ڈاکٹر راشد شاز۔ دہلی
کارا گمرک میں جراحی کی خانقاہ کی زیارت سے پہلے اسی خیال سے میں نے خاصی معلومات بہم پہنچائی تھیں ۔ خلوتیہ سلسلے کی جراحی کی یہ خانقاہ دراصل سہروردیہ کی ایک برانچ ہے ۔ وہی شہاب الدین سہروردی جو اپنی۔ زیرزمین سیاسی سر گرمیوں کے سبب نظام وقت کے ہاتھوں شہاب الدین مقتول بنے۔ لیکن عامۃ الناس کو ان کے اصل سیاسی عزائم کا پتہ کم ہی ہے۔ شام کے جھٹپٹے میں جب میں جراحی کی خانقاہ میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ عجیب ہئیت کزائی میں ایک مجذوب سا شخص سیاہ سفید بلّی سے کھیل رہا ہے۔سیاہ بلّی کی شعلہ بار آنکھوں سے ایک پر اسرار وحشت ہو یداتھی جسے سفید بلّی کی موجودگی نے کسی قدر سنبھال رہا تھا ۔ صدر دروازے پر بلیوں کی موجودگی سے پہلے تو یہ اندازہ ہواکہ شاید یہ بلیوں والے بابا کی خانقاہ ہو لیکن اندر ماحول خاصا مانوس سا تھا ۔ جابجا دیواروں پر مختلف قسم کے طغر ے لٹک رہے تھے ۔ ایک نسبتاً بڑے فریم یا حضرت پیر سلطان سید محمد نورالدین الجراحی لکھاتھا اور ٹھیک اس کے اوپر یا شاہ شہیداں کا فریم آویزاں تھا ۔ فرش مجلس کی مناسبت سےہال کے ایک جانب پیر طریقت کی کرسی لگی تھی ۔ جس کے اوپر یکے بعد دیگر ے تین مختلف فریم آویزاں تھے جن میں ایک تصویر شیخ مظفر اوزک کی تھی ۔ یہ وہی شیخ مظفر ہیں جنہوں نے ستّر کی دہائی میں جراحی سلسلے کو مغرب میں متعارف کرایا ۔ کینیڈا ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں اس کی شاخیں قائم کیں ۔
خانقاہ میں اس وقت کچھ زیادہ چہل پہل نہ تھی سو میں نے سوچا کہ عمارت کے ارد گرد کا ایک جائزہ لےلیا جائے ۔ میری نظر ایک کتبہ پر آکر رک گئی ، لکھا تھا :
مَن اذیٰ جارہ ورثہ اللہ دیارہ
کتبہ میں میری دلچسپی دیکھ کر ایک صاحب قریب آئے ، پوچھا : کیا آپ عربی زبان سے واقف ہیں؟
میں نے کہا: جی ہاں واقف تو ہوں لیکن مطلب کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔
فرمایا : ارے یہ حدیث ہے۔ آپ نہیں جانتے؟۔
میں نے کہا : لیکن میری نظر سے یہ حدیث پہلے کبھی نہیں گزری۔
آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟ انہوں نے غالباً میرے مبلغ علم کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔ فرمایا : میں تیرہ سال سے نیویارک کی جراحی خانقاہ سے وابستہ ہوں، یہاں سال میں ایک دوبار آنا ہوجاتا ہے۔ یہ جو آپ حدیث دیکھ رہے ہیں اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ نورالدین جراحی جب استنبول تشریف لائے تھے تو ان کی آمد سے پہلے جانفد ا مسجد کے مؤذن کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت پیر نورالدین کے لئے مسجد میں ایک حجرہ تنہائی تعمیرکریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ پیر کے دن حضرت پیر استنبول تشریف لے آئیں گے۔ سو ایسا ہی ہوا۔ البتہ جب مسجد میں درس وار شاد او رذکر و سماع کی محفلیں منعقد ہونے لگیں اور حال و دھمال کے سبب جمع ہونے لگی تو بکر آفندی کو جس کا محل مسجد کے پڑوس میں واقع تھا، او رجہاں اس وقت آپ کھڑے ہیں، جو اب خانقاہ کا حصہ ہے، سخت اعتراض ہوا۔ اس نے حضرت پیر کی مخالفت شروع کردی۔ اسے اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ اہل اللہ کی مخالفت کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا ابھی چند دن گزرے تھے کہ وہ فالج کاشکار ہوکر مرگیا اور ا سکے وارثین اس محل کو نیلام کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ ان ہی دنوں سلطان احمد ثالث نے ایک خواب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کہہ رہے ہیں کہ تم بکر آفندی کے محل کو خرید کر نورالدین کی خانقاہ کے لئے وقف کردو۔قصہ کاماحصل یہ ہے کہ نگاہِ مرد مومن سے بکر آفندی کے محل کی تقدیر کچھ ایسی بدلی کہ جراحی کی خانقاہ میں تبدیل ہوگیا ۔ سو یہ واقعہ اس حدیث کی صداقت پر دال ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘‘ جو شخص اپنے پڑوسی کو اذیت دیتاہے اللہ تعالیٰ اس کے گھر کا اس کو مالک بنادیتا ہے’’۔
حدیث کا یہ پس منظر سن کر نہ صرف یہ کہ یہ حدیث پوری طرح میری سمجھ میں آگئی بلکہ اس بات کا بھی کسی قدر انداز ہ ہوگیا کہ حدیث کے مقبول عام مجموعوں میں یہ حدیث کیوں نہیں پائی جاتی ۔
یہ تو حضرت پیر کی ایک کرامت ہوئی ۔ ا س کے علاوہ او رکون سی کرامات آپ سے منسوب و مشہور ہیں؟ میں نے ان سے جاننا چاہا۔ فرمایا ایک تو یہی بات ہے کہ حضرت پیر کے مرقد پر دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس خانقاہ کے زائرین سے یہ وعدہ کررکھا ہے۔
اچھا؟ واقعی؟ میری حیرت کو بھانپتے ہوئے انہوں نے پوچھا کہ آپ نے اس قدیم پیشین گوئی کا وہ حصہ نہیں پڑھا جس کا ذکر شیخ کی آمد سے تین سو سال پہلے امام احمد شرنوبی نے اپنی کتاب طبقات الاولیاء میں کیا ہے اور جس کا ایک قلمی نسخہ فاتح کی لائبریری میں بھی موجود ہے۔
تو کیا طبقات الاولیاء کا کوئی نسخہ یہاں خانقاہ میں بھی موجود ہے؟ میں نے جاننے کی کوشش کی۔
فرمایا : کتاب کی بابت تو میں نہیں کہہ سکتا البتہ قلمی نسخہ کے اس صفحہ کا عکس یہاں زائرین کے لئے موجود ہے، یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا، اندار راہدری میں ایک بوسیدہ فریم کے پاس جاکر رک گئے ، میں نے بمشکل پڑھنے کی کوشش کی ۔ لکھا تھا :
ومنھم سید نورالدین الجراحی ساکن الاستنبول العلیاء یاتی بعام خمسۃ عشرۃ و مآۃ بعد الالف ، یعیش من العمر اربعۃ واربعین سنۃ ، من کرامتہ ان اللہ تعالیٰ یتکرم علیہ یوم مَوتِہ ید خلْ الجنتہ و منھا انہ سأل اللہ تعالیٰ ماھوفی عالم الغیب۔ ان اللہ یکرمہ زوارہ فستجاب لحدو اھلہ ۔
یعنی ان میں ایک استنبول کے نورالدین جراحی ہیں جن کا ظہور سال 1115 ھ ( 4۔1703ء) میں ہوگا۔ وہ چوالیس سال زندہ رہیں گے۔ ان کی کرامات میں سے ایک کرامت یہ ہوگی کہ وہ جس دن مریں گے اسی دن داخل جنت کیے جائیں گے۔ وہ خدا سےجو کچھ مانگیں گےانہیں غیب سے عطاء کیا جائے گا۔ خدا ان کی اور ان کے اہل خانہ کی قبروں کی زیارت کرنے والوں کی دعائیں قبول فرمائے گا۔
میں نے پوچھا اچھایہ بتائیے کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ شرنوبی کی یہ کتاب جس کے قلمی نسخہ میں اس پیشنگوئی کاتدکرہ ہے یہ حصہ واقعتاً جراحی کے ظہور سے پہلے تالیف پا چکا تھا کہ قلمی نسخوں میں اس قسم کے اضافے حسب ضرور کیے جاتے رہے ہیں ۔اس قسم کے الحاقات کا سلسلہ بڑا طویل اور دلچسپ ہے ۔ میرے اس اعتراض پر وہ کچھ جزبز ہوئے ۔ فرمایا ایک دو کرامات ہوں تو ان کا انکار کیا جائے ۔ اب اسی بات کو لیجئے کہ یہاں پیر نورالدین عین اپنی ماں کے قدموں کے نیچے مدفون ہیں جو دراصل اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ الجنۃ تحت اقدام امھات ۔ رہا دعاؤں کے مستجاب ہونے کا معاملہ تو اس کا تو مجھے بھی بار ہا تجربہ ہوا ہے کہ یہاں آکر سکنیت کا جو احساس ہوتا ہے اور دعائیں جس طرح آسانی سے قبول ہوجاتی ہیں اس کی نظیر کہیں او ردیکھنے کو نہیں ملتی ۔ اگر یہاں دعاؤں میں تاثیر نہ ہوتی تو امریکہ او ریورپ کے مختلف شہروں سے مریدوں کی آمد کاسلسلہ نہ لگا رہتا ۔
میں ان کے اعتقاد کو مجروح کرنانہیں چاہتا تھا لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اللھم أرنی الأ شیاء کماھی کی دعا کو جسے میں نے ایک مدت سے حرزجاں بنا رکھا ہے اور جس کے سبب اشیاء گاہ ہے اپنی اصل ہیئت میں نظر آجاتی ہے ، اس کے فیض سے انہیں بالکل محروم رکھوں ۔ سو میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ، ایک بات بتاؤں کہیں آپ کے اعتقاد کو ٹھیس تو نہیں لگے گی!
مسکراتے ہوئے بولے : نہیں بالکل نہیں ، ضرور فرمائیں۔
میں نے کہا کہ تہذیب اور تصوف کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے ان کرامتوں اور پیشن گوئیوں کے پس منظر سے بھی کسی قدر واقفیت ہے۔ میری بات کو حتمی صداقت کے طور پر قبول مت کیجئے لیکن اگر کبھی وقت اجازت دے تو ان سوالات کی کرید ضرور کیجئے گا کہ جراحی کہ یہ خانقاہ جب قائم ہوئی ہے تو اس کا سبب خواب میں سلطان وقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تھی یا اس کے پیچھے کوئی سیاسی محرک بھی تھا ۔ ایک شخص اچانک اپنے خدام کے ساتھ استنبول میں وار د ہوتا ہے ۔ ابتداً جانفد ا مسجد میں اس کے قیام کا انتظام ہوتا ہے اور پھر جلدی اس کی سرگرمیوں کے لیے ایک محل نما مکان خرید کر اسے عطاء کر دیا جاتا ہے ۔ تو رہی نورالدین جراحی کی بات ۔ خود خلوتیہ سلسلے نے جب سلطان بایزید کے عہد ( 1481ء 1511ء) میں استنبول کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہے تو اس کے پیچھے کسی الہام یا بشارت کے بجائے با یزید کی تخت نشینی تھی ۔ بایزید کے تیس سالہ عہد میں خلوتیوں کو بڑا عروج ہوا۔ استنبول کے ایک بڑے بار نطینی چرچ کو خلوتیوں کی خانقاہ میں تبدیل کردیا گیا ۔ ایسا اس لیے کہ خلوتی صوفیوں نے ایام شہزادگی میں سلطان کی بھرپور معاونت کی تھی ۔ خطرات مول لیے تھے ۔ ترک سلاطین سے مختلف صوفی سلسلوں کے بڑے قریبی روابط رہے ۔ ان کی ایماء پر تقرریاں عمل میں آتی رہیں ۔ آپ کو شاید یاد ہوکہ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے ایام میں مولوی فرقے کے صوفیاء نے حکومت کو بچانے کے لیے باقاعدہ مسلح جد وجہد میں حصہ لیا تھا اور پھر خلافت کے سقوط کے بعد مصطفیٰ کمال کے سیکولر عزائم کو شکست دینے کے لیے شیخ سعید اور ان کے حامیوں نے مسلح جد وجہد کا راستہ اختیار کیا تھا ۔ اس لئے اگر شیخ نورالدین کو اپنی سرگرمیوں کے لیے حکومت کا بھرپور تعاون حاصل رہا تو ایسا کسی کرامت کے سبب نہیں بلکہ نظام وقت کی سیاسی ضرورت کے تحت تھا ۔
میری ان باتوں سے ان صاحب کے چہرے پر حیرت کے آثار ہویدا ہوئے پھر ایسے لگا جیسے وہ اپنے شیوخ کی مدفعت میں کچھ کہنا چاہتے ہوں ، ان کی زبان سے صرف اتنانکلا : چلیبی سلطان!
پھر فرمایا: دیکھئے بعض لوگوں نے اہل صفا کو بدنام کرنے کی بڑی کوشش کی ہے۔ اہل اللہ کے دروں پر ہمیشہ سلطاطین نے حاضری دی ہے۔ وہ ان کی دعاؤں کے طلب گار رہے ہیں ۔ ان پر سیاسی عزائم کا الزام لگانا میرے خیال میں اہل اللہ کی سخت توہین ہے۔
لیکن تاریخ تو تاریخ ہے اس کے تلخ حقائق کو خوش عقیدگی کے پردے میں نہیں چھپایا جاسکتا ۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ او رکہتا اور ان کے جلال میں مزید اضافہ ہوتا مغرب کی اذان نے ہمارے لیے اس مناقشہ سے رہائی کا سامان کردیا۔
جراحی کی اس خانقاہ کو خلوتیہ سلسلے کی عالمی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ سوچا کیوں نہ مرکزی ہیڈ کوارٹر میں مجلس ذکر وسماع کا لطف لیا جائے جہاں پچھلی کئی صدیوں سے ایک خاص انداز کے ذکر کی روایت چلی آتی ہے۔ عشاء کے کچھ دیر بعد ذکر کی مجلس شروع ہوئی ۔ مرد حضرات دائر ے کی شکل میں بیٹھ گئے ۔ اوپر کی منزل میں لکڑی کے جھروکوں کے پیچھے خواتین نے اپنی جگہ لے لی ۔ اولاً کورس میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو تین مصرعوں میں پڑھنے کی کوشش کی گئی یعنی بسم اللہ /ہر رحما / نِررحیم ۔ پھر کچھ دیر تک نفی اثبات کا ذکر جاری رہا ۔ صلوٰۃ و سلام کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہوئے البتہ دائرہ برقرار رہا ۔ پھر اللہ حیّ کی ورزش شروع ہوئی ۔ لوگوں نے ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر دائرے کو مضبوط کیا ۔ دائرہ اب گردش میں تھا ۔ اللہ حیّ اللہ حق کی آواز تیز ہوتی جارہی تھی ۔ اسی دوران دوسماع زن دائرے کے بیچ رقص کرنے لگے ۔حیّ حیّ کی آواز لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جاتی تھی اور اس کے ساتھ ہی گردنوں کی جنبش میں اضافہ ہوتا جاتا تھا ۔ کچھ دیر کے بعد حیّ حیّ کی آواز متعینہ آہنگ کے ساتھ کم ہوتی گئی اور پس منظر میں دعائیہ کلمات جاری ہوگئے ذکر کا یہ سلسلہ کوئی آدھی رات کو چلتا رہا۔
سفینۂ نور کے مقابلے میں جراحی ذکر میں کچھ کیف کی کمی کا احساس ہوا۔ شاید اس کا سبب یہ ہوکہ وہی مناسک اور وحی حرکتیں اگر بار بار دہرائی جائیں تو پھر شاید اس کا لطف جاتا رہتا ہے۔صوفیاء کے لیے بھی یہ کچھ آسان نہیں کہ وہ روز نئی نئی روحانی ورزشیں اور ذکر کے نئے نئے طریقے ایجاد کریں البتہ ہر سلسلے کے اندر جب ایک نیا بانی پیدا ہوتا ہے او روہ اپنے نام سے ایک نئی شاخ کی ابتداء کرتا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے خاص اسمائے حسنیٰ کانزول کیا، بعض دعاؤں کی تعلیم دی او رانہیں ورد کبیر صباحیہ اور ورد صغیر مسائیہ کے بجالانے کی تلقین کی گئی ۔ مجھے یہاں آکر ان اسماء اللہ الحسنیٰ کاپتہ تو نہ چل سکا البتہ اس بات کا اندازہ ضرور ہوا کہ نئی نئی عبادتوں کی ایجاد کے شوق میں روحانیوں کے تمام ہی فرقوں نے بڑی ہی شقاوت قلبی کامظاہرہ کیا ہے۔ ذکر کے یہ مختلف طریقے او رمکاشفہ ، مجاہدہ، مراقبہ جیسی تمام ورزشوں کی حیثیت ایجاد بندہ سے زیادہ نہیں ۔ البتہ جب ایک بار یہ چل نکلا تو پھر ہر نئے آنے والے بانی سلوک نے اپنی علیحدہ شناخت کے لیے نئے اضافوں کاسلسلہ جاری رکھا ۔
مثلاً بوسینا اور کو سو ووکی کی نقشبندی خانقاہوں میں جہاں خواتین اپنی علیحدہ مجلسیں منعقد کرتی ہیں ذکر یہ کلمات کہتے ہوئے ایک دائرے میں مسلسل چلتی جاتی ہیں ۔ اس طرح تیس چالیس خواتین کا ایک دائرہ حالت ذکر میں طواف مسلسل کی صورت حال سےدو چار ہتا ہے ۔ ہمارے ہاں شطار ی صوفیوں نے جن کا ہند و جوگیوں اور سنیا سیوں سےگہرا تعامل رہا ہے، انہوں نے تو باضابطہ مختلف قسم کی نمازیں بھی ایجاد کر رکھی ہیں ۔ شیخ محمد غوث کی جواہر خمسہ کا مطالعہ اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے کہ روحانیوں نے کس طرح عبادت اور ریاضت کے پردے میں دین اسلام کا تمسخر اڑانے کی کوشش کی ۔ شطاریوں کی ایجاد کردہ نماز احزاب ، نماز تنویر القبر او رصلوٰۃ العاشقین جیسی عبادتیں ہوں یا اسمائے اکبر یہ اور دعائے بسمخ کے نام سے قدیم یہودی توہمات کے احیاء کی کوشش ، ان سےاس بات کاپتہ چلتا ہے کہ مختلف زمانوں میں تصوف کے پردے میں کس طرح دین اسلام پر شب خون مارنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جب ایک بار دین میں نئی نئی ایجاد ات کا سلسلہ چل نکلا اور صوفی شیخ کو یہ اجازت مل گئی کہ وہ اپنے مرید کے لیے اس کےحسب حال اور ادووظائف او ر عبادت کا ایک میزانیہ متعین کرے تو گویا ہر نئے آنے والے کے لئے نئی اختراعات کا جواز پیدا ہوگیا ۔ استنبول کے اس سفر میں جب مجھے ہارون یحییٰ کی ایک مریدہ نے یہ بتایا کہ ان کے شیخ کے تقویٰ کا عالم یہ ہے کہ وہ ہر نماز وضو کے بجائے غسل سے پڑھتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت کے دوران مسلسل حالت قیام میں رہتے ہیں ، تو مجھے اس بیان پر کچھ زیادہ تعجب نہ ہوا۔
بے گفتہ سبق ۔21
اگلی صبح قدرے تاخیر سے اسمٰعیل آغا پہنچا ۔ راہدری میں چہل پہل دیکھی ۔پتہ چلاکہ چائے کا وقفہ ہے پہلی مجلس ابھی ختم ہوئی ہے۔ ہاشم نظر نہ آئے ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا ابھی بعض شرکاء ہال کے اندر ہی ارتکاز مکاشفہ میں مصروف ہیں ۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد اگلی مجلس کی شروعات ہوئیں ۔اسکرین پر اولاً نظام شمشی کی مختلف تصاویر طلوع ہوئیں ۔ مناظر بدلتے رہے ۔ ایسا لگا جیسے ہم لوگ کسی رصد گاہ میں ہوں جہاں لامحدود کائنات کے اسرار ور موز سے پردہ اٹھنے کو ہو ۔ پھر مختلف سیاروں کی ایک تصویر اسکرین پر آکر ٹھہر گئی ۔ایک طرف گول نورانی دائرے میں عربی رسم الحظ میں لفظ رابطہ لکھا تھا جس کی شعاؤں سے ایک نورانی راستہ بسمت فلک ( لامکاں) جاتا دکھایا گیا تھا ۔
شیخ طریقت نے عجمی لہجہ میں اللہ نورالسمٰوات کی آیت تلاوت کی۔ پھر فرمایا لوگو! آیت نور کو ہم اہل تصوف کے ہاں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔نور ہے کیا ؟ اللہ نور ہے۔ یہ کائنات نور سے بنائی گئی ہے، انسانوں کے اندر نور کی کارفرمائی ہے۔ ظاہر بین حضرات ا س حقیقت سے واقف نہیں کہ ہماری ابتدا بھی نور ہے اور انتہا بھی نور۔ ہم نور سے نکلے ہیں اور نور میں ہی ہمیں واپس جاناہے۔ ابلیس کو آدم کے سجدے کا حکم اسی نور کے سبب ہوا جو اللہ نے آدم کی پیشانی میں رکھا تھا ۔ یہی نور من نور اللہ ہے جس سے اہل کشف باطن کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ جن کی آنکھیں بند ہوں یا جو اندھے ہوں ، یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آسکتیں ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ شریعت میں اندھے امام کو خواہ وہ قرآن اور فقہ کاماہر ہی کیوں نہ ہو آنکھ والوں پر ترجیح نہیں دی جاتی ۔ یہ تو ظاہری اندھے کی بات ہوئی اب جو لوگ باطنی طور پر اندھے ہیں ان کی قباحت کا اندازہ آپ خود ہی کرسکتے ہیں ۔
عزیزان ِ مَن ! باطن کی آنکھ آسانی سے نہیں کھلتی ۔ جس طرح اندھا کسی صاحب بینا کی انگلی پکڑ کر چلتا ہے اسی طرح آپ کو کسی شیخ کامل کی شاگردی اختیار کرنی ہوتی ہے ۔ اور شاگردی بھی ایسی کہ جسے ہم اہل تصوف فنافی الشیخ کہتے ہیں ۔بقول حافظ شیرازی :
بہ مے سجادہ رنگین کن گرد پیر مغان گوید کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا
یعنی پیر مغان اگر تجھ سے کہے تو مصلّے کو بھی شراب سے رنگ لے کہ سالک منزلوں کے رموز سے بے خبر نہیں ہوتا ۔ جب تک آپ اپنے آپ کو پوری طرح شیخ کے حوالے نہیں کرتے ، شیخ کے فیض سے محروم رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک بار ہمارے شیخ نقشبندی مجد د الف ثانی کی خدمت میں ایک عالم تشریف لائے ۔ کچھ دیر بیٹھے رہے لیکن شیخ نے آپ سے کچھ کلام نہ کیا۔ جاتے ہوئے وہ لوگوں سے کہہ گئے کہ میں آیا تو اس خیال سے تھا کہ شیخ سے کچھ فیض حاصل ہوگا لیکن شیخ مجدد نے کچھ کلام ہی نہ کیا ۔ جب حضرت مجدد کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ جو ہماری خاموشی سے فیض حاصل نہ کرسکا وہ بھلا ہماری گفتگو سے کیا فیض حاصل کرے گا۔ عزیز ! شیوخ کی مجلسوں میں ادب اور خاموشی کی صورت حال دیکھ کر ظاہر بینوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس ‘‘ بے گفتہ سبق ’’ سے طالبین کی تقلیب قلبی کا کام کتنے مؤثر انداز سے انجام پاتا ہے۔
بعض طالبین ابتدائی دنوں میں جوش سلوک میں اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتےہیں کہ وہ شیخ کےمتعین کردہ نصاب میں اضافے کے ذریعے چشم زدن میں سلوک کی منزلیں طے کرسکتے ہیں ۔ کاش کہ انہیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان سات سو پردے پڑے ہیں ۔ جو جتنا بڑا ولی ہوتا ہے اس پر پردہ کی تعداد اتنی ہی کم ہوتی ہے ۔ بڑے ولی کا نور اسی سبب زیادہ ہوتا ہے ۔ اس نور کو چھوٹے ولی برداشت نہیں کرسکتے ۔ اس لیے اگر تم نے شیخ سے اعراض برتا اور ایک ہی جست میں ساری منزلیں طے کرنے کی کوشش کی تو اندیشہ ہے کہ اپنے آپ کو ہلاک کر لوگے۔ لوگ اس راہ میں زندگیاں لگاتے ہیں جب جا کے کہیں خدا کے نور کو برداشت کرنے کے اہل ہوتے ہیں پھر وہ مقام بھی آتا ہے جب بندے اور خدا کے درمیان سارے حجابات ہٹ جاتے ہیں ۔ بقول مولانا روم :
پس فقیر آنست کہ بیواسطہ است
شعلہ ہار اباو جودش رابطہ است
یعنی درویش وہ ہے جو کسی واسطہ کے بغیر ہوتا ہے ۔ شعلوں کو اس کے وجود سے خاص تعلق ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب اولیاء اللہ راست خدا سے لیتے اور بندوں کو تقسیم کرتےہیں ۔ یہ جوصوفیاء کہتے ہیں کہ ہم دید کے قائل ہیں شنید کے نہیں وہ اسی سبب سے ہے۔ لیکن سلوک کی یہ منزل خال خال لوگوں کو ہی ہاتھ آتی ہے ۔ جس شخص کو فنافی اللہ کا یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے اسے اپنے آپ کی خبر نہیں رہتی ۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص با یزید بسطامی کی خدمت میں تیس سال تک رہا لیکن جب وہ بھی وہ سامنے آتا آپ اس سے پوچھتے کہ تمہارا نام کیا ہے۔ اس شخص کو احتمال ہوتا کہ شاید حضرت مذاق کرتے ہوں ۔ پوچھنے پر پتہ لگا کہ وہ مذاق نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے قلب میں ا س طرح خدا کا نام جاری تھا کہ اس کے سوا کوئی اور نام انہیں یاد ہی نہیں رہتا تھا ۔ کہتے ہیں کہ ذوالنون مصری کا ایک مرید بایزید بسطامی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دروازے پر دستک دی، اندر سے آواز آئی کون ہے اور کس کی تلاش میں ہے۔مرید نے عرض کیا کہ بایزید کی تلاش میں آیا ہوں ۔ فرمایا وہ کون ہے او رکہاں ہے میں بھی ایک مدت سے اس کی تلاش میں ہوں لیکن اب تک اسے پانے میں ناکام رہا ہوں ۔
عزیزو! جب انسان خدا کے ساتھ واصل ہوجاتاہے اور جب وہ غیر خدا سے چھٹکارا حاصل کرلیتا ہے تو پھر اس کے اپنے وجود اور اپنی خواہش کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ خدا کے مرضی اس کی مرضی بن جاتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رابعہ بصری کشتی کے سفر میں دریائے دجلہ پر تھیں ۔ بیچ دریا میں کشتی طوفان میں گھر گئی ۔ مسافر پریشان ہوئے ، چیخ و پکار بلند ہوئی، لیکن ایک شخص کشتی میں اطمینان سے لیٹا رہا ۔ رابعہ اس شخص کے اطمینان کو دیکھ کر سخت متعجب ہوئیں ۔ انہوں نے کہا دعاء کا وقت ہے یہ آپ اس طرح کیوں لیٹے ہیں ۔ کہنے لگا کہ اگر خدا کی مرضی کشتی کو ڈبونے کی ہے تو میری کیا مجال کہ اس کی مرضی کے خلا ف کچھ کرنے کی سوچوں ۔ رابعہ نے جب اس سے دعاء پر اصرار کیا تو اس شخص نے اپنی چادر اٹھائی اور طوفان کی سمت میں اسے اونچا کردیا۔ چادر کا اٹھاناتھا کہ ہوا تھم گئی ۔ رابعہ کو تجسس ہواکہ یقیناً یہ کوئی خدا کا محبوب بندہ ہے ۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہ کوئی ایسی کرامت نہیں ، یہ تو تم بھی کرسکتی ہو شرط صرف یہ ہے کہ اپنے کو خدا کی مرضی پر چھوڑ دو۔ ہم نے یہ درجہ اسی طریقے سے حاصل کیا ہے۔ ترکنا مانرید لمایر ید فترک مایرید لمانرید۔
عزیزانِ من! راضی برضا کا یہ مقام بڑی مشقتوں سے ہاتھ آتا ہے ۔ بایزید بسطامی جیسے بزرگ کہتے ہیں کہ انہیں تیس سال تک مسلسل اس راہ میں مصائب برداشت کرنے پڑے ۔پھر خدا نے انہیں وہ مقام عطا ء کیا کہ وہ پوری کائنات کو اپنی انگلیوں کے درمیان دیکھتے ۔ ان کافرمان ہے کہ خدا کی معرفت کے ایک دانہ بھی جو لذت ہے وہ جنت کی نعمتوں میں نہیں ۔ فنا فی اللہ ہونا گویا زندہ جاوید ہونے کا عمل ہے۔ آج کی اس مجلس میں آخری نکتہ کے طور پر اس حقیقت کو ذہبن نشین کر لیجئے کہ خدا سے موصل ہونے کا عمل سالک کی معراج ہے۔ اس سے پہلے ان تین مدارج سے گزرنا ہوتا ہے ۔ پہلا مرحلہ تجلی آثاری کا ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے آگ کو دیکھا اور خدا کی آواز سنی۔ دوسرا مرحلہ تجلّی فعلی ہے ۔ جس میں سالک کسی کام میں الہٰی اسکیم کو متجلی پاتا ہے۔ تیسرا مرحلہ تجلی صفاتی ہے، جب خدا سمع ، بصر وفواد میں متجلی ہوتا ہے ۔ چوتھا اور آخری مرحلہ جسے تصوف کی اصطلاح میں تجلی ذاتی کہتے ہیں ، دراصل فنانی الحق کی منزل ہے۔ جب سالک اپنے آپ کو گم کردیتا ہے اور اس کے عدم وجود کے سبب اس کی زبان سے انا الحق یا سبحانی ما اعظم شانیاور مافی جبتی الااللہ جیسے کلمات کا صدور ہونے لگتا ہے ۔ اپنے آپ کو گم کردینے او رلفائے حق کے سبب باقی رہ جانے کو بقیٰ باللہ کہتے ہیں ۔ یہ مرحلہ ہے جب نور پر اصل نور کی رنگت غالب آجاتی ہے ۔ بندہ خدا کے رنگ میں رنگ جاتا ہے ،صبغۃ اللہ و من احسن من اللہ صبغۃ۔
مجلس اپنے اختیام کو پہنچی ۔ لوگ باہر جانے لگے اور بعض وہیں فرش پر کمر سیدھی کرنے کے خیال سے لیٹ گئے ۔ میں نے بھی دیوار کے سہارے ٹیک لگالی۔ ہاشم اپنے بعض دوستوں کے ساتھ میرے پاس آبیٹھے ۔ پروجیکٹر ابھی آن تھا اور اسکرین پر شاہراہ نور کا عکس نظر آرہا تھا ۔ میں نے ہاشم سے پوچھا تمہارا کیا خیال ہے۔ ہم لوگوں نے اس شاہراہ پر ابھی کتنی مسافت طے کرلی ہے؟ بلکہ یہ بتاؤ کہ تم اپنے آپ کو سلوک کے اس سفر میں کس مقام پر محسوس کرتےہو؟ کہنے لگے : میرا حال تو ان لوگوں کا ہے جو ابھی سفر پر نکلے ہی نہیں ۔ رختِ سفر ضرور باندھتا ہوں لیکن پھر اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتا۔
آخر اس کی وجہ کیاہے؟ قریب بیٹھے ایک دوسرے ساتھی نے مداخلت کی ۔ بات یہ ہے کہ ہمارے دل مادی آلائشات سے مملو ہیں ۔ یقین کی کمی ہے، شبہات کاہجوم ہے لہٰذا ارتکاز کی پہلی منزل پر ہی خیالات مختلف سمت میں بھٹکنے لگتے ہیں ۔ پہلا مرحلہ اپنے دل کو غیر اللہ سے خالی کرنا ہوتا ہے جبھی اللہ کی محبت کے لیے وہاں جگہ بن پائے گی ۔ دونوں چیزیں یکجا نہیں رہ سکتیں ۔
لیکن آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اگر ہم اس عمل میں کامیاب ہوگئے او ربالآخر ہمارے اور خدا کے مابین سارے حجابات اٹھ گئے تو ہمارے اندر ایک طرح کی الہٰی قوت در آئے گی اور یہ جو بڑے بڑے اولیاء اللہ تصرفات فرماتے ہیں ، تقدیروں کو بدل ڈالتے ہیں ، ہم بھی کسی دن اس مقام پر پہنچیں گے۔ بولے : یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کے اندر کس قدر تجلی الہٰی کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔ آپ کس قدر تیز نور برداشت کرسکتے ہیں ۔ دیکھئے اس راہ میں بہت سے لوگ نکلے لیکن جو مرتبہ ویس قرنی کو حاصل ہوا، جس رتبے سے غوث اعظم اور مشائخ نقشبندیہ کو نوازا گیا ، اس درجے پر بہت کم لوگ پہنچ پائے۔
‘‘ سلوک کا یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ اس راستے میں نفس کے خطرات بھی ہیں، بعض لوگ تھوڑی سی کرامتیں پاکر اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں ہمیں اس سے ہوشیار رہنا ہوگا ’’ ہاشم نے متنبہ کیا۔
اگلی مجلس دوپہر کے بعد تھی ۔ میں سوچتا رہا انسان بھی کتنی Gull’ible مخلوق ہے۔ خدائی کے حصول کی امید میں خود ہی چھوٹے چھوٹے خدا تخلیق کرتا ہے۔ انہیں شیخ اور غوث کانام دیتا ہے اور پھر ان کی توجہ کے لیے اپنی ساری توانائی اور تمام زندگی صرف کردیتا ہے ۔ اسے خدا ئی تو نہیں ملتی اناالحق کہنے کے شوق میں اس کی عزتِ نفس اور تکریم آدمیت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ( جاری)
اگست ، 2014 بشکریہ :ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-11/d/98508