ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی
انسانی زندگی میں تشدد کا کیا مقام ہے؟ اسلام نےکن حالات میں تشدد کو روا رکھا ہے اور کب اس کی اجازت دی ہے کہ تشدد مسلح جنگ کی شکل اختیار کرلے۔ ایسی صورت میں اس نے جنگ کو کن آداب کا پابند بنایا ؟ تشدد کب دہشت گردی قرار پاتا ہے ، کیا اسلام کسی حالت میں بھی دہشت گردی کی اجازت دیتا ہے؟زیر نگاہ مقالہ انہی سوالات کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے مگر ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ان میں سے کسی بھی سوال پر علمی بحث کے تقاضے کماحقہ پورے کرسکیں ۔ تشدد اور دہشت گردی کو موضوع بحث بنانے کی اصل وجہ موجود صورت حال ہے۔بہت سی جگہوں پر مسلمانوں کو تشدد اور دہشت گردی کا ہدف بنایا جارہا ہے ۔ او ربہت سی جگہوں پر مسلمان بھی تشدد اور دہشت گردی کا طریقے اختیار کررہے ہیں ۔ کیا مسلمانوں کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟ کی ایسا کرنے سے انہیں کوئی فائدہ ہوا ہے؟ کیا مسلمانوں کی طرف سے جوابی تشدد ان پرکیے جانے تشدد کو روک سکے گا؟
اس وقت عالمی سطح پر عراق کے خلاف امریکی و برطانوی جارحیت او رملکی سطح پر جارحانہ ہندوتوں کی لہر نے اسلامی حلقوں میں گہری بے چینی پیدا کررکھی ہے ۔ لوگ مستقبل کے بارے میں بہت اندیشہ ناک ہیں ایسی صورت میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جاناچاہئے؟ یہ مقالہ اسی سوال کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے۔
تشدد اور اخلاق
تشدد اصلاً ایک غیر اخلاقی عمل ہے ۔ اخلاقی اصولوں پر کار بند مہذب سماجی زندگی میں تشدد کی اجازت صرف جرم کی سزا کے طور پر ( تاکہ جرائم کا سد باب ہوسکے) اور دفاع کے لیے دی جا سکتی ہے ( تاکہ خود کو دوسروں کے تشدد سے محفوظ رکھا جاسکے ) اس کے علاوہ کسی حال میں تشدد کا استعمال ناروا ہے۔ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا راستہ افہام و تفہیم ، دعوت و تبلیغ اور ترغیب و ترہیب ہے نہ کہ تشدد ۔ دینی مقاصد کے لیے تو تشدد کا استعمال بالکل ہی نا مناسب ہے کیونکہ تشدد جبروا کراہ کا آلہ ہے جب کہ دین میں جبر وا کراہ کی کوئی جگہ نہیں ۔
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ( البقرہ: 256)
‘‘ دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سےالگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کاانکار کرے اس نے ایک ایسامضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔’’
اسلام مرحمت و شفقت ، رواداری اور نرم ، اور عفوو درگزر پرمبنی ہے ۔ مار پیٹ ،توڑ پھوڑ ، درشتی اور سخت گیری ا س کےمزاج سے مناسب نہیں رکھتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ( الاعراف:199)
‘‘ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نرمی اور درگزری کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤں اور جاہلوں سے نہ الجھو’’۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نرم روی کی تاکید کی اور یہ بھی بتادیا ہے کہ سخت گیری اور شدت پسندی سےکام نہیں بنتے ۔
عن عائشۃ ( رضی اللہ عنھا) ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ان اللہ تعالیٰ رفیق ۔ یحب الرفق ، و یعطی علی الرفق مالا یعطی علی العنف ، ومالا یعطی علی ماسواہ۔ رواہ مسلم و فی روایۃ لہ، قال لعائشۃ : علیک بالرفق و ایاک با لعنف والفحش ۔ ان الرفق لا یکون فی شیٔ الازانہ ولا ینزح عن شیٔ الا شنہ’’
( الخطیب العمری: مشکوۃ المصابیح ۔کتاب الاداب ، حدیث نمبر۔ 5068 طبع و مشق 1961 ، المکتب الاسلامی للطباعۃ والنشر۔)
‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نرم خو ہے ، نرم خوئی کو پسند کرتاہے ۔ وہ نرم خوئی کے نتیجہ میں وہ کچھ دے دیتا ہے جو شدت پر نہیں دیتا، نہ کسی اور طریقہ پر دیتا ہے ۔ یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے ،اور انہوں نے ایک روایت یہ بھی کی ہے کہ ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے) عائشہ سے کہا : نرم روی اختیار کر و اور تشدد سے اور فحش سےگریز کرو۔ نرمی جہاں پائی جائے اس میں چار چاند لگادیتی ہے اور جہاں نرمی مفقود ہواہے عیب لگ جاتا ہے’’۔
یہی وجہ ہے کہ اقدامی طور پر تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے منع کرنے کے ساتھ جوابی طور پر تشدد کی بھی ہمت شکنی کی گئی ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے :
وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَ لاَ السَّیِّئَۃُ اِدْ فَعْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحُسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیُنَکَ وَ بَیْنَہ عَدَاوَۃ کَاَ نَّہ وَلِیَّ حَمِیْم ۔ وَمَا یُلَقّٰھَا اِلاَّ الَّذِینَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَا اِلاَّ ذُوْ حَظّ عَظِیْم ( حٰمٓ السجدہ: 34،35)
‘‘ اور اے نبی نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرجو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے تمہارے ساتھ جس کی عداوت بڑھی ہوتھی وہ جگری دوست بن گیا ۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوگا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں ’’۔
اس سے انکار نہیں کہ دین میں تشدد کابھی موقع و مقام ہے، جیسا کہ دفاع اور سزا کی صورت میں ہے مگر ہماری پوری کوشش ہونی چاہئے کہ تشد کا استعمال کم سے کم ہو اور عام انسانوں کے سامنے زیادہ تر اسلام کی اصل تصویر ہی آئے جو محبت ، شفقت و رحمت اور عفو و درگزر پر مبنی ہے ۔ اسی لیے قرآن کریم نے ہمارے سامنے ایسے نمونے پیش کیے ہیں جہاں تشدد کے جواب میں تشدد کا طریقہ استعمال کیا جاسکتا تھا مگر نہیں کیا گیا ۔
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ۔ لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ۔ إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ ۔ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ ۚ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَٰذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي ۖ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ ۔ مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ۔ ( المائدہ۔ 27:32)
‘‘ اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی ۔ اس نے کہا ‘‘ میں تجھے مار ڈالوں گا’’ اس نے جواب دیا اللہ تو متقیوں ہی کی نذر قبول کرتا ہے ۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤنگا ۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے ۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس لیے آسان کردیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہ وگیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ پھر اللہ نے ایک کو بھیجا جو زمین کھود نے لگا تا کہ اسے بتائے کہ اپنےبھائی کی لاش کیسے چھپائے ۔ یہ دیکھ کر وہ بولا ‘‘ افسوس مجھ پر، میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا ’’ ، اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نےیہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا ا س نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا ۔ اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی ۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے درپے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔’’
ان آیات میں بتایا گیا کہ آدم کے نیک بیٹےنے اپنے دفاع میں بھی قتل کے لیے ہاتھ نہ اٹھایا، نیز یہ کہ کسی کاقتل سزا کے طور پر کب روا ہے اور جو جرم قتل یا فساد فی الارض کا مرتکب نہ ہو اس کی جان لینا کتنا سنگین جرم ہے ۔ ان آیات کے فوراً بعد وہ آیت آتی ہے جس میں فساد پھیلا نے والوں اور قانون توڑ کو اللہ و رسول کے خلاف جنگ کرنے والوں کی سخت سزا مقرر کی گئی ہے ۔
قتال کی اجازت
واضح ہو ا کہ تشدد جس سے جانیں ہلاک ہوں صرف ان مخصوص حالات میں کیا جاسکتا ہے جن کی صراحت کردی گئی ہے ۔ اب ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے قرآن کریم میں ایسے تشددکی جس کے نتیجہ میں انسانی جانیں ہلاک ہوں کب اور کن حالات میں اجازت دی گئی ہے ۔
جب تک مسلمان مکہ میں رہےانہیں ایسا تشدد استعمال کرنے کی اجازت نہیں ملی حالانکہ ان پرمسلسل تشدد کیا جارہا تھا بعض حالات میں اس تشدد نے انتہائی غیر انسانی شکلیں اختیارکر لی تھیں، اور اس کے نتیجے میں جان بھی جا چکی تھی جیسا کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا۔ خیال کیا جاسکتاہے کہ شروع کے برسوں میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور وہ کمزور تھے ،تشدد کا جواب تشدد سے کیوں کر دے سکتے تھے ۔ مگر 6 نبوت کے لگ بھگ بھی جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ جیسے طاقتور اور با اثر لوگ ایمان لا چکے تھے اور وہ ظالموں سے نبرد آزما ہونے کی اجازت بھی طلب کررہے تھے ، مسلمانوں کو تشدد کے جواب میں تشدد کی اجازت نہیں ملی بلکہ بڑھتے ہوئے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے حبشہ کی طرف ہجرت کا مشورہ دیا گیا ۔ چنانچہ 100 سے زیادہ مسلمان حبشہ میں جا بسے (1)۔
مسلمانوں کو تشدد کے استعمال اور حملہ آوروں کو قتل کرنے کی اجازت مدینہ آنے کے بعد ملی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سربراہی میں ایک ایسی ریاست وجود میں آچکی تھی جس میں اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم چلتا تھا ۔ جب وہاں بھی ا نہیں چین سے نہ رہنے دیا گیا ان پر حملہ کیا گیا اور جو مسلمان کسی مجبوری یا کمزوری کی وجہ سے مکہ ہجرت نہ کرسکے تھے ان کو بھی سنانے کا سلسلہ جاری رہا تو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ان کو جنگ کرنے کی اجازت دی کہ چونکہ تم مارا جارہا ہے لہٰذا تم بھی مارو۔
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ۔ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ( الحج: 39:40)
‘‘ اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے ۔ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ۔ او راللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے صرف اس قصور پرکہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔’’
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ( البقرہ:190)
‘‘ اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتےہیں ۔ مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کی پسند نہیں کرتا۔’’
یہ جنگ جس کی مسلمانوں کی اجازت دی گئی تھی کوئی اقدامی جنگ نہیں تھی جس میں دوسرے علاقوں پر اس لیے حملہ کیا گیا ہو کہ ان کواپنی ریاست میں شامل کرلیا جائے ۔ یہ دفاعی جنگ تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ حملہ آور پسپا ہوکر آئندہ حملہ سے باز آجائے ۔ حملہ آور نہ صرف مسلمانوں کوپر امن پناہ گاہ ، مدینہ کی اسلامی ریاست ، پر چڑھ آئے تھے بلکہ جہاں موقع ملتا تھا انسانوں کو اسلام کی دعوت قبول کرنے کے ان کے بنیادی انسانی حقوق سے جبروا کراہ اور تشدد کے ذریعہ محروم رکھنے پر تلے ہوئے تھے اس لیے مسلمانوں کی جنگ کا ایک مقصد یہ بھی قرار پایا کہ ‘‘ فتنہ’’ ختم ہوجائے اور اللہ اطاعت ہر اس انسان کے لیے ممکن ہوجائے جو اللہ کے دین کو قبول کرنا چاہئے ۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ( البقرہ : 193)
‘‘ تم ان سے لڑتےرہو یہاں تک کہ فتنہ باقی رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے پھر آپ وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا کسی پردست درازی روا نہیں ۔’’
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ( النساء :75)
‘‘ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردو ں عورتوں او ربچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سےہمارا کوئی حامی مددگار پیدا کردے’’۔
جیسا کہ قرآن کریم میں صراحت ہے، اللہ تعالیٰ نےزندگی اور موت کا سلسلہ جاری کر کے انسانوں کو آزمانا چاہا ہے کہ کون نیکی کی راہ چلتا ہے اور کون بدی کی:
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ( الملک :2)
‘‘ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھیج۔’’
‘‘ فتنہ’’ اس ماحول کو بدل دیتا ہے جس میں یہ آزمائش عمل میں آسکے کیونکہ کچھ ظالم انسانوں کو زبردستی کسی راہ کے اختیار کرنے سے روکنے لگتے ہیں ۔ اسلامی جہاد جہاں مسلمانوں کی جان و مال اور ان کے زیر نگیں علاقوں کو حملہ آوروں سےبچائے رکھنے کے لیے ہے وہیں ان لوگوں سے جبروا کراہ ہٹانے کے لیے بھی ہے جن کو ان کے اس ابتدائی حق اختیار سے محروم کیا جارہا ہو جس کا اوپر نقل کی گئی آیت میں ذکر ہے۔ اسلامی جہاد کا ایک مقصد عام انسانوں کی آزادی اختیار کی بحالی ہے۔
تشدد کا استعمال جرائم کی سزا کے طور پر ہو یا اسلام اور مسلمانوں کی بقاء و تحفظ اور انسانی حق اختیار کی بحالی کے لیے ، قتال اور تشدد اسی حد تک روا ہے جتنا اس کام کے لیے ضروری ہو ورنہ وہ عدوان یا اعتداء کی تعریف میں آجائے گا جس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔
دفاعی جنگ اور جرائم کی سزا، جن میں محار بہ جیسے سخت جرم کی سخت ترین سزائیں بھی شامل ہیں ، ان د و شکلوں کے علاوہ کسی شکل میں تشدد کا استعمال ، بالخصوص ایسا تشدد جو جان لینے کی شکل اختیار کرلے، جائز نہیں ۔
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ( الانعام: 151)
‘‘اے نبی آؤ میں تمہیں سنا ؤں تمہارے رب نے تم پرکیا پابندیاں عائد کی ہیں ۔ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم تمہیں بھی رزق دیتےہیں اور ان کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ، اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کر و مگر حق کے ساتھ ۔ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے تو قع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لوگے۔’’
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ( بنی اسرائیل : 33)
‘‘ قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کےساتھ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبہ کاحق عطا کیا ہے پس چاہیے کہ و قتل میں حد سے نہ گزرے ۔ اس کی مد دکی جائے گی۔’’
اوپر نقل کی گئی آخری آیت نے تشدد کے بدلے تشدد کی راہ کھولی ہے،مگر تو اسے لازمی قرار دیا ہے نہ کسی کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے ۔ جیسا کہ قصاص کے احکام کےمطالعہ سے معلوم کیاجاتا ہے ، اور جس بات کی طرف سے خود اس آیت (بنی اسرائیل آیت 33) میں اشارہ پایا جاتا ہے ، قتل عمد کے قصاص میں قاتل کو سزا ے قتل دینا اسلامی ریاست کاکام ہے ، مقتول کے اولیا ء یا ورثا یہ اقدام بطور خود نہیں کرسکتے ۔ ایک عام پالیسی کے طور پر اسلام کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ تشدد کا جواب تشد د سے دینے کی ہمت افزائی کرے ۔ بلکہ وہ اسےبہتر سمجھتا ہے کہ آئندہ تشدد کے سد باب کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو کچھ ہوگیا اس کے سلسلہ میں عفو ودر گزر سے کام لیا جائے ۔
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ۔ وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ ۔ إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔ وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ( الشوریٰ:40:43)
‘‘ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے ۔ پھر جوکوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔ او رجو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ، ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتےہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے ۔ اورجو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔’’
یہاں آدم کے نیک بیٹے کا رویہ یاد رکھنا چاہئے جو سورۂ بقرہ کی آیا ت 28 تا 32 کے ذریعہ ہمارے سامنے آچکا ہے ۔ خدا کو ہمیشہ یاد رکھنے والے تقویٰ شعار مومن بندوں کے لیے ، تشدد کے جواب میں تشدد کی اجازت تو ہے مگر اسلام کے سامنے کچھ اعلیٰ مقاصد بھی ہیں جن کا تقاضا کچھ اور ہوسکتا ہے یہی نکتہ ہے جو بقرہ آیات 28 تا 32 اور سورہ شوریٰ آیات 40 تا 43 پر غور و فکر چاہتا ہے ۔ بات صرف اتنی نہیں کہ ہم پر جو تشدد ہوا اور ہورہا ہے اس کے جواب میں تشدد کا طریقہ اختیار کرنا ہمارے لیے جائز ہوگا ۔ یہ بات بھی سامنے رکھنے کی ہے کہ ایسا کرنے سے ہمارے دعوتی کام کو، اور شہادت علی الناس کے مشن کو مدد ملے گی یا اسے صدمہ پہنچے گا۔
(یہ مضمون اردو ماہنامہ زندگی میں مارچ ۲۰۰۴ میں شائع ہوچکاہے اور اب ان کی کتاب اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان اور اسلامی تحریک میں شامل ہے۔)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ایک ممتاز ہندوستانی عالم اور ماہر اسلامی معیشت ہیں۔ انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور کنگ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں اور انہیں کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا جا چکاہے۔انکا ای میل پتہ ہے:mnsiddiqi@hotmail.com
URL for English article Part 1:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-1/d/99860