ڈاکٹرعبیدالرحمن ندوی
18 جولائی 2021
حال ہی میں کینیڈا میں
ایک پاکستانی نزاد مسلمان خاندان کو ایک کینیڈین شخص نے دانستہ طور پر ٹر ک سے کچل
دیا جس میں اس خاندان کے تین آدمیوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔بلاشبہ یہ
واقعہ انسانی درندگی اور اس اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بدترین مثال ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ عام طور پر مغرب میں ان واقعات کو دہشت گردی کہاجاتاہے جن میں
مجرم مسلمان ہوتاہے لیکن اگر ایسے واقعات کا مرتکب کوئی غیر مسلم ہوتاہے تو اس کے
جرم کو نفرت یا ذہنی مرض کہہ دیاجاتاہے۔ اور ایسے حادثات کو میڈیا بھی نمایاں نہیں
کرتاہے۔ اگر انصاف کی عینک سے دیکھاجائے تو دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہی رجحان
غالب ہے۔آج اسلاموفوبیا ایک زہر کی طرح پورے سماج میں گھلتاجارہاہے ۔ اور اس کا
جنون ٹوپی، داڑھی، حجاب، مساجد، مینارے اور مقابر تک محدود نہیں بلکہ پوری اسلامی
ثقافت اور تہذیب بھی اس کی زد میں ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ صرف اسلام کو بدنام
کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس کودنیا کے نقشے سے ہٹانے کے لئے بین الاقوامی سوچی سمجھی
اسکیم کے تحت اسلاموفوبیا کی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے۔ فوبیا ایک لاطینی لفظ ہے اس
کے لغوی معنی خوف اور ڈر کے ہیں۔ جیسے Hydrophobiaپانی
سے ڈر، Acrophobiaاونچائی
سے ڈر،Ailurophobiaبلیوں سے ڈر، Phobaphobiaکسی
حادثہ سے ڈر، Aviophobiaاڑنے
سے ڈر، Claustrophobiaبلند
جگہوں سے ڈروغیرہ۔ اسلاموفوبیا کی مندرجہ ذیل تعریفات سے دشمنان اسلام کی اصل منشا
ومقصد سے بخوبی اندازہ ہوجاتاہے۔Runnymede Trust‘کی رپورٹ میں
اسلاموفوبیا کی تعریف اس طرح کی گئی ہے’ایک نظریہ یا عالمی رائے جو بے بنیاد خوف
اور نفرت پر مبنی ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر معاملہ میں مسلمانوں کے ساتھ
امتیاز اور بے گانگی برتی جاتی ہے‘۔امریکی مصنف Stephen
Schwartz نے
اسلاموفوبیا کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:’اسلام کی ہر چیز کی مذمت کرنا، اس کی
تاریخ کو پرتشدد قراردینا، مسلمانوں میں اعتدال پسند اکثریت کی نفی کرنا، اسلام کو
پوری دنیا کے لئے مسئلہ بناکر پیش کرنا ، مسلمان دنیا میں جہاں بھی معرکہ آراء
ہیں، اس بارے میں ان ہی کو قصوروار سمجھنا، مسلمانوں کو ان کے مذہب میں تبدیلی
لانے پراصرار کرنا اور ان کے خلاف محاذ جنگ شروع کرنا‘۔
وکی پیڈیا میں
اسلاموفوبیا کی تعریف اس طرح درج ہےکہ ’اسلاموفوبیا سے مراد اسلام، مسلمان اور
اسلامی ثقافت سے نفرت کا اظہار، اس کی تشریح اس کی طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ ایک
ایسانظریہ جو یہ سمجھتاہے کہ تمام یا اکثر مسلمانوں میں مذہبی تشدد ہوتاہے، وہ غیر
مسلموں کے بارے میں جارحانہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں، مساوات، رواداری اور جمہوریت کے
تصور کو مسلمان یہ سمجھ کر رد کردیتے ہیں کہ یہ سب ان کے مذہب کی تعلیمات کے خلاف
ہیں‘‘۔ (اقلیتوں کے حقوق اور اسلاموفوبیا، صفحہ ۴۲۷-۴۲۸)
آج اسلاموفوبیاکو فروغ
دینے میں میڈیا کا سب سے زیادہ اہم رول رہاہے۔ اور ان کی جانب سے اہم رول کیوں نہ
ہو۔
۹۵
فیصد مغربی میڈیا اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اورمنفی خبروں کو شائع کرنے میں مصروف
عمل ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مغربی میڈیا پر یہودیوں کی بالادستی اور
پوراقبضہ ہے۔ امریکہ کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘،’ نیویارک
ٹائمس‘ ، اور’ وال اسٹریٹ جنرل ‘بھی یہودیوں کے اخبارات ہیں جو امریکی سیاست اور
اقتصادیت پر غیر معمولی کنٹرول رکھتے ہیں ۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے
بکھراؤ اور دنیا میں ایک قطبی نظام کے قائم ہونے کے بعد( جس کی سرپرستی امریکہ
کررہاہے )کو نئی عالمی نظام کے لئے خطرے کے طورپرپیش کرنا شروع کردیاہے اور آخر
میں ۱۱؍۹ حادثہ اوراس کے نتیجے
میں پیش آنے والے واقعات نے اسلاموفوبیا کو جنگی انداز میں فروغ دینے میں کلیدی
رول ادا کیاہے جو ہنوز جاری وساری ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ
’عالمی قوت کی حیثیت سے سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد امریکہ نے جس نئے عالمی
نظام کا خاکہ تیار کیاہے اس کے چار اہم ستون ہیں، ان چاروں کا اصل مقصد یہ ہے کہ
اکیسویں صدی میں جب تک ممکن ہو امریکہ کو واحد سپرپاور کی حیثیت حاصل رہے او رکوئی
متبادل قوت وجود میں نہ رہے۔
یہ چار ستون جن پر امریکی
عمارت تعمیر ہوگی اس طرح ہیں:
۱۔
عالمگیریت (Globalizationجس
کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں ایک ایسا معاشی نظام قائم کیاجائے جس میں آزاد تجارت
، سرمایہ کی آزاد حرکت اور کثیر المقاصد بین الاقوامی کمپنیوں کے ذریعہ عالمی
معیشت پر مغربی اقوام اور خصوصیت کے ساتھ امریکہ کے تسلط کو دائمی شکل دی جائے۔
۲۔
اس نظام کا دوسرا ستون سیاسی ہے، یعنی انفرادی آزادی، جمہوریت، حقوق انسانی کا
تحفظ اور مذہبی رواداری کی ترویج، اور اس کے پردے میں ان ممالک میں ایسے نظاموں کا
قیام عمل میں لایاجائے جن کو سیاسی جوڑتوڑ، مالی
وسائل، معاشی مراعات اور ذرائع معلومات کے توسط سے فکری کنڑول اور تہذیبی غلبے کے
ذریعہ بہ آسانی متاثر کیاجاسکتاہے۔
۳۔
اس نظام کا تیسرا ستون ٹکنالوجی ہے ،خصوصیت سے نیوکلیر اور ہائی ٹیک (HI-TECH) کمپیوٹر ٹکنالوجی
پر مغربی اقوام کی اجارہ داری ہے، نئے دفاعی نظام کا بنیادی ستون امریکہ کی مستقل
اور ناقابل چیلنج عسکری قوت کا استحکام اور اسے جہاں سے بھی کوئی خطرہ ہوا(خواہ وہ
کتنا ہی موہوم کیوں نہ ہو) اسے ختم کرنے کا ہے۔
۴۔
اس نظام کا چوتھا ستون نئی سیاسی حصاربندی ہے جسے بہت ہی ہوشیاری لیکن عیاری کے
ساتھ انجام دیاجارہاہے ، اس میں ناٹو کی توسیع ، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی عسکری
بالادستی کے قیام کے بعد اس کے معاشی غلبہ کے لئے عربوں کے ساتھ صلح کے معاہدہ کی
کوشش، وسط ایشیا میں ایک بار پھر روس اور رمغرب سے منسلک ریاستوں کے مسلمان
ریاستوں پر اثرانداز ہونے اور ہندوستان کو ایک ایشیائی قوت کے طور سے آگے لانے کی
کوشش تاکہ اسلامی ممالک اور وہاں سرگرم عمل اسلامی تحریکوں پر قابوپانے کا منصوبہ
پوراکیاجائے۔
ـ’مفکر
اسلام مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ اپنی تحریروں اور مجلسوں میں برابر
فرمایاکرتے تھے کہ امریکی(عیسائی) وسائل اور یہودی دماغ دونوں ہی اسلام کو جڑ سے
اکھاڑنے میں پوری قوت سے لگ گئے ہیں۔ ایک طرف فوجی طاقت کے ذریعہ مسلمانوں کی نسل
کشی کی جارہی ہے تو دوسری طرف عالمگیریت (Globalization) کے نام سے اعتقادی
اور تہذیبی ارتداد کے سانچہ میں انہیں ڈھالنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے‘‘۔
اب سوال پیداہوتاہے کہ
کیا مغرب اسلاموفوبیا کو آلۂ کاربناکراور گلوبلائزیشن کی حکمت عملی اختیار کرکے
دین اسلام کو صفحہ ٔہستی سے مٹاسکتاہے۔ جو اب یقینا نفی میں ہوگا۔ بھلا ذرا سوچئے
جو دین اللہ کا پسندیدہ ہو اور جس کے بارے میں ارشاد خداوندی یوں ہو’’یہ
لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (یعنی دین اسلام) کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر)
بجھا دیں ، حالانکہ اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا کر رہے گا۔
18 جولائی 2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism