New Age Islam
Mon Feb 10 2025, 06:58 AM

Urdu Section ( 9 Jul 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Meaningful Silence of the Secular Leaders on Mob Lynching ہجومی تشدد پر سیکولر لیڈروں کی خاموشی معنی خیز


ڈاکٹر محمد اجمل

5جولائی،2019

بلا شبہ ہمارا وطن عزیز ایک عظیم ملک ہے۔ چہار دانگ عالم میں یہاں کی تہذیب وثقافت علوم و فنون کی زمانہ قدیم میں بھی شہرت وعظمت تھی اور آج بھی انہیں خصوصیات کے لئے جانا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے اور اس ملک کوبام عروج تک پہنچا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جمہوری ہندوستان کی تحریکی تاریخ بھی ایک ایسی تعمیری مثال ہے جہاں مختلف مذاہب اور لسانیات سے تعلق رکھنے والے پرسکون او رامن و سلامتی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس ملک کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ آزادی وطن کے بعد یہاں دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ سیاسی پارٹیاں ہیں اوراپنے رنگ وبو او رپہچان کے ساتھ نامو س و حشمت سے زندگی گزارتے ہیں۔ یوں تو کاتب تقدیر نے حیات انسانی کو اختلاف و نزاع پر مبنی مختلف زمروں میں تقسیم کردیا ہے جیسا کہ اولاد آدم ابتدائے آفرینش سے ہی اپنے مفادات کے حصول کے لئے آپس میں بر سرپیکار ہیں، یہاں تک کہ قتل و غارت گری جیسے قبیح فعل پر بھی انسان نے دریغ نہیں کیا ہے۔ قتل کا عمل متعدد طریقوں سے پیش آتا ہے۔ انجانے میں قتل، جان بوجھ کر قتل، دھوکے سے قتل، سیاسی قتل اور آج کے جدید اور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ دور میں ہجومی قتل، جہاں لوگ باگ اس عمل پر ویڈیو بناتے ہیں، اسے اپ لوڈ کرتے ہیں۔ پھر معاملہ سیاسی ہوجاتاہے اور پھر سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد کی روٹیاں سینکنا شروع کردیتی ہیں۔ اس میں کچھ پارٹیاں خود کو سیکولرزم، ہم آہنگ، برابری، رواداری وغیرہ جیسے اصناف کادم بھرتی ہیں  بلکہ سیکولرزم کی علمبردار ہونے کادعویٰ بھی کرتی ہیں۔

اوپر کی چند سطریں مکمل طور پر ملک کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتی ہیں۔ تازہ ترین ہجومی قتل کا واقعہ وطن عزیز کی ایک ریاست جھارکھنڈ میں پیش آیا ہے۔اس دہشت گردانہ قتل نے سیکولرزم کا ڈھونگ کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی قلعی کھول دی ہے لیکن ملک کے انسانیت پسند اور عدل و انصاف پر ایمان رکھنے والے طبقوں نے اس معاملے میں ملک گیر سطح کااحتجاج کر کے ان پارٹیوں کو آئینہ دکھایا ہے کہ جو اب تک مسلم ووٹوں کے دم پر اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں۔اس ہجومی قتل کے ردعمل میں غیر سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے بڑے پیمانے پر ملک کی تمام ریاستوں یہاں تک کہ عالمی پیمانے پر اس صورتحال پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے،اسے انسانیت دشمن ٹولے کی تاریکیوں میں امید کی ایک موہوم کرن قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس معاملے پر سیکولرزم کی مدعی پارٹیوں کارد عمل نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ان کی عیارانہ حکمت عملی کا ثبوت بھی۔ اس حکمت عملی کامظاہرہ ہجومی قتل پر پارلیمنٹ میں کی گئی تقاریر سے لے کر ملک بھر اور خصوصاً دلّی کے جنر منترپر منعقد احتجاجیجلسے میں ہوا۔ اس تناظر میں سیکولر پارٹیوں کے رویے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ نہ تو ان پارٹیوں کی اقلیتی طبقات پر ہو نے والے ظلم کو روکنے میں کوئی دلچسپی ہے او رنہ انہیں اپنی شکست کا ہی کوئی ملال ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہجومی قتل جیسا سنگین سلسلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے یہ پارٹیاں کسی سخت رد عمل کے اظہار سے گریز کررہی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہجومی تشدد اور قتل پر رد عمل کی ذمہ داری مبینہ سیکولر پارٹیوں نے اپنے مسلم ممبران پارلیمنٹ پر ڈال دی ہے۔ مثلاً کانگریس کامسلم چہرہ کہے جانے والے غلام نبی آزاد نے پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ اٹھاتے ہوئے مودی سرکار سے کہا کہ وہ اس نئے ہندوستان کی بجائے انہیں پرانا ہندوستان ہی لوٹا دے۔ حالانکہ ایسا کہتے وقت وہ شاید یہ بات بھول گئے کہ جس پرانے ہندوستان کی بات کررہے ہیں، اس میں بھی مسلمانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں جیلوں میں ڈالا جاتا رہا اور فرقہ وارانہ فسادات میں ان کے جان و مال کونشانہ بنایا گیا سیکولرزم کی مدعی حکومتیں مسلمانوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہیں۔

بہر حال،پارلیمنٹ کے باہر ہجومی قتل پر کانگریس کی طرف سے احتجاج درج کرانے کا کام م۔افضل نے کیا لیکن نہ تو سونیا گاندھی، نہ تادم تحریر کانگریس کے صدر راہل گاندھی او رنہ ہی کانگریس کی امیدوں کانیا مرکز پرینکا گاندھی نے ہجومی تشدد پر کوئی سخت موقف اختیار کرنے کا اشارہ دیا۔ اس کے بر خلاف راجستھان میں پہلو خان جس کو گؤ رکشکوں کی ایک بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر قتل کردیا تھا،موجودہ کانگریس حکومت نے اس کے اور بھیڑ کے ہاتھوں موت سے بچ جانے والے اس کے بیٹے کے خلاف گایوں کی اسمگلنگ کے کیس میں چارج شیٹ داخل کردی ہے۔

بہار میں مسلم نوازی کا دم بھرنے والی آر جے ڈی، مسلم ووٹوں کے سہارے بہار میں کئی سٹیں جیتنے والی پاسوان کی پارٹی یا پھر نتیش کمار کی جے ڈی یو نے بھی اس ایشو پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا لیکن خود نتیش یا پاسوان یا آر جے ڈی کے تیجسوی یادو اس مسئلے پر اب تک تقریباً خاموش ہی ہیں۔ بیشتر دیگر ریاستی پارٹیوں کابھی یہی حال ہے کہ اب ایسا محسوس ہورہا کہ وہ ہجومی قتل پر ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے کسی بھی مسئلے پر لب کشائی سے گریز کریں گے۔ اتر پردیش جہاں کانگریس کے علاوہ سماجوادی پارٹی، بی ایس پی اور راشٹریہ لوگ دل نے بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑا تھا، اب الگ ہوچکی ہیں یعنی عظیم اتحاد اپنا وجود کھو چکا ہے۔ اس مبینہ سیکولر اتحاد کے ٹوٹنے کا سبب بھی دراصل ان میں سے بیشتر پارٹیوں کے غیر مسلم ووٹروں کا بی جے پی کی طرف چلے جانا ہے۔

ہجومی تشدد کے معاملے میں اکھلیش یادو نے بھی اب تک کوئی ایسا بیان نہیں دیا ہے جس سے مسلمانوں کے تئیں ان کی ہمدردی ظاہر ہوتی، التبہ سماجوادی پارٹی کے لیڈر او رممبر پارلیمنٹ اعظم خاں نے اس معاملے میں پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے ذریعہ مسلمانوں کا درد بیان کرنے کی کوشش کی لیکن سوال یہ ہے کہ خود اکھلیش اس معاملے پر لوک سبھا میں کیوں نہیں بولے؟ اس کا سبب بھی وہی ہے جس کاذکر کانگریس کے معاملے میں کیا گیا، البتہ بی ایس پی کی طرف سے کنور دانش علی نے ضرور اس معاملے میں پارلیمنٹ میں بھی او رپارلیمنٹ سے باہر جنتر منتر کے مظاہرے میں بھی آواز اٹھائی۔ ممتا نبرجی بھی ہجومی تشدد کی مذمت کر چکی ہیں لیکن سیکولرزم کی دعویدار دیگر پارٹیوں نے ہندو ووٹروں کی ناراضگی کے خوف سے اس ایشو پر نہایت مکاری سے اپنے مسلم لیڈروں کو ہی بیان دینے کے لیے آگے کر کے اپنا دامن بچا لیا ہے۔ شاید یہ جماعتیں تسلیم کرچکی ہیں کہ ہجومی تشدد اس ملک کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ حالانکہ امریکہ جیسے ہندوستان کے دوست ملک کے وزیر خارجہ پومپیو نے نئی دلّی کے اپنے دورے پر ہندوستانی لیڈروں سے اپنی ملاقات میں مسلمانوں کے خلاف تشدد پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ جہاں تک مسلم تنظیموں یا سیاسی پارٹیوں کاتعلق ہے تو جمعیۃ علماء ہند اور سیاسی پارٹیوں میں مجلس اتحاد المسلمین، مسلم لیگ، اتر پردیش کی علماکونسل وچند دیگر جماعتوں نے ملک گیر مظاہروں میں شرکت کرکے اس مسئلے پر پہلی مرتبہ منظم شکل میں اپنا احتجاج درج کرایا جو قابل تعریف ہے۔

حالات کو دیکھتے ہوئے بے حد اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کی فتح او رمبینہ سیکولر پارٹیوں کی شکست نے سیکولر زم کے ٹھیکیداروں کو کئی اہم ایشوز او رپالیسیوں کے معاملے میں بے نقاب کردیا ہے او رمسلمانوں کو یہ سوچنے کاموقع فراہم کردیا ہے کہ وہ سیکولرزم کے جھوٹے لالی پاپ سے بچ کر کس طرح اپنی سیاسی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں اور بغیر کسی کے رحم و کرم کے اپنے ودیگر ایماندار اور انصاف پسند افراد کے تعاون سے فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں، کیونکہ سیکولرزم کی بقا صرف باتوں سے ممکن نہیں۔

5جولائی،2019  بشکریہ: روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/meaningful-silence-secular-leaders-mob/d/119121

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..