New Age Islam
Sat Feb 15 2025, 09:03 AM

Urdu Section ( 12 March 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Fatima: An Ideal Personality فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ: ایک مثالی کردار

 

ڈاکٹر ریحان حسن

6 مارچ، 2013

عورت وہ مقدس و متبرک ہستی ہے جس نے انبیاء و اولیا ءکو اپنے بطنِ مبارک سے جنم دے کر کاروانِ ہستی کو آگے بڑھا یا اگر یہ عورت نہ ہوتی تو کب کی یہ دنیا ختم ہوگئی ہوتی ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جس طرح صبح کی آمد کیلئے سورج  کاطلوع ہونا ضروری  ہے اور زندہ رہنے کے لئے سانس لینا نا گزیر ہے بعینہ دنیا کے وجود کے قائم و دائم رکھنے کیلئے عورت کا وجود بھی لازمی ہے۔

ابتدائے آفزینش سے آج ایک عورت کا وجود کم وبیش مرد کی ضرورت ہے لیکن مرد کی  یہ بدبختی ہے کہ اس نے اسی آغوش کو زخمی  کیا جس میں اس نے پرورش  پائی تھی اور اسی سینہ  کو مجروح کیا جس سے اس کا رشتہ حیات وابستہ تھا لیکن اس مظلوم عورت کو مذہب اسلام کے پہلے  پہل نہ صرف جس کو مردوں کے ہم پلہ اور دوش بدوش کھڑا کیا بلکہ  ماں، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے وہ حقوق عطا کیے کہ پھر  عورت کو تحقیر و تذلیل کی نگاہوں سے نہ دیکھا جاسکا جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ  کی ولادت کے بعد کوئی بھی بیٹی زندہ در گور نہ کی جاسکی اور انہوں نے اس خاندان عالم پر آنے کے بعد اس طرح زندگی بسر کی کہ جو دنیا  کی خواتین کے لئے نمونہ عمل  ہوا بلاشبہ انہوں نے اپنی سیرت کو عالم کی خواتین کے سامنے ایسا  نمونۂ عمل بنا کر پیش کیا ہے کہ اگر ان اصول پر عورت عمل پیرا  ہوجائے تو صرف آخرت ہی نہیں  بلکہ دینوی  زندگی  بھی خوشی شاہد ہے کہ جب صدیقہ طاہرہ باپ کے گھر  سے شوہر کے گھر  پہونچیں تو اس طرح زندگی  بسر کی کہ طبقۂ نسواں کیلئے مثالی زندگی بن جائے ۔ امور خانہ داری  میں علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہ  نے ایک دوسرے کی معاونت کر کے زن و شوہر کویہ درس دیا کہ گھر  یلوں کاموں میں بھی ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ گھر محبت و الفت کا گہوارہ  بن جائے ۔

مذہب اسلام کی تعلیم  یہ ہے کہ مرد اور عورت زندگی  کے جہاد میں مشتر کہ طور پر حصہ لیں ظاہر ہے کہ صف کے اختلاف کے باعث  تعلیم عمل ضروری ہے لہٰذا اس تقسیم کو علی و فاطمہ نے مکمل  طور پر دنیا کے سامنے یوں پیش کیا کہ حضرت علی باغ میں مزدوری کیلئے نکل  جاتے تو فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ  گھر کے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں اور اس تقسیم  سے صدیقہ  طاہرہ  بے انتہا  مسرور تھیں کیونکہ  اگر عورت گھر سے باہر رہے گی تو وہ امور خانہ داری کے فرائض  اور اولاد کی صحیح  تربیت نہ کرسکے گی شہزادی عالیان نے گھر کے کاموں کی بجا آوری  میں اس قدر زحمت اٹھائی کہ حضرت علی ، فاطمہ  کے ان خدمات کو بار بار یاد کرتے اور آپ کی خدمات کو سراہا کرتے۔ ایک دن پیغمبر اسلام فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ  کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ علی و فاطمہ چکی چلارہے ہیں آپ نے پوچھا تم میں سے کون تھک چکا ہے؟ تو حضرت علی نے عرض کی کہ فاطمہ  زیادہ تھک  چکی ہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ  کی جگہ بیٹھ گئے اور حضرت علی کی چکی چلانے میں مدد کی (بحارالانوار جلد 43 ص 50)

اس طرح حضرت علی نے عورت کے فرائض کے ساتھ ساتھ شوہر کے فرائض  کی جانب بھی انسانوں  کی توجہ  مبذول کرائی ہے او ریہ باور کرایا ہے کہ اگر عورت امور خانہ داری  کے فرائض  انجام دے تو اس عمل میں  مرد کو بھی عورت کا ساتھ دینا چاہیے ۔

تاریخ  شاہد ہے کہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ  نے نا موافق حالات میں بھی حضرت علی کا  بھر پور  طریقے  سے ساتھ دیا جیسا کہ  اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ ایک دن حضور اکرم فاطمہ رضی اللہ عنہ  کے گھر گئے  تو دیکھا کہ حسن و حسین موجود نہیں ہیں ان کی حالت پوچھی  تو فاطمہ رضی اللہ عنہ  نے عرض کی ، آج گھر میں کھانے کے لیے کچھ  موجود نہ تھا، علی نے جب باہر جانا چاہا تو فرمایا کہ میں حسن اور حسین  کو اپنے ساتھ  باہر لے جاتا ہوں تاکہ یہاں  نہ روئیں اور نہ تم سے کھانے کا مطالبہ  کریں لہٰذا حضرت علی حسن و حسین  کو لے کر فلاں یہودی کے باغ میں گئے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تلاش کرتے ہوئے گئے تو دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ یہودی کے باغ میں ڈول کھینچ رہے ہیں۔ اور حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کھیل میں مشغول ہیں ، اور ان کے سامنے تھوڑی مقدار خرما کی بھی موجود ہے پیغمبر اسلام نے علی سے فرمایا کہ دن گرم ہونے سے پہلے حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ  کو گھر  پہونچا  نا نہیں چاہتے ؟ آپ نے عرض  کی یا رسول اللہ جب  میں گھر  سے باہر آیا تھا تو ہمارے گھر کوئی غذا موجود نہ تھی آپ تھوڑا توقف کریں تاکہ میں کچھ خرما فاطمہ کے لیے بھی مہیا کرلوں۔ میں نے اس یہودی سے ہر ڈول کے کھینچنے  پر ایک خرما مقرر کیا ہے ۔ جب کچھ خرمے مہیا ہوگئے تو انہیں آپ نے اپنے دامن میں ڈالا اور حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ  کو اٹھایا اور گھر واپس  لوٹ آئے (بحار الانوار جلد 43 صو83)

یہ واقعہ  نہ صرف علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہ کی زندگی  کے دشوار ترین موڑ پر یکجہتی و محبت  کا ثبوت فراہم کرتا ہے بلکہ  آج کی خواتین  کے لئے یہ درس  بھی ہے کہ زن و شوہر زندگی  کے کٹھن  سے کٹھن مرحلوں  میں بھی  ایک دوسرے  کی معاونت کر کے زن و شوہر کے فرائض کو انجام دے کر دنیا و آخرت  کی کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ اس کے ساتھ  یہ واقعہ  اس بات کا بھی شاہد ہے کہ صدیقہ ٔ طاہرہ  کے گھر میں فاقہ بھی ہورہا ہوتا تو آپ حضرت علی سے نہ ہی شکوہ  و شکایت کی اور نہ ہی کوئی دست سوال دراز کیا ۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ  سوال کیا کہ  ...... کی کھانے کیلئے گھر میں کچھ سامان ہے یا نہیں  تو شہزادی نے فرمایا کہ آج  تیسرا روز ہے کہ گھر  میں ایک دانہ جو تک نہیں  ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے سوال کیا کہ پھر تم نے مجھ سے کیوں نہ  کہا ۔ تو فرمایا میرے  باپ نے  مجھے  وداع  کرتے وقت فرمایا تھا کہ  میں کچھ سوال کر کے آپ کو کبھی شرمندہ  نہ کروں (سیرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ ص 78)۔

آج کی خواتین  شہزادی  کے اس اصول کو نمونۂ عمل بنالیں  تو بلاشبہ اندرون خانہ کے بے شمار مشکلات سے نجات مل سکتی ہے  کیونکہ آ ج کی خواتین فقر  و غربت  کے حالات میں بھی شوہر سے فرمائیشیں  کرنے سے باز نہیں آتیں۔ جس کا نتیجہ  یہ ہوتا ہے کہ گھر کے اندر بہت سی مشکلات جنم لے لیتی ہیں بالآخر زن و شوہر کی زندگی  جہنم  بن جاتی ہے۔ روز مرہ کا مشاہدہ  ہے کہ شوہر محنت و مزدوری کر کے گھر کے اسباب زندگی  مہیا  کرتا ہے تو بیوی  شکر خدا بجالا  کر قبول  نہیں کرتیں بلکہ لائے ہوئے سامان پر نت نئے اعتراضات کر کے شوہر کی خون پسینہ کی کمائی کا استہزا ء اڑایا کرتی ہیں۔ لیکن شہزادئی عالمیان کی زندگی  کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ انہوں نے خواتین کو اپنے عمل سے باور کرایا ہے کہ شوہر  محنت و مزدوری کے بعد اور جو بھی اسباب زندگی  لائے اسی ہنسی  خوشی  لے کر اسے ٹھکانے لگائے  تاکہ زندگی مسرت و شادمانی سے ہمکنار ہوسکے۔ جیسا کہ تاریخ  میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے گھر میں آٹھ پہر سے فاقہ تھا ۔ اور حضرت علی  کو کوئی مزدوری نہ مل رہی تھی بالآخر ایک دن شام کے وقت ایک تاجر کے اونٹ  سے اسباب اتارنے کی مزدوری ملی تو پہر رات تک اس کے اونٹوں  کے اسباب کو اتارا ۔ جس سے ایک درہم اجرت ملی تاخیر  کے سبب بیشتر  دکانیں بند ہوچکی تھیں۔ مگر ایک جگہ  ایک درہم  جو کا غلہ بالآخر  دستیاب ہوگیا ۔ تو آپ  اسے لے کر آئے جسے فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ  نے انتہائی خوشی و مسرت  کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کا استقبال  کرتے ہوئے جھولی  سے لیا اور اسی وقت اسے پیس کر روٹی پکائی اور حضرت علی کے سامنے  دسترخوان پررکھا جب حضرت علی سیر ہوکر کھانا تناول فرما چکے تو خود آپ کھانے لگیں  جسے دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد یاد آیا فاطمہ رضی اللہ عنہ  دنیا کی بہترین  عورت ہے ( سیرت  فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ ص 78)۔

فا طمہ زہرا رضی اللہ عنہ  نے شوہر کے گھر آکر اس انداز سے امور خانہ داری  کے فرائض  انجام دیئے کہ عالم  کی خواتین کے لیے  وہ امور ایک مثالی حیثیت  رکھتے  ہیں چنانچہ  علامہ  صدوق علیہ الرحمہ نے کتاب العلل اور دیگر  مورخین نے اپنی اسانیدکے ساتھ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے روایت  کی ہے کہ  وہ فرماتے ہیں  : کہ  ‘‘ جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کے سینے پر پانی کی مشک اٹھاتے اٹھاتے  گٹھل بن گیا تھا او رہاتھوں  میں چکی پیستے پیستے آبلے پڑ گئے  تھے ۔ خو د ہی  جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ  گھر میں جھاڑو دیا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ آپ کے کپڑے گرد آلود ہوجاتے تھے ۔ خود ہی آگ چولہے میں رو شن  کرتی تھیں یہاں تک کہ دھوئیں سے آپ  کے کپڑے کالے ہوجاتے تھے (سیرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ ص 80 ) جسٹس آغا سلطان مرزا دہلوی مطبوعہ  ادارۂ اصلاح لکھنو 1994۔

صدیقہ ٔ طاہر کایہ کردار آج کی خواتین کی محض محاسبہ  کرنے کی ہی دعوت نہیں دیتا  بلکہ اس بات کی جانب بھی متوجہ  کرتا کہ ہے کہ شوہر کے گھر کو اپنی محنت و توجہ سے کس طرح جنت نظیر بنایا جاسکتا ہے۔ تاریخ  گواہ ہے کہ فاطمہ  زہرا رضی اللہ عنہ نےحضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ زندگی کے ہر موڑ پر اس طرح دیا کہ کبھی شکوہ و شکایت کاموقع نہ ملا حتیٰ  کہ فلاں  و تنگی  میں بھی کبھی کسی امر کے لیے  لب شکوہ  سے آشنا نہ ہوئے ۔ بلکہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کی محنت و مشقت کو دیکھ کر خود حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ اپنے بابا سے ایک خادمہ  طلب کرلیں چنانچہ پیغمبر اسلام نے کنیز عطا کرنے کے بجائے  وہ تسبیح  تعلیم  فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ  کے نام سے مشہور ہے ۔ اور جب بلا طلب خادمہ ملی تو ایک دن خود کام کیا اور دوسرے دن جناب فضہ  سے کام لیا گویا خادمہ  کو بھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ گھر کی خادمہ ہے ۔ بلکہ اسے ہمیشہ  گھر کا ایک فرد ہونے کا احساس دیا۔

فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ   نے گھر کا ماحول ایسا بنایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہنا پڑا کہ ‘‘ جب میں تھکا  ماندا گھر واپس  آتا تھا اور فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ  کو دیکھتا تھا تو میرے تمام غم و اندوہ ختم ہوجایا کرتے تھے ( مناقب خوارز می صی 256)

ظاہر  ہے کہ اگر عورت شوہر کو گھر کے داخلی امور سے بے فکر کردے اور شوہر کے ساتھ لطف و کرم سے پیش آئے تو اس کے تمام غموں  کا وہ مداوا کرسکتی ہے اور وہ مرد کوبڑے سے بڑے بیڑہ  اٹھانے کے لیے آمادہ  ہی نہیں کر سکتی بلکہ کٹھن کٹھن مہم کو سرکرنے میں معاون و مددگار  بھی ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ  جب حضرت علی اسلام جنگوں میں فدا کاری  و جاں نثاری کی تاریخ رقم کر کے لوٹتے تو صدیقہ طاہرہ  نہ صرف خون آلود لباس دھوتیں  زخموں  کی مرہم پٹی کرتیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی بہادری  و جاں نثاری  کی داد بھی دیتیں ۔ اور آئندہ  جنگوں کیلئے آپ کو آمادہ  بھی کرتیں ۔ لیکن  جس کانتیجہ  یہ ہوا کہ آپ  کی بے مثال فداکاری  و جانثاری کی بدولت اسلام کا پرچم چار دانگ عالم میں لہرایا ۔

بلاشبہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ نے بیوی  ہونے کی حیثیت  سے ہی نہیں  مثالی زندگی بسر کی بلکہ بیٹی او رماں  ہونے کی حیثیت  سے بھی ایسی نے مثل زندگی  گذاری  کہ جس کی نظیر  نہیں پیش کی جاسکتی ۔ بیٹی  ہونے کی حیثیت  سے ایسی  زندگی بسر کی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ کہنا پڑا  فاطمہ رضی اللہ عنہ ام ابیھا ۔ اور ماں  ہونے کی حیثیت  سے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ  امام حسن رضی اللہ عنہ و امام حسین رضی اللہ عنہ اسلام کی بقاء  کے ضامن قرار پائے اور بچیاں جناب  زینب رضی اللہ عنہ  و ام کلثوم طبقہ ٔ نسواں  کیلئے صرف  ماں کی سچی جانشین  ہی ثابت نہ ہوئیں بلکہ صنف نسواں کے لیے نمونہ ٔ عمل قرار پائیں ۔ اور بیوی  ہونے کی حیثیت  سے ایسی مثال  زندگی گزاری کہ خود  حضرت علی رضی اللہ عنہ  یہ فرماتے ہوئے نظرآئے :

‘‘ میں نے کبھی ایسا  کام نہیں کیا جس سے فاطمہ رضی اللہ عنہ  نے بھی مجھے کبھی غضبناک نہیں کیا ’’ مناقت خوارزمی ص 256) بحوالہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ  اسلام کی مثالی  خاتون  مولف آیتہً اللہ ابراہیم امین  مطبوعہ انصاریان پبلیکشن  2007

اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہ  کے اس اصول پر زن و شوہر عمل پیرا  ہوجائیں تو گھر والوں میں ایسی فضا قائم ہوسکتی ہے کہ جس سے گھر  سکون و اطمینان  کا گہوراہ بن سکتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حضرت  فاطمہ  زہرا رضی اللہ عنہ جیسی مطیع و فرمانبردار ہم کارو مددگار زوجہ کی نظیر  دنیا  لانے سے قاصر  ہے ۔ مگر  ضرورت اس بات کی ہے کہ شہزادی  سلام اللہ علیہا کی مثال زندگی  کو نمونہ عمل بنایا جائے تاکہ گھر  جنت  نظیر بن سکے ۔ اور دنیا آخرت  کی نعمتوں سے بہرہ  ور ہونے کا موقع فراہم ہوسکے ۔ تمت با الخیر

6 مارچ، 2013 بشکریہ : روز نامہ اودھ نامہ ، لکھنؤ

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/fatima-ideal-personality-/d/10740

 

Loading..

Loading..