ڈاکٹر خالد الصغیر
29 اپریل 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
‘‘ نہ تو تنقیدی خود احتسابی ہے اور نہ ہی غلطی کا اقرار ہے ’’ مجھے سعودی عرب کی سماجی ساخت کی وضاحت کے لئے ایک بیان اختیار کرنا ہو تو میں کچھ بہتر نہیں پیش کر سکتا ۔ بنیادی طور پر کوئی بھی آسانی کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ سعودی معاشرے میں گونا گوں مسائل اور پہلوؤں کے تعلق سے خود احتسابی کا مکمل فقدان ہے اس کی یہ حقیقت ہو سکتی ہے کہ سعودی عرب کو کثیر گوناگوں آرا ء کو شامل خود احتسابی کی ثقافت کا عادی نہیں بنایا جا سکتا ۔ عرب کی کثیف خصوصیات میں سے ایک ہونے کی وجہ سے، یہی خاصیت نہ صرف سعودی عرب کے شہریوں میں بلکہ پوری عرب دنیا میں بھی عام ہے ۔
وہ کون سے ایسے غالب رجحانات ہیں جو سعودی معاشرے کے اندر برداشت کے فقدان اور افراد کے ذریعہ براہ راست خود احتسابی سے تعرض کی وجہ ہیں؟ میں اس کے سرے ماضی میں کچھ ایسے منفی نتائج کے حامل سماجی معمولات اور ثقافتی اقدار سے ملاؤں گاجس نے سعودی تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کے غیر مصالحت پسند روایت کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
اتھارٹی کی ماتحتی مقابلہ جاتی گفتگو کی فوقیت نے مختلف خیالات کو قبول کرنے کی مخالفت کی ، اور جمود کی حمایت وہ عوامل ہیں جنہوں نے ایک ایسی ثقافت کی نشو نما میں اہم کردار ادا کیا ہے جہاں احتساب نفس کی کوئی گنجایش نہیں ہے ۔
مختلف اقدار کے مزید وجوہات جو اس تشویش پر مقدم ہیں کہ اخلاقی طور پر صحیح کیا ہے اور سماجی ڈھانچے کو داخلی بنانے پر انحصار اور اجتماعیت پسند رویہ بھی جو سعودی معاشرے میں بڑے پیمانے پر ہے ۔
موجودہ سعودی تعلیمی نظام بھی ایک ایسی سماجی ساخت کے قیام میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہےجو تنقیدی سوچ اور سادگی کو فروغ دینے میں ایک ناکامی کی وجہ سے خود احتسابی کو مسترد کرتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ، ماہرین تعلیم، تجزیہ اور آزاد سوچ کے لئے کافی توجہ فراہم کئے بغیر ہی، طالب علموں سے محض دی گئی معلومات کو حفظ کرنے کی توقع رکھتے ہیں ۔ نتیجے کے طور پر، اسکول سے فارغ التحصیل میں تجزیہ اور ناقدانہ سوچ کی صلاحیت کی کمی ہوتی ہے۔
خود احتسابی کا سامنا کرنے کی مسلسل مصروفیت اہم خصوصیات کو پروان چڑھانے اور خود کی استعداد پر غور فکر میں ناکامی بہت سے سعودی شہریوں کے لئے اندرونی کمزوریوں کو نظر انداز کرنے کا باعث ہے ، جوان کی اپنی غلطیوں اور مصیبتوں کے لئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے رجحان میں نشو نما پاتا ہے ، جب کہ ذاتی نا کامیوں کا سامنا کرنے سے انکار کرنا سماجی معمول کی روش میں پیدا ہوتا ہے ۔
اس کے علاوہ، خود اپنی ذات کےتنقیدی جائزے کی کمی بھی لوگوں کو مشکوک اور مشتبہ بنا سکتی ہے ، اور انہیں سازشی نظریات میں یقین کرنے کا عادی بنا سکتی ہے ۔ ایک سیاسی نقطہ نظر سے، سعودی عرب میں خود احتسابی کا فقدان متعلقہ فریقین یا افراد کو کوئی بھی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے رائے عامہ سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لئے ایک ذریعہ تیار کرنے یا طاقت استعمال کرنےپر ابھارتا ہے۔ یہ تمام پہلو نتیجے میں ان کو جمود اور زوال کی طرف لے جا سکتے ہیں ۔
اگر سعودی عرب دنیا کے منظر نامے پر ابھر نا چاہتا ہے اور اکیسویں صدی میں ایک اہم حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، تو ہمیں سختی کے ساتھ خود احتسابی میں مشغول ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پہلے ہماری ذات کا تنقیدی جائزہ لینے اور اس کے بعد غلط رویوں سے دست بردار ہونے کی ضرورت ہے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ہمارے معاشرے میں خامیاں ہیں اور ہمارے سماجی طرز عمل کا جائزہ لینے کے لئے خود احتسابی کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کرنا اور متروک خیالات اور تصورات کا ازسر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔ زندگی کے تمام پہلوؤں میں بہتری خود احتسابی کو ہماری طرز زندگی بنا نے پر مشروط ہے، تیزی سے بڑھتی ہوئی سماجی ضروریات سماجی نظام کو بہتر بنانے کے مواقع کے لئے ہماری کوششوں اور رویوں کے مسلسل جائزے کا مطالبہ کرتی ہیں ۔
مجھے امید ہے کہ، آزاد اور کھلے دل کے ساتھ بحث کے قیام کو منظوری دیتے ہوئے، سعودی عرب میں عیاں ، براہ راست ، اور تعمیری تنقید کو بڑے پیمانے معمول بنایا جائے گا ۔ قوم کی دانشورانہ اور سماجی ترقی میں سہولت بہم پہنچاتے ہوئے ، سعودی عرب میں خود احتسابی کو سماجی معمولات کا ایک اہم حصہ بنایا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر خالد الصغیر سعودی عرب کے ایک دانشور ہیں۔
ماخذ: http://www.saudigazette.com.sa/index.cfm?method=home.regcon&contentid=20130430163657
URL for English article:
https://newageislam.com/the-war-within-islam/absence-self-criticism-saudi-arabia/d/11391
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/absence-self-criticism-saudi-arabia/d/13013