ڈاکٹر راشد شاز۔ دہلی
گلیوں سے نکل کر ہماری کار جب شاہراہ پر آئی تو میں نے مصطفیٰ اوغلو سے کہا : مصطفیٰ مجھے اندازہ نہ تھا کہ تم مصحفِ قادریہ کے حافظ بھی ہو۔ تم نے تو ایسی تلاوت کی کہ سماں باندھ دیا۔ وہ مسکرایا ، کہنےلگا : ایک زمانے میں تو مجھے الہاماتِ قادریہ کی اکثر آیتیں یاد تھیں ۔ یہ ان دنو ں کی بات ہے جب میں شیخ علی العلی کا شاگرد تھا او رمیرے روزانہ وظائف میں ان کی تلاوت بھی شامل تھی ۔بات یہ ہے کہ جب تک ان حضرات کی جعلی وحی کو اصلی وحی کے مقابل میں نہ رکھا جائے ان کی کراہیت واضح نہیں ہوتی، ان پر تقدس کا پردہ پڑا رہتا ہے ۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جعلی وحی کے یہ تمام وثیقے اور کشف و الہام کے یہ تمام دعوے قرآن مجید کا زور توڑ نے کے لیے بلکہ یہ کہ رسالۂ محمد ی کو شکت دینے کے لئے تشکیل دیئے گئے ہیں ۔ ان الہامات میں قاری کو جو باتیں ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہیں وہ عقل اور وحی سے حد درجہ مغائر بلکہ اس کی بد ترین مخاصمت پر مشتمل ہیں ۔ مثال کے طور پر اس مصحفِ قادریہ کو لیجئے ، جس کے مطابق عبدالقادر جیلانی نے جب اپنے رب سے پوچھا کہ رب تیری نظر میں کون سی نماز بڑے رتبہ والی ہے تو خدا کا جواب تھا :
قال صلاۃ التی لیس فیھا سوائی والمصلّی غائب عنہ
یعنی ایسی نماز جس میں میرے سوا کوئی نہ ہو حتیٰ کہ نماز ادا کرنے والابھی اس میں سے غائب ہو ۔ ایک دوسری آیت مزعومہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے صاف کہہ دیا ہے کہ اہل علم کے لیے خدا کے ہاں کوئی جگہ نہیں ۔ مصطفیٰ اوغلو نے پھر گلے دار قاریوں والی مصنوعی کیفیت طاری کی اور باندازِ ترتیل کچھ اس طرح گویا ہوئے :
قال یا غوث الاعظم لیس لصاحب العلم عندی سبیل مع العلم الامن بعد انکارہ لانہ لولا ترک العلم عندہ صارَ شیطانا ۔
فرمایا اسے غوث اعظم اہل علم کے لئے مجھ تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں جب تک کہ وہ علم کا حامل ہے ۔ ہاں اگر کوئی راستہ نکل سکتا ہے تو وہ علم سے انکار کے بعد لیکن اگر وہ علم کو ترک کردے تو شیطان ہوجاتاہے ۔
عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کہنے والے نے کون سی بات کہہ دی ۔ لیجئے صاحب علم پر خدا تک رسائی کا دروازہ ہی بند ہوگیا ۔ علم کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں اس کاگزر نہیں اور علم ترک کرنے کی شکل میں بھی اس کے شیطان بن جانے کی وعید ۔ گویا ایک بار علم اگر آپ کو چھوبھی گیا تو کام سے گئے ۔ ان ہی شاہِ ولایت کا ایک قول ہے کہ العلم حجاب اکبر ۔ اب دیکھئے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ قرآن تو ہمیں علم و اکتشاف ، غور و فکر اور تدبر و تفکر پر لگانا چاہتاہے اور غوث اعظم کی وحی علم کے چھو جانے کو بھی ایسا نا قابل تلافی گناہ بتاتی ہے جس کے بعد نجات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔
تو کیا صحیفہ ٔ قادریہ یا جسے آپ الہاماتِ غوث اعظم کہتے ہیں صوفیاء کی مجلسوں میں عمومی وظائف کا حصہ ہیں، میں نے مصطفیٰ اوغلو سے پوچھا ۔
نہیں ! مبتدئین کے ہاں اور ادو وظائف کے مختلف مجموعے متداول ہیں البتہ خواص کی سطح پر ان الہامات کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ قرآن مجید کی بعض مختصر سورتوں اور بعض دعاؤں کی تلاوت کے بعد ان آیتوں کی تلاوت بھی مجربات میں بتائی جاتی ہے اور صلوٰۃ غوثیہ کی ایجاد کے پیچھے بھی اسی قسم کے الہامات کا ہاتھ ہے ، مصطفیٰ اوغلو نے وضاحت کی۔
آپ کا حافظہ ماشاء اللہ بڑا زبردست ہے جب آپ ان آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کبھی بہ سمتِ بغداد پڑھی جانے والی صلوٰۃ غوثیہ کےا مام رہے ہوں گے، میں نے انہیں چھیڑ نے کی کوشش کی۔
بولے : اس قسم کی خرافات کاذخیرہ تو میرے حافظے میں خاصا ہے ۔ ذرا رکئے میں ابھی آپ کو ایک چیز سنوا تا ہوں یقیناً آپ محفوظ ہوں گے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی کار میں لگے آڈیو پلیئر کے بٹن کو آگے پیچھے حرکت دی اور تب ہی دف کی دھمک پر عرفث الھواء مذ عرفث الھواء کا وجد آفریں نغمہ بلند ہوا:
و اما الذی انت اھل لہ فکشفک لی الحجب حتی اراک
کہیے کیا خیال ہے؟
جی ہاں ! موسیقی تو بڑی سحر انگیز ہے اور قافیہ ردیف کا صوتی آہنگ بھی بڑے غضب کا ہے ۔ اب حظ کی اس کیفیت میں کہنے والا سب کچھ کہہ جاتاہے ، وہ بھی جس کا کہنا اسے زیب نہیں دیتا ، میں نے اپنی رائے دی ۔
یہ مراکش کے مشہور فرقہ ابن عربی ( ابن عربی بینڈ) کا مقبول عام نغمہ ہے ۔ ان حضرات کادعویٰ ہے کہ انہوں نے اندلس کی اس صوفی موسیقی کو پھر سے رواج بخشا ہے جس کا ابن عربی کے اندلس میں شہرہ تھا ۔
دینِ ابن عربی تو غیر محسوس طور پر اپنا کام کررہا ہے ۔ کہیں صوفیانہ نغموں ، کہیں الہامات و ملفوظات ، کہیں کشف و کرامات کے واقعات ، کہیں مراقبہ اور مشاہدہ حق اور کہیں اہل حق کی شطحیات اور عرس و زیارت کے منظّم کارو بار کے ذریعہ اس کی فروغ و اشاعت کا کام مسلسل جاری ہے ۔ اس کے برعکس محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لیا ہوا دین عالمی منظر نامے سے پوری طرح غائب ہے ۔ رسالۂ محمدی وحی ربّانی کی شکل میں موجود و محفوظ ہے لیکن اہل حق کی دھمال ، فقہا ء کی قیل و قال ، مفسرین کی تاویلات و تعبیرات اور محدثین کی شانِ نزول کی تراشیدہ روایتوں نے اس کے معانی پر سخت پہرے بیٹھا دیئے ہیں ۔ اب دیکھئے یہ ذہین نوجوان جو دین کی تلاش میں ان روحانیوں کے گرد چکر لگارہے ہیں ، ایسے نہ جانے کتنے لوگ مختلف شیخ طریقت ، پیروں فقیروں اور بہروپیوں کے دام میں گرفتار لغو کاموں میں اپنی قوت ضائع کررہے ہیں ۔ کوئی تصور شیخ میں دن بھر بیٹھا ہے، کسی کو اکیس ہزار مرتبہ وظیفہ دہرانے کا کام ملا ہے، کوئی کسی قبر پر چلّہ کاٹ رہاہے تاکہ صاحب قبر سےاسے فیض حاصل ہوسکے او رکوئی سینکڑوں میل دور بیٹھا شیخ کے ہلوسہ اور اس نے رابطہ کی غلط فہمی میں مبتلا خلافِ عقل و وحی کاموں میں لگا ہوا ہے ۔ کیسی عجیب ہے یہ صورتِ حال اور کتنا مضبوط او رمکروہ ہے روحانیوں کا یہ جال جس نے پوری امت پر ایک افیمی نیند طاری کر رکھی ہے ، میں نے اپنے کرب کا اظہا رکیا ۔
بولے : مصیبت یہ ہے کہ دین کی نفی کا یہ مذموم کاروبار مسلسل روبہ عروج ہے ۔ اب دیکھئے نا یہاں استنبول میں مختلف صوفی خانقاہوں کا احیاء ہوگیا ہے۔ نقشبندیہ ، مولویہ ، قادریہ، جلوتیہ ، شاذلیہ، رفاعیہ اور پھر ان کی مختلف برانچیں ، ان سبھوں کے اپنے اپنے حلقے ہیں ، ہر صوفی مرکز پر مقامی لوگوں کے علاوہ یورپ او رامریکہ سے آنے والے زائرین کی بہار ہے ۔ اگر صوفی سلسلوں نے اپنے مراکز دیارِ غرب میں قائم کر رکھے ہیں جہاں سے ان کے مقامی مرکز میں زائرین کا تانتا بندھا رہا ہے۔
رومی کی بڑھتی مقبولیت اور صوفی مراکز کے احیاء کا اصل سبب کیا ہے ؟ میں نے مصطفیٰ اوغلو سے جاننا چاہا ۔
کہنے لگے : ایک تو یہی کہ مغرب میں کسی چیز کی مقبولیت ہمارے ہاں بھی قبولیت کا سبب بن جاتی ہے ۔چونکہ ہمارا سوادِ اعظم بلکہ اہل علم کی ایک بڑی تعداد مغرب کے فیشن سے متاثر رہتی ہے ۔لہٰذا ادھر رومی کی امریکہ میں شہرت ہوئی اور ادھر مشرق کے قہوہ خانوں میں اس پر گفتگو چل نکلی ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ مغرب اسلام سے اپنی مخاصمت کو چھپانے کے لیے صوفی اسلام کو پردے کے طور پر استعمال کرتاہے ۔ جب اسلام کی نفی کا اتنا منظّم ادارہ پہلے سے ہی عالم اسلام میں کام کرر ہا ہے تو پھر اسلام کو خطرہ سمجھنے والے لوگ کیوں نہ اس کا سہارا لیں ۔ ایک تیسری اور اہم تروجہ یہ ہے کہ خود اہل مغرب کا حال یہ ہے کہ ان کے ہاں ثقافتی ، روحانی اور فکری سطح پر بڑا خلاپایا جاتاہے ۔ صوفی رقص اور والہانہ نغموں کے دھمال میں انہیں اس محرومی کا مدا وادکھائی دیتا ہے ۔ لہٰذا لوگ کشا ں کشاں کبھی یوگا او رکبھی مراقبہ او رکبھی رقص و موسیقی کی روحانیت سے لطف اندوز ہونے کے لیے مشرق کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں ۔ مصطفیٰ اوغلو نے مزید وضاحت کی ۔
لیکن عام اہل مغرب و تلاش حق میں استنبول تک آتے ہیں ان کے دل تو تعصب سےپاک ہوتے ہیں وہ تو اس تحریک پر اسلام کاہی گمان کرتےہیں ۔
جی ہاں، عام لوگوں کے لیے تو ہاؤ ہوکے اس ہنگامے پر اسلام کا پردہ پڑا ہے ۔ ان کا خلوص اور ان کی حق طلبی شکوک و شبہات سے بالا تر ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حق تک ان کی رسائی ہوتو کیسے؟ انہوں نے بڑے دکھ سے کہا ۔
مصطفیٰ اوغلو جب مجھے واپس پہنچا گئے تھے اس وقت یہی کوئی نصف شب کا عمل رہا ہوگا ۔ تھکن کچھ زیادہ نہ تھی ۔اگلے دن مصروفیت کے پیش نظر جلد سونے کی کوشش کی لیکن خیالات کاہجوم کچھ زیادہ تھا ۔ ہاشم کے مضطرب اور ولید کے شبہات میں ڈوبے ہوئے سوالات یاد آئے ۔کبھی ان پر افسوس ہوتا کہ وہ کن موہوم سہاروں کی تلاش میں سر گرداں ہیں اور کبھی ان نوجوانوں کے جذبۂ تلاش حق پر رشک آتا کہ ایک ایسی صورت حال میں جب عام لوگ صرف کھانے کمانے میں لگے ہیں، اللہ نے ان حضرات کو زندگی کے معمولات سے اوپر اٹھ کر بڑے سوالات پر غور کرنے کی توفیق دی۔ ترس اس لیے آتا ہے کہ وہ ایک شیخ سے بددل ہو کر دوسرے شیخ کی تلاش میں نکلے ہیں ۔ نقشبندی حقانی کو چھوڑ کر نقشبندی خالدی سلسلہ سے بیعت کے لیے استنبول آئے ہیں گویا تاڑ سے گرے اور کھجور پر اٹکے ۔ ہشام کبّانی اور ان کے شیخ ناظم حقانی کے مقابلے میں انہیں محمود آفندی کے ہاں سب کچھ تقدس میں ڈوبا ڈوبا لگتا ہے ۔
جامع اسماعیل آغا میں لمبی داڑھیوں ، سفید پگڑیوں ، ڈھیلی ڈھالی ٹخنوں سے اوپر شلوار وں او را س پر لمبے لمبے جبّے میں ملبوس لوگ ان نوجوانوں کو کتنے تقدس مآب لگتے ہیں ۔ اس ‘ دینی ماحول’ اور ‘ نورانی شب و روز’ نے ان نوجوانوں کو کس قدر مسمرائز کر رکھا ہے ۔ ہشام کبانی اور عبدالکریم قبرصی نہ سہی محمود آفندی کے ہاتھوں میں ان کی حیات و نجات کا اختیار دے کر امّت مزید تین نوجوانوں کی بیش بہا صلاحیتوں سے محروم ہوجائے گی۔ ہاشم اور ان کے ساتھی تو اس phenomenon کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہیں ۔ روحانیوں کے اس جال میں جس کاسلسلہ اطراف عالم میں پھیلا ہوا ہے ہر دن نہ جانے کتنے لوگ اتباع شیخ کی خواب آور گولی کھلا کر سلائے جاتے ہیں ۔
میں جس قدر سونے کی کوشش کرتا خیالات کاہجوم بڑھتا جاتا ۔آج پہلی بار اس بات کا احساس ہوا کہ سکون کی نیند سو ناکچھ آسان نہیں ۔ شاید یہ انہیں لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو کسی شیخ کے سفینۂ نجات پر سوار اس بھروسے سوتے ہیں کہ وہ سوئیں یا جاگیں شیخ کی قیادت میں سفینہ کا سفر نجات کی طرف جاری ہے ۔ مجبوراً بستر سے اٹھ بیٹھا ، کھڑکی کا پردہ ہٹا یا، دور سمندر کے ساحل پر ملگجی روشنی میں چند متحرک انسانی سائے نظر آئے ۔ ایسا لگا جیسے میری طرح وہ بھی مضطرب ہوں، جن سے حالات کی سختی اور مسائل کی پیچیدگی نے رات کا سکون چھین لیا ہو ۔ دیر تک با سفورس کے کنارے ان پر اسرار حرکتوں پر نگاہیں جمائے رہا ۔
شاید اسی منظر نامے کو دیکھ کر احمد اوفلو کو یہ خیال آیا ہو کہ استنبول میں ساحلوں پر صبح صادق سے پہلے رجال اللہ کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے جو اہل استنبول کی داد رسائی کے لیے رات کے آخری پہر مختلف گلی کوچوں میں گشت کرتے ہیں ۔ البتہ با سفورس اور خلیج کے دونوں طرف ساحلوں پر ان کی چلت پھرت کچھ زیادہ ہوتی ہے ۔ اوفلو کو تو اس بات پر اتنا یقین ہے کہ وہ کئی بار صبح صادق سے پہلے واک وے کا چکر بھی لگا چکا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک صبح جب میں رجال اللہ کی تلاش میں مختلف و ظائف پڑھ نکلا مجھے ایک عجیب تجربہ ہوا ۔ایک سفید ریش بزرگ بالکل سفید جبّہ اور سفید پگڑی میں اپنے ہاتھو ں میں ایک عصا ء لئے میری طرف آتے دکھائی دیئے ۔ مجھ سے مسرت ، استعجاب اور کسی قدر و دہشت کی کیفیت طاری ہوگئی ، مارے دہشت کے میں نے آنکھیں بند کرلیں ، مٹھیاں بھینچ لیں ، ایسا لگا جیسے ایک روشنی میرے پاس سے ہوکر گزری ہو، بڑی دیر بعد میرے ہوش بحال ہوئے ۔اوفلو کہتا ہے کہ تب سے میں پر اسرار لمحات میں ساحل کی طرف نہیں جاتا ۔ میں نے سوچا انسان بھی کتنا Gullible او راوہام پرست ہے اور انسانی ذہن بھی کتنا زرخیز اور کتناپیچیدہ ہے ۔ خود ہی اسطورہ تخلیق کرتاہے اور خود ہی اس میں گرفتار ہو جاتاہے ۔
ہو جا عثمان
دوسرے دن طے شدہ پروگرام کے مطابق پھر سے مسجد اسمٰعیل آغا کی زیارت کرنی تھی ۔ شیح محمود سے وعدہ کر آیا تھا ۔ ہاشم اور ان احباب بھی ہمارے منتظر تھے لیکن اچانک مصطفیٰ اوغلو کے ٹیلیفون نے پروگرام میں تبدیلی پیدا کردی ۔ کہنے لگے آج شب استنبول کے ایشیائی علاقے میں شیخ علی داغستانی کی مجلس ہے ۔ اسمٰعیل آغا تو آپ کبھی بھی جاسکتے ہیں ، البتہ اس قسم کی خواص کی مجلسیں روز روز منعقد نہیں ہوتیں اور پھر ان میں داخلہ آسان بھی نہیں ہوتا ۔ عصر کے بعد ہوٹل میں تیار رہئے گا اگر میں نہ آسکا تو ہو جا عثمان آپ کو لینے آئیں گے ۔ میں ہاشم کو مطلع کردوں گا کہ وہ شیخ محمود سے آج کی حاضری کے لیے معذرت کرلیں ۔ یہ کہہ کر مصطفیٰ اوغلو نے ٹیلیفون منقطع کر دیا ۔
علی داغستانی ؟ میں نے ذہن پر زور ڈالا ۔ کیا عجب کہ یہ حمید اللہ داغستانی کے عزیز یا شاگرد ہوں ۔ میں نے کوئی سات آٹھ سال پہلے انہیں جبل قاسیون کی مسجد امام مہدی میں نغمۂ ذکر گاتے سنا تھا ۔ خاص طور پر جب شیخ اللھم صلی علیٰ پر رک کر محمد و علی سے مصرعہ ثانی بناتے اور آل محمد کہتے ہی دوبار مصرعہ اولیٰ میں الکھم صلی علی کو اس طرح جوڑ تے کہ علی علی کے صوتی آہنگ سے ، جسے پورا مجمع بیک زبان گاتا ، مجلس پر ایک انبساط انگیز کیفیت طاری ہو جاتی ۔ علی داغستانی سمر قند سے آرہے تھے اور قریب ہی بخارا کی سرزمین میں نقشبندی سلسلہ کے بانی مبانی بہاءالدین نقشبندی کی قبر بھی واقع ہے ۔ گویا یہ کہہ لیجئے کہ وسط ایشیا ء کے نقشبند ی ہیڈ کوارٹر سے ایک مستند روحانی شیخ استنبول کے پر اسرار شہر میں وارد ہو رہا تھا ۔ وقت مقررہ سےکچھ پہلے ہی مصطفیٰ اوغلو ہو جا عثمان کے ساتھ مجھ سے آملے ۔ ہو جا جوتر کی زبان میں استاد کا متبادل لفظ ہے کسی محترم شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں اور مسلسل خطاب کے سبب کبھی کبھی یہ لفظ بعض لوگوں کے نام کا حصہ بھی بن جاتاہے ۔ ہوجا عثمان بھاری بھر کم جسم والے ایک برد بار تاجر نکلے ۔ یہی کوئی ساٹھ پینسٹھ کی لپیٹ میں ہوں گے۔ ان کا منقش ترکی ٹائلوں کا بڑا کاروبار ہے ۔
میں نے ان سے پوچھا : آپ درد دیوار کی تزئیں و آرائش کے لیے منقش ٹائلز بناتے ہیں ۔
کہنے لگے ہاں یہ میرا خاندانی بزنس ہے ۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے ۔ اب زیادہ تر وقت اہل اللہ کی خدمت میں گزارتا ہوں ۔ آپ در ودیوار کی تزئین و آرائش سے روح کی بالیدگی یا اس کی تز ئین و آرائش کی طرف کیسے متوجہ ہوئے ؟
فرمایا : جب تک اندرون حسن اور سکینت سے خالی ہو انسان اپنے گرد و پیش کو خوبصورت نہیں بنا سکتا ۔ یہ جو آپ استنبول میں قدیم دیو پیکر عمارتیں دیکھتے ہیں تو ان عمارتوں کا جاہ و شکوہ دراصل ہمارے داخلی استحکام اور قلب و نظر کی سکینت اور اعتماد کو ظاہر کرتاہے ۔ یہ اس عہد کی یاد گار یں ہیں جب ہم یہ سمجھتے تھے کہ دنیا ہمارے لیے مسخر کی گئی ہے اور دارالخلافہ کی حیثیت سے استنبول کو عالمی دارالحکومت کی حیثیت حاصل ہے ۔ جب اندر کا اعتماد جاتا رہا تو ہماری پر شکوہ عمارتیں بھی ویران ہوگئیں ۔
ہو جا عثمان واقعی میں ہوجا نکلے ۔ ان کی شخصیت کیا تھی جیسے منقش اور دلکش ٹائلوں سے کوئی خوبصورت پیٹرن بنا رکھا ہو ۔ گفتگو میں بھی جیو میٹرک پیٹرن ۔ وہی ناپ تول ،لفظ لفظ جچا تلا ، اپنی جگہ پرفٹ ۔ مصطفیٰ اوغلو سے ان کی پرانی دوستی تھی بلکہ کہہ لیجئے ایک زمانے میں مصطفیٰ اوغلو ان کے پیر بھائی بنتے بنتے رہ گئے تھے لیکن آج بھی جذب و سرمستی کی روحانی محفلوں میں وہ انہیں مدعو کرنانہیں بھولتے ۔ ہوجا اپنے حسِ مزاج کے سبب بہت جلد بے تکلف ہوگئے ۔ پوچھا کیا تم بھی سیٹیلائٹ ٹیلیفون والے ہو؟ پھر خود ہی وضاحت کی کہ ایک زمانے میں وہ اور مصطفیٰ اوغلو دونوں لینڈ لائن ٹیلیفون میں یقین رکھتے تھے ۔ یعنی خدا سے رابطے کے لیے شیخ کا توصل استعمال کرتے ۔ اب ادھر چند سالوں سے ، جب موبائل فون کی لعنت عام ہوئی ہے بہتوں کے عقیدے ہل گئے ہیں ۔مصطفیٰ کہتا ہے کہ موبائل اور سٹیلائٹ فون کے زمانے میں شیخ کے توصل کا پرانانظام فرسودہ ہوگیا ہے ۔ اب میری سمجھ میں بات آئی کہ ہوجا کہہ کیا رہے ہیں ۔
میں نے کہا ہاں ایسا کیوں نہ ہو ، جب ہمارے شیخ طریقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطے کے لیے موبائل فون کا استعمال کرتے ہوں ۔ کیا آپ نے شیخ ناظم کا یہ دعویٰ نہیں سنا کہ انہوں نے راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹیلیفون پر گفتگو کی ہے ۔
شیخ ناظم ! اللہ اللہ ! انہوں نے شیخ کا نام کچھ اس انداز سے دہرایا جیسے عالم جذب میں ہوں ۔ چند ثانیے آنکھیں بند کرلیں، خاموش رہے ۔کیا پتہ کسی نے غلط پروپیگنڈہ کیا ہو یا عالم سکر میں کوئی بات ان کی زبان سے نکل گئی ہو، بڑے رتبے ہیں شیخ ناظم کے، وہ سلسلہ ذہب کی چالیسویں کڑی ہیں، ان کاسلسلہ نسب مولانا روم اور عبدالقادر جیلانی سے ملتا ہے ، انہیں وہ کچھ نظر آتا ہے جنہیں ہماری آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں ۔
مصطفیٰ اوغلو جواب تک خاموش سے کار چلاتے ہوئے ہماری گفتگو سن رہے تھے ، کہنے لگے : ہوجا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹیلیفون پر گفتگو کی بات توچھوڑ ئیے 2004 میں شیخ ناظم تو ایک صحبت میں یہاں تک کہہ بیٹھے تھے کہ ‘ تم لوگ جس خدا کی تلاش میں ہو وہ میں ہی ہو۔’ ان کی مرید اس خبر کو لے اڑے ۔ کچھ دنوں تک انٹر نیٹ پر بڑی گرما گرمی رہی یہاں تک کہ نیویارک میں شیخ کے ایک خلیفہ عبدالکریم حقانی کو ایک خصوصی مجلس میں اس مسئلہ پر مریدوں کی تادیب کرنا پڑی۔
فرمایا : یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر شور مچایا جائے ۔ اہل حق پر ایسی کیفیات گزرتی ہیں جب خدا اور بندے کے مابین فاصلہ ختم ہوتاہو ا محسو س ہوتا ہے۔ گذشتہ سال علی داغستانی کی مجلس میں سورۃ نجم کی تشریح میں یہ بات تفصیل سے آئی تھی ۔ شاید آپ اس میں نہیں تھے بڑا روحانی بیان تھا ۔ قاب قوسین کی وہ تفسیر میں نے نہ اس سے پہلے کبھی سنی اور نہ ہی اس کے بعد کہیں پڑھنے یا سننے کو ملی ۔کتنا باریک سا پردہ ہے بندے اور خدا کے درمیان ۔ شہہ رگ سے بھی قریب ہے وہ : نحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ نہ تھا تو کچھ نہ تھا اور پھر وہ نورِ محمد ی میں جلوہ گر ہوا ۔یہ سب سرالاسر ار ہے میرے بھائی ۔ ہوجانے یہ کہتے ہوئے میرے شانے کو شفقت سے تھپتھپایا ۔ فرمایا اس راز سے وہی لوگ واقف ہوسکتے ہیں جو تختۂ دار پرانا الحق کہنے کی جرأت رکھتے ہوں ۔ جب زندگی اور موت کا حجاب اٹھ جاتا ہے تب انسان پر عقدہ منکشف ہوتا ہے کہ مافی جبتی الااللہ اور پھر بلا ساختہ خود اس کی زبان سے اپنی ہی ذات کی تعریف میں اس قسم کے الفاظ نکل پڑتے ہیں کہ سُبحانی ماَ اعظم شانی یہ کہتے ہوئے ہوجا عثمانی خاصے سنجیدہ ہوگئے ۔
یا مولانا شیخ ناظم ! ہوجانے نعرۂ مستانہ بلند کیا ۔ یا مولانا کے کلمات ان کی زبان سے کچھ اس طرح نکلے گویا وہ عقیدت کے شیر ے میں لت پت ہوگئے ہوں ۔
لیکن یہ تو اہل دل کے ساتھ صدیوں سے ہوتا آیا ہے ، شیخ ناظم اس معاملے میں تنہا نہیں ۔ میں نے مصطفیٰ اوغلو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ہمارے ہاں دہلی کے ایک ثقہ عالم شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جو نقشبندی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اپنے والد شاہ عبدالرحیم کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک دن جب وہ اپنے مریدوں کے ساتھ سیر کو نکلے اور تلاش حق کے اس سفر میں عصر کا وقت ہوچلا ۔ راستے میں ایک مسجد میں نماز کے بعد آپ نے اپنے مریدوں سے پوچھا کہ تم لوگ یہ جد وجہد کس لیے کررہے ہو، کس کی تلاش میں سرگرداں ہو سبھی نے بیک زبان کہا کہ خدا کی تلاش میں ۔ یہ سن کر شاہ عبدالریم اٹھ کھڑے ہوئے ۔ فرمایا وہ میں ہی تو ہوں اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے لوگوں کی طرف مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا ۔ شاہ صاحب کا یہ روحانی لطیفہ سن کر مصطفیٰ اوغلو کے چہرے پر شرارت آمیز مسکراہٹ طلوع ہوئی اور ہوجا عثمان کو شاید سنبھالا ملا کہ چلئے شیخ ناظم اس دعویٰ میں تنہا نہیں ، ان کی پشت پر صدیقین کی روحانی ثقافت موجود ہے ۔
اب ہم لوگ شہر سے باہر نسبتاً ویران علاقے میں آگئے تھے ۔ سڑکیں شاید عدم استعمال کے سبب اسٹریٹ لائٹس سے خالی اور جا بجا شکستہ تھیں ۔ ایک ویران پہاڑی پر ویران خرابے میں کسی نے سفید کاغذ پر Tekke لکھ کر لگا دیا تھا ۔ دروازے پر دو بڑی مشعلیں جل رہی تھیں اور نیم شکستہ دروازوں کے اندر، راہداری میں روایتی شمعدانیں آویزاں تھیں ۔ اندر قدر ے بڑے ہال میں آرا مدہ گدوں پر چاندنی بچھی تھی ۔ اعلیٰ درجے کے ترکی قالینوں سے ایک چھوٹا سا فرشی اسٹیج بنا لیا گیا تھا جس کے عقب میں دونوں طرف آتش دان روشن تھے ۔کھڑکیوں اور طاقوں میں جا بجا چھوٹی چھوٹی مشعلیں آویزاں تھیں ۔ ابھی شیخ علی کی آمدنہ ہوئی تھی سولوگ چھوٹے چھوٹے گروپس میں با ہم گفتگو میں مصروف تھے ۔ ویران خانقاہ ، رات کا منظر شکستہ در و دیوار جنہیں ضروری مرمت کے بعد قابل استعمال بنالیا گیا تھا، آتشدان اور شمع کی روشنی میں ایک پر اسرار منظر پیش کررہے تھے ۔ شیخ کی آمد سےپہلے ہی ایک طرح کی سریت نے ماحول کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا ۔ اچانک کچھ ہلچل سی ہوئی کچھ لوگ راہدری کی طرف بڑھے اور بہتوں نے ہال میں ہی احترام و عقیدت کی کمین گاہوں میں اپنی لے لی ۔ ادھر شیخ علی فرشی اسٹیج پر تشریف فرما ہوئے اور ادھر دست بوسی بلکہ قدم بوسی کے لیے قطار لگ گئی۔
کچھ دیر جب ماحول تھما اور اظہار عقیدت کی ساری رسمیں ادا ہوگئیں تو شیخ علی نے ذکر بالجہر سے مجلس کا آغاز کیا۔ خاموش ویرانے میں اللہ ہو اللہ کی صدا کچھ اس شان سے گونجی کہ ہوکی ہر ضرب پر اس کے جواب میں ندائے غیبی کا اندیشہ شدید سے شدید تر ہوتا جاتا ۔ پکارنے والوں نے بہت پکارا ۔ اوغلو اور شدت جذبات میں پھیپھڑے کی ساری ہوا خالی کردی لیکن جواب سے محرومی رہی ۔ اب شیخ علی نے قلبی ذکر کا حکم دیا ۔ فرمایا : جیسا کہ آپ واقف ہیں ذکر بالجہر کی حکمت یہ ہے کہ آپ کو روحانی تجربوں کے لیے Warm-up کیا جائے ۔ اصل ذکر تو قلبی ذکر ہے جو آپ کے دل میں خدا کو کچھ اس طرح بٹھا تی ہے کہ اللہ ہوکے بغیر بھی آپ کادل خدا کے جلووں کی آماجگاہ بن جاتاہے ۔ یعنی پہلے تو جہری ذکر سے دل کی آلائشوں کو دھولیں پھر خاموش قلبی ذکر کے ذریعہ اللہ کو اس میں بسائیں اور پھر تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ نہ جہری ذکر ہو ، نہ قلبی ، آپ کا دل صرف خدا، مجردخدا، کے جلووں کی آماجگاہ بن جائے۔ فرمایا : اب مراقبہ اللہ ہو شروع ہوتاہے، اسم ذات کا مراقبہ ۔ آنکھیں او رمنھ بندر کھیں ، دل کی آنکھیں کھول لیں ۔
اب خاموش قلبی ذکر میں اللہ ہو کی ضرب اب براہ راست دل پر لگ رہی تھی ۔ حاضری کی ایک بڑی تعداد بیٹھے بیٹھے ،دائیں بائیں، ہلکے ہلکے ہلتی ۔ بعض لوگ آنکھیں بند کیے ہوئے دائیں اور بائیں شانے کو کچھ اس زور سے مسلسل جھٹکا دے رہے تھے جیسے ہو کاکوڑا مسلسل ان کے قلب پر پڑ رہا ہو ۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد جب قلب کی کسی قدر پٹائی ہو چکی تو شیخ علی نے اللھم صلی علیٰ کی صدا بلند کی ہلتے اچکتے وقعتاً رک گئے ۔فرمایا : ھوش دردم! ہمارے مشائخ کایہ طریقہ رہا ہے کہ کوئی سانس خدا کے ذکر سے خالی نہ رہے ، ہمیں ہر سانس کا حساب دینا ہے، ہمیں اس مرتبہ کو پہنچنا ہے جب خود بخود ہر سانس کے ساتھ ذکر الہٰی شامل رہے ۔ دوسرا اصول نظر بہ قدم کا ہے یعنی نگاہیں اپنے قدموں کی طرف ہوں، اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں او رنہ ہی اس بات کا نوٹس لینا ہے کہ کوئی آپ کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے ۔ عام مسلمان صرف نماز میں حالت ار تکاز میں رہتے ہیں ۔ جب وہ کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی آنکھیں سامنے زمین میں گڑی ہوتی ہیں، رکوع میں وہ اپنے پیر کے پچھلے حصے کو دیکھتے ہیں، حالت سجدہ میں ان کا نگاہیں اپنی ناک پر ٹکی ہوتی ہیں او رجب وہ قعدہ میں ہوتے ہیں تو وہ اپنی گود کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ یہ عام مسلمانوں کا ارتکاز ہے جو انہیں صرف نماز میں حاصل ہوتا ہے۔ ہم اہل سلوک کے لیے یہ ایک دائمی کیفیت ہے، ہمیں ہر وقت نماز میں رہنا ہوتا ہے ۔ حضرت ربیع بن قاسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر وہ وقت اپنا سر کچھ ا س طرح جھکائے رہتے تھے کہ جو لوگ ان سے واقف نہ تھے یہ وہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ نا بینا ہوں اور یہی مطلب ہے آیت کریمہ قل للمومنین یغضوا من ابصارھم کا ۔تیسرا اصول سفر در وطن کہلاتا ہے ۔مراد ہے کہ سالک اپنے اندرون کا جائزہ لیتا رہے ، فخر و مباہات ، کبر و غرور، حبّ جاہ اور حبّ مال سے کنارہ کشی اختیار کرے او رجب دنیا کی کوئی خواہش اس کے اندر ون میں سر اٹھا ئے تو اس پر لاکی ضرب لگائے اور الا اللہ کے اظہار سے رب کی معرفت تلاش کرے ۔یاد رکھیے خدا کو پانے کااس کےعلاوہ او رکوئی طریقہ نہیں کہ رسول اللہ اور اولیاء اللہ کی محبتوں سے اپنے دل کو سجایا جائے ۔ صدقہ و خیرات سےاپنے مہمیز کیا جائے ۔ اولیاء اللہ کی زیارت کی جائے اور کثرت سے خود کو ذکر و اذکار میں مشغول رکھا جائے ۔ اگر ایسا ہو ا تو ہم اپنے آپ کو خلوت در انجمن کی حالت میں پائیں گے ۔ سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے قلبی ذکر ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گا ۔ صوفی بظاہر تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ کہیں او رہوتا ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح آیا ہے رِجال لا تلھیھم تجار ۃ و لا بیع عن ذکر اللہ ۔ ہمارے حضرت خواجہ نقشبندکا کہنا ہے کہ ان کے مریدو ں کو ایسا ہونا چاہیے کہ بظاہر تو ہاتھ تجارت میں مصروف ہوں لیکن دل سے مسلسل صدائے اللہ ہو آتی ہو۔ اگلا مرحلہ یاد کرد کا ہے ۔ و اذکرو اللہ کثیر العلھم تلفحون ۔ کثرت سے خدا کو یاد کرو یہا ں تک کہ تم ا س تک پہنچ جاؤ یا وہ تمہیں اپنے دیدار سے نواز دے ۔تصوف کی اصطلاح میں اس عمل کو مشاہدہ حق بھی کہتے ہیں ۔ اگلی منزل باز گشت کی ہے جب آپ ذکر کے عادی ہوجائیں اور آپ کےدل پر اللہ ہو کا خاموش ذکر ایک فطری عمل بن جائے تو پھر خدا سےیہ کہتے رہیے کہ بار الٰہا میں تیرا طالب ہوں تیری رضا چاہتا ہوں ۔ اس کیفیت کو اپنے اندرون میں اتنی شدت سے رچائیے اور بسائیے کہ ہر لمحہ اس کیفیت کی باز گشت سنائی دے ۔ اگلی منزل نگھداشت کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ اس مرحلہ میں سالک منفی خیالات و افکار کو اپنے دل سے دھکے مار مار کر باہر نکالتا ہے ۔ خوف ، طمع اور اس قسم کے دنیاوی محرکات سے جب قلب پاک ہوجاتاہے تو فنائے قلب کی منزل آتی ہے ۔ پھر دنیا اپنی تمام رعنائیوں کے باوجود مکھی کے ایک پر کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتی ۔ انسانی جسم بھوک، پیاس اور ان جیسی دوسری بشری حاجات سے بڑی حد تک مستغنیٰ ہوجاتاہے ۔ پھر سالک کے لیے خیالات کے بھٹکنے کا کوئی موقع نہیں رہتا ۔ اس کی شخصیت سراپا یاداشت بن جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہے، ھو معکم اینما کنتم ۔ جب یہ مرتبہ حاصل ہوجائے تو ہمارے مشائخ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر وقت اس بات کا جائز ہ لیتے رہیں کہ پچھلا لمحہ خدا کی یاد میں گزرا یا نہیں اور اس نعمت پر مستقل ہماری زبان کلمۂ شکر و استغفار سے تر رہے گویا ہم اب کسی قدر خدا کے حضور پیشی کے لائق ہوگئے ہیں ۔ وَلتنظر نفس ماقد مت لغد میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ اس مرحلہ کو مشائخ کی اصطلاح میں وقوفِ زمانی کہتے ہیں ۔لیکن ہم اہل دل کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا ۔ اگلی منزل وقوفِ عددی کی ہے ۔نفی یا اثبات کے ذکر کو طاق عددوں میں ادا کیجئے ۔ اللہ طاق ہے اور طاق عدد کو اس سے خاص نسبت ہے ۔ ایک سانس میں تین سے اکیس مرتبہ ذکر کیجئے ۔ رکنا پڑے تو کسی طاق عدد پر رکیں ۔ پہلے تین سے شروع کیجئے پھر پانچ اور اسی طرح رفتہ رفتہ ایک سانس میں اکیس مرتبہ ذکر کا ہدف حاصل کیجئے ۔ عددو ں کے سرالا سرار سے صرف خواص کو واقف کرایا گیا ہے یا وہ لوگ جو راسخون فی العلم ہیں ۔ آپ کا کام اکیس کے عدد تک پہنچنا ہے اور اگر پھر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارا دل ابھی خاموش قلبی ذکر سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہو پایا ۔ سالک کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو آخری منزل یعنی وقوف قلبی کے لیے تیار کرے ۔اس مرحلہ میں قلب کو خدا کے علاوہ کسی اور چیز کی حاجت نہیں رہ جاتی ۔مولانا رومی نے سچ کہا ہے کہ خدا کی حمد تو گائے اور گدھے بھی کرتےہیں پھر انسان بھی اگر اسی بے شعوری کے ساتھ ذکر کریں تو انسانوں اور جانوروں میں کیا فرق رہ جاتا ہے ۔
عزیز انِ گرامی ! ہمیں خواجگان نقشبندیہ نےیہ تعلیم دی ہے کہ ہم ذکر الٰہی میں اخص الخواص کامقام حاصل کریں ۔ یقیناً یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن مشائخ نقشبندیہ کے توسط اور خواجگان کی پاکیزہ ارواح کے توصل سے یہ سب کچھ بہت آسان ہوجاتاہے ۔ شیخ نےاس جملے پر خاص زور دیا ، نگاہیں چھت کی طرف اٹھائیں ، ایک لمحہ کو توقف کیا اور پھر بآواز بلند فرمایا : الہٰی بحرمت خواجگان نقشبند اور پھر اللھم صلی علیٰ ....... محمد و علٰی ایک خاص لحن میں اہل مجلس کی زبان پر بیک وقت جاری ہوگیا ۔ (جاری ہے)
مارچ، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-6/d/97675