ڈاکٹر نسيا شيمير
25 مارچ 2014
اس ہفتے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ اپنے قانونی اداروں میں وراثت کے تعلق سے شرعی قوانین کو بھی شامل کرے گا تاکہ وکلاء اسلامی قانون کی روشنی میں وصیت نامہ تحریر کر سکیں۔ اس اقدام کے ساتھ ہی خواتین، غیر مسلموں اور گود لیے گئے بچوں کے لیے وراثت کا حق کالعدم قرار دیا جائے گا۔
یہ اقدام مغرب کے لئے ایک دور رس اسلامی نقطہ نظر کا حصہ ہے۔ روایتی اسلامی عقائد کے مطابق پوری دنیا دو حصوں میں منقسم ہے: ‘‘دار الاسلام’’ (اسلام کا گھر) وہ خطہ جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو، اور "دار الحرب" (جنگ کا گھر) وہ علاقہ جہاں کافروں کی حکومت ہو، اگر چہ ایک طویل عرصے کے لیے نہیں لیکن کم از کم پوری دنیا کو مسلم بنانے کے ایک تصور کے مطابق۔ جبکہ ماضی بعید میں دنیا کے ایک بڑے حصے پر اسلام کی حکومت رہی ہے، 19ویں صدی کے اواخر سے لیکر 20ویں صدی کے اوائل تک یہ ابھرتے ہوئے مغرب کی راہیں مسدود کرتا رہا۔ مسلمان مغرب کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ہم قدم ہونے کے قابل نہیں تھے اور ان کے احساس کمتری کی روشنی میں یہ واضح ہو گیا کہ مسلم عالمی غلبہ کا خواب بھی مدھم ہو رہا تھا۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جدید اسلام میں ایک نئے نظریہ نے جنم لیا ہے جسکا مقصد مغرب میں رہنے والے ہر پانچ مسلمانوں میں سے ایک کے چیلنج کا سامنا کرنا ہے جہاں اس کے بجائے کہ اسلام کی حکومت کافروں پر ہو معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس دشوار کن صورت حال نے ایک نئی اصطلاح کو جنم دیا ہے۔ ‘‘دار الاسلام’’ اور "دار الحرب" کا زمانہ گزر گیا اب اس کی جگہ ‘‘عالمیۃ الاسلام’’ یا ‘‘گلوبلائزڈ اسلام’’ نے لے لیا ہے۔ اس نئی اصطلاح کے مطابق مغربی کافر حکومت کے تحت رہنے والے ایک مسلمان کے ساتھ اسلامی قانون کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے اسے ایک ذمہ داری قرار دیا گیا ہے اور یہاں تک کہ ایک نعمت کے طور پر بھی اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ آج کی دنیا میں تشدد سے فتح حاصل کرنے کا رواج نہیں رہا جیسا کہ یہ اس مشہور کہاوت میں پایا جاتا ہے کہ " محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) فیصلہ تلوار کے ذریعہ ہوتا ہے، بلکہ آج میڈیا، انٹرنیٹ، عوام کی رائے، قانونی اور اقتصادی نظام کے ذریعہ فتح حاصل کی جاتی ہے۔
عصر حاضر میں مسلمانوں کی خواہش "دعوت" (مذہب تبدیل کروانے یا اسلام کی تبلیغ) کے ذریعہ مغرب پر اسلامی اقدار کو نافذ کرنے کی ہے۔ لہذا ، مغرب میں بسنے والا ہر مسلمان بنیادی طور پر اسلام کا سفیر ہے اور اپنے اخلاق کے ذریعہ کافروں کے لئے ایک رول ماڈل بن کر اسلام کے اخلاقی اقدار کی نمائندگی کرنا اس کا فریضہ ہے۔ مختصر یہ کہ وہ ‘‘محبوس بچوں’’ کی طرح ہیں کہ جنہیں اپنے دائیں اور بائیں کی بھی تمیز نہیں ہے اور ان کی آنکھیں کھولنا اور ان کو صحیح راستہ دکھانا یعنی سچے مذہب کی دعوت دینا ان کی ذمہ داری ہے۔
مطابقت پیدا کرنے میں نہ کہ اس سے مغلوب ہونے میں مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی مدد کے لیے روایتی شرعی قوانین میں ایک چھوٹا سا ضمیمہ شامل کیا گیا تھا اور وہ اقلیت میں ہونے کا ایک نیا مذہبی قانونی نظریہ ہے۔ اس سے کچھ خاص رعایتوں کا تعین ہوتا ہے جو کہ صرف مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اس سمجھ بوجھ کے ساتھ قابل انطباق ہے کہ " اگر آپ نے بہت کچھ پر قبضہ کر لیا ہے تو آپ نے قبضہ نہیں کیا ہے" اوریہ کہ اگر مادیت پرست مغربی معاشروں میں مسلمانوں پر شرعی قانون سخت اور ناگوار گزر رہے ہیں تو وہ مکمل طور پر مغربی معیار کو اپنانے کے لئے سزاوار ہیں، جو کہ مسلم غلبے کے نقطہ نظر کے لئے ایک مصیبت ثابت ہوں گے۔
مثال کے طور پر شرعی قانون میں سود لینے اور دینے کو حرام قرار دیا گیا ہے جبکہ مغربی مسلمانوں کے لیے یہ ماذون ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ ایک مسلم خاندان سے ہمیشہ کے لیے گھر کرایہ دینے کے لیے کہنا نامعقول ہے۔ اسی طرح کی ایک سہولت ایک عیسائی جوڑے کو فراہم کی گئی تھی جس میں بیوی نے اسلام قبول کرنے کی کوشش کی تھی: عام شرعی قانون کے مطابق اس طرح کے اقدام سے از خود طلاق واقع ہو جاتی ہےاس لیے کہ ایک مسلمان عورت ایک غیر مسلم مرد سے شادی نہیں کر سکتی۔ نئے مغربی شریعت میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ ایک مسلمان عورت عیسائی شوہر کے ساتھ اپنا نکاح باقی رکھ سکتی ہے اس لیے کہ اس کا مقصد قربت بڑھانا ہے دوریاں پیدا کرنا نہیں، آسانی پیدا کرنا ہے مشکلات نہیں۔ اور اس سلسلہ میں شوہر کا کیا مسئلہ ہے؟ اس میں فکر کرنے کی بات نہیں ہے وہ بھی آخر کار ہدایت پا ہی لے گا۔ اسی طرح کی رضامندی ایک بچے کو گود لینے کے معاملے میں بھی دی گئی تھی جو کہ اسلام میں حرام ہے، اور کھانے کے قوانین اور تدفین کے قوانین میں بھی ایسی رعایتیں دی گئی تھیں۔
اس نئے نظریہ کے پیچھے دو معزز شیوخ کا فلسفہ کار فرما ہے: 1. ورجینیا میں قرطبہ یونیورسٹی کے صدر، ڈکٹر طٰہٰ جابر علواني اور 2. مشہور و معروف ڈاکٹر یوسف القرضاوی۔ لندن میں رہنے والوں کو یقیناًوہ موقع یاد ہوگا کہ جب لندن کے سابق میئر کین لیونگ اسٹون نے القرضاوی کا پر جوش استقبال کیاتھا اور ساتھ ہی ساتھ ایک ایسے انسان کی میزبانی کرنے پر ان کے خلاف احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئی تھیں جنہیں "دہشت گردی کا شیخ" مانا جاتا ہے۔
اسلام ایک منظم نظریہ اور "مراحل کی منصوبہ بندی" کے اپنے طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے، برطانیہ اب بھی یہ سمجھنے کو راضی نہیں ہے کہ شراب پر پابندی، پرتشدد احتجاج، گلیوں میں فوجیوں کا قتل اور امتیازی قوانین اس بات کا ایک ادنیٰ اظہار ہیں کہ اگر وہ اپنے موجودہ راستے پر جاری رہا تو مستقبل میں اس کے کیا نتائج سامنے آنے والے ہیں۔
ڈاکٹر نسيا شيمير برایلان یونیورسٹی کے میڈل ایسٹرن ہسٹری ڈپارٹمنٹ میں لیکچرر ہیں۔
ماخذ: http://www.israelhayom.com/site/newsletter_opinion.php?id=7833
URL for the English article: https://newageislam.com/islam-west/britain-shariah-alarm-bell/d/66272
URL for th article: https://newageislam.com/urdu-section/britain-shariah-alarm-bell-/d/66356