ڈاکٹر راشد شاز۔دہلی
نقشبندی سلسلے کی وسعت ، کثرت تعداد اور زیر زمین روحانی سرگرمیوں کی چہل پہل کے باوجود استنبول کا اصل روحانی رنگ نقشبندی نہیں بلکہ مولوی ہے۔ سیاحوں کےلئے استنبول سماع زنوں کا شہر ہے۔ امریکہ اور یورپ سےمولوی رقص کے شائقین جوق در جوق استنبول کی مولوی خانقاہ میں آتے ہیں اور پھر یہاں سے انہیں گروپ کی شکل میں قونیہ بھیجا جاتا ہے ۔
آج ستمبر کی بارہ تاریخ ہوچکی تھی او لوداع پر روحانیوں کی آمد کا انتظار جاری تھا ۔ سو چا کیوں نہ آج مولانا روم کی خانقاہ میں محفل سماع کا لطف لیا جائے کہ پارکوں اور ثقافتی مقامات پر وزارت سیاحت کی طرف سے سماع کی جو محفلیں سرِ شام منعقد ہوتی رہتی ہیں ان کا مقصد محض سیاحوں کے لیے تفریح طبع کا سامان کا سامان فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ سو اس خیال سے میں نے گلا ٹاٹاور کے قریب واقع رومی کی خانقاہ جانے کا پروگرام بنا لیا ۔
گلاٹاٹاور پر سیاحوں کا ہجوم تھا ۔ خاص طو رپر کھانے پینے کی دکانوں کے آگے شائقین کا جمگٹا لگا تھا ۔ کہیں سے قہوہ کی مہک آرہی تھی او رکہیں سے بالِک اِکمِک کی تیز خوشبو بھوک میں اضافے کا سبب بن رہی تھی ۔ سو چا رات کاکھانا نہ جانے کب ملے، محفل سماع کب ختم ہو، سو یہ سوچ کر بالک اکمک کا لطف لیا ۔ سنتر ے کےعرق سے پیاس بجھائی اور ایک درو یشیانہ وار فنگی کے ساتھ خانقاہ کی طرف چل پڑا۔
اسمٰعیل آغا یا جراحی کی خانقاہ کے مقابلے میں رومی کی خانقاہ میں زائرین کی اکثریت بلادِ غرب سے آنے والوں کی تھی ۔ شاید اس تاثر کا ایک سبب یہ بھی ہوکہ جس وقت وہاں پہنچا تھا عین اسی وقت ائیر پورٹ سے سیاحوں کی دو بسیں ترکی کی نوروزہ روحانی سیاحت کے لیے آئی تھیں ۔ استنبول سے قونیہ تک ان کے نو روزہ پروگرام کی تفصیلات ٹریول ایجنٹوں نے پہلے سے ہی طے کر رکھی تھیں ۔ مجلس سماع میں ان لوگوں کے شرکت دیدنی تھی ۔ ایک عالم حیرت تھا جس میں یہ لوگ کھوئے ہوئے تھے ۔ ہلکی خمار آلود شمع کی روشنی میں جب سماع زنوں نے نعت کی ابتداء کی اور پھر اس کے خاتمے پر سریلی بانسری نے فن کا جادو جگایا تو مغرب کے یہ زائرین مبہوت سے ہوکر رہ گئے اور پھر سماع زنوں نے اپنی گردنیں خم کیں اور چار سلام کے ساتھ اصل رقص کا آغاز ہوا تو ان میں سے بعض حضرات اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے۔ چند ایک نے تو اسی اندازے سے رقص کی کوشش بھی کی۔ لیکن پھر جلد ہی انہیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا اور وہ مل جل کر بیٹھ گئے ۔ کوئی دو گھنٹے تک رقص و سماع کا یہ پروگرام اپنے تمام لوازمات ، فنکارانہ مہارت اور اثر انگیز ماحول کے ساتھ چلتا رہا اور تب بیک گراونڈ میں صلوٰۃ و سلام کی آواز بلند ہوئی جو غالباً اس بات کا اشارہ تھا کہ مجلس اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ سماع زنوں نے ایک ادائے خاص کے ساتھ اپنی گردنیں خم کیں اور تالیوں کی گونج سے گویا محفل کے باقاعدہ اختتام کا اعلان کردیا۔
مجلسِ سماع میں اہل مغرب کی اس قدر کثرت اور محویت سے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ آخر ان لوگوں کو کون سی چیز یہا ں کھینچ کر لاتی ہے ۔ یہ حضرات سماع کے کلمات سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں صلوٰۃ و سلام کی مذہبی معنویت سے آگہی ہوتی ہے۔ پھر کیا محض مولویانہ رقص اور ماحولیاتی تاثرات کی تسکین کے لیے کافی ہوتا ہے۔؟
اس عقد ہ کو حل کرنے کےلیے میں نے اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے مسٹر واٹسن سے پوچھا کہ آپ کو یہ مجلس کیسی لگی؟۔
بولے: ونڈر فل ! البتہ قونیہ کے مقابلے میں تھوڑی کم کم محسوس ہوئی ۔ وہاں قونیہ کے سماع میں بڑی Intensity پائی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ کا ‘ آپ ’ باہر آجائے گا۔
گویا آپ قونیہ سے ہوکر آئے ہیں؟
کہنے لگے: جی ہاں! میں او رمیری بیوی نینسی ، جو اس وقت ان کےبازو میں بیٹھی تھیں ، کی طرف اشارہ کرتے ہوئےبتایا ، پچھلے ہفتے قونیہ میں تھے۔ پھر خود ہی وضاحت کی ، ہوسکتا ہے کہ اس کا ایک سبب وہاں مولانا کی روحانی موجودگی بھی ہو کہ صفی ماسٹر خود وہاں موجود ہیں اور شاید اسی لیے سماع کی مجلسوں پر ایسا لگتا ہے جیسے رومی کی روحانیت سایہ فگن رہتی ہو۔
تو کیا آپ کا یہ پہلا تجربہ تھا رومی کی زیارت کا ۔ فرمایا جی ہاں پہلا لیکن آخری نہیں ۔ میں تو یہاں آکر محو حیرت ہوں۔ ایک نئی دنیا مجھ پہ آشکارا ہوئی ہے۔ محبت اور اخوت کی دنیا۔ یہاں آکر مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ زندگی اس لیے ہے کہ اسے Celebrate کیا جائے۔ غم پالنے اور مال جمع کرنے کے لیے نہیں ۔ بہت سکون ہے کیا بتاؤں ؟ بہت سکون ہے سماع کی ان مجلسوں میں ۔
مسٹر واٹسن کسی نئے مریدوں کی طرح اپنے شیخ کی برکتوں کا بھی اور تذکرہ کرتے ۔ میں نے قطع کلامی کرتےہوئے پوچھا کہ سفر کیسا رہا اور واپسی کب کی ہے؟ فرمایا : سفر کے کیا کہنے یہ کوئی عام سفر نہیں، ایک روحانی تجربہ تھا ۔ حیدر پاشا اسٹیشن سے جب ہم لوگ قونیہ کی طرف روانہ ہوئے تو کوئی تیرہ گھنٹہ کے اس سفر میں مجھے بڑی مانوسیت کا احساس ہوا۔ ایسا لگا جیسے رومی نے خود ہمیں اپنی پناہ میں لے رکھا ہو۔ کیا بتاؤں یہ ایک انتہائی ذاتی روحانی تجربہ ہے،بیان سے باہر۔
رات ہو چکی تھی ۔ مسٹر واٹسن سے مزید گفتگو نہ ہوسکی البتہ رومی کے ایک نئے مغربی مرید کے تاثرات نے اس سوال کی دھارا او ر تیز کردی کہ آخر رومی کی اس غیر معمولی مقبولیت کا سبب کیا ہے۔ محض مغرب کا روحانی خلاء یا کچھ اور؟
رومی دنیا ئے تصوف کے بانیوں میں ہیں، وہ سماع کے موجد ہیں، روحانی رقص ان کی اختراع ہے۔ انہوں نے اپنی بانسری کی سریلی آواز سےایک عالم کو رُلایا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اہل تصوف کی بائبل لکھی ہے۔ جسے مثنوی معنوی کی شکل میں تمام ہی صوفی حلقوں میں اعتبار حاصل ہے۔ اہل دل کی مجلسوں میں اس کتاب کی باقاعدگی سے تعلیم ہوتی ہے ۔ بہتوں کی نظر میں مثنوی کی حیثیت ‘ ہست قرآن درزبان پہلوی’ کی ہے۔ ابن عربی جنہیں تصوف کاشیخ اکبر کہا جاتاہے ، کے بعد اگر کسی شخص نے اہل سلوک کے قلب و نظر پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے تو وہ مولانا رومی کی ذات ہے جسے اقبال جیسے نابغہ عصر کے ہاں بھی پیر رومی کی حیثیت حاصل ہے۔ پھر اگر مسٹر واٹسن شعر و نغمہ کے اس سحر انگیز ماحول میں مبہوت ہو جائیں تو اس پر کچھ تعجب نہ کرنا چاہئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ شعر و نغمہ میں بڑی زبردست قوت ہے اور اگر خیر سے آپ صاحب ذوق بھی واقع ہوئے ہیں تو پھر آپ کے شکار ہوجانے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے ۔ رومی کے اشعار اگر آپ نےطائفہ شمس کے مغنیوں کی زبان سے سنے ہوں تو آپ کو کسی قدر اندازہ ہوسکتا ہے کہ شعر و نغمہ کی سحر انگیز ی واقعی ہے کیا ۔ چند سال پہلے مجھے ایک بار نیویارک میں اس طائفے کو سننے کا اتفاق ہوا۔ اس مجلس میں داد سخن دینے والوں کی ایک بڑی تعداد ایرانیوں کی تھی ۔ بربط پر:
دلتنگم و دیدار تو درمان منست
بیرنگ رخت زمانہ زندان منست
کا نغمہ جیسے ہی چھڑا ایسا لگا جیسے اہل مجلس اپنے داخلی وجود کے ساتھ اچانک بیدار ہو اٹھے ہوں ۔
تا از تو جد ا شدہ است آغوش مرا
از گریہ کسی ندیدہ خاموش مرا
کا شعر جب دلگرفتہ موسیقی کے جلو میں مغنیہ کی زبان سے جاری ہوا تو اہل مجلس کی حالت دیدنی تھی اور پھر جب نغمہ زن کسی قدر ہنگامہ خیز لَے میں :
ای عاشقان ای عاشقان آن کس کہ بیندی روی او
شوریدہ گردو عقل او آشفتہ گردو خوی او
معشوق را جویان شود دکان او ویران شود
بررود سر پویان شود چون آب اندر جوں او
کے مرحلے میں داخل ہوا تو یہ جانئے کہ ضبط کے سارے بندھ ٹوٹ گئے ۔ اہل دل تو حالت وجد میں تھے ہی مقامی امریکی شرکاء نے بھی دھمال کی سی کیفیت پیدا کر رکھی تھی ۔ ایسے میں کہا ں کسی کو اس بات کا ہوش ہوتا ہے کہ کہنے والے نے کیا کہا اور سننے والے نے کیا سنا۔ اصل تو وہ حظ ہے جو آپ کے حصے میں آیا اور جو نغمہ کی سحر انگیزی سے سبب آپ کا سب کچھ بہا لے گیا ۔ آپ اپنے کھونٹے پر قائم نہ رہ سکے ۔
میں جب بھی شعر و نغمہ کی صوفیانہ مجلسوں میں شریک ہوا، نغمہ کی زبان مجھے غیر معمولی طور پر قتالہ لگی ہے ، مجرمانہ حد تک قتالہ ۔ جن دنوں میں بی۔اے کا طالب علم تھا غالب سیمینار کے موقع پر ایک شان ایوانِ غالب میں اساتذہ کی غزلیں معروف مغنیوں کی زبانی سنائے جانے کا پروگرام تھا ۔ بچپن سے میری تربیت جس ماحول میں ہوئی تھی وہاں مغنیوں سےغزلیں سننا، خواہ وہ اساتذہ کا ثقہ کلام ہی کیوں نہ ، کچھ مناسب نہ خیال کیا جاتا تھا ۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں تھا کہ مولانا سعید احمد اکبر آبادی رحمۃ اللہ علیہ پر نظر پڑی۔ جو اگلی صف میں جگہ لےچکے تھے اور جن کی صدارت میں کچھ دنوں پہلے مجھے یونین ہال کے ایک جلسہ میں اپنے اشعار سنانے کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ مولانا مجھ سے شفقت فرماتے تھے ۔ قریب گیا تو انہوں نے از راہ شفقت اپنے برابر میں بٹھا لیا ۔ غالب کی ایک آدھ غزل روا روی میں گزر گئی کہ ابھی ماحول نہ بنا تھا البتہ جب مغنیہ نے خسرو کی غزل نمی دانم کجار فتم شروع کی تو ایسا لگا جیسے مجلس جاگ اٹھی ہو۔ ادھر بربط کی لئے پر
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے من بودم
بہ ہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
پری پیکر نگارے سر وقدے لالہ رخسارے
سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم
کے اشعار بلند ہورہے تھے اور ادھر اہل مجلس دم بخود ، سراپا مبہوت ، گویا چشم تصور میں خود ہی ا س مجلس میں جا بیٹھے ہوں۔ پھر جب کہنے والے نے ۔
خدا خود میر مجلس بوداندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
کی نوید سنائی تو شعر و نغمہ کے مارے ان سامعین کو اس بات کا اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ کہنے والے نے باتوں ہی باتوں میں کیا بات کہہ دی۔
کہتے ہیں کہ نظام الدین اولیاء نے امیر خسرو کو ایک بار یہ حکم دیا کہ وہ کبھی کبھی کسب فیض کے لیے بو علی قلندر کی مجلسوں میں بھی بیٹھاکریں۔ بوعلی قلندر جانتے تھے کہ خسرو نظام الدین اولیاء کے مرید ہیں۔ ایک دن انہوں نے خسرو سے برسرِ مجلس کہا کہ خسرو رسول اللہ کی مجلسوں میں میرا آنا جانا لگا رہتا ہے ، وہاں میں بہت سے اولیاء اللہ کو حاضر پاتا ہوں مگر آج تک تمہارے شیخ نظام الدین اولیاء دکھائی نہیں دیئے۔کہتے ہیں کہ اپنے شیخ کی بابت یہ سن کر خسرو غمگین رہنے لگے ۔ نظام الدین اولیاء کو جب ان کے حزن کا سبب معلوم ہوا تو انہوں نے خسرو سے کہاکہ بو علی سے کہنا کہ آپ مجھے رسول مقبول کی کچہری میں پہنچا دیں وہاں میں خود اپنے شیخ کو ڈھونڈ لوں گا۔ بو علی نے خسرو کی زبان سے جب یہ مطالبہ سنا تو اپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھا۔ ہاتھ کا رکھنا تھا کہ خسرو نے اپنےآپ کو رسول اللہ کی کچہری میں پایا۔ وہ اہل مجلس میں سے ہر ایک کو دیکھتے جاتے ۔ ان کی پریشانی دیکھ کر رسول اللہ نے پوچھا خسرو کس کی تلاش میں ہو؟۔
عرض کیا اپنے شیخ کو ڈھونڈ تاہوں ۔ فرمایا وہ یہاں نہیں اوپر والی کچہری میں ملیں گے۔ بالائی منزل پر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اور کچہری قائم ہے جس میں رسول اللہ خو بہ نفس نفیس موجود ہیں البتہ اولیاء اللہ کا حلقہ بدلا ہوا ہے۔ انہیں وہاں بھی نظام الدین اولیاء دکھائی نہ دیئے۔ رسول اللہ نے انہیں پریشان دیکھ کر فرمایا : خسرو اوپر کی کچہری میں جاؤ۔ اس طرح وہ مختلف کچہریوں کو عبور کرتے ہوئے بلند ترین مقام پر ساتویں کچہری میں پہنچے ۔ یہاں بھی رسول اللہ موجود تھے ،ان کے گرد کبار اولیاء نےحلقہ بنا رکھاتھا، لیکن یہاں بھی خسرو کو مایوسی ہاتھ لگی۔ خسرو کو مایوس دیکھ کر رسول اللہ نے اپنے برابرمیں بیٹھے ہوئے ایک نقاب پوش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نقاب الٹ کر دیکھو۔ اب جو نقاب الٹتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نقاب پوش کوئی اور نہیں نظام الدین اولیاء کی ذات گرامی ہے۔خسرو اپنے شیخ کا یہ بلند مرتبہ دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ وہ ایک وارفتگی کے ساتھ اپنے شیخ کی قدم بوسی کے لیے لپکے ۔ لیکن عین اسی لمحہ بو علی نےخسرو کے سینے سے اپناہاتھ کھینچ لیا اور چشم زدن میں یہ مناظر ان کی نگاہوں سے غائب ہوگئے ۔ یہ ہے وہ قصہ جو صوفی حلقوں میں ان اشعار کے پس منظر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک نعمت ہے لیکن اس کا اصل مقصد مرید کے دل پر اپنے شیخ کی عظمت کا سکہ بٹھانا ہے ۔ ایک ایسی مجلس جہاں خدا خود میر مجلس ہو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم شمع محفل ہوں اور روحانیوں کے اس اجتماع میں ہمارے اولیاء مختلف سطحوں پر اپنی چلت پھر ت اور مسلسل شرکت کے دعویدار ہوں، ایک ایسی مجلس کی ثقاہت پر شعر و نغمہ سے تو دلیل قائم کی جاسکتی ہے وحی اور عقل سے نہیں ۔ ( جاری ہے)
اکتوبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ،کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-14/d/100017