ڈاکٹر مہتاب جہاں
17 اپریل، 2016
حکیم ابوالفتح عمر بن ابراہیم معروف بہ عمر خیام ، یہ نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ جب بھی عمر خیام یا اس کی رباعیوں کا ذکر ہوتاہے تو سب سے پہلے شراب و مینا ، صراحی و ساغر اور ایک بے حد حسین دو شیزہ کا پیکر ذہن میں ابھرتا ہے اور ایک شخص گھٹنوں کے بل بیٹھا ہاتھ پھیلا ئے شراب کا طلب گار ہے یہ تو ہے ایک عام خیام مگر خاص بات یہ ہے کہ اس عظیم المرتبت شاعر کے اوصاف کے بارے میں عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ ایران کا شاعر، سلجوقی دربار (اور وہ دربار جو اپنے عہد کا ایران کا سب سے بڑا دربار تھا) کے بڑے بڑے عالموں ، فاضلوں، اور ندما میں عمر خیام کا نام بھی شمار ہوتا تھا۔ عمر خیام کو صرف شعر سے ہی شغف نہیں تھا بلکہ وہ کئی دوسرے علوم سے بھی بہرہ ور تھا۔ جیسے نجوم ، ہیئت ، حکمت، فلسفہ ، ریاضی، سائنس ، طب اور قرآت ، جس میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔
ملک شاہ سلجوقی کی تقویم کی اصلاح میں یہ عظیم شاعر بھی شامل تھا ۔ یہی وہ شاعر تھا ۔ جو حجت الاسلام امام غزالی سےعلم و حکمت اور دوسرے علوم میں مباحثے کیا کرتا تھا ۔ وہ سیاحت کا بھی دلدادہ تھا ۔ خراسان کے مختلف شہروں جیسے طوس، بلخ، بخارا، اور بغداد ومرد کے اسفار کے علاوہ ایک روایت کے مطابق سفر حج پر بھی گیا تھا ۔ بادشاہ کہیں سفر پر کوچ کرنے سے پہلے عمر خیام سےفال نکلواتا تھا تب سفر کا ارادہ کرتا ۔ سلطان سنجر ملک شاہ سلجوقی کا بیٹا اسے اپنے ساتھ تخت پر بغل میں بٹھاتا تھا ۔ اور خاقانِ بخارا بھی اسی طرح کا سلوک کیا کرتا ۔ اور یہی وہ شخص تھا جو آبلہ ( چیچک) کا علاج کیا تھا ۔ اور یہی وہ شاعر ہے جس پر سب سے پہلے مغرب علماء نے قلم اٹھایا ، جس میں مشہور و معروف ہوٹسما (Houtsma) جو کہ ایک فرنچ عالم تھا اس نے آل سلجوق کی تاریخ زبدۃ النصرہ پر 1889ء میں ایک فرنچ مقدمہ لکھا جس میں خیام کا ذکر ملتا ہے ۔ اس کے بعد ایک روسی مستشرق عالم والینٹین زو کووسکی (Valentine Zkukouski) خیام پر 1897ء میں ایک محققانہ روسی زبان میں لکھا یہ مضمون پٹرسبرگ میں مظفر یہ نام کے ایک مجموعۂ مقالات کے ضمن میں شائع ہوا ۔ اس کے ایک سال بعد پروفیسر ایڈوربراون نے 1899ء میں جنرل آف دی رائل ایشیا ٹک سوسائٹی لندن میں ایک مختصر مضمون بعنوان ‘‘خیام پرکچھ مزید روشنی’’ لکھا ۔ بعد ازاں فٹرز جیرالڈ کا رباعیات عمر خیام پرانگریزی میں ترجمہ آیا جو کہ میتھیون پریس لندن میں ایک نئے نسخہ کے طور پر 1900ء میں شائع ہوا۔ اس پر ڈاکٹر ڈینی سنب راس نے 91 صفحات کا ایک طویل مقدمہ تحریر کیا ۔ اس کے علاوہ ایران کے معروف عالم علامہ عبدالوہاب قزوینی نے بھی چہار مقالہ کتاب کی تصحیح و تحشیہ اور ضمیمہ نگاری میں خیام کے متعلق پروفیسر براون کی تحریر کا خلاصہ فارسی زبان میں نقل کر کے بعض جزئی باتیں بڑھائیں ۔ غرض دنیا کی تمام بڑی او رمہذب زبانوں میں خیام کی رباعیوں کا ترجمہ ہوچکا ہے ۔ شبلی بھی اپنی مشہور کتاب شعر العجم میں خیام کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے خیام کو مغربی علماء نے ہی پہچانا اور سراہا اور ایشیا سے زیادہ اس کی قدر دانی کی ۔ خیام کے خیالات یورپ سے اس قدر ملتے جلتے ہیں کہ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو شاید یورپین بن جاتا ۔ ان کے علاوہ کئی او رنام ہیں جو اس فہرست میں شامل ہیں ۔ مثلاً ہیرن ایلن ( Heron Allen) یہ عالی مرتبہ فلسفی او ررتبہ شاعر ایک خیمہ دوز خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ او راسی مناسبت سے اس نے اپنالقب بھی خیام اختیار کیا ۔ خیام یعنی ‘‘ خیمہ والا’’ او رکبھی اپنے حسب و نسب کےتعلق سے عار محسوس نہیں کیا ۔ اور یہ صحیح بھی ہے کیونکہ مساو ات پسند اسلام کی تاریخ میں ایسی بے شمار ہستیاں ہیں جو ادنی ٰ خاندانی پیشوں کی نسبت کے باوجود مشاہیرفن اور اکابر علم کی فہرست میں داخل و شامل ہیں ۔ اور ان تمام افراد کا نام بہت عزت و احترام سے لیاجاتا ہے ۔ جیسے اگر امام غزالی کو دیکھیں تو وہ سوت کا تنے والے کی طرف منسوب ہیں ۔ فقہ حنفی کے مشہور امام شمس الائمہ حلوائی تھے وحدۃ الوجود کا مشہور مبلغ و شہید حسین بن منصور حلاج یعنی (دھنیا) تھا ۔ ایران کےمشہور شاعر خاقانی بخارا یعنی بڑھئی تھے۔ بزرگ صوفی عطا ر دوا یا عطر فروش (گندھی) تھے ۔ نساج مشہور صوفی کپڑا بننے والے تھے ۔
بہر حال ہمارا شاعر عمر خیام نیشا پور میں پیدا اور یہیں درس و تعلیم حاصل کیا ۔ خیام کا وطن نیشا پور ہمیشہ سےعلم وفن کا مرکز رہا ۔ اور غالباً اسلام کی دنیا میں درسگاہ کی پہلی پبلک عمارت اسی سرزمین پر بنائی گئی ۔ تمام گذشتہ بادشاہوں نے مثلاً سامانی، دیلمی، غزنوی اور سلجوقیوں نے اس کی علمی مرکزیت کےامتیاز کو برقرار رکھا ۔ خیام کے زمانے میں نیشا پور میں متعدد درس گاہیں او رعلماء کی مجلسیں قائم تھیں ۔ انہیں آغوش میں خیام پل کر جوان ہوا۔
خیام کی شہرت کا باعث اس کی چند 70،72 رباعیاں ہی ہیں اور دنیا اس کو ایک شاعر کی حیثیت سے ہی جانتی ہے مگر یہ بھی کوئی چھوٹی بات نہیں خیام کی رباعیوں کو زیادہ تر شراب سے ہی منسوب کیا جاتا ہے اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ کیونکہ ہمارے اس شاعر نے شراب سےمتعلق بہت سے مضامین اپنی رباعیوں میں باندھے ہیں ۔ جو لذت سےخالی نہیں ۔ مگر اس مضمون کا مقصد ہے کہ اس کی رباعیوں کےمختلف و گوناگوں رنگوں کو بھی پیش کیا جائے ۔ جس میں عمر خیام نے اپنی استادی کےجو ہر دکھائے ہیں ۔ عمر خیام جیسا کہ راقم نے پہلے عرض کیا صرف شراب و مینا و صراحی و ساغر کا شاعر نہیں ہے بلکہ اس نے دیگر مضامین ، خیالات اور رنگوں کو بھی اپنی رباعیوں میں سمویا ہے۔ مثلاً خوشی و شادی ، دوزخ و قیامت ، خوش رہنے کی تلقین ، دنیا کی بے ثباتی ، زندگی کا فلسفہ خوشی وغم کا امتزاج خداکی احمد وثنا اور خدا ہی سے شکوہ وشکر ، دوسرے کے رنج والم کا ذکر ، سائنس ، زاہدوں اور عالموں کی ریاکاری و بدکاری وغیرہ ۔
ذکر شراب و ساغر و ساقی درد رباعیات ، عمر خیام ، اگر اس رنگ کو سب سے پہلے بیان کیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ کیونکہ یہ وہی رنگ ہے جس نے ہمارے شاعر کو سب سے زیادہ شہرت دلائی ۔ چند رباعیاں اس رنگ و عنوان کے تحت حاضر خدمت ہیں ۔ رباعی :
می خوردن و شاد بودن آئین منست
فارغ بودن زکفر ودین دین مسنت
گفتم بعروس دھر کایین تو چیست
گفتار دل خرم تو کابین منست
ترجمہ : اس رباعی میں ہمارا شاعر عمر خیام شراب و خوشی کی بابت کہتا ہے شراب پینا اور خوش رہنا میرا قاعدہ قانون میرا آئین ہے۔ دین و مذہب و کفر سے میرا کوئی سروکار نہیں میں اس دنیا کی دلہن سے پوچھا تیرا مہر کیا ہے تو دنیا نے کہا تیرا خوش و خرم دل ہی میرا مہر ہے۔
اس خوبصورت خیال کو چار سطروں میں سمونا ایک رباعی گو شاعر کاہی کارنامہ ہوسکتا ہے ۔ جس نے بخوبی نبھایا ہے ۔ ایک اور رنگ شراب کی آمیزش کے ساتھ خیام نے کچھ یوں پیش کیا ہے:
بر خیز بیابیا ز بہر دل ما
حل کن بہ جمال خویشتن مشکل ما
اس رباعی میں صرف شراب کا رنگ ہی نہیں بلکہ ایک دوسرا رنگ بھی شامل ہے اورو ہ رنگ ہے دنیا کی بے ثباتی کا اس کے فانی ہونے کا موت زندگی کا خیام کہتا ہے ۔
ترجمہ: اے ساقی اٹھ یہاں آہمارے دل کے واسطے او راپنے حسن و جمال سے ہماری مشکلیں اور کلفتیں دور کر ایک پیالہ شراب کالاتا کہ ہم اس کو پئیں اس سے پہلے کے ہمارے پیالے مٹی سے بھر جائیں ایک پیالہ شراب اور دوسرا بمعنی سرکی کھوپڑی ۔ یعنی موت قریب آجائے تو یہی اچھا ہے کہ کچھ لمحے شراب و شباب کے ساتھ گزارے جائیں ۔ ایک اور رباعی اسی رنگ و مزاج کی :
آمد سحری ندا ز میخان ما
کای رند خراباتی و دیوان ما
برخیز کہ پرُ کنیم پیمان زمی
زان پیش کہ پرُ کنند پیمان ما
ترجمہ: خیام کہتا ہے ایک صبح ہمارے میکدے دے یہ آواز آئی کہ ہمارے دیوانہ ،شرابی اٹھ تاکہ ہم اپنے پیالے شراب سے بھر لیں ۔ اس سے پہلے کہ ہمارے پیمانے بھرجائیں یعنی موت آکر گلے لگالے۔ موت و زندگی کے اس فلسفے کو خیام نے یوں پیش کیا ہے ۔ شراب کی غبت و محبت میں ایسی کئی رباعیاں خیام نے قلمبند کی ہیں ۔ مثلاً ذیل کی رباعی بھی لطف سے خالی نہیں ۔
مئی قوت جسم و قوت جانست مرا
می کاشف اسرار نہانست مرا
دیگر طلب دنیا و عقبیٰ نہ کنم
ایک جرعہ پرُ از دو جہانست مرا
ترجمہ: شاعر کہتا ہے کہ میری جسم و جان کی طاقت و قوت شراب ہے اور یہی شراب پوشیدہ رازوں کو آشکار کرنے والی ہے۔ اب مجھے دنیا و آخرت کا لالچ نہیں کیونکہ شراب کے ایک گھونٹ میں میرے دونوں جہاں ہیں ۔
خیام کو یہ دنیاوی شراب اس قدر محبوب ہے کہ وہ دنیا و آخرت کے چکر میں نہ پڑ کر اس کے خمار میں مدہوش ہے۔ اور ایسی مد ہوشی کے عالم میں ایک رباعی اور کہہ بیٹھتا ہے جو کہ شراب کی مزید محبویت کو ظاہر کرتی ہے۔
چون فوت شوم ببادہ شویید مرا
تلقین ز شراب و جام گویید مرا
خواہید بروز حشر یا بید مرا
از خاک در میکدہ جو یید مرا
ترجمہ : میں جب مروں تو مجھے شراب سے غسل دینا اور میری فاتحہ خوانی شراب و جام سے کرنا اور اگر قیامت کے دن مجھے پانا چاہو تو میکدہ کے در کی خاک میں مجھے تلاش کرنا۔
اس خیال کو غالب نے کچھ یوں کہا ہے:
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے
شراب سے متعلق ایسے او ربہت سے رنگ و مضامین خیام نے اپنی رباعیوں میں تحریر کیے ہیں مگر اس موضوع سے قطع نظر دوسرے مضامین بھی بے حد اہم ہیں ۔
خیام کی رباعیوں کا مطالعہ کرنے کے دوران اس جہان فانی سےمتعلق مضامین میں بہرام گور، جمشید ، محمود ، کیفباد وغیرہ کے نام متعلق رباعیات ملتی ہیں۔ جن میں محل و قصر و ویرانوں کا ذکر ملتا ہے، یعنی یہ دنیا ایسی جگہ ہے جہاں کسی کا مستقیل ٹھکانہ نہیں سب کو ہر صورت میں یہاں سےجانا ہی ہے پھر چاہے وہ بادشاہ یا درویش۔
آن قصر کہ بہرام در و جام گرفت
آہو بچہ کرد و شیر آرام گرفت
بہرام کہ گوری گرفتی ہمہ عمر
بنگر کہ چگونہ گور بہرام گرفت
ترجمہ:وہ محل جہان بہرام گورنے جام پکڑےوہاں اب ہرن و شیر آرام فرماتے ہیں ۔ او ربہرام گور جو کہ جنگلی گورخر (زیبرا ، یا جنگلی گدھا) کے شکار کےلیے مشہور تھا ( اب خود گور(قبر) کی آغوش میں ہے ۔ یعنی اس رباعی میں خیام نے تجنیس تام کا خوب استعمال کیا ہے ۔ ایک لفظ گور بمعنی زیبرا دوسرا لفظ گور بمعنی قبر۔
دیگر رباعی:
این کہنہ رباط را کہ عالم نام است
آرام گہ ابلق صبح و شام است
بزمی است کہ و ا ماندہ صد جمشید است
قصریست کہ تکیہ گاہِ صد بہرام است
ترجمہ: یہ پُرانی سرائے جس کا نام دنیا ہے یہاں چتکبرے (سفید اور کالے) صبح و شام رہے ہیں ۔ اس بزم ( جہان) نے سینکڑوں جمشید بھی دیکھے او ریہ دنیا وہ محل ہے کہ جہاں صد ہا بہرام گور بھی گزرے ہیں ۔
17 اپریل، 2016 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: