ڈاکٹر محمد اقتدار حسین
فاروقی،
نیو ایج اسلام
علم کا لفظ اپنے تمام تر
معنی ومفہوم کے ساتھ قرآن پاک کی سات سو سے زیادہ آیات میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ
کے وجود پر یقین رکھنے اور اس کی ربوبیت کے اقرار کو علم کہا گیا ہے،کائنات
کامطالعہ کو علم کانام دیا گیا ہے، قدرت کے رموز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کو بھی
علم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ غرض یہ کہ دین و دنیا کی ہر تلاش وجستجو کو علم کے نام
سے موسوم کیا گیا ہے۔جہاں ایک جانب زندگی کے ہر شعبہ میں علم کی برتری اور حکمرانی
پر زور دیا گیا ہے وہیں بے خبر ی،لاعلمی اور جہالت سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔اس
کے علاوہ جہل سے پیدا ہونے والی برائیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
قرآنی احکامات کی روشنی
میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تسخیر دنیا کی خاطر مختلف علوم
کے حصول کے لئے ہدایات صادر فرمائیں جس کا اصل مدعا عام مسلمانوں میں عقلیت پسندی
کے رواج کو عام کرنا تھا اور علم کو ایک لازمی سرگرمی جتانا تھا۔ اس ضمن کے کچھ
ارشادات اس طر ح ہیں:
(1) علم کا حصول ہر مسلمان (مرد اور عورت) کے لئے فریضہ ہے۔
(2) حکمت ایک کھوئی ہوئی دولت ہے جسے حاصل کرنا ہر مومن کا فرض ہے۔
(3)تم میں سے بہتر وہ ہے جو دنیا کے بدلے آخرت کو نہ چھوڑ ے او رنہ
آخرت کے بدلے دنیا سے منھ موڑے او رنہ لوگوں پر بوجھ نہ بنے۔
(4) سب انسان سے بہتر وہ انسان ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچے
(5) میری امت کے بہترین لوگ عالم ہیں اور بہترین عالم رحم دل ہیں۔
(6) تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو خلق کے لحاظ سے بہتر ہو۔
(7) علم حاصل کرو خواہ اس کے حصول کے لئے چین کا سفر اختیار کرنا
ہو۔
(8) عالم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ اہم ہے۔
(9)اچھا سوال آدھا علم ہے۔
(10) جو شخص علم کے حصول کے لئے سفر اختیار کرتا ہے وہ اللہ کی راہ
پر ہے حتی کہ وہ واپس ہوجائے۔
(11) علم کا حصول پیدائش سے لے کر قبر تک چلناچاہئے۔
(12) ایک گھنٹہ کی محنت بسلسلہ حصول علم کہیں زیادہ اہم ہے بمقابلہ
شہیدوں کی نماز۔
(13) سب سے قبل جو چیز پیدا کی گئی وہ علم تھی۔
(14) علم حاصل کرو اس کا حصول اللہ کی راہ پہ چلنا ہے۔
(15) جو شخص اپنا گھر علم کے حصول کے لئے چھوڑتاہے وہ اللہ کے راہ
پر چلتا ہے۔
(16) علم حاصل کرنے کے خواہش مند جنت میں فرشتوں کی جانب سے خوش
آمد ید کہے جائیں گے۔
(17) جو شخص علم او رعالم کا طرف دار ہے اللہ اس کا طرف دار ہے۔
(18) جو شخص عالم کی عزت کرتاہے وہ میری عزت کرتاہے۔
(19) ایک حکمت والا شیطان پر زیادہ سخت ہے بمقابلہ سو عابدوں کے۔
(20)عالم عابد پر اسی طرح بہتر ہے جیسے چاند تاروں پر۔
(21) فرشتے اپنے پر پھیلائیں گے عالموں کو خوش آمدید کہنے کے لئے۔
(22) عالم اصل میں نبیوں کے وارث ہیں۔
(23) ایک مومن علم سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا ہے۔
(24) میں علم کا شہرہوں او ر علی اس کا دروازہ
قرآنی حکم اور پیغمبری
ہدایات کی بناپر عہد وسطیٰ میں مسلمانوں نے دنیاوی علوم پر زبردست قدرت حاصل
ہے۔انہوں نے دینی علم کو دنیاوی علم سے الگ نہیں دیکھا۔ بلکہ دنیا علوم کے حصول کو
عین دینی عمل سمجھا، یہ سلسلہ ایک ہزار سال جاری و ساری رہا۔اس دور میں غیر اسلامی
دنیا نے مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھا او راپنی ترقی کی راہیں ڈھونڈ نے میں اس علم کی
ضرورت کو محسوس کیا جسے مسلمانوں نے عام کردیا تھا۔آسٹریا کا ایک دانشورڈاکٹر ہنس
کو چلر نے ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں تسلیم کیا کہ ”یہ ایک تاریخی سچائی
ہے کہ اسپین کی مسلم تہذیب نے ہی عہد وسطیٰ میں یورپ کو جہالت سے چھٹکارا دلایا
اور فکری و علمی ترقی کے راستے دکھلائے“۔
عہد وسطیٰ میں اسلام نے
علمی بلندیوں کو چھونے کے لے دنیا کے تمام علوم سے استفادہ کیا اور ان میں ایک نئی
روح پھونکی۔بھولے ہوئے ہندوستانی،چینی، ایرانی او ریونانی علوم کو نئی زندگی بخشی
اور ایسے علمی سماج کی بنیاد رکھی جس کی ساری دنیا نے قدر کی۔ اس دور میں الکندی،
ابوالقاسم زہراوی، زکریا رازی، ابن نفیس،ابن خلدون،ابن بیطار،مسکویہ،ابن رشد،
البیرونی،بوعلی سینا، ابوکامل، خوارزمی،بغدادی،مسعودی، جابر بن حیان، ابن ہیثم،
الفارابی او رالغزالی جیسی مستند ہستیوں کا اسلامی دنیا میں جنم ہوا جنہیں آج بھی
یورپ کے دانشور فلسفہ،کیمیا، طبعیات، ریاضیات،فلکیات وغیرہ کے مینار ے مانتے ہے
ہیں۔ اور تسلیم کرتے ہیں کہ اگر یہ شخصیات ظہور میں نہ آئی ہوتیں او ران کے
انکشافات نے سائنس کو جلانہ بخشی ہوتی تو یقینا آج کا سائنسی انقلاب رونما نہ
ہوپاتا، نیوٹن، گلیلیو اور کیپلر جیسے دانشور حیرت انگیز انکشافات پانے میں کامیاب
نہ ہو پاتے۔مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک دینی و دنیاوی علوم کو برابر کا درجہ عطا
کیا یہ وہ دور تھا جب دینی علماء عصری علوم کے واقف کار ہوا کرتے تھے لہٰذا ملت کی
امامت نہایت خوبی سے کیا کرتے تھے،لیکن نہ جانے کیوں او رکیسے یہ صورت حال بدلی او
رمسلمانوں میں عصری علوم بہ معنی سائنس سے بیزار پیدا ہوئی۔ کیا تھا اسلامی زوال
کا دور شروع ہوگیا جو اتنا عبرت انگیز تھا کہ بقول ایک دانشور محمد محمود ”آج دنیا
کے منظر نامے میں قوم مسلم پست ترین مقام پر ہے او رپچھلی دو صدیوں میں اسے جس طرح
کی ذلت و خواری او رشکست کا سامنا ہوا ہے اس کی دوسری مثال تاریخ میں کہیں نہیں
ملتی ہے“۔ سچ تو یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں آج تک کسی قوم نے نہ تو اتنی بلندی
پائی او رنہ اتنی پستی میں جاگری جتنی قوم مسلم کے حصہ میں آئی۔ اس صورت حال کے
ذمہ دار یقینا وہحضرات تھے جنہوں نے دین
کو دنیا سے الگ کیا اور ان حکمرانوں کے اشاروں پرکام کرتے رہے جو مسلمانوں کو جاہل
رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ ان حکمرانوں نے اوہام پرستی او ربدعات کو خوب
بڑھا وا دیا نیز سیدھے سادھے لیکن جاہل عوام کو باور کرایا کہ یہ رسوم (Rituals) ہی دراصل دین اور
روحانیت کا حصہ ہیں اوران کی زندگی کا مدعا و مقصد ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام
مسلمانوں کی نظروں میں علم کی کوئی اہمیت باقی نہ رہی او رحکمرانوں کو اپنے
ظالمانہ اور غیر اسلامی اقتدار کوبرقرار رکھنے میں آسانیاں فراہم ہوتی رہیں۔ ایک
اسلامی اسکالرنسیم حسن نے کتنا سچ کہا ہے کہ:
Diminishing
Muslim Vision of Knowledge is Singularly Responsible for the decline of
vitality and power of Muslim civilization.
افسوس کا مقام ہے کہ آج
ہمارے ملی رہنما اس سچائی سے آنکھیں موندے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل میں اللہ سے
دوری اور اعمال بد مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہیں گویا کہ جومسلمانوں پر غالب ہیں اور
اللہ سے زیادہ قریب ہیں او ربہترین اعمال کے حامل ہیں۔ کسی افلاس زدہ، شکست خوردہ
اور پریشان کو جتانا کہ ان کی حالت زار کی وجہ ان کی بد اعمالیاں ہیں بڑا ہی تکلیف
دہ نظر یہ ہے۔ حق تو یہ ہے افلاس اور جہل کے باوجود آج بھی ایک عام مسلمان اپنے
اللہ او ررسول کا شیدائی ہے اور دینی جذبہ میں سرشار ہے اور دوسری قوموں کے مقابل
زیادہ عبادت گزار بھی ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ علم کی اہمیت کا احساس وہ کھو چکا ہے
کیونکہ سماج کے مٹھی بھر ذی علم اور صاحب اقتدار طبقہ نے اس بات کی چنداں ضرورت نہ
سمجھی کہ علم کو اسلامی تمدن میں عام کیا جائے حالانکہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ
قوم مسلم کو یقین دلایا جاتاکہ ان کا شاندار ماضی پھر سے لوٹ سکتاہے بشرطیکہ وہ
سائنس کو اپنی وراثت سمجھتے ہوئے پھر سے اس میں سبقت حاصل کرے اور سائنسی تدابیر
سے اپنی قسمت کو بدل کر رکھ دے۔
موجودہ صورت حال پر حضرت
مولانا ابوالحسن ندوی کا خیال بھی مسلمانوں کودعوت فکر دیتاہے انہوں نے مغربیت اور
اسلام کے درمیان کشمکش پر اپنی تصنیف میں تحریر فرمایا ہے کہ ”انسانیت کی مصیبت
علم کو ایمان سے علیحدہ کردینے میں ہے اس علیحدگی مغرب میں سائنسی علم بڑھتا اور
چڑھتا رہا۔۔۔۔ آج ایمان کو علم کی رفاقت کی ضرورت ہے او رعلم کو ایمان کی
سرپرستی“۔مولانا موصوف نے ہی متعدد بارا اپنی تحریروں میں یہ بات دہرائی کہ سائنسی
سرگرمی اصل میں مسلمانوں کی وراثت تھی جس کے اصل وارث مغرب والے بن بیٹھے اوربقول
ان کے ”ہمارے ہی حربوں سے ہم پر حکم چلانے لگے“۔
علم کی توجیہ کرتے ہو ئے
ڈاکٹر کلب صادق فرماتے ہیں: ”ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آج مسلمان سائنس او
رٹکنالوجی میں سب سے آگے ہوتا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں نے
اسلامی اصولوں کو ترک کردیا ہے اور رسموں کو اپنا لیا ہے وہ رسمیں جسے مٹانے کے
لئے اسلام آیا تھا“۔:”ہمارے علماء نے دینی اور عصری تعلیم کے درمیان تفریق کرکے
ایک بڑی غلطی کی ہے بہر حال اب ہماری توجہ تمام علوم پر ہونی چاہئے“۔
مسلمانوں کا غیر علمی
رویہ دراصل سولہویں صدی میں رواج پا چکا تھا جب انہوں نے یورپ کے تاریک دور کے طور
طریق کو اپنا کر اپنے زوال کے اسباب پیدا کرلئے جب کہ یورپ نے مسلمانوں کے علمی
اور فکری طرز زندگی کو اپنا ترقی کی جانب گامزن ہونے کے مواقع فراہم کرلئے جس کا
سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
بہر حال اب وقت آگیا ہے
کہ قوم مسلم میلادالنبی کے جلسوں میں علوم مختلفہ کے حصول کے لئے زور دیا جائے۔ اس
کوشش کے بغیر قعر مذلت سے نکلنا ممکن نہیں۔قرآن بھی تو یہی فرماتا ہے:
”إِنَّ
اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ
“۔
ترجمہ: ”واقعی اللہ
تعالیٰ کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک کہ وہ لوگ خود اپنی حالت کو نہیں
بدل دیتے“۔(سورہ رعدآیت۔11)
یوم پیدائش رسول کے موقعہ
پر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنا نہایت ضرورہے ہے۔
وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
(سورہ طٰہٰ۔آیت 114) ترجمعہ۔ اے میرے رب
میرے علم میں اضافہ فرمادے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/o-lord-increase-knowledge-/d/123301
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism