Kashmir is going through the same situation it went through two decades ago. The rural as well as urban areas of Kashmir are under curfew. The fiery and inflammatory speeches of Hurriyat leaders have added fuel to the fire. The stone pelting by the hired stone-pelters in the last few weeks may have pleased these elements but it pushed Kashmir back by a few years. These unemployed youth do not understand the repercussions it will have but they cannot escape the after effects. At this volatile juncture, the state and the Central government should try and win the confidence of the people and recall the army from Kashmir as soon as possible otherwise the situation will deteriorate further. Hurriyat leaders should also think why they are fomenting trouble when the situation is coming back to normal and talks are on. – Dr Khwaja Ekram
Source: Hamara Samaj, New Delhi
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/fuel-be-added-fire-kashmir/d/3128
ڈاکٹر خواجہ اکرام
کشمیر میں جس تیزی سے حالات
بگڑے ہیں ان کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا۔ ابھی صرف ایک ماہ پہلے ہی یہ اندازہ ہورہا
تھا کہ حالات نئے موڑلیں گے اور کشمیرکی سرزمین کو تاریخ ایک بار پھر امن وسکون کی
وادی لکھ کر جنوبی ایشیا کو نیا مژدہ دے گی۔ ابھی بہت دن نہیں ہوئے وزیر اعظم منموہن
سنگھ کشمیر کے دورے پر گئے تھے اور کشمیرکی ترقی اور خوشحالی کے لئے کئی نئے منصوبوں
کااعلان بھی کیا تھا ۔ سارک کانفرنس کے دوران دونوں ملکوں کے وزرا کی ملاقات نے بھی
امید جگائی تھی کہ کشمیر کے حوالے سے نئی پیش رفت ہوگی۔ امید یہ کی جارہی تھی کہ جلد
ہی کشمیر مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان بھی بیچ کا راستہ نکلے گا۔ دوسری جانب وزیر
اعلیٰ عمر عبداللہ سے بڑی امید یں تھیں۔ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے انہوں نے جب ریاستی
حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تھا تو کشمیر سمیت پورے ملک کے عوام کا خیال تھا
کہ نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ ضرور کوئی کرشمہ کر دیکھائیں گے ۔ امید
یہ تھی کہ مرکزی حکومت میں جس اندازے سے نئی نسل نے اپنی موجودگی درج کرائی تھی اسی
طرح عمر عبداللہ بھی کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ جس طرح راہل گاندھی
نے ملک میں اپنی سیاسی سرگرمیوں سے ملکی سیاست کونیا رخ دیا ہے اسی طرح عمر عبداللہ
اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر اپنے لئے اور اپنی پارٹی کے لئے کچھ ایسا کریں گے کہ ریاست
میں نیا اعتماد بحال ہوگا ۔ لیکن یہ عمر عبداللہ کی ناعاقبت اندیشی یا ناتجربہ کاری
کہیں کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور عوام جلد ہی حکومت سے بیزا رہونے لگی۔ ایک
سال قبل جب میں ایک ہفتے کے لئے کشمیر میں تھا تو وہاں مقامی لوگوں سے بات چیت کا موقع
ملا۔اسی وقت لوگوں کے مایوس کن تاثرات سن کر مجھے بذات خود ایک دھچکا سالگا تھا کہ
عمر عبداللہ یہ کیا کررہے ہیں؟ اور اب کشمیر کی موجودہ صورتحال دیکھ کر اندازہ ہورہا
ہے کہ موجودہ صورت حال کے لئے کہیں نہ کہیں ریاستی حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ مرکزکی جانب
سے بھرپور معاونت کے باوجود اگر ریاستی حکومت کچھ کرنے میں ناکام رہی تو اسے برسراقتدار
پارٹی کےلئے بدقسمتی ہی کہیں گے۔عمر عبداللہ کے والد جو ہر مسئلے پر بڑی بڑی باتیں
کرنے کے عادی ہیں۔ ابھی مرکز میں وزیر ہیں لیکن حیرت یہ ہے کہ کشمیر میں اتنا کچھ ہوا
اور ہورہا ہے مگر ان کی جانب سے کوئی بیان بھی نہیں آیا ، اگر ابھی وہ مرکز میں وزیر
نہ ہوتے اور ان کے بیٹے ریاست میں وزیر اعلیٰ نہ ہوتے تو ان کی شعلہ بیانی دیکھنے کو
ملتی۔ خیر اب یہ تو طے ہوگیا ہے کہ عوام اب کبھی ان کی پارٹی کو منہ نہیں لگائے گی۔
لیکن ابھی ریاست کو جس اندازے فعال ہونا چاہئے تھا وہ ریاست کی جانب سے دیکھنے کو نہیں
ملا۔ تقسیم ہند کے بعد چند برسوں کو چھوڑ کرریاست پر نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ حکمرانی
کی ہے اور بیشتر مرتبہ اس کے دور میں حالات خراب ہوئے ہیں، حالانکہ ایک زمانے میں یہ
سب سے مقبول ترین سیاسی جماعت تھی اور اسی قیادت میں کشمیر یوں کو مہاراجوں سے آزادی
ملی تھی۔ ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی حکومت سے بھارت نے کافی امیدیں وابستہ کی
تھیں اور خیال یہ تھا کہ وہ کشمیری نوجوانوں کو ‘قومی دھارے’ میں لاکر علیحدگی پسند
جذبات کو کسی حدتک کم کرنے میں کامیاب ہونگے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے اس سمت
کوئی بہتر کار کردگی نہیں کی اور نہ ہی نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کیے۔
یہی نوجوان جو احتجاج میں پیش پیش ہیں اگر روزگار ہوتے تو انہیں اس کی فرصت بھی نہ
ملتی ۔مجموعی طور پر موجودہ صورتحال کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ ریاستی حکومت بھی برابر
کے ذمہ دار ہے۔
ریاستی حکومت کے علاوہ کشمیر
کی پولس اور انتظامیہ نے بھی حالات کو سنبھالنے کی بجائے بغیر کسی تاخیر کے کشمیر کو
فوج کے حوالے کردیا یہ ملک کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ گذشتہ دودہائی پہلے جو کشمیر کی
حالت تھی اب پھر اسی حالت سے کشمیر دوچار ہے۔کشمیر کے شہروں کے علاوہ دیہی علاقے بھی
کرفیو کی زد میں ہیں۔ کشمیر میں حریت پسند لیڈروں کی زہر افشانی اور اشتعال انگیز ی
نے بھی اس جلتے میں گھی کا کام کیا ہے۔گذشتہ کئی ہفتوں سے کرائے کے نوجوانوں سے جو
پتھربازی کرائی گئی وہ بھلے ہی تھوڑی دیر کے لئے ایسے عناصر کی خوشی کا سبب تھی لیکن
اس سے کشمیر پھر کئی سال پیچھے چلا گیا، یہ بات ان بے روزگار نوجوانوں کو تو سمجھ میں
نہیں آئے گی مگر ان اثرات سے یہ بھی نہیں بچ پائیں گے۔ ایسے نازک موڑ پر مرکزی اور
ریاستی دونوں حکومتوں کو چاہئے کہ جتنا جلد ہوسکے عوام کے اعتماد کو بحال کریں اور
فوج کو جلد از جلد کشمیر سے واپس بلائیں ۔ ورنہ حالات اور بھی بگڑ تے جائیں گے۔ اس
کے ساتھ ساتھ کشمیر میں سرگرم حریت پسند لیڈر وں کو بھی چاہئے کہ جب حالات نارمل ہورہے
تھے اور گفت وشنید کا دور تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا تو پھر کیوں وہ اشتعال کو ہوا دے
رہے ہیں۔ابھی ضرورت اس بات کی ہے کہ حریت کے لوگ بھی عوام کو پرُ امن رہنے کی تلقین
کریں۔ لیکن اس برعکس ایسے بیانات جاری کیے جارہے ہیں جن سے اشتعال میں اضافہ ہی ہوگا۔
مثلاً کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چئیر مین میر واعظ عمر فاروق کا یہ بیان
کہ ‘‘بھارت اور کٹھ پتلی انتظامیہ نے کشمیریوں کے بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں سے خوف
زدہ ہوکر پورے مقبوضہ علاقے کو فوج کے حوالے کردیا ہے جو کہ ان کی بوکھلاہٹ کا واضح
ثبوت ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق میر واعظ عمر فاروق نے جنہیں گزشتہ کئی دنوں سے
غیر قانونی طور پر گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے ایک بیان میں کہا کہ بھارتی فوجیوں
نے پوری آبادی کو محصور اور قیدی بنا کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے بس عوام کو فوج کے رحم وکرم پر چھوڑ کر
ایک بار پھر 1990کی سیاہ تاریخ دہرائی جارہی ہے جب بھارت نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی
کو کچلنے کیلئے نہتے کشمیریوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ میر واعظ عمر فاروق
نے افسوس ظاہر کیا کہ گزشتہ ساٹھ برس کے تلخ تجربات کے بعد بھارت کو نوشتہ دیوار پڑھتے
ہوئے کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دے دینا چاہئے تھا ،تاہم انہوں نے کہا کہ بھارت
اب بھی اپنی ہٹ دھرمی نہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سیاسی
مسئلہ ہے جسے سیاسی بنیاد وں پر ہی حل کیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ظلم وتشدد
سے نہ تو کشمیر ی عوام کو خود زدہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کے عزم کو پامال کیا
جاسکتا ہے۔ میر واعظ نے مسلسل کرفیو، بار ایسوایشن کے صد رمیاں عبدالقیوم سمیت حریت
رہنماؤں ، کارکنوں او ر بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاریوں کی شدید مذمت کی ۔ انہوں نے
کشمیر یوں پر زور دیا کہ وہ حریت کانفرنس کے پروگرام کے مطابق اپنا پر امن احتجاج جاری
رکھیں۔’’
دوسری جانب پولس اور آرمی
کے بے رحمانہ کارروائیاں بھی اس شعلے کو مزید ہوا دے رہی ہیں۔ ابھی تک کشمیر میں تقریباً
گیارہ بے قصور مارے جاچکے ہیں ۔ ان مرنے والوں میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ اس
سے لوگوں کا غصہ بڑھ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ کشمیر میں کچھ ماہ قبل فرضی جھڑپوں کی خبریں
آئیں اور قصور وار افسروں کو سزا دینے کی بھی خبر یں آئیں ۔لیکن حکومت کو چاہئے تھا
کہ ایسے افسروں کے خلاف ایسی کارروائی کی جاتی کہ لوگ حکومت کے رویے سے خوش ہوتے مگر
ایسا نہ ہونا بھی حریت پسندوں کو دراصل موقع دینا ہی تھا۔ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے دولوگوں
کے درمیان گفتگو کی جو تفصیلات میڈیا کے ذریعے
سامنے آئی ہیں ان سے بھی یہی اندازہ ہورہا ہے کہ موقع کا فائدہ اٹھا کر کچھ ایسی طاقتیں
ضرور ہیں جو حالات کو مزید بگاڑ نا چاہ رہی ہیں۔ ایسے نازک موڑ پر جہاں ملک کو ایک
جا نب نکسلیوں کے خطرات کا سامنا ہے وہیں دوسری جانب پر امن ہوتے کشمیر کے حالات کو
اگر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو ملک کی سلامتی کے لئے یہ بہتر نہیں ہوگا۔
URL https://newageislam.com/urdu-section/fuel-be-added-fire-kashmir/d/3128