ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق
29 مارچ، 2013
زمانہ ایک ،حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری، قصۂ جدید و قدیم
(علامہ اقبال)
اسلام جہالت و نادانی کاسخت ترین مخالف ہے ۔ وہ جہاں بھی ہو جس صورت میں بھی ہو اسلام نے اس کے نیست و نابود کرنے کی کوشش کی ہے وہ تاریکی کا مقابلہ سچائی کے ذریعہ ، شرک کی جہالت کامقابلہ توحید کے ذریعہ ، اندھی تقلید کا مقابلہ دلیل و برہان کے ذریعہ بیہودہ عادتوں اور موہومہ خرافات کا مقابلہ صحت مند اور عاقلانہ ادب و رواسم کے ذریعہ کرتاہے۔ چنانچہ اسلام نے سب سے پہلے جہالت سےجنگ شروع کی اس نے لکھنے پڑھنے کی تعلیم کو اہم قرار دیا۔ قرطاس و قلم کے مرتبہ کو بلند کیا ۔ سب سے پہلی آسمانی آواز جو وحی اوّل کی صورت میں پیغمبر اسلام کے گوش زد ہوئی وہ یہ ہے۔
‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے پرودگار کے نام سے پڑھو جس نے عالم کو خون سے پیدا کیا۔ پڑھو! تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے ۔ جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ، اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اسے علم نہ تھا’’۔(پ۔30 ‘س’ علق ، آیت 1 تا 5)
اور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
‘‘ وہی تو ہے جس نے مکہ والوں میں انہی میں سے ایک (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو پیغمبر (بناکر) بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور ان کے نفوس کو پاک کرتے ہیں اور ان کو خدا کی کتاب اور عقل کی باتیں سکھاتے ہیں ۔ اگر چہ اس سےپہلے تو یہ لوگ صریحی گمراہی میں تھے۔’’ ( پ 28 س، جمعہ ، آیت 2)
بعثت کامقصد یہی باتیں ہیں جو اس آیۂ شریفہ میں بیان ہوئی ہیں اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ‘‘بعثت معلماً’’ میں اللہ کی طرف سے معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ قرآن مجید تمام ان چیزوں کا نچوڑ ہے جن کو بعثت میں انجام پانا چاہیے تھا۔ درحقیقت قرآن وہ دسترخوان ہے جسے خدا ئے تبارک و تعالیٰ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانوں کے درمیان پھیلایا ہے تاکہ تمام انسان اپنی اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق اس سے رزق علم و آگہی حاصل کریں۔
قرآن مجید آسمانی صحیفہ ہے۔ یہ اپنا منصبی فریضہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کے عقائد و افکار کی اصلاح کرائے اور بتائے کہ زندگی بسر کرنے کا صحیح مطابق فطرت طریقہ کیا ہے۔ دوسری طرف اس مقصد کے حاصل کرنے کی غرض سےذہن انسانی کی وسعتوں اور افہام و تفہیم کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کیلئے وہ کبھی زمین و آسمان اور ستاروں کی منظم خلقت میں غور و خوض کرنے کی دعوت دیتا ہے تو کبھی پودوں ، جانوروں اور پہاڑوں کے دامن میں چھپے ہوئے بھید وں کی طرف واضح اشارے کرتاہے۔ اسی قرآن میں کہیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ بادلوں ، بارشوں ، سمندروں اور ہواؤں کے وجود کی مصلحتیں بتائی جارہی ہیں ۔ کسی مقام پر یہ بیان ہورہا ہے کہ چاند، سورج، ستاروں ، دن رات، ماہ وسال اور زمین کی گردش کا فلسفہ کیا ہے اس بات سےکون انکار کرسکتاہے کہ قرآن فزکس (Physics) کمیسٹری (Chemistry) اور نیچرل سائنس (Natural Sciences) کی کتاب نہیں ہے۔ قرآن کریم میں مِصر کے مشہور و معروف عالم علامہ طنطاوی کی تحقیق کے مطابق ساڑھے سات سو آیتیں ایسی موجود ہیں جن میں علوم طبعیہ (Natural Sciences) کے مسائل کی طرف واضح اشارے ملتے ہیں ۔ (تفسیر جواہر ۔ ج ، 1 ،ص 7) اور اگر ہم تھوڑا سا بھی غور کریں تو ہمیں عنقریب ہی معلوم ہوجائے گا کہ قرآن مجید ہی تمام علوم قدیم و جدید ، منطق ، فلسفہ ، اصول ، فقہ ، نجوم، تاریخ ، تفسیر، رجال، قیافہ، رمل، کیمیا، الجبرا، ہیئت ، کلام، حدیث، طب، نحو و صرف ،کہانت، ریاضی ، حیوانات ،جمادات، بناتات (Botany) جیولوجی (Geology) زولوجی (Zoology) انتھر و پولوجی (Anthropology) سائیکا لوجی (Psychology) ، سوشالوجی (Sociology) بائیو لوجی (Biology) پیتھا لوجی (Pathology) ، پولیٹکل سائنس (Political Science) ایکو نامکس (Economics) وغیرہ کا مبنع و سر چشمہ ہے۔
اسلام میں اور دوسرے مذاہب کے تعلیمی نظریہ میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ دنیا کے دوسرے مذاہب کازور عبادت و ریاضت اور ادو و ظائف پر ہے ۔ مگر تعلیمات نبوی کی خصوصیت یہ ہے کہ ان سب کے مقابلہ میں علم کی فضیلت اور اہمیت کو محسوس کرایا گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
‘‘عبادت گزار پر صاحب علم کو اس طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح ستاروں پر چودھویں کے چاند کو ’’۔(ابوداؤد ، ترمذی)
دنیا کے دوسرے مذاہب نے علم کو مردوں کی میراث بنا کر پیش کیا ہے۔ کیونکہ ان کی نظر میں عورت کسب فضیلت او رکسب کمال کی مستحق نہیں ہے۔ مگر اسلام نے علم کی روشنی کو مردو عورت ہر دو کے قلب و ذہن تک پہونچا یا ہے اور حصول علم میں مرد وعورت کے اختصاص کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
‘‘خدا تم لوگوں میں سے ان اشخاص کے ذہن کو بلند کرتا ہے جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا ۔’’ (سورۂ مجادلہ ۔11)
قرآن مجید کی اس آیۂ مبارکہ میں مرد و عورت کی تخصیص نہیں بلکہ جو بھی ایمان لائے اور علم حاصل کرے اس کے لیے بلند درجات ہیں۔ خواہ وہ مرد یا عورت ، اسلام دونوں کو برابر کا درجہ دیتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘‘طب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ ’’ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر واجب ہے۔’’ ( معالم الدین ، ابن ماجہ ،کتاب العلم )
ہمارے مسلم معاشرے میں دقیانوسی فکر اور فرسودہ خیالات رکھنے والے کچھ حضرات ہمیشہ سے رہے ہیں اور انہی میں سے چند افراد آج بھی موجود ہیں جو تعلیم نسواں اور علوم جدیدہ کی اکثر و بیشتر مخالفت کرتے رہتے ہیں ۔ اور جدید علوم کو مذہبی علوم کے سامنے شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں ۔ اور کبھی جدید علوم کو کفر و لا دینی کی علامت کہتے ہیں حالانکہ ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ تمام قدیم و جدید علوم کامصدر قرآن ہے پھر اب قرآنی علوم کو حاصل کرنا کیسے کفر و لادینی کہا جاسکتا ہے ؟ کاش کہ جدید علوم کی مخالفت کرنے والے حضرات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو سمجھنے کی کوشش کرتے کہ ‘‘ اطلبو العلم و لوکان بالصین ’’ علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین جانا پڑے ۔ یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ اگر علم سےمراد یہی رسمی علم دین ہوتا جسے ہم آپ ‘‘علم دین’’ کہتے ہیں تو اس علم کے صادر ہونے کا مرکز تو اس وقت مدینہ ٔ منورہ تھا جہاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے ۔ اس کے لیے مناسب یہ تھا کہ یوں ارشاد فرمایا جاتا ۔ ‘‘ علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے چین سے آنا پڑے۔’’ اس حدیث سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا مطمع نظر (دینی علوم کے ساتھ ) دنیاوی علوم کا حصول تھا۔ فا عتبر و یا اولی الا بصار۔ اب ہمیں دنیاوی علوم کی مخالفت کرنے کا کوئی حق نہیں رہ جاتا اور اگر اس کے بعد بھی کوئی دنیاوی علوم کی مخالفت کرتا ہے تو بقول قرآن : صم بکم عمی فھم لا یر جعون۔ یہ لوگ بہرے، گونگے، اندھے ہیں کہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آسکتے ۔
جدید علوم کی حصولیابی کے متعلق ہم نے جو دلائل پیش کیے ہیں غالباً ہماری بات کی توثیق کے لیے وہ کافی ہیں ہمارے موضو ع کی دوسری شق تعلیم نسواں ہے جہاں تک تعلیم نسواں کامسئلہ ہے ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے عورتیں معاشرے کی تعمیر میں حساس کردار کھتی ہیں اسی لیے اسلام عورت کو ایک حد تک بلند مرتبہ عطا کرتا ہے ۔ تاکہ وہ مرد اساس معاشرے (Patriarchal Society) میں اپنے انسانی حقوق کو آسانی کے ساتھ حاصل کرسکے اور ضعف نسواں کا شکار نہ ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘ تین آدمی ایسے ہیں جن کو دہرا اجر دیا جائے گا ان میں ایک وہ شخص ہے جس کے پاس شب باشی کے لیے باندی تھی اور اس نے اس کی اچھی تربیت کی اور اچھی تعلیم دی پھر اسے آزاد کر کے شادی کرلی ۔ (بخاری کتاب العلم ، باب تعلیم الرجل امہّ)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ا س تعلیم و تربیت کا یہ اثر ہوا کہ صحابہ نےاپنی باندیوں کو تعلیم دیناشروع کردی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ فرمائی عرب کے معاشرے میں لڑکیوں کو حقارت دیکھنا اور ان سے بد سلوکی کرنا عام معمول تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت حال کو تبدیل کرنے پر بہت زور دیا اور فرمایا :
‘‘ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ، ان کوادب سکھایا ، ان پر رحم کیا، ان سے حسن سلوک کیا، تو اس شخص کے لیے جنت لازم ہے’’ ۔ ( مسند احمد ، ج 3 ص 97)
اس حدیث میں قابل غور امر یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان سے حسن سلوک پر بھی یکساں اجر ہے مگر آپ نے لڑکیوں کی تادیب و تربیت پر ہی جنت کی بشارت کیوں سنائی۔ غالباً اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ ایک لڑکے کی تعلیم محض ایک فرد کی تعلیم ہے اور ایک لڑکی کی تعلیم ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک خاندان کی تعلیم ہےکیونکہ ایک معاشرے کا فاسد یا خوب ہونا اس معاشرے کی عورت پر منحصر ہے۔ عورت ہی ایک بے مثال مخلوق ہے جس اپنے دامن سےمعاشرے میں ایسے افراد کو پروان چڑھاتی ہے جن کی برکات سے نہ فقط ایک معاشرہ بلکہ معاشرے استقامت اور اعلیٰ اقدار کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ اور اگر عورت تعلیم یافتہ نہیں ہے تو اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے ۔ شاید اسی لیے فارسی ادب کی شہرۂ آفاق شاعرہ پروین اعتصامی نے کہا ہے :
ہمیشہ دختر امروز مادر فردا است
زمادر اسب میسر بزرگی پسراں
‘‘آج کی لڑکی کل کی ماں ہوتی ہے۔ یہ ایک دائمی اصول ہے اور ماں کی ہی بدولت لڑکے کو فضیلت اور بزرگی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اماں کو تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔’’
یہی وجہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت کو مختلف مواقعوں پر مترشح کیا اور خواتین کی تعلیم کا معقول انتظام کیا چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ عورتوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کے دربار میں ہمیشہ مردوں کاہجوم رہتا ہے ۔ اس لیے ہم استفادہ نہیں کرپاتے ہیں لہٰذا آپ ہمارے لیے ایک الگ دن مقرر فرمائیں تاکہ ہم بھی مستفید ہوسکیں ، پیغمبر خدانے عورتوں کی خواہش کااحترام کرتے ہوئے ان کے لیے ایک علیحدہ دن معین کیا اور انہیں نیک کاموں کا حکم دیا۔
اس حدیث مبارکہ سے عورتوں کے جداگانہ تعلیم کے نظام کی نشاندہی ہوتی ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی تعلیم کیلئے باقاعدہ علیحدہ دن کا تقرر فرما دیا تھا اس خصوصی دن عورتیں اپنے روزمرہ کے پیش آنے والے مسائل و مشکلات لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس جاتیں اور اپنے سوالات کا جواب حاصل کرتیں ۔ عورتوں کے بعض سوالات ایسے بھی ہوتے جن میں براہ راست اللہ تعالیٰ اپنی آیات نازل کر کے رہنمائی فرمایا۔ مثال کے طور پر خولہ بنت ثعلبہ نے اپنے شوہر کی شکایت کی اور ان کے قضیہ ٔ ظہار میں استفسار کیا تو جواب میں سورۂ ‘‘مجادلہ’’ کی ابتدائی آیا ت نازل ہوئیں ۔ جن سے متعلقہ مسئلہ میں سارے مسلمانوں کی رہنمائی ہوئی ۔
عورتوں کے بعض سوالات طبعی طور پران کی نسوانی ضروریات او رمشکلات سےمتعلق ہوتے مگر علم کی فرضیت کا احساس ان کی شرم و حیا پر حاوی ہوجاتا اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سارے سوالات کرتیں چنانچہ سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں او رکہنے لگیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ حق بیان کرنے میں حیا نہیں کرتا تو میں شرعی مسئلہ دریافت کرنے میں کیوں حجاب کروں ،لہٰذا میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ عورت کو احتلام ہوتو کیا اس پر غسل کرنا لازم ہے۔؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگر وہ پانی دیکھے تو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اور پھر پوچھا ۔ اے اللہ کے رسول کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔ ہاں! اگر ایسا نہ ہو تو اس سے بچہ کی مشابہت کس طرح ہوتی ہے؟ ’’ (بخاری کتاب العلم باب الحیا فی العلم )
مذکورہ حدیث سےیہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی ہے کہ اسلام مرد و عورت کے معاملہ میں ذرّہ برابر بھی تفریق کا قائل نہیں بلکہ وہ دونوں کو برابر کا درنہ دیتا ہے اور وہ تمام جدید و قدیم علوم جو ایک مرد حاصل کرسکتا ہے ایک مسلم خاتون بھی بغیر کسی تردو کے حاصل کرسکتی ہے لیکن یہ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تعلیم نسواں کیلئے مناسب اور معقول ماحول فراہم کریں ، کیونکہ اس پر آشوب دور میں اساتذہ بھی قابل اعتبار نہیں رہے ہیں دانش گاہوں میں جس طرح طالبات کا جنسی استحصال کیا جارہا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ، شاید اسی لیے نظیر اکبر آبادی نے ہمیں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :
ذی علم و متقی ہوں جو ہوں ان کے منتظم
استاد اچھے ہوں مگر استاد جی نہ ہوں
شاید ہمارے مسلم معاشرے میں زیادہ تعلیم یافتہ خواتین اس لیے نہیں ملتیں کہ ہمارے یہاں استاد کم اور استاد جی زیادہ پائےجاتے ہیں نیز ہم لوگوں کے ذہن میں یہ بات سرایت کرگئی ہے ۔کہ لڑکیوں کو اگر جدید علوم کی تعلیم دی جائے تو وہ مشرق تہذیب سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور مغربی تہذیب کی دلداہ ہوجاتی ہیں ۔ بقول نظیر اکبر آبادی :
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی
بہر حال اس خیال کا کلیہ نہیں بنایا جاسکتا ۔کیونکہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے میں خود یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور میری ہم درس مسلم لڑکیاں یونیورسٹی میں اسلامی لباس زیب تن کر کے آتی ہیں میں یہ بات ان کے بارے میں پورے و ثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے بعض لڑکیاں اسی ہیں جن کا چہرہ آج تک یونیورسٹی کے لڑکیوں نے بھی نہیں دیکھا ہے بلکہ بعض روشن خیال اساتذہ نے بھی اپنی خیال افروز دلیلوں کے ذریعہ انہیں بے نقاب کرنے کی حتی الامکان کو ششیں کیں مگر وہ سب رائیگا گئیں بقول میر الٹی ہوگئیں سب تدبیریں ۔۔۔۔۔ غالباً وہ گھر سے نقاب لگا تی ہیں تو گھر ہی پر جاکر اتارتی ہیں ۔ ( سب اسلامی تعلیمات کا اثر ہے) اور اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری لڑکیاں مغربی علوم تو حاصل کریں مگر مغربی طرز کی تا سئی و پیروی نہ کریں بے شرعی و عریانی کو اپنا شعار نہ بنائیں ،محفل رقص و سرور کی شمع نہ بنیں تو ہمیں اس کے لیے اپنی قوم کی لڑکیوں کو اسلامی معزز خواتین خصوصاً صدیقہ طاہرہ ، حضرت فاطمہ زہرا اسلام علیہا کی سیرت از بر کرانی ہوگی اور دینی علوم سے ان کو آراستہ وپیراستہ کرنا ہوگا تاکہ یہ ان کی ہر ہر قدم پر رہنمائی کرتے رہیں اور جب وہ مذہبی علوم میں مستحکم ہوجائیں تو انہیں جدید علوم کی تعلیم دی جائے اور اگر ہم اپنی قوم کی لڑکیوں کو دینی تعلیم نہ دلائیں صرف دنیاوی تعلیم دیں تو یقیناً اس کا نتیجہ غلط بر آمد ہوگا، بقول شاعر مشرق علامہ اقبال :
بیگانہ اگر دین سے ہے مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
29 مارچ، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/contemporary-women-modern-sciences-/d/11146