ڈاکٹر محی الدین غازی
19اپریل، 2017
بیوی کے ساتھ میرے تعلقات خراب ہوگئے ہیں ، جدائی کی نوبت آگئی ہے ، تاہم میں طلاق نہیں دوں گا بلکہ انتظار کروں گا کہ بیوی خلع لے لے،کیونکہ پہلی صورت میں مجھے مہر کی رقم دینی پڑے گی، اور دوسری صورت میں مہر معاف ہوجائے گا‘‘ یہ جملہ میں نے کئی بار سنا ہے۔ اس جملے سے قانونی مہارت تو ظاہر ہوتی ہے لیکن ایمان و اخلاق کا نور ذرا نظر نہیں آتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر زندگی پر عقیدہ و اخلاق کی حکمرانی ہو تو انسان سخی اور فیاض بن جاتا ہے، اور اگر زندگی صرف قانونی داؤ پیچ کی نذر کردی جائے تو انسان خود غرض اور بخیل ہوکر رہ جاتا ہے ۔ بڑا فرق ہوتا ہے اس انسان میں جو صرف قانون کی سطح پر جیتا ہے، او راس انسان میں جو ایمان و اخلاق کی بلندیوں میں پرواز کرتا ہے۔ ایمان و اخلاق کا حصار نہ ہوتو اسلامی قانون سے بھی بے شمار حیلے اور دھوکے کے نکال لئے جاتے ہیں ۔
قرآن مجید میں قانون ، ایمان اور اخلاق تینوں باہم و دگر اس طرح جڑے ہوئے نظر آتے ہیں ، کہ انہیں الگ الگ کرکے دیکھنے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ قرآن مجید پر عمل کرنے والے کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا ہے کہ قانون سے ملنے والے حق کو تو بڑھ کر لے لے، لیکن اخلاق کی طرف سے عائد ہونے والے تقاضے کو نظر انداز کردے۔
قانون کتنا ہی اچھا ہو ، وہ اخلاق کو بدل نہیں سکتا ۔ یہ بات ایک مثال سے سمجھی جاسکتی ہے، کہ سڑک پرکوئی نامعلوم شخص حادثے کا شکار ہو کر تڑپ رہا ہو، اسی صورت میں اگر قانون رکاوٹوں سے بھرا ہو تو لوگ اسے اٹھا کر اسپتال لے جاتے ہوئے ڈریں گے، کہ کہیں وہ خود الزام کی زد میں نہ آجائیں، او رانہیں تھانے اور عدالت کے چکر لگانے پڑیں، قانون اگر معاون ہوتو لوگ اسے اسپتال لے جاتے ہوئے خوف محسوس نہ کریں گے۔ تاہم محض قانون خواہ وہ کتنا ہی اچھا ہو لوگوں کے اندر یہ جذبہ پیدا نہیں کرسکتا ہے کہ وہ نفع نقصان سے بے نیاز ہوکر ایک نامعلوم زخمی کو اسپتال لے جائیں ۔ یہ جذبہ تو عقیدہ و اخلاق سے پیدا ہوتا ہے۔
عائلی قانون کے حوالے سے ذیل کی کچھ مثالوں پر اس پہلو سے بھی غور کریں:
قانون کی رو سے بلاوجہ طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے، اور تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں بھی ہوجاتی ہیں، لیکن ایمان و اخلاق کا تقاضا ہے کہ انسان بنا ضرورت طلاق نہ دے، اور طلاق دے تو بس ایک ہی طلاق دے، طلاق سے پہلے اصلاح حال کی ساری کوششیں کر ڈالے، طلاق کا فیصلہ لینے سے پہلے بزرگوں سے مشورہ او راللہ کے حضور خیر کی دعا کرلے، اور اس پورے عمل میں کہیں خود غرضی او رنفس پرستی کو بیچ میں نہ آنے دے۔
قانون کی روسے شوہر چاہے تو بیوی کے خلع مانگنے پر بھی اسے خلع نہ دے، لیکن اخلاق کا تقاضا ہے کہ اگر بیوی ساتھ رہتے ہوئے خوش نہ ہو، تو بیوی کو ساتھ رہنے پر مجبور نہ کرے، سمجھانے بجھانے کے لئے کچھ وقت ضرور مانگے ، لیکن اسے اپنی بیوی بنے رہنے اور گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور نہ کرے۔ اور اگر خود اس کی کسی کمزوری کی وجہ سے بیوی خلع طلب کررہی ہو تو کسی معاوضہ کا مطالبہ بھی نہ کرے۔ قانون کی رو سے ہوسکتا ہے طلاق دینے والے کے لئے ضروری نہ ہو کہ وہ طلاق شدہ بیوی کو کچھ دے، لیکن اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایسے وقت میں سخاوت و فیاضی کی ایک یاد گار مثال قائم کرے۔
قانون کی رو سے ہوسکتا ہے کہ یتیم پوتے کو دادا کے ترکے میں سے حصہ نہ ملے، لیکن اخلاق کا تقاضا ہے کہ زندہ بھائی خود آگے بڑھ کر اپنے مرحوم بھائی کے بچوں کو وراثت میں اتنا ہی حصہ دے دے جتنا خود اسے مل رہا ہے۔
یہ قانونی دفعات نہیں بلکہ اخلاقی تعلیمات ہی ہیں جن سے متاثر ہوکر ایک انسان یتیم بچوں کو اپنی سر پرستی میں لے لیتا ہے، اور سایہ زوجیت سے محروم ہوجانے والی عورتوں کو آگے بڑھ کر زوجیت کا سائے بان پیش کرتاہے،خواہ اسے کتنی ہی آزمائشوں سے گزرنا پڑے ۔ یہ اخلاقی تعلیمات ہی ہیں جو خیر او ربھلائی کے بڑے بڑے کاموں کا محرک بن جاتی ہیں۔
اسلامی قانون اسلامی معاشرہ کا امتیاز ہے، اس سے بہتر قانون پیش نہیں کیا جاسکتا ہے ، تاہم اسلامی معاشرہ کا اس سے بھی بڑا امتیاز وہ اخلاقی تعلیمات ہیں جو رب حکیم کی طرف سے قانون کے ساتھ ساتھ عطا کی گئی ہیں۔ اسلامی قانون کی ساری آب و تاب انہیں سے ہے۔ ایمان و اخلاق کا ساتھ نہ ہو تو قانون بے روح اوربے کشش ہوکر رہ جاتاہے ۔ یاد رہے صرف قانون کی حکمرانی سے اسلامی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ نہیں بن سکتا ہے۔ ایک پرکشش مثالی اسلامی معاشرہ کے لئے قانون سے پہلے اور قانون سے کہیں زیادہ ایمان و اخلاق کی حکمرانی ضروری ہے۔
قرآن مجید میں جہاں نکاح و طلاق کے قوانین بیان ہوئے ہیں، وہاں تقوی اور احسان کے بار بار تذکرہ سے واضح ہوتا ہے کہ ان قوانین پر عمل آوری کے وقت اللہ کے سامنے جواب دہی کا شدید احساس او ر لوگوں کے ساتھ بہترین اخلاق کے ساتھ پیش آنے کا طاقتور جذبہ بہت ضروری ہے۔ تقوی کا مطلب ہے ضمیر کی وہ طاقتور آواز جسے کوئی مصلحت دبا نہ سکے ، او راحسان کا مطلب ہے اخلاق کی وہ آخری بلندی جہاں انسان پہنچ سکتا ہو۔ اسلام کے عائلی قانون میں بہت سی باتیں اجتہادی ہونے کی وجہ سے اختلافی بھی ہوسکتی ہیں، ہر ہر دفعہ پر طویل بحث بھی ہوسکتی ہے، لیکن ایمان و اخلاق کے تقاضوں میں کوئی تقاضا اختلافی نہیں ہے، جو بھی ہے وہ متفقہ طور پر لائق ستائش ہے۔ اسلام کے عائلی قانون کی فکر کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ عائلی قوانین کا رشتہ ایمان و اخلاق سے دوبارہ جوڑنے کی مہم چلائیں ۔ یہ رشتہ جب تک بحال نہ ہوگا اسلام کے عائلی قوانین خطرات سے دو چار رہیں گے، او رمسلم معاشرہ ان گنت عائلی مسائل سے پریشان رہے گا۔
مسلم پرسنل لا کے حوالے سے جو مہمات منائی جاتی رہی ہیں، ان میں مفتیانہ او رمدافعانہ لب و لہجہ حاوی رہا ہے ۔ عائلی قانون کے حوالے سے ہر فتوے کا دفاع ، او رہر فتوے پر شدید اصرار، احساس ہوتا ہے کہ اب مسلمانوں کی ضرورت ایک ایسی اصلاحی مہم ہے، جس کا مقصد ، دفاع سے آگے بڑھ کر مسلم سماج کے ہر اس پہلو کی اصلاح ہو جہاں خرابی در آئی ہے۔
19اپریل،2017بشکریہ : روزنامہ خبریں ، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslim-personal-law-needs-reformist/d/110844
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism