New Age Islam
Mon Feb 10 2025, 05:11 AM

Urdu Section ( 15 Jul 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Civil Services and Muslim Candidates سول سروس امتحان اور مسلم امیدوار

 

ڈاکٹر مشتاق احمد

14 جولائی، 2015

ملک کے سب سے اہم مسابقاتی امتحان یعنی یو پی ایس سی ، سال 2014 کا نتیجہ آچکا ہے ۔اس امتحان میں کل 1236 خوش قسمت امتحان دہند گان کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ ان میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلم طبقے کے کل 38 امیدوار شامل ہیں ۔ ان دنوں قومی سطح پر اس سول سرو سز کے نتائج پر تبصرہ ہورہا ہے۔ حسب معمول اردو میڈیا میں مسلم امیدواروں کی کامیابی کو قدرے اولیت دی جارہی ہے ۔ میرے خیال میں اردو میڈیا کا یہ قدم قابل تحسین ہے،کیونکہ قومی میڈیا میں مسلم امیدواروں کے تعلق سے حوصلہ افزاء خبریں شائع نہیں ہورہی ہیں ۔ البتہ ٹاپ ٹین میں یا پھر ٹاپ 100 میں مسلم طلبہ شامل ہیں ان کو تھوڑی سی جگہ مل رہی ہے۔ جب کہ دیگر کامیاب امیدوار وں کے انٹرویو اور ان کے تعلق کی خبروں کو فوقیت دی جارہی ہے۔ممکن ہے کہ ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا جارہاہو ، لیکن ضرورت تو اس بات کی ہے کہ جو طبقہ تعلیمی، اقتصادی اور معاشرتی وسماجی اعتبار سے پسماندہ ہے ا ن کی حوصلہ افزائی زیادہ ہونی چاہئے ، تاکہ اس طبقے کے دیگر طلبہ کے اندر قومی سطح کے اس باوقار مسابقاتی امتحان میں شامل ہونے کا رجحان پیدا ہوسکے ۔ کیونکہ ملک کی کل آبادی مسلم طبقے کی 14.2فیصد حصے داری ہے۔ لیکن آزادی کے بعد سے اب تک اس قومی سطح کے امتحان میں مسلمانوں کا فیصد تین سے زیادہ نہیں ہوسکا ہے۔ اگرچہ سول سروس کے امتحان میں اس سال سب سے زیادہ 38 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ،جو ایک حوصلہ افزاء کا رکارڈ ضرور ہے، لیکن آبادی کے تناسب میں یہ نمبر بھی مایوس کن ہے ۔ کیونکہ اس حقیقت سے تو ہم سب واقف ہیں کہ یہ امتحان ملک کے سب سے اہم اور باوقار عہدوں پر تقرری کےلئے راہیں ہموار کرتا ہے ۔

آزادی سے قبل جو رتبہ آئی سی ایس آفیسروں کا ہوا کرتاتھا ، آزاد ملک میں وہی رتبہ آئی اے ایس، آئی پی ایس اور دیگر الائڈسروس کیڈر کے آفیسروں کا ہے۔ بالخصوص آئی اے ایس اور آئی پی ایس ملک کے انتظامی امور کے علمبردار تسلیم کئےجاتےہیں ، کہ ان کے ذریعہ ہی ملک کی انتظامی اور حفاظتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں او رعمل میں بھی لائی جاتی ہیں ۔ اس امتحان کے متعلق یہ رائے بھی عام ہے کہ اب تک یوپی ایس سی ادارہ ذہنی تعصّبات و تحفظات سے قدرے محفوظ ہے او ریہاں صرف اور صرف علمی صلاحیت اور ذہنی پختگی کی بنیاد پر فیصلے لئے جاتے ہیں۔ اسی لئے قومی سطح پر اس ادارے کے امتحانات او رنتائج کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ۔مختصر یہ کہ ہر سال سول سروسز امتحان میں ملک کے گوشے گو شے کے امیدوار کا میاب ہوتے ہیں، بعض ایسے دور افتادہ مقام کے امیدوار بھی کامیابی حاصل کرتےہیں جہاں اب تک ذرائع ابلاغ کی بھی ٹھیک سے پہنچ نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن ان علاقے کے بھی امیدوار اپنی محنت و مشقت کی بدولت اس امتحان میں اپنا مقام حاصل کرتے ہیں او رملک کے مین اسٹریم کی سروس میں شامل ہوتے ہیں۔ جہاں مسلم اقلیت طبقے کا اس امتحان میں حصے داری کا سو ال ہے ، تو ذکر پہلےہی آچکا ہے کہ وہ آبادی کے تناسب سے مایوس کن ہے اور میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلم اقلیت طبقے کے نوجوانوں کے اندر اس قومی امتحان کے تئیں دلچسپی کی کمی ہے۔

ورنہ مسلم طبقے کے دانشور اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور وفکر کریں اور اس امتحان میں مسلم امیدوار وں کی شمولیت کے رجحان کو فروغ دینے کے لئے اجتماعی کوششیں کریں تو وہ دن دور نہیں کہ اس امتحان میں مسلم امیدواروں کے تناسب میں قابل قدر اضافہ ممکن ہوسکے ، کیونکہ گذشتہ پانچ چھ برسوں میں خطہ جمو ں اورکشمیر جہاںمسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں اس امتحان کے تئیں طلبہ کے اندر دلچسپی بڑھی ہے اور ان کی شمولیت کی تعداد میں اضافہ ہواہے، نتیجتاً گذشتہ پانچ برسوں کے سول سروس امتحان کے نتائج میں اس خطے کے طلبہ کی تعداد میں قابل تحسین اضافہ ہوا ہے۔ اس سال بھی پورے ملک سے جہاں 38 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ان میں دس امیدوار جموں و کشمیر کے ہیں، واضح ہوکہ جموں و کشمیر جو تین دہائیوں تک دہشت گردی اور خون خرابے کے حوالے سےسرخیوں میں رہتاتھا ، اب وہ ملک کے سب سے اہم باوقار امتحان کے نتائج میں قابل قدر حصے داری کی وجہ سے سرخیوں میں رہتا ہے اور ایسا اس لئے ممکن ہوسکا کہ وہاں کے دانشور طبقے نے مل جل کرسول سروس کے امتحان میں مسلم طبقے کے طلبہ کی شمولیت کے رجحان کو فروغ دیا ہے ۔ اس میں کئی رضاکار تنظیموں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ مثلاً زکوٰۃ فاؤنڈیشن ، ہمدرد فائنڈیشن، حج کمیٹی اور آف انڈیا اور دیگر ریاستی تنظیموں نے بھی اس امتحان میں مسلم طلبہ کی شمولیت کے لئے تحریک بیداری کو استحکام بخشا ہے۔ ریاست بہار میں بھی رحمانی فاؤنڈیشن کے روحِ رواں مولانا ولی رحمانی اور حکومت بہار کے محکمہ ٔ اقلیتی فلاح و بہبود کے پرنسپل سکریٹری عامر سبحانی نے بھی سول سروس امتحان میں مسلم طلبہ کی شمولیت کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ واضح ہوکہ عامر سبحانی  خود ایک آئی اے ایس ٹاپر ہیں، اس لئے وہ اس امتحان کی عصری معنویت و اہمیت سے قوم وملت کے نوجوانوں کو آگاہ کرنا چاہتےہیں ۔ ان کے ذریعہ حج بھون، پٹنہ میں اس مسابقاتی و مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کیلئے کوچنگ کا اہتمام کیا گیا ہے ۔

ممکن ہے کہ آئندہ مستقبل میں ریاست کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کی کوچنگ کا اہتمام ہوسکے، تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ اس سےاستفادہ کر سکیں ۔ میں نے دوسال پہلے ایک ادبی جلسے میں یہ تجویز رکھی تھی کے ملک میں جتنی اردو اکادمیاں ہیں ان کے ذریعہ بھی اس قومی سطح کے امتحان کےلئے تحریک بیداری چلائی جانی چاہئے اور کوچنگ مراکز بھی قائم کی جانی چاہئے ۔ اور اس کےلئے کم سے کم پانچ سالوں تک اردو ادیبوں اور شاعروں کو جو سرکاری رقوم بطور انعامات او راشاعتی امداد دی جاتی ہے ، اس کو موقوف کر کےمسلم طلبہ کے لئے کوچنگ کا اہتمام کیا جانا چاہئے ، کیونکہ ایک جمہوری ملک میں ملک کے انتظامی امور کے اعلیٰ عہدوں کی ایک غیر معمولی اہمیت ہے اور جب تک اعلیٰ عہدوں میں ہماری حصہ داری نہیں بڑھے گی ، اس وقت تک ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ہماری ترقی کے راستے ہموار نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ ملک کی تمام تر پالیسیاں ان ہی سول سروسز کے بیورو کریٹس کے ذریعہ طئے پاتی ہیں ۔ اگر اس میں ہماری نمائندگی نہیں ہو گی تو شعبہ ٔ حیات کے مختلف محاذ پر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ اس وقت ملک میں اردو کا سب سے بڑا قومی ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان  ، نئی دہلی ہے اور اس کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم جیسے فعال و متحرک اردو کے سپہ سالار ہیں ۔ اگر قومی کونسل اس کو اپنے ہاتھوں میں لے ، تو ممکن ہے کہ سول سروسرس کے امتحان میں اقلیت طبقے کے طلبہ کی شمولیت میں اصافہ ہوسکے ۔ کیونکہ اس کا دائرہ کار پورا ملک ہے اور اس کے پاس مناسب بجٹ بھی ہے ۔

 واضح ہوکہ کونسل کے مقاصد میں اگرچہ اقلیت طبقے کی زبان و ادب کو فروغ دیناشامل ہے۔لیکن ملک کے مین اسٹریم  کے اس امتحان میں اقلیت طبقے کےطلبہ کو شامل کرانا بالخصوص اردوطلبہ کے لئے کوچنگ کا اہتمام  کرنا بھی تولسانی خدمات میں شامل ہے۔ اس لئے قومی کونسل کو بھی اس مسئلہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہر کیف ! اس سال کے کامیاب امیدواروں میں ہماری نصف آبادی یعنی ہماری لڑکیوں نے بھی حوصلہ افزا کامیابی حاصل کی ہے ۔ ریاست بہار  سے تعلق رکھنے والی غنچہ صنوبر نے آئی پی ایس حاصل کیا ہے، تو کرناٹک کے فوزیہ ترنم نے آئی اے ایس زمرے نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ 1977 کے بعد یہ رکارڈ کامیابی ہے اس سال سول سروس امتحان میں 34 مسلم امیدوار کا میاب ہوئےتھے ۔ جب کہ اس سال 38 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے قومی سطح کے اس باوقار امتحان میں بھی اپنی شمولیت کے تئیں بیدار ہوں اور اپنی علمی لیاقت و صلاحیت کی بنیاد پر ملک کے انتظامی امور کے اعلیٰ عہدوں تک رسائی حاصل کریں ، کہ اس ملک کی تقدیر اور تصویر بنانے میں ان عہدیداروں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ اگر ہم  اولاً اس امتحان میں شمولیت کے تئیں بیدار ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنی آبادی کے تناسب کے مقابلے اس باوقار سول سروس میں بھی اپنی حصے داری میں اضافہ کرسکیں گے ۔

حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد

پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی

14 جولائی، 2015 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/civil-services-muslim-candidates-/d/103902

 

Loading..

Loading..