے آنے والے دنوں میں ان کے مریدین کے لئے سماع کا ایک مستقل ادارہ قائم کردیا۔ اگر رومی ہتھوڑے کی دھمک سےبے قابو نہ ہوئے ہوتے تو سماع کی یہ محفلیں جس نے مذہبی شاعری، صوفیانہ رقص، مناجاتی دعاؤں اور قوالی و دھمال کی مختلف شکلوں کو جنم دیا ہے، شاید اس آب و تاب اور استناد کےساتھ مسلمانوں میں مقبول نہ ہوتیں۔ میری بے خودی کی طرح رومی کا رقص بسمل بھی خالصتاً ایک شخصی تجربہ تھا ۔ اب لوگ اس عمل کو دہرانے کی کوشش کرتے ہیں یا جو رقص و سماع کے اس شخصی تجربے کی نقل کرتے یا اسے انسٹی ٹیوشنلائز کرتے ہیں انہیں حظ و سرور کی وہ کیفیت تو حاصل نہیں ہوسکتی ۔
ماری ہام میں جب تک میرا قیام رہا عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتا رہا ۔ نہ جانے یہ کسی اہل دل کی توجہ کا اثر تھا یا جغرافیہ کا قصور ۔ پہلے دن تو میں حیرت زدہ رہ گیا ۔ آدھی رات کا عمل ہوگا ۔ ابھی ابھی جھٹپٹے کے غیاب اور شب باریک کے قیام کا احساس ہوا تھا ۔ کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بھی نہ گزرا ہوگاکہ سپیدہ سحر نمودار ہونے لگا ۔ ملفوظات اور حکایتوں کی کتابوں میں مختلف بزرگوں کی بابت یہ پڑھ رکھا تھا کہ ان حضرات نےمسلسل چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی لیکن ابھی چالیس سال کی تکمیل پر ایک دن باقی ہی تھا کہ ان کا وضو جاتا رہا ۔ چالیس سال کی ریاضت اکارت گئی ۔ اب جو ماری ہام کے جزیرے پر اس فقیر نے اتنی آسانی کے ساتھ ، بلکہ کہہ لیجئے کہ تن آسانی کےساتھ ، عشا ء کے وضو سےفجر کی نماز کا تجربہ کیا تو خیال آیا کہ اے کاش ہمارے ان بزرگوں کا جو چالیس سال کا ریکارڈ بنانے میں ناکام رہے اس جزیرے میں قیام ہوا ہوتا تو انہیں بزرگی کے اس درجہ پر فائز ہونے میں اتنی زحمتوں کا سامنا نہ ہوتا ۔
ایک دن جمعہ کی نماز کی اُدھیڑ بن میں بیٹھا تھا ۔ منتظمین نے امید دلا رکھی تھی کہ اس جزیرے پرکچھ مسلمان بھی آباد ہیں جو آپ سے ملنے آئیں گے۔ ایک پاکستانی لڑکی رابعہ تو سہ پہر کو آئی اور وہ بھی یہ کہنے کہ اس کے ہا ں آج میرے عشائیے پر مقامی معززین اور خاص طور پر مختلف مذہبی عقائدین کو مدعو کیا گیا ہے۔ البتہ دو پہر میں ایران نژاد بہائیوں کا ایک گروہ آیا جس نے یہ خبر دی کہ جزیرے پر صرف ایک پاکستانی نژاد مسلم فیملی آباد ہے البتہ چھوٹا سا گروہ ہم بھائیوں کا ہے جن کے لیے کتب علیکم الصلوٰۃ فرادا کا حکم موجود ہے، سو کسی جمعہ کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
بہائی جو یہودی اور عیسائی بائبل کے علاوہ قرآن مجید پر بھی ایمان رکھتے ہیں گوکہ اب اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے ،اس بات سے نا آگاہ نہیں کہ ماضی میں ان کا تعلق متبعین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے سے رہا ہے۔ کچھ نظر ی التباس کے سبب او رکچھ سیاسی جبر نے انہیں اولاً مسلم شناخت کو خیر باد کہنے اور ا ن میں سے بہتوں کو جلاو طنی پر مجبور کیا ۔ انیسویں صدی کے وسط میں سید مرزا علی محمد نے باب ہونے کا اعلان کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک ایسے مسیحا یا مہدی ہیں جو ان مشکل حالات میں امت کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگا سکتے ہیں ۔ جزن و اضطراب کے اس ماحول میں ان کی دعوت پرلبیک کہنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی گئی ۔ اس پر مستز ادیہ کہ قرۃ العین جیسی خوبصورت اور شعلہ بار مقررہ اس تحریک کو مل گئی جس نے اپنی خطابت کے جادو سے ایک ولولہ انگیز کیفیت پیدا کردی ۔ علی شیر ازی کی بغاوت تو بندوق کے زور پر دبادی گئی ۔ وہ قتل کردیے گئے ۔ لیکن امت کے حالات ابھی بدلے نہ تھے سو مہدی کی ضرورت باقی رہی ۔ بہاء اللہ نے اپنے آپ کو باب کی پیش گوئیوں کے ماحصل کے طور پر پیش کیا ۔ قید تنہائی میں ان پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ صرف مہدی ہی نہیں بلکہ ایک مکمل پیغمبر ہیں جن سے خدا کلام کرتاہے ۔ انہوں نے اپنے الہامات کے مجموعے کا نام کتاب اقدس رکھا جو 1890 میں پہلی بار بمبئی کے ایک مطبع سے شائع ہوا۔
ان کا نام طاہرہ تھا ۔ وہ اس طائفہ کی سربراہ تھی جو چھ سات بہائی خواتین پر مشتمل تھا ۔ ایک طاہر ہ وہ تھی جو قرۃ العین کی حیثیت سے مشہور ہوئی جو اپنے غیر معمولی حسن، شعلہ بیانی اور قائدانہ صلاحیتوں کے سبب ارباب اقتدار کے لیے مسلسل درد سر بنی رہی ۔ اور ایک یہ تھی جس نے جزیرہ ماری ہام پر طاہرہ کی معنوی بیٹیوں کی فکری قیادت سنبھال رکھی تھی ۔کہنے لگی ہم اس جزیرے پر وطن سے دور مہاجرین حبشہ کی طرح جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں ۔ ایران میں ہم پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ یہاں تبلیغ و تعلّم کی آزادی تو ہے لیکن اس پیغام کے شایانِ شان کان نہیں ملتے ۔
تو کیا تم واقعی یہ سمجھتی ہو کہ سیاہ چال میں قید تنہائی کے دوران بہاء اللہ پر وحی آتی تھی ؟ میں نے اسے زچ کرنے کی کوشش کی ۔ بولی : اس میں آخر شبہ کی کیا بات ہے ۔ باب نے اس کی آمد کی پیش گوئی کر رکھی تھی ۔ باب کو یہ پتا تھا کہ وہ صرف اس کی بشارت دینے اور اس کی آمد کے لئے ماحول تیار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ باپ کی آمد کی بشارت حدیثوں میں موجود ہے۔ وہی حدیثیں جن پر تم تمام سنّی شیعہ مسلمان مہدی کی حدیثوں کی حیثیت سے ایمان لاتے ہو ۔ سید علی شیرازی سادات کے خانوادے سے تھا جس کی بشارت پر تمہاری مذہبی کتابیں گواہی دیتی ہیں ۔
مہدی کے دعوے تو پہلے بھی لوگ کرتے رہے ہیں اور جب تک ان بے اصل روایتوں کو مذہبی حیثیت حاصل رہے گی ، شاید آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔لیکن تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ بہاء اللہ کے ظہور کے بعد بھی دنیا ویسی کی ویسی ہی رہی ۔ آج بھی بہت سے لوگ ایک نئے مہدی کی راہ تک رہے ہیں ۔ مہدیت کے اس دعویٰ پر تاریخ کا فیصلہ تو ان کے حق میں نہیں جاتا ۔
میرے اس اعتراض پر طاہرہ نے پہلو بدلا مسکراتے ہوئے کہنے لگے ۔ لیکن ہم انہیں صرف مہدی مانتے ہی کب ہیں ۔ ہم تو انہیں صاحب الہام کہتے ہیں جنہیں خدانے ایک عالمگیر معاشرے کے قیام کے لیے بھیجا تھا اور جن کی کتاب اقدس قرآن مجید کا تسلسل بلکہ کہہ لیجئے کہ نئے زمانے کا نیا ایڈیشن ہے۔
مگر ہم مسلمان تو یہ سمجھتے ہیں کہ نزول قرآن کے بعد اب آسمانی وحی کا سلسلہ اپنے اتمام کو پہنچا ۔ حتیٰ کہ امت میں جن لوگوں نے مہدیت کے دعوے کیے وہ بھی اپنے ساتھ کتاب اقدس لانے کی جرأت نہ کرسکے، میں نے اپنے موقف کی وضاحت کی۔
نہیں، میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس بارےمیں ہمارے ساتھ سخت نا انصافی ہوئی ہے ۔ طاہرہ کی آواز اب قدرے تیز ہوتی جارہی تھی ۔ کہنے لگی : محدّث اور ملہم کے دعویداروں سے تو آپ مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ شیرازی اور بہا ء اللہ اگر اپنے الہام کا تذکرہ کریں اور اسے چھاپ دیں تو قابل گردن زدنی قرار پائیں ، انہیں ملک اور دین ترک کرنے پر مجبور کیا جائے اور ابن عربی، عبدالقادر جیلانی ، شاہ ولی اللہ دہلوی اپنےالہام سے سند لائیں یا بات بات میں الہمنی ربّی کی رٹ لگائیں تو انہیں صاحب کشف قرار دیا جائے حتی کہ ان کے مخالفین بھی ان باتوں کو تفردات کہہ کر آگے بڑھ جائیں ۔ بہاء اللہ کی کتاب اقدس پر تو آپ کو اس قدر اعتراض ہے لیکن آپ ان 64 آیاتِ شریفہ کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے جن میں خدا خود عبدالقادر جیلانی کو یا غوث الاعظم کہہ کر مخاطب کرتا ہے ۔ عبدالقادر پر نازل ہونے والی یہ آیتیں جو قال اللہ تعالیٰ یا غوث الاعظم سے شروع ہوتی ہیں ، آپ لوگوں کو ختم نبوت کے خلاف معلوم نہیں ہوتیں؟ خدا خود کسی کو یا غوث کہے تو اس کے بعد آخر رہ ہی کیا جاتا ہے؟ لیکن آپ کے ثقہ علماء اس قسم کے ہفوات کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ خدا خود کو غوث اعظم کی ذات میں دیکھتا ہے ، وہ غوث کے آئینے میں اپنی عین کو دیکھ رہا ہوتا ہے تو اس طرح وہ خود اپنی ہی تعظیم کرتا ہے ۔ حیرت ہے کہ اس طرح کی باتوں سے آپ لوگوں کی توحید پر حرف نہیں آتا ۔ جمہور علمائے اسلام نہیں غوث ربانی ، قطب صمدانی ، محبوب رحمانی موصوف بصفاتِ سبحانی ، مظہرذاتِ سلطانی، قطب الاقطاب ، غوث الا عظم ، محی الملت والدین جیسے القاب سے نوازتے ہیں ۔ یہی جرم! اگر بہاء اللہ سے سرزد ہوجائے تو ان پر زندگی تنگ کردی جاتی ہے حتیٰ کہ ان سے ان کا وطن اور دینی شناخت بھی چھین لی جاتی ہے۔
طاہرہ کے لہجے میں اب کسی قدر تلخی آچکی تھی ۔ اس کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھیں ، اس نے ایک سرد آہ بھری ۔ بولی : یا باب ! یا بہاء اللہ ! یارب البہا! تو گواہ رہنا۔ تیری محبت اور تیری طلب میں یہ ناتواں بندی ترکِ وطن پر مجبور ہوئی ، گھر بار چھوٹا، خاندان تتر بتتر ہوگیا ۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی اور پھر وقعتاً کے احتجاج پر غیض و غضب کا لہجہ غالب آگیا ۔
کتنے بے ایمان ہیں آپ لوگ! آخر باب اور بہاء اللہ نے کون سی بات کہہ دی جو پچھلوں نے نہ کہی تھی ۔ نہ مہدی کے دعویٰ میں باب پہلا آدمی تھا او ر نہ ہی الہام کا دعویٰ بہاء اللہ نے مسلم تاریخ میں پہلی بار کیا تھا ۔ ابن عربی سے لے کر مولانا روم اور عبدالقادر جیلانی سے لے کر احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ دہلوی تک ثقہ علماء کیے ایک بڑی تعداد مشاہدۂ حق اور کشف و الہام کا دعویٰ کرتی رہی ہے ۔ پھر مجھے بتائیے کہ یہ انصاف کا کون سا پیمانہ ہے کہ ابن عربی تو شیخ الا کبر قرار دیئے جائیں، عبدالقادر جیلانی کو غو ثِ اعظم کا خطاب ملے، شاہ ولی اللہ راسخ العقیدگی کی سند سمجھے جائیں اور بہاء اللہ کے ماننے والوں پر دنیا تنگ کر دی جائے ۔ آپ کو کیا پتہ غریب الوطنی کیا چیز ہوتی ہے۔
یہ کہتے ہوئے ایک بار پھر طاہرہ کی آنکھیں نمناک ہوگئیں ۔ اس نے ایک بار پھر اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی ۔ شاید اسے یہ احساس ہوچلا تھا کہ وہ شدتِ جذبات میں ایک نووارد مہمان سے کچھ زیادہ ہی کہہ بیٹھی ہے۔ اس صاف گوئی کے لیے اس نے معذرت کا اظہار کیا ۔ کہنے لگی شاید یہ سب کچھ مجھے اس طرح نہیں کہنا چاہیئے تھا ۔ معاف کیجئے گا ایک صاحب علم کے سامنے اظہار حقیقت سے خود کو نہ روک سکی ۔ دل کا درد تھا جو بے ساختہ باہر آگیا۔
طاہرہ اپنا دردِ دل انڈیل کر چل دی اور میں سوچتا رہا کہ اسطورہ میں کتنی قوت ہوتی ہے، طاہرہ کی طرح نہ جانے کتنے لوگ اساطیری طرز فکرے کے شکار، ہجرت حبشہ کا خیال لیے، دنیا کے مختلف علاقوں میں تبدیلی حالات کے منتظر ہیں۔ کیسانیہ تحریک سے لے کر آج تک ، اسلامی تاریخ کے مختلف موڑ پر نہ جانے کتنے مہدی حالات کی درستگی کے لیے سامنے آئے ۔ ہر مہدی نے اپنے ماننے والوں کو نہ صرف یہ کہ ایک نئی آزمائش سے دوچار کیا بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنی اصل سے لڑنے کے لیے ایک نئے فرقہ کی بنا ڈال دی۔ ذرا وسیع تناظر میں دیکھئے تو صاف لگتا ہے کہ عباسی اور فاطمی خلافت کا قیام فضائل و مناقب کی جن روایتوں کے سہارے ممکن ہو سکا ان کی حقیقت بنیادی طور پر اسطورہ سے زیادہ نہ تھی ۔ آگے چل کر مسلمانوں کے مختلف فرقے، خواہ وہ دروزی ہوں یا علومی ، نصیری ہوں یا بہائی اور قادیانی ، وہ جنہیں ہم اہل قبلہ میں شمار کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں ، واقعہ یہ ہے کہ ان کی حیثیت ان ہی اساطیر کے تلچھٹ کی ہے ۔ بعضے کہتے ہیں کہ اسطور ے کا مؤثر استعمال ہمیں چشم زون میں بامراد کرسکتاہے جیسا کہ مہدی سوڈانی کے ہاتھوں انگریز گورنر جنرل گورڈن کی راست شکست کی صورت میں سامنے آیا ۔لیکن ایسا سمجھنا محض ایک جزوی صداقت ہے۔ زبردست عوامی مقبولیت اور عسکری فتوحات کے باوجود مہدی سوڈانی کی قائم کردہ حکومت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی ۔ اسطورہ دراصل اپنی اصل میں ایک طرح کی فقوق البشریت کا طالب ہوتا ہے ۔ جب گوشت پوست کے عام انسانوں سے متوقع کرشمات ظاہر نہیں ہوتیں تو بہت جلد مایوسی کی دھند چھانے لگتی ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں کرشمات کی بھوک مسلسل بڑھتی جاتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ بوتل کا جن جب ایک بار باہر آجائے تو اسے قابو میں رکھنا یا کام سے لگائے رکھنا ممکن نہیں ہوتا ۔ ( جاری)
بھارت سے بیمار قوم کے لئے نسخہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر خدا نے چشم بینا دے رکھی ہو تو ہمیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہئے کہ مساجد و مدارس اور خانقاہوں میں، جنہیں ہم بسبب فریب نظر دین کا قلعہ سمجھتے ہیں، دراصل دین کی تکذیب او راپنے اپنے فرقوں کی تکبیر و تحلیل کا عمل جاری ہے ۔ کہیں تشیع کے خلاف علمی جہاد کے لیے طلباء کو تیار کیا جارہا ہے تو کہیں بریلویت کا قلعہ زمین بوس کرنے کی تیاری چل رہی ہے ، کہیں مسلک دیوبند کو احق اور افضل ثابت کرنے کے لیے طلباء میں باہم مشقی مناظرے ( Mock-Debate ) منعقد کرائے جارہے ہیں ، اورکہیں کسی خاص شیخ کی روحانی بیعت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی جد وجہد چل رہی ہے ۔ دین کے نام پر گروہی عصبیت کے فروغ اور فرقہ بندی کے استحکام کا یہ مذموم کا روبار امت کو اس کے اندر سے مسلسل کچو کے لگارہا ہے ۔ دین کی یہ مختلف تعبیریں اور ان کی بنیادوں پر وجود میں آنے والی یہ فرقہ بندیاں خواہ ایک دوسرے کے سلسلے میں کتنے ہی توسع اور وسیع القلبی کا دعویٰ کریں واقعہ یہ ہے کہ ان تمام فرقوں کا قیام ایک دوسرے کے استرداد سے غذا حاصل کرتا ہے ۔اگر شیعہ سنیوں کے خلاف اپنا سیاسی مقدمہ واپس لے لیں تو پھر بارہ اماموں کو منصوص ماننے اور ان کی اتباع کاکوئی جواز نہیں بچتا ۔ اسی طرح اگر سنی شیعوں پر انحراف کا الزام نہ لگائیں تو ان کے لئے ائمہ اثنا عشر کے بغیر دینی زندگی جینے کا جواز ختم ہوجاتا ہے ۔ شیعہ اور سنی اس وقت یک جان دو قالب نہیں ہوسکتے او ریہ منتشر امت اس وقت تک بنیان مرصوص نہیں بن سکتی جب تک کہ شیعہ اپنی شیعیت کو خیر باد نہ کہہ دیں اور سنی اپنی سنیت سے دستبردار نہ جائیں ۔ گوکہ بظاہر یہ ایک برا مشکل کام معلوم ہوتاہے لیکن اگر دلوں میں شرک کو ترک کرنے اور توحید کر اختیار کرنےکا واقعی داعیہ پایا جاتا ہو تو یہ نا ممکن بھی نہیں ۔
تاریخ کے اتنے بڑے انحراف کی درستگی جس پرکوئی ہزار سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس طویل عرصہ میں دونوں فرقے بظاہر بقائے باہم اور بباطن استردادِ باہمی کے راستے پر جس طرح گامزن رہے ہیں اور جسے ان دونوں فرقوں نے معتبر دین کا نام دے رکھا ہے، اس منافقانہ رویہ کی بساط لپیٹنا یقیناً ایک بڑا مشکل کام ہے۔ البتہ ہزار سال کے اس تکلیف دہ تجربہ کے بعد آج پہلے سے کہیں زیادہ ہم اس بات کو سمجھنے کی پوزیشن میں ہیں کہ جب تک ہمارے اندرون میں اتحاد پیدا نہیں ہوتا، جب تک ہم اپنے گھر کو درست نہیں کرتے ہم باہر کے دشمنوں سے کسی فیصلہ کن معرکہ آرائی کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ ( ڈاکٹر راشد شاز)
دسمبر، 2013 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-7/d/97851