ڈاکٹر خاور ہاشمی
28 نومبر، 2014
کنزیومرزم کےاس دور میں بھی اردو کتابوں کی ظاہری تزئین کاری پر حسب دلخواہ توجہ نہیں دی جاتی لیکن ‘‘ جاوید حبیب : ہجوم سے تنہائی تک’’ ایک ایسی کتاب ہے جس کے ہر پہلو پر اس لائق مرتب نے پوری پوری توجہ دی ہے۔ ‘‘ جاوید حبیب: ہجوم سے تنہائی تک’’ پر پہلی نظر ڈالتے ہی تین خصوصیات سامنے آتی ہیں ۔ Decency. Sobriety, Colour management کا شعور ، کتاب کا سائز ، مرتب کا احساسِ جمالیات اور تناسب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ معصوم مراد آبادی کی اس سے پہلے کئی قابل قدر کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ان سب میں ان خصوصیات کا خیال رکھا گیا ہے۔
معصوم مراد آبادی نے جاوید حبیب مرحوم کے ساتھ اپنی تیس سالہ رفاقت کا جو حق ادا کیا ہے، وہ قابلِ قدر اور لائق ستائش ہے ۔ خود لکھنا بہت آسان ہے بہ نسبت دوسروں سے لکھوانے کے ۔ معصوم صاحب نے سب سے پہلے ان لوگوں کی نشان دہی کی ہوگی جنہوں نے جاوید حبیب مرحوم کے ساتھ وقت گزارا ہوگا۔ جاوید حبیب مرحوم کے تمام دوستوں اور مزاج شناسوں سے لکھوانا کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔ اس کتاب کی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے جاوید حبیب صاحب کے بارے میں سنی سنائی معلومات کی روشنی میں قلم نہیں اٹھایا بلکہ وہ لوگ ہیں جو جاوید حبیب صاحب کی تمام تر علمی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کے عینی شاہد ہیں۔ اس لئے یہ کتاب جاوید حبیب کے بارے میں ایک مکمل دستاویز حبیب صاحب کی شخصیت اور فکر کے ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔
راقم الحروف کو جاوید حبیب صاحب مرحوم سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل نہیں رہا ۔ 1994 کا واقعہ ہے۔ موقعہ تھا آل انڈیا اردو ایڈیٹرس گلڈ کےافتتاحی جلسہ کا ، اس کی انتظامیہ میں منجملہ او رلوگوں کے راقم الحروف او رمعصوم مراد آبادی بھی شامل تھے ۔ کانسٹی ٹیوشن کلب کا اسپیکر ہال سامعین اور حاضرین سےکھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ اسٹیج پر محترم غلام نبی آزاد اور مادھو راؤ سندھیا جلوا افروز تھے ۔ جلسے کی کاروائی شروع ہوچکی تھی ۔ موضوع گفتگو اردو اخباروں کے مسائل اور وسائل تھے ۔ اچانک ہال میں پچھلے دروازے سے جاوید حبیب مرحوم داخل ہوئے اور پچھلی صفوں میں بیٹھ گئے ۔ منتظمین ان کی مناسب پذیرائی اور استقبا ل نہیں کرسکے ۔ تھوڑی دیر کے بعد جاوید حبیب صاحب کھڑے ہوگئے اور جلسے سے واک آؤٹ کر گئے۔ منتظمین نے اگرچہ بعد میں ان سے درخواست کی کہ وہ ہال کے اندر تشریف لے چلیں لیکن وہ اپنی کسی دوسری مصروفیت کا عذر کرتے ہوئےچلے گئے ۔ بعد میں ، میں نے اس واقعہ پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ یہ جاوید حبیب صاحب کی خود شناسی کا جذبہ تھا ۔ چنانچہ ذہن میں قرآن کلیم کا وہ فرمان تازہ ہوگیا جس میں کہا گیا ہے کہ ‘‘ جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا’’۔ آج سوچتا ہوں کہ خود شناسی اور خدا شناسی جاوید حبیب صاحب کے فکر و عمل میں روح کی طرح جاری و ساری تھی ۔ اس کے علاوہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر بھی پہنچا ہوں کہ زندگی میں انہوں نے سخت مشکلات اور نا مساعد حالات کا مقابلہ کیا لیکن ان کے قدموں میں جنبش پیدا نہیں ہوئی ۔ یہ استقامت ان کے ایمان اور یقین کا عطیہ تھا۔ جاوید حبیب صاحب نے دہلی سے ‘‘ہجوم’’ نکالا۔ اور میں پوری پابندی کے ساتھ اس اخبار کامطالعہ کرتا رہا۔ محلّہ بلی ماران میں گلی قاسم جان کے نکّڑ پر ایک اخبار فروش بیٹھا تھا اور میں روزانہ صبح ادھر سے گزرتاتھا ۔ ا سلئے ہجوم کا ہر تازہ شمارہ مجھے آسانی سے مل جاتا تھا ۔ اس مطالعہ کے توسل سے جاوید حبیب صاحب کے ذہن و ضمیر میں دور تک رسائی ہوئی۔ ان کی صحافتی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا۔ جاوید حبیب صاحب کو قیادت کا شعور اور ذوق قدرت نے عطا کیا تھا ۔ قیادت ان کی سرشت ، ان کی شخصیت اور انداز فکر کا اظہار او رپہچان بن گئی تھی ۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں آکر ان کی اس صلاحیت پر جلا ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈینٹس یونین ایک ایسا کلب تھا جہاں طلباء کو خطابت ، قیادت، تقریر و تحریر اور عوامی زندگی کی تہذیب کا فن سکھایا جاتا تھا ۔ اسی یونین کلب سے اردو اور انگریزی کے ایسے ایسے گراں قدر اسپیکر پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف اپنی مادرِ درسگاہ بلکہ اپنے وطن کے اعتبار و افتخار کا علم بلند کیا اور ہندوستان کی عظمت کو منوایا۔ جاوید حبیب صاحب مرحوم نے اسی طلبا ء یونین کے پلیٹ فارم پر تربیت حاصل کی۔ وہ اسٹوڈینٹس یونین کے صدر بھی رہے۔
جاوید حبیب صاحب کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے مشکل ترین زمانہ ملا۔ یہ دور ایمان اور یقین کے بحران کا دور تھا۔ اخبار اور روایات کے انتشار اور بکھراؤ کا دور تھا ۔ اس کے علاوہ جاوید حبیب صاحب کو اس ملت کی قیادت کا فرض اور منصب ملا جو بے سمتی، بے یقینی ، کسمپرسی اور ناکردہ گناہوں کے عذاب میں مبتلا تھی ۔ جاوید حبیب صاحب نے پوری استقامت کے ساتھ اس حرماں نصیب امت کی دستگیری کی۔ ان کےحوصلے بلند کئے اور انہیں خود شناسی کا اپنے عمل سے درس دیا۔ جاوید حبیب مرحوم عصر حاضر کے ایک ایسے مزاج شناس سیاست داں تھے جنہوں نے کسی مرحلہ پر بھی شکست نہیں کھائی۔ آزادی کے فوراً بعد مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھنؤ کانفرنس میں ہندوستانی مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنانے سے پرہیز کریں۔جاوید حبیب مرحوم کی سیاسی دور اندیشی کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی جماعت بنانے سے ہمیشہ پرہیز کیا بلکہ قانون ساز اداروں میں پریشر گروپ بنانے پر پوری توجہ دی۔ جاویدحبیب کی صلاحیتوں کو حسب و الخواہ وسیع تر میدان او رکھلی فضا نہیں ملی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ان کے سامنے محمد مسلم صاحب ایڈیٹر ‘‘دعوت’’ ، مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی اور انہی لوگوں کے ہم مشرب حضرات ایک نمونہ تھے ۔ مسلم صاحب جماعت اسلامی کے دل کش ترجمان اور ایک صاحب قلم صحافی تھے لیکن یہ وہ دور تھا جب آر ایس ایس کے ساتھ جماعت اسلامی کو بھی مسلم فرقہ پرست جماعت کی حیثیت سے دیکھا جارہا تھا ۔ جماعت اسلامی کو اپنا امیج بدلنے کے لئے او رملک کے عوام میں ایک سیکولر جمہوری جماعت کی حیثیت سے ابھرنے کے لئے دارالعلوم دیوبند کے ایک چہرے کی ضرورت تھی ۔ ادھر مولانا حسین احمد مدنی کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا اسعد مدنی نے قبضہ کیا۔ مفتی عتیق الرحمٰن صاحب اپنی بزرگی اور صلاحیت کے اعتبار سے جمعیۃ علماء ہند کی صدارت کے امیدوار او رمستحق تھے وہ اس سے محروم ہوگئے ۔
چنانچہ جماعت اسلامی کے نمائندے مسلم صاحب اور دوسرے اکابرین نے مفتی عقیق الرحمٰن صاحب کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ مفتی صاحب کو بھی ایک گروپ کی ضرورت تھی ۔ اس لئے جماعت اسلامی کے اثر سے غالباً مفتی صاحب کے انداز فکر میں تبدیلی پیدا ہوئی ۔ چونکہ جاوید حبیب صاحب مرحوم ان بزرگوں کو اپنے لئے ایک نمونہ سمجھتے تھے اس لئے جاوید حبیب صاحب کی سر گرمیاں بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکیں اور جاوید حبیب صاحب کے حوصلے ٹوٹتے چلے گئے ۔ جاوید حبیب صاحب کے بارے میں فرحت احساس نے لکھا ہے:
‘‘ جاوید حبیب مجھے اکثر کسی یونانی المیہ کے کردار معلوم ہوتے ہیں ۔ ایسے کردار جو اپنے انتخاب کے نتائج کی آگ میں جل کر راکھ ہوجاتےہیں لیکن ان کرداروں میں بے پناہ بلند عزمی، بے پناہ صداقت ، بےپناہ جرأت مندی او ربے پناہ تخلیقیت ہوتی ہے۔ جاوید حبیب نے ایک بڑا خواب دیکھا مگر افسوس کہ اس خواب کو پروان چڑھانے والی حقیقت کی آنکھ فراہم نہ کر سکے’’۔
جاوید حبیب صاحب کو تحریر اور تقریر دونوں پر قدرت حاصل تھی ۔ ان کی بعض تحریروں میں مولانا آزاد کا رنگ اور آہنگ صاف جھلکتا ہے ۔ انہوں نے مسلم یوتھ کنونشن کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا :
‘‘ دوستوں او ربزرگوں پرُ امید چہروں اور روشن دماغوں سے بھرے ہوئے اس اجلاس کے لئے میرے پاس دو نذرانے ہیں ۔ ایک آنسو اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ اور ان دونوں کے درمیان بے بس خاموشی ۔ میرا آنسو عبارت ہے میری اپنی ذاتی بے بسی ہے، میرا آنسو عبارت ہے ساری دنیا میں ہونے والے مظالم اور استحصال سے ۔ میرا آنسو عبارت ہے، تقسیم وطن کی اس خارش زدہ سیاست سے ۔ مراد آباد میں معصوم بچوں کی مرتی ہوئی کلکاریوں سے ، مسلمانوں کی گندی بستیوں میں روپوش ہوتے ہوئے معصوم چہروں سےاور میرا آنسو عبارت ہے ہندوستان کی اس بہت بڑی اقلیت کے دستوری حقوق کے چھین لئے جانے سے اور میری مسکراہٹ عبارت ہے ایک مستقبل سے، ایک امکان سے اور اس انقلابی پیغام سے جو آج سے 1400 سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا تھا ۔ میری مسکراہٹ عبارت ہے ہندوستان کی اس شخصیت سے جو انقلابوں کی پرورش کرتی ہے ۔ اور اس بغاوت سے جو ساری زنجیروں کو توڑدیتی ہے۔ میری مسکراہٹ عبارت ہے اس عزم ، جوش اور ولولہ سےجو انسانوں کو بے بسی سے خود اعتمادی اور بد حالی سے خوشحالی کی طرف لے جاتی ہے’’۔
جاوید حبیب صاحب کی تحریر یں اس قسم کے حوالاجات سے پرُ ہیں ۔ انہوں نے اپنی آواز سے خوابیدہ ملت کو بیدر کرنے کی کوشش کی اور اپنی پوری زندگی اسی مقدس جہاد میں جھونک دی ۔ انہوں نے پوری زندگی اپنے مفادات کی نفی میں گزار دی۔ ایسی اصحاب فکر ایثار پیشہ شخصیتیں کہیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
28 نومبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/jawed-habeeb-person-all-seasons/d/100221