اگر آیت 5:32 کو نافذ کیا
گیا تو اس دنیا کو تباہ کن نیوکلیائی جنگ کی آگ سے بچایا جا سکتا ہے۔
اہم نکات:
1. پوری دنیا میں
پھیلے ہوئے اسلامو فوبیا کی ایک اہم وجہ قرآن کی غلط تفہیم ہے
2. اسلام نے قدیم خانہ
بدوش عرب قبائل کو جنگ کی اخلاقیات اور معصوم انسانی جانوں کی حرمت کی تعلیم دی ہے
3. جدید جنگ کی اسلام
میں کوئی جگہ نہیں ہے، جو قرآن کی آیات (2:190، 5:32 اور 60:8) سے واضح ہے۔
4. میدان جنگ میں ہونے
والے مظالم اور غیر انسانی جنگی طرز عمل اسلام کی آمد سے پہلے عرب ثقافت کا بھی
حصہ تھے
------
ڈاکٹر نازیہ نذر، نیو ایج
اسلام
26 مئی 2022
-----
Photo
courtesy: The Muslim vibe
-----
پوری دنیا میں پھیلے ہوئے
اسلامو فوبیا کی ایک اہم وجہ اسلام کی مقدس کتاب قرآن کی غلط تفہیم ہے۔ یہ غلط
فہمی عام ہے کہ قرآن میں جنگ اور تشدد کے حوالے سے مسلمانوں کو غیر مسلموں کے خلاف
ہتھیار اٹھانے پر اکسایا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قرآن پر تنقید کرنے والوں کی
اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اسے آخری صفحہ تک پڑھا ہی نہیں ہے۔ وہ اسلامو
فوبیائی جذبات کو بھڑکانے کے لیے قرآن کی آیات کا حوالہ دے کر جاہلوں کو گمراہ
کرتے ہیں۔
پھر بھی، یہ سوال اہم ہے
کہ: قرآن میں لڑائیوں اور میدان جنگ کے حوالے کیوں موجود ہیں؟ اس کا جواب بہت آسان
ہے۔ جنگ انسانیت کے آغاز سے ہی انسانی تہذیب کا حصہ رہی ہے۔ ما قبل اسلام کی عرب
تاریخ بھی اسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ ایک اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ قدیم عرب
قبائلی نظام میں کسی بھی طرح کی مرکزی حکومت یا سیاسی اداروں کا کوئی تصور نہیں
تھا۔ نتیجتاً، معاملات طے کرنے کا ایک واحد ذریعہ جنگ ہی تصور کیا جاتا تھا۔ [1]
قبائل کے درمیان معمولی باتوں پر بھی پیدا ہونے والی دشمنی کئی کئی دہائیوں تک
جاری رہتی تھی جس کے نتیجے میں جنگوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔
میدان جنگ میں ہونے والے مظالم اور غیر انسانی جنگی طرز عمل بھی اسلام کی آمد سے
قبل عرب ثقافت کا حصہ تھے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ لڑائی عرب قبائل کے
لیے ایک قسم کا کھیل تھا۔ چودہ سو سال قبل جنگ کے عادی عربوں کے اخلاقی انحطاط کو
مدنظر رکھتے ہوئے، قرآن کی وہ آیات کسی انقلابی پیغام سے کم نہیں تھیں، جن میں
تنازعات سے بچنے کی حکمت عملی، دفاعی جنگ کے اخلاقیات اور انسانی مداخلت کے رہنما
اصول پیش کیے گئے ہیں۔
قرآن کے گہرے مطالعہ سے
پتہ چلتا ہے کہ آیات 4:140 اور 6:68 گستاخانہ تصادم کی صورت میں تنازعات کی روک
تھام سے متعلق ہیں۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 140 کہتی ہے، ’’جب تم اللہ کی آیتوں کو
سنو کہ ان کا انکار کیا جاتا اور ان کی ہنسی بنائی جاتی ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ
بیٹھو جب تک وہ اور بات میں مشغول نہ ہوں'' (4:140)۔ اسی موضوع پر سورہ انعام کی
آیت نمبر 68 میں بھی بحث کی گئی ہے، ’’اور اے سننے والے! جب تو انہیں دیکھے جو
ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے جب تک اور بات میں پڑیں‘‘ (6:68)۔
مسلمانوں کو دور رہنے کا
حکم دے کر، قرآن غصے اور جارحیت کے سدباب کے لیے اشتعال انگیز صورتحال کو ختم کرنے
کی بہترین حکمت عملی پیش کرتا ہے۔ تاہم، مندرجہ بالا آیات سے ایک عمومی پیغام یہ
بھی ملتا ہے کہ ہمیں اپنے منفی جذبات پر قابو رکھنا اور تنازعہ کے ہر امکان کے
سدباب کے لیے تمام تر کوششیں کرنی چاہیے۔ ہاں یہ درست ہے کہ قرآن ہمیں اپنے دفاع
میں لڑنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن صرف اس صورت میں کہ جب صرف جنگ ہی وجود کے بقا کی
آخری صورت نظر آنے لگے۔
ان آیات کے سیاق و سباق کو
جانے بغیر جنگ سے متعلق قرآنی آیات کا تجزیہ کرنا ناانصافی ہے۔ اسلام کے ابتدائی
ادوار میں، پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خاندان اور آپ کے پیروکاروں کو
مکہ کے کافروں نے شدید نقصان پہنچایا۔ اور مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے سے
روکنے کی پوری کوشش کی۔ غیر مسلم روسائے عرب نے نئے نئے اسلام قبول کرنے والوں پر
ان کی قوت برداشت سے کہیں زیادہ مظالم کے پہاڑ ڈھائے۔ مسلمانوں کو بے دردی سے مارا
پیٹا گیا، گلے میں رسیاں ڈال کر انہیں گھسیٹا گیا، اور تپتے ہوئے صحرائی آب و ہوا
میں جلتی ریت کے اوپر لیٹا کر انہیں زدوکوب کیا گیا۔ کفار مکہ نے اذیت ناک اور
وحشتناک طریقے استعمال کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہراساں کرنے میں کوئی
کسر نہیں چھوڑی۔ [3] ایک موقع پر، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی
ناکام سازش رچیں۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیروکاروں کا انتہائی
دردناک سماجی اور معاشی بائیکاٹ بھی کیا، اور یہ نفوس قدسیہ کئی کئی مہینوں تک
درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوئے۔ بھوکے اور شیر خوار بچوں کی چیخیں مشرکین کے
دل کو نہ ہلا سکیں۔ [4] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسلسل 12 سالوں تک ان کی جانب سے مسلط کیے گئے تمام
مظالم کو سینے پر پتھر رکھ کر برداشت کیا اور انتقامی کارروائی سے خود کو روکے
رکھا۔ ان کے تباہ کن ظلم و ستم سے بچنے کے لیے مسلمانوں نے پہلے حبشہ اور پھر آخر
کار مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ تاہم مکہ کے مشرکین مسلمانوں کا پیچھا کرتے رہے اور
مدینہ میں بھی انہیں نقصان پہنچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
چنانچہ اب مسلمانوں کے پاس
لڑنے یا مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ اسی تناظر میں مسلمانوں کو اپنے
دفاع میں جوابی جنگ کی اجازت قرآن میں دی گئی اور جنگ سے متعلق آیات نازل ہوئیں۔
[5]
اقوام متحدہ کے چارٹر کا
آرٹیکل 51 بھی اسی حق کو اس وضاحت کے ساتھ منظور کرتا ہے کہ "اگر اقوام متحدہ
کے کسی رکن کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے تو موجودہ چارٹر میں سے کوئی بھی چیز
اجتماعی یا انفرادی سطح پر اپنے دفاع کے موروثی حق کو متاثر نہیں کرے گی۔"
[6]
اسلام میں، جنگ کی اجازت
چند حالات میں دی گئی ہے۔ مثلاً، اپنے دفاع میں (قرآن، 191-2:190، 22:39)، کسی
مخالف کی طرف سے امن معاہدوں کی خلاف ورزی کی صورت میں (9:13)، یا کمزور اور بے
سہارا لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لیے (4:75)۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن کا
جنگ اور امن کا نظریہ سماجی انصاف کے آئیڈیل پر منحصر ہے۔ اس لیے قرآن میں امن اور
انصاف لازم و ملزوم ہیں۔ لہٰذا، مظلوموں کو ظاموں کے رحم و کرم پر چھوڑنا قرآن کے
سماجی انصاف کے تصور کے خلاف ہے۔ اگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ناروا سلوک یا اذیت
کا شکار ہو تو امن کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ لہٰذا قرآن مظلوموں کو ظالموں کے رحم و
کرم پر چھوڑنے کی حمایت نہیں کرتا، جو سورہ نساء میں واضح ہے:
’’اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ
لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے یہ دعا کررہے
ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے
کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے۔" (4:75)۔
مندرجہ بالا آیت درحقیقت
ان حالات پر روشنی ڈالتی ہے جب انسانی مداخلت ایک اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے۔
مزید برآں، 'خدا کی راہ میں لڑنا' کے جملے کو اسلام کی ترویج کے لیے لڑنا نہیں
سمجھنا چاہیے۔ آیت (4:75) میں اشارہ کر دیا گیا ہے کہ 'خدا کا مقصد' کمزوروں اور
مظلوموں کی حفاظت کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک
انصاف کا تعلق ہے قرآن مسلمانوں اور غیر مسلموں میں فرق نہیں کرتا۔ قرآن میں کہا
گیا ہے کہ ’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر
ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی
طرف پلٹ آئے، پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو،
بیشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں،" (49:9)۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ
اسلام میں صرف ایک ریاست کو ہی جنگ کرنے کا حق ہے اور غیر ریاستی عناصر ایسی مہمات
کی قیادت نہیں کر سکتے۔ مزید برآں امن کو ترجیح دی جانی چاہیے اور ہر قدم پر قیام
امن کی کوشش کی جانی چاہیے۔ چنانچہ قرآن جنگ جاری رکھنے سے منع کرتا ہے اگر مخالف
صلح کی طرف مائل ہو:
’’پھر اگر وہ باز رہیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،‘‘
(2:192)۔
’’اور ان سے لڑو یہاں تک
کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں تو زیادتی نہیں
مگر ظالموں پر‘‘ (2:193)۔
’’اور اگر وہ صلح کی طرف
جھکیں تو تم بھی جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، بیشک وہی ہے سنتا جانتا،‘‘ (8:61)۔
اسلام میں امن کی کوشش جنگ
جیتنے سے زیادہ اہم ہے۔ جہاں تک جنگ کا تعلق ہے، قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ تمام
غیر جنگجوؤں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا ضروری ہے۔ صراحت کے
ساتھ اللہ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے
اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا
برتاؤ برتو، بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں،‘‘ (60:8)۔
اب یہ واضح ہو چکا کہ
اسلام خود غرضی اور دنیاوی فائدے اور انا کی تسکین کے لیے جنگ کی اجازت نہیں دیتا۔
سورہ بقرہ کی آیت 190، ’’جو تم سے لڑتے ہیں ان سے لڑو‘‘ واضح طور پر دو اہم نکات
پر روشنی ڈالتی ہے۔ پہلا یہ کہ لڑائی کی اجازت صرف اپنے دفاع میں ہے یا ظلم و ستم
کو روکنے کے لیے ہے۔ اور دوسرا، جنگ صرف دشمن کے جنگجوؤں کے خلاف لڑی جا سکتی ہے۔
دشمن گروہ سے تعلق رکھنے والے غیر جنگجو اور عام شہریوں کو نقصان نہیں پہنچایا جا
سکتا کیونکہ یہ قرآنی اور اسلامی تصور عدل کے خلاف ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو
متنبہ کرتا ہے کہ ’’اے ایمان والوں اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ
گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف
کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں
کی خبر ہے،‘‘ (5:8)۔ مزید برآں، آیت 5:32 ایک معصوم انسانی جان کی حرمت کو بیان
کرتی ہے جس میں دہشت گردی، نسل کشی، قتل عام یا ایسی کسی بھی تباہ کن سرگرمیوں کی
کوئی گنجائش نہیں ہے جس سے شہری آبادی کو نقصان پہنچے۔ آیت کے مطابق، "اس سبب
سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا
زمین میں فساد کیے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلا
لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے
ساتھ آئے پھر بیشک ان میں بہت اس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں‘‘ (5:32)۔
اسلام میں، کوئی بھی چیز
شہریوں کے قتل کو جائز نہیں بنا سکتی، چاہے وہ کسی بھی برادری یا مذہب سے تعلق
رکھتے ہوں۔ اسلامی نقطہ نظر سے، جنگ میں سب کچھ جائز نہیں ہے بلکہ جنگ کے لیے کچھ
سخت قوانین ہیں - ان میں سے ایک معصوم کی حفاظت کرنا ہے۔ چودہ صدیاں قبل جنگیں
تلواروں سے لڑی جاتی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسلمانوں نے
نہ صرف غیر جنگجوؤں کی حفاظت کو یقینی بنایا بلکہ ماحول کو جنگ کے خطرات سے بچانے
کا بھی خاص خیال رکھا۔ بدقسمتی سے، جدید جنگ میں یہ ناممکن لگتا ہے۔ بارود کی ایجاد
کے بعد ہونے والی جنگوں میں جنگجوؤں اور غیر جنگجوؤں سب کی بے دریغ ہلاکتیں ہوئیں۔
جیسے جیسے فوجی صنعتوں نے ترقی کی اور جدید ہتھیار تیار کیے اور ایٹمی بم، میزائل
اور ڈرون بنائے گئے، شہریوں کی اموات بے تحاشہ بڑھ گئیں۔ اب شہری آبادی کے تحفظ کو
یقینی بنانا تقریباً ناممکن ہے، جو کہ جنگ کی اسلامی اخلاقیات میں سے ایک ہے۔
ہٰذا، اب یہ بتانے کی
کوئی ضرورت نہیں کہ جدید جنگ کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے، جو قرآن مسے واضح ہے
(2:190، 5:32 اور 60:8)۔
لہٰذا، ایک بار پھر میں یہ
کہنا چاہوں گا کہ اسلام نے قدیم خانہ بدوش عرب قبائل کو جنگ کی اخلاقیات اور معصوم
انسانی جانوں کی حرمت کی تعلیم دی ہے۔ اگر آیت 5:32 پر عمل کیا گیا تو یہ دنیا
تباہ کن ایٹمی جنگ سے محفوظ ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم
دونوں یکساں طور پر قرآنی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں۔
----
اختتامی نوٹ
English
Article: The Quranic Concept Of War And Peace: Has Modern
Warfare Any Place?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism