ڈاکٹر مشتاق احمد
12جولائی،2020
دنیا میں اُردو ایک ایسی
واحد بد قسمت زبان ہے کہ جو جہاں کی مٹی میں پیدا ہوئی ،آب وہوا میں پروان
چڑھی،عوام الناس کی سانسوں میں رچ بس گئی ،تہذیب وتمدن اور ثقافت کا حصہ بن گئی
اور جس کے نثری وشعری ادب کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا وہ زبان دیکھتے ہی دیکھتے
اپنی جائے پیدائش ہی میںذہنی تعصب وتحفظ کا شکار ہوگئی۔سیاسی جبر واستبداد نے نہ
صرف اس کی تہذیبی شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش کی بلکہ اس ملکی لسانی وراثت کو فرقہ
وارانہ رنگ دے کر اس زبان کے چاہنے والوں کے گھروں سے بھی بے گھر کرنے کی سازشیں
رچی گئیں اور وہ کامیاب بھی ہوئے کہ جس دو آبہ کے علاقے میں اردو کی پیدائش ہوئی،
اس علاقے میں اب اُردو کی تختیاں بھی نظر نہیں آتیں اور اسکول وکالج سے تو کب کی
رخصت ہو چکی۔ البتہ رابطے کی زبان کے طورپر اس کا چلن اب بھی موجود ہے۔
میری مراد اتر پردیش سے
ہے کہ جہاں کبھی اردو زبان وادب کا گھر گھر چرچا تھا، وہاں اس کی لَو اتنی مدھم ہو
گئی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کبھی یہ زبان بہ صورتِ چراغ روشن تھی۔ کم وبیش یہی
حال شمالی ہند کی دیگر ریاستوں کا بھی ہے ۔ شکر ہے کہ جنوبی ہند میں اس زبان کیلئے
نئی فضا سازگار ہوئی ہے بالخصوص مہاراشٹر، کرناٹک، آندھرا اور تمل ناڈو میں اردو
زبان وادب کی تعلیم کا راستہ ہموار ہوا ہے اور ہزاروں اردو میڈیم اسکول چل رہے ہیں
لیکن جس علاقے میں کبھی اردو زبان کا ڈنکا بجتا تھا وہاں سے وہ بے دخل ہو رہی ہے۔
اس کے لئے صرف اور صرف حکومت کا تعصبانہ رویہ ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اردو معاشرہ
بھی اردو کی جڑ کاٹنے میں معاون رہا ہے۔اردو معاشرے میں اردو کی تعلیم کی طرف توجہ
کم ہوتی چلی گئی اور روز مرہ کی عملی زندگی میں بھی اس کے استعمال سے کنارہ کشی کا
ماحول پروان چڑھتا رہا ۔ نتیجہ ہے کہ اردو کا دائرہ سمٹتا چلا گیا۔
واضح ہو کہ بہار ملک کی
پہلی ریاست ہے جہاں اردو کو دوسری سرکاری ریاستی زبان کا درجہ حاصل ہے اور سرکاری
سطح پر اس کے فروغ کیلئے لائحہ عمل بھی تیار کئے گئے اور تمام بلاک و اضلاع میںارد
ومترجم، نائب مترجم اور ٹائپسٹ کی بحالیاں ہوئیں لیکن ارد ومعاشرے نے اردو میں
سرکاری دفاتر میں درخواست دینا کسرِ شان سمجھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اب شاذ ونادر
ہی کسی بلاک یا ضلع میں اردو کی درخواستیں دی جاتی ہیں۔ارد و عملے اردو کے علاوہ
دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب درخواست ہی نہیں آتی تو وہ کیا
کریں، چونکہ اس وقت اس مسئلے پر گفتگو مقصود نہیں ہے ورنہ اس کیلئے کون ذمہ دار ہے
اس کی نشاندہی آسانی سے کی جاسکتی ہےمگر یہاں یہ ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ حال ہی
میں ایک اردو مخالف رضا کار تنظیم نے تمام ضلع سے یہ ڈاٹا حاصل کرنا شروع کیا ہے
کہ اردو مترجم جس کام کیلئے بحال ہوئے اس کی تفصیل فراہم کی جائے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اردو کے نام پر بے جا
سرکاری اخراجات ہو رہے ہیں،اسلئے وہ قانونی چارہ جوئی کیلئے زمین تیار کر رہے ہیں
۔
بہر کیف! اس وقت بہار میں
اردو معاشرے میں ایک اضطرابی کیفیت دیکھی جا رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ حال ہی میں
محکمہ تعلیم حکومتِ بہار کی جانب سے اسکولی تعلیم سے متعلق ایک مکتوب جوائنٹ
سیکریٹری کے دستخط سے جاری ہوا ہے۔ یہ مکتوب ریاست کے اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری
میں توازن پیدا کرنے کیلئے جاری کیا گیا ہے ۔ مکتوب کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت چاہتی
ہے کہ تمام اسکولوں میں اسکولی نصاب کے مطابق ایک ہیڈ ماسٹر اور چھ اساتذہ کی
تقرری ہو اور جن موضوعات کے اساتذہ کی
بحالی کا ذکر ہوا ہے، ان میں ہندی، انگریزی، حساب، سائنس اور علم سماجیات کے علاوہ
ایک معاون استاد دوسری زبان کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔اس مکتوب کے مطابق اسکول کے
ہیڈ ماسٹر کو یہ آزادانہ اختیار ہوگا کہ وہ دوسری زبان کے طورپر کس زبان کے استاد
کی تقرری کا مطالبہ کریں۔ بہار میں دوسری زبان کے زمرے میں اردو،بنگالی اور
سنسکرت وغیرہ کو رکھا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ
اردو کے تعلق سے جس طرح کی فضا قائم ہے اس میں اردو کی حق تلفی کا اندیشہ ہے۔اگرچہ
اسی مکتوب میں یہ بھی ذکر ہے کہ کسی اسکول میں ان چھ اساتذہ کے علاوہ ہیڈ ماسٹر کے
ذریعہ ۶۰؍
طلبہ کی تعداد کے اضافی سکشن پر ایک استاد کی تقرری کیلئے مطالبہ کیا جا سکتا ہے
لیکن یہاں بھی اردو کیلئے خطرہ موجود ہے کہ کسی بھی اسکول میں اردو کے ساٹھ طلبہ
کا ہونا ضروری نہیں ہے اور ہے بھی تو اس کے مراحل بہت پیچیدہ ہیں کہ ہیڈ ماسٹر کے
ذریعہ ضلع ایجوکیشن افسر اور پھر حکومتِ بہار کے ڈائریکٹر سے منظوری حاصل
کرنی ہوگی۔ یہ مرحلہ جہدِ فرہاد سے کم
نہیں اور پھر اعلیٰ آفیسروں کا اردو کے تئیں نظریہ بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا
ہے۔ اسی لئے اردو آبادی کو یہ اندیشہ ہے کہ اس مکتوب کے بعد پوری ریاست میں اردو
اساتذہ کی تقرری کا معاملہ پیچیدہ ہو سکتا ہے بلکہ اردواساتذہ کی بحالی غیر یقینی
ہو جائے گی جبکہ اردو کو ریاست میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ ہے۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار
بارہا اردو کی تعلیم کے فروغ کیلئے اعلانات کرتے رہے ہیں بلکہ گزشتہ سال انہوں نے
اعلان کیا تھا کہ ریاست کے تمام پرائمری ، مڈل اور ہائی اسکولوں میں جہاں اردو کے
طلبہ نہیں ہیں، وہاں بھی اردو کے اساتذہ کی بحالی ہوگی تاکہ اردو کی تدرس وتدریس
کا مسئلہ درپیش نہ رہے لیکن کہنے اور کرنے میں بڑافرق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
حالیہ برسوں میں بہار میں بڑی تعداد میں اسکول اساتذہ کی بحالیاں ہوئی ہیں اور
تمام اسکولوں میں اساتذہ کی ضرورت سے زیادہ تعداد موجود ہے۔ شاید اسلئے حکومت
چاہتی ہے کہ توازن پیدا کیا جائے تاکہ دیہی علاقے کے اسکولوں میں اساتذہ کی
موجودگی کو یقینی بنایا جائے ۔ بالخصوص حکومت نے جن پرائمری اور مڈل اسکول کو ہائی
اسکول میں تبدیل کیا ہے وہاں اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے کی غرض سے یہ نوٹیفکیشن
جاری ہوا ہے ۔ حکومت کاموقف ہے کہ پہلے ہائی اسکول میں چھٹے درجے سے دسویں درجے تک
کی پڑھائی ہوتی تھی، اسی لئے اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری کیلئے ایک مانک منڈل
بنایا گیا تھا ۔ اس کے مطابق آٹھ معاون اساتذہ اور ایک ہیڈ ماسٹر کی تقرری ہوتی
تھی او رجہاں کہیں فیزیکل ٹیچر کی پوسٹ منظور تھی وہاں نو معاون ٹیچر اور ایک ہیڈ
ماسٹر ہوتے تھے لیکن اب ہائی اسکولوں میں نویں اور دسویں درجے کی پڑھائی ہوتی ہے
اور مضامین بھی کم کردیئے گئے ہیں، اسی لئے اساتذہ کی تعداد میںتخفیف کی جا رہی ہے
۔ حکومت کا یہ فیصلہ ممکن ہے کہ مالی بجٹ کے مدنظر کیا گیا ہو لیکن جانے انجانے اس
نوٹیفیکیشن سے اردو کی تعلیم پرمضر اثرات پڑیں گے۔ اسلئےمولانا ولی رحمانی(امیر
شریعت ، بہار ، جھارکھنڈ وادیشہ) نے بھی اس مکتوب پر اپنی فکر مندی ظاہر کی ہے اور
حکومت سے اس مکتوب پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ دیگر کئی تنظیموں نے بھی
آواز بلند کی ہے اور انفرادی طورپر بھی اردو کے فروغ کے خواہاں حضرات نے بھی اپنے
اندیشے کا اظہار کیا ہے ۔
ظاہر ہے کہ سرکاری
احکامات جاری ہونے کے بعد اس کے نفاذ العمل کا اختیار ضلع ایجوکیشن آفیسر اور ہیڈ
ماسٹر کو ہوگااور یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ اس وقت ملک میں اردو کے تئیں کس
طرح کے ذہنی تحفظات وتعصبات ہیں ۔ اسلئے بروقت حکومت کو اردو کے حقوق کے تحفظ
کیلئے گوش گزار کرنا ضروری ہے ۔ بالخصوص وزیر اعلیٰ نتیش کمار تک اس مسئلے کو ضرور
پہنچایا جانا چاہئے کہ وہ اردو کے تئیں بارہا فراخ دلی کا اعلان کرتے رہے ہیں لیکن
اردوکیلئے صرف اعلان کی ضرورت نہیں بلکہ عملی اقدام کی بھی ضرورت ہے۔مجھے امید ہے
کہ حکومتِ بہار میں بہت سے ایسے اشخاص ہیں جو اردو کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور
اردو زبان کی ترقی کیلئے فعال بھی رہے ہیں ، وہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں معاون ہوں
گے کہ یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ اگر فوری طورپر اس مکتوب میں ترمیم نہیں کی گئی اور
’دوسری بھاشا ‘کی جگہ پر ’دوسری سرکاری زبان‘ یعنی اردو کا ذکر ہونا ضروری ہے کہ
مستقبل میں اسی ترمیم وتبدیلی کی بنیاد پر اردو کی تعلیم کے راستے ہموار ہو سکتے
ہیں ۔
میرے خیال میں حکومت
کیلئے بھی اس وقت اس پر نظر ثانی اور ترمیم میں کوئی بڑی دشواری نہیں ہوگی کہ ابھی
اس مکتوب پر کاغذی کاروائی شرو ع ہوئی ہے ۔ اگر بر وقت اردو کیلئے ہر ایک اسکول
میں ایک معاون استاد کی تقرری کو یقینی بنانے کے متعلق سرکاری حکم نامہ جاری ہو
جاتا ہے تو اردو سماج میں جو اضطرابی کیفیت ہے وہ ختم ہو جائے گی اور سرکار اپنے
ایک آئینی فرائض سے بھی سبکدوش ہو جائے گی کہ وہ ریاست کی دوسری سرکاری زبان کے
حقوق کو یقینی بنانے میں فعال ثابت ہوئی ہے۔
rm.meezan@gmail.com
12جولائی،2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/anxious-times-urdu-bihar-/d/122379
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism