New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 07:28 AM

Urdu Section ( 4 Nov 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Violence, Islam And The Islamic Movement: Can Terrorism Be At All Justified In Islam? -Part 2 (تشدد ، اسلام اور تحریک اسلامی ( دوسری قسط

 

 

 

ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی

سورۂ شوریٰ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی ۔ اس کا زمانۂ نزول حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانےکےبعد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے   کے پہلے قرار دیا گیا ہے۔ (1) (1؎ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ: تفہیم القرآن: مقدمہ تفسیر سورۂ حٰمٓ السجدہ اور سورۂ شوریٰ) اس زمانہ مسلمانوں پر بہت ظلم و ستم ڈھائے جارہے تھے ۔ اس کےباوجود ان کو جوابی تشدد کی اجازت نہیں ملی جیساکہ ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں ۔ جوابی تشدد یعنی دفاعی جنگ کی اجازت اس وقت ملی جب مدینہ کی سر زمین پر مسلمان ایک با اقتدار ہیئت کی شکل اختیار کر چکے تھے ۔ جب ایسا نہ ہو جوابی تشدد ان انسانی اخلاقی حدود کا پابند نہیں رہ سکتا جن کا اسلام اسے پابند دیکھناچاہتا ہے ۔

تشدد اور دہشت گردی

جب کوئی افراد یا گروہ جو خود با اقتدار نہ ہو بلکہ کسی دوسری با اقتدار ہیئت کے دائرہ اختیار میں رہتا  ہو جوابی تشدد کاطریقہ اختیار کریں گے تو جلد یا بدیر ان  کا تشدد ایسی شکلیں اختیار کرلے گا جنہیں آج ہم دہشت گردی کا نام دیتے ہیں محارب اور غیر محارب کی تمیز کے بغیر مقابل کی جان لینا ، عورتوں، بچوں، بوڑھوں  ، معذور لوگوں کو بھی نہ بخشنا، مال و املاک کا تلف کرنا، جان لینے کے غیر انسانی طریقے اختیار کرنا مثلاً آگ سےجلاکر مارنا، جسم کو ٹکڑے ٹکڑے  کرنا،وغیرہ ۔ جیسا کہ ہم اگلی سطروں میں یاد دلائیں گے، اسلام میں ان کاموں کو صراحت کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔

اب موجودہ صورت حال پر نظر ڈالیے ۔ ایک طرف وہ قومی ریاستیں ( Nation States) ہیں جو اب قومی وسائل سے کام لے کر بڑی بڑی فوجیں رکھتی ہیں، جدید ترین آلات حرب سے لیس ہیں اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کے سارے و سائل رکھتی ہیں ۔ دوسری طرف افراد یا گروہ جو حکومت کی اجازت کےبغیر معمولی اسلحے بھی نہیں   حاصل کرسکتے، کجایہ کہ آلات حرب حاصل کرسکیں ۔ ان افراد یا گروہوں کے لیے  فوج رکھنا ممکن نہیں ۔ یہ کھلے عام کوئی والنٹیر ملیشیا بھی نہیں منظّم کرسکتے ۔ جب بھی یہ اپنی ملکی حکومت کے خلاف یا اپنے ملک میں رہتے ہوئے کسی دوسرے ملک کی حکومت  کے خلاف تشدد استعمال کرنے کا فیصلہ کریں گے ان کو خفیہ عمل کا طریقہ اختیار کرناہوگا، اپنے مخالفین پر  حملہ کرنے میں  وہ ان آداب کی پابندی نہیں کرسکتے جن کا اسلام پابند بناتا ہے کیونکہ وہ نہ تو خود سے اپنا میدان جنگ منتخب کرسکتے ہیں نہ لڑائی کا زمانہ۔ وہ مجبور ہیں کہ خفیہ تیاری کریں اور جب جہاں  جو موقع مل جائے اس کو دشمن کو صدمہ پہنچانے کے لیے استعمال کریں ۔ وہ جنگی جہازوں تک نہیں  پہنچ سکتے اس لیے مسافر بردار جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔ فوجیوں اور باوردی محاربین ان کی دسترس سے باہر ہیں ان لیے عام شہریوں کی جان لیتے ہیں ۔ اپنے دشمن کی فوجی تنصبات کے قریب نہیں پھٹک سکتے اس لیے تجارتی مراکز پہ حملہ کرتے ہیں ، وغیرہ۔ اس جوابی تشدد کی ‘‘ تنظیم’’ اس  تنظیم سےبہت مختلف اور محدود تر ہوتی ہے جو بااقتدار ریاستوں کی قیادت میں عمل میں آتی ہے کیونکہ بے اقتدار گروہ کے خفیہ عمل کے نصیب میں تھوڑی ہی تنظیم آسکتی ہے اور بس۔ دنیا میں خفیہ تنظیموں کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ وہ زیادہ عرصہ تک ایک قیادت کے تحت نہیں رہتیں او رنہ کسی قیادت کی گرفت میدان عمل کی کاروائیوں پر اتنی مضبوط ہوتی ہے جیسے کہ ان کے مقابل منظّم ریاستی فوجوں کی ہوتی ہیں۔ہر کام کی اپنی مجبوریاں  ہوتی ہیں افراد اور گروہوں کی طرف سے ( ریاستی تشدد اور دہشت گردی کے) جواب میں تشدد کی مجبوری یہ ہے کہ وہ لازماً دہشت گردی کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ اہم ہے کہ ایسی  صورت میں یہ افراد اور گروہ اگر تشدد کا راستہ ترک کردیں تو پھر کریں کیا۔ اپنا دفاع کیسے کریں اپنے مقاصد کیسے حاصل کریں۔ مگر اس سے پہلے اس نکتہ پر اطمینان  کرلیں کہ دہشت گردی کی اجازت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا اسلام اپنے اعلیٰ انسانی اور اخلاقی مقاصد کے پیش نظر جوابی تشدد کو کچھ آداب کا پابند بناتا ہے ان پابندیوں کا ایک مستند بیان درج ذیل ہے۔

‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کے سپہ سالار یزید بن ابی سفیان کو ہدایت فرمائی کہ میں تمہیں دس باتوں کی تلقین کرتا ہوں ۔ کسی عورت، بچے یا بہت بوڑھے آدمی کو قتل نہ کرنا۔ کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا، کسی آباد زمین کو ویران نہ کرنا، کسی بکری یا اونٹ کو بجز غذائی ضرورت کے  نہ ذبح کرنا ، شہد کی مکھیوں کو نہ تو جلانا نہ انہیں  منتشر کرنا ۔ مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور ( لڑائی میں ) بزدلی نہ دکھانا’’۔

( موطا امام مالک۔ کتاب احکام الخلافتہ ۔ باب النہی عن الغلول والغدر۔ ملاحظہ ہو مقالہ نگار کی کتاب ‘‘اسلام کا نظریہ ملکیت ’’ ، طبع دہلی۔ 1994ء صفحہ 219)

مال و املاک کی بربادی ، عمارتوں کو مسمار کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا .... یہ سب کچھ فساد فی الارض کی تعریف میں آتا ہے جس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں آیا ہے۔

وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ( عراف:85)

‘‘ اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا اس نے کہا اے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھانا نہ دو اور زمین  میں فساد نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی  مومن ہو۔’’

وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ( البقرہ:205)

‘‘ اور جب وہ لوٹ کر جاتاہے تو زمین میں اس لیے دوڑ دھوپ کرتاہے کہ فساد پھیلائے ، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا’’۔

گزشتہ بیس برسوں میں دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی طرف سے اپنی حکومتوں کے خلاف یا امریکہ ، روس ، برطانیہ، فرانس ..... کسی بیرونی طاقت کے خلاف ان کی جارحیت یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی پالیسوں ، یا ان کے کھلے تشدد کے جواب میں اختیار کیا جانے والا تشدد کا راستہ بھی انہیں خارزاروں سے گزراہے جن میں قدم رکھنے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے ۔ خاص طور پر گزشتہ چند برسوں میں امریکہ کے خلاف کیے جانے والے تشدد  میں انڈونیشیا ، فلپین ، یمن ، افریقہ، مصر، مراقش ، سعودی عرب اور خود امریکہ میں کی جانے والی کاروائیوں  میں معصوم جانیں ہلاک ہوئی ہیں  اور شہری تنصیبات مسمار ہوئی ہیں ۔

اس سے بہت چھوٹے پیمانہ پر اور بہت کم تعداد میں خود ہمارے ملک ہندوستان میں بھی جوابی تشدد نے اکثر دہشت گردی کی شکل اختیار کرلی ۔ یہ کارروائیاں تشدد کے استعمال کے بارے میں اسلام کی مقرر کردہ حدود سے صریح تجاوز پر مبنی تھیں ۔ یہ تشدد نہ تو دفاع کی تعریف میں آتا ہے نہ ازالۂ فتنہ کے لیے کیا جاتاہے نہ یہ دعویٰ کیا جاسکتاہے کہ یہ وہ سزائے جرم ہے جو کوئی با اختیار حاکم کسی مجرم کو دیتا ہے ۔ مزید برآں مسلمانوں کی طرف سے حالیہ جوابی تشدد نے عملاً جو شکلیں اختیار کی ہیں وہ سب کے سب تشدد کے استعمال کی اسلامی حدود کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔

سفارت خانوں پر حملے، مسافر بردار ہوئی جہازوں کا اغوا، سیر و سیاحت کے لیے آئے ہوئے افراد کی بسوں پر حملے ..... ان میں عورتوں ،بچوں ، بوڑھوں اور غیر متعلق اہل کاروں کی جانیں تلف ہوئیں  اور کثیر مقدار میں مال و املاک ہلاک ہوئے ۔ یہ بات خود ان کا روائیوں کے نا قابل قبول ہونے کے لیےکافی ہے ۔ ان کاروائیوں سے کچھ حاصل ہواکہ نہیں، اس کا ذکر ہم آئندہ سطروں میں کریں گے لیکن ان سے دنیا کے عام انسانوں  کی نظر میں اسلام کی تصویر ضرور بگڑتی جارہی ہے ۔ وہ دین جو اصلاح ، رحمت وشفقت اور انسان دوست اور انسان دوستی کا دین ہے اور حالت جنگ میں بھی انسانی جان و مال کا احترام ملحوظ رکھتا ہے اس کےنام پر بے رحمی سنگ دلی اور ہر طرح کی اخلاقی حدود سے دل و دماغ میں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے خطرہ ، خوف او ربالآخر نفرت کے جذبات پیدا کررہاہے ۔ ایک داعی جماعت کے لیے جو اپنامشن شہادت علی الناس قرار دیتی ہو اس سے بڑا نقصان        کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔

موجودہ صورت حال میں تشدد

تشدد او رجوابی تشدد کے بارے میں اسلام کے اصولی موقف کے بیان کے بعد اب ہم بعض مخصوص حالات کی نسبت سے یہ جانناچاہیں گے کہ ان میں تشدد اختیار کیا جاسکتاہے کہ نہیں ۔ ہمارے سامنے چار مخصوص حالات ہیں ۔ مسلم اکثریت کے ممالک میں اسلامی حلقوں پر حکومت کی جانب سے کیا جانے والا ظلم و ستم ، وہ آزاد مسلم علاقے جن کو طاقت کے ذریعہ کسی غیر مسلم علاقہ میں ضم کرلیا گیا ہے اور تشدد کے ذریعہ قابو میں رکھا جارہا ہے ، غیر مسلم اکثریت کے جمہوری ممالک میں بسنے والی مسلمان اقلیتوں میں سے بعض جن کو جارحیت کاہدف بنایا جارہا ہے اور آخر میں، امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی طرف سے کیا جانے والا حالیہ تشدد جس کا نشانہ بعض مسلمان ملکوں ،  گروہوں اور افراد کو بنایا جارہا ہے ۔

1۔ پہلی صورت حال کی نمایاں ترین مصر ہے۔ 1954 سے مصر میں الاخون المسلمون کے خلاف مظالم کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ کسی نہ کسی شکل میں برابر جاری رہا ۔ اس عرصہ میں بہت کچھ ہوا جس کا جائزہ لینا یہاں ممکن نہیں ہے ۔ اور مصر کانمونہ بہت سے عرب ممالک میں دہرایا جاتا رہا ۔ صحیح رائے یہ ہے کہ کسی مسلمان ملک میں اسلامی حلقوں کے خلاف حکومتی تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا جانا چاہئے بلکہ پر امن طریقہ سے انسانی  حقوق کی بحالی اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے جد وجہد کرناچاہئے ۔ چونکہ اس موقف کے حق میں دلائل پیش کیے جا چکے ہیں اس لیے اس مقالہ میں ، جس کااصل مرکز توجہ مذکورہ بالا چوتھی صورت حال ہے، ہم تفصیلات میں جانے سے گریز کریں گے ۔ (1) ( 1؎ ملاحظہ ہو عبدالحمید ابو سلیمان : العنف و ادارۃ الصراع السیاسی بین المبدأو الخیار۔ رویۃ اسلامیۃ ، واشنگٹن ۔ المعہد العالمی للفکر الاسلامی ۔ 2000 ء ۔ اردو ترجمہ تشدد اور سیاسی کشمکش کے نام سے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز۔ دہلی سے 2002 میں چھپا)

2۔ دوسرا مسئلہ ان آزاد مسلم علاقوں کا ہے جن کو کسی وقت غیر مسلم طاقت نے یک طرفہ کاروائی کے ذریعہ زیر نگیں کرلیا اور اب عالمی رائے عامہ اور مجلس  اقوام متحدہ کے دباؤ کے علی الرغم وہا ں سے نہیں ہٹتی ۔ اس کی سب سے نمایاں مثال فلسطین ہے۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی لڑائی اس دفاعی جنگ کی تعریف میں شامل ہے جسے ہم نے تشدد کا جائز استعمال قرار دیا ہے جیسا کہ متعلقہ آیات قرآنی کےمطالعہ سے واضح ہے ایسی صورت میں ہر وہ تدابیر اختیار کرنا چاہئے جس سے جارحیت کا خاتمہ ہو او رمسلمانوں کو ان کی زمین  واپس ملے ۔ اب یہ فیصلہ متعلقہ  لوگوں کو کرناہے کہ اس مقصد کے لیے کب، کس حد تک، مسلح جہاد کاطریقہ اختیار کریں اور کس حد تک دوسرے ممکن طریقوں پر بھروسہ کریں ۔ یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے جس پر اس مقالہ میں بحث ضروری ہو ۔

 (یہ مضمون اردو ماہنامہ زندگی میں مارچ ۲۰۰۴ میں شائع ہوچکاہے اور اب ان کی کتاب اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان اور اسلامی تحریک میں شامل ہے۔)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ایک ممتاز ہندوستانی عالم اور ماہر اسلامی معیشت ہیں۔ انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور کنگ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں اور انہیں کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا جا چکاہے۔انکا ای میل پتہ ہے:mnsiddiqi@hotmail.com

URL for English article Part 1:

 https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-1/d/99731

URL for English article Part 2:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-2/d/99845URL for Urdu article Part 1:

https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-1/d/99860

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-2/d/99871

 

Loading..

Loading..